جنسی بے راہ روی اور سماجی بحران

1411

جنسی بے راہ روی، مخلوط محافل، انٹرنیٹ کے ذریعے دوستی اور اس کے بعد گھروں سے نکل کر اپنے محبوب کی تلاش… یہ ہیں وہ عنوانات جن پر آج کی پوری میڈیا انڈسٹری کھڑی ہے اور اس کے پیچھے پورا سرمایہ دارانہ نظام، کہ جس کی سرمایہ داری جدید میڈیا میں ہر شکل میں موجود نظر آتی ہے۔ بات اب محض ٹی وی ڈراموں اور فلموں تک ہی محدود نہیں بلکہ اب تو ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت ایک ایسا سیلابِ بلاخیز ہے جو چہار جانب سے معاشروں پر یلغار کرچکا ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ محض دو جنس کی دوری کی بنیاد پر قائم معاشروں میں ہی جنسِ مخالف کی شدید کشش کی یہ صورت ہے تو پھر آپ کو اپنی اس سوچ پر کچھ تحقیق کرنی ہوگی۔ اگر محض مسلم معاشروں میں… کہ جہاں جنسِ مخالف سے ایک حد اور مخصوص رشتوں کے تناظر میں تعلق کی اجازت ہے… یہ صورتِ حال پیدا ہوتی ہے تو شاید یہ بات درست قرار دی جائے، لیکن صورتِ حال اس کے قطعی برعکس ہے۔ وہ معاشرے جہاں ہر قسم کے جنسی اختلاط کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ خود اس کی باقاعدہ تعلیم بھی دی جاتی ہے، وہاں صورتِ حال تباہ کن ہے۔ گزشتہ دو روز سے برطانیہ کے میڈیا میں ایک خبر کی بازگشت ہے، ایک 17 سالہ نوجوان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا اور معتبر ترین برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ایک نوجوان اینکر کا رابطہ سوشل میڈیا کی ایپ انسٹا گرام کے ذریعے ہوا، کہ جس پر ایک دوسرے کو پیغامات ارسال کیے گئے اور بعد ازاں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران فروری 2021ء میں ان دونوں کی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ بی بی سی کے اینکر نے اس 17 سالہ نوجوان کو اپنی نازیبا تصاویر بھیجنے کے لیے 35 ہزار برطانوی پائونڈ کی ادائیگی بھی کی ہے۔

یہ محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ مغرب میں ایسے کیسز کی بھرمار ہے کہ جہاں کم عمر بچے بچیوں سے جنسی زیادتی کے واقعات نے پورے معاشرے کو ایک خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ چند واقعات تو اتنے گھناؤنے ہیں کہ سگے رشتوں نے ہی ان حدود کو پامال کردیا۔ برطانیہ میں جاری کردہ نئے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت انگلینڈ اور ویلز میں جنسی طور پر 20 فیصد خواتین کا استحصال ریکارڈ کیا گیا۔ یعنی ہر پانچ میں سے ایک خاتون اس کا شکار ہوئی۔ مجموعی طور پر 85 ہزار خواتین جنسی زیادتی، تشدد یا استحصال کا شکار ہوئیں۔ اسی طرح 11 تا 17 سال کے نوعمر بچوں و بچیوں کی تعداد 2275 ہے۔ اعداد وشمار شمار کے مطابق برطانیہ میں ہر 20 میں سے ایک بچی/ بچہ جنسی استحصال کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے علاؤہ چشم کشا رپورٹ یہ ہے کہ جنسی زیادتی کے تقریباً 40 فیصد کیس رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔ کرائم سروے انگلینڈ اینڈ ویلز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2021-22ء کے دوران جنسی استحصال کے کیسز کا نیا ریکارڈ قائم ہوا جب ان کیسز کی تعداد 194683 تک پہنچ گئی۔ چیریٹی ریپ کرائسز کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2022ء تک محض ایک سال میں 70330 ریپ کے کیسز ریکارڈ ہوئے اور محض 2223 کیسز کو قانون کے دائرے میں لایا گیا۔

یہ اعداد و شمار خود بیان کررہے ہیں کہ مغرب کے ایک مہذب ملک برطانیہ کی صورتِ حال کس قدر خوفناک ہے جبکہ عملاً وہاں قانون کی عمل داری موجود ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ برطانیہ میں ہر قسم کے جنسی اختلاط کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ کوئی بچہ یا بچی اگر اسکول کے زمانے سے ہی کوئی بھی جنسی تعلق قائم کرنا چاہے تو خود ریاست اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ برطانیہ میں نوعمر مائوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کے بچوں کو اپنے باپ کا معلوم نہیں ہوتا کہ کون ہے۔ یہی نہیں بلکہ 18 سال کے بعد ہر فرد مکمل آزاد ہے۔ کوئی فرد، خاندان یا ادارہ اس کی آزادی پر کوئی قدغن عائد نہیں کرتا۔ یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ مکمل عملی آزادی ہے۔ اس سب کے باوجود بھی اگر مغرب میں عورت اور بچے محفوظ نہیں اور خود ریاست اس حوالے سے نہ صرف پریشان ہے بلکہ نئی قانون سازی کے ذریعے اس کو روکنے کی کوشش بھی جاری رکھے ہوئے ہے تو پاکستان جیسے معاشرے میں کہ جہاں نہ قانون ہے اور نہ ہی قانون کی عمل داری، وہاں میڈیا خود پورے سماج کو ایک جنسی ہیجان میں مبتلا کرکے کہاں لے جانا چاہ رہا ہے! یہ صورتِ حال صرف الیکٹرانک میڈیا تک محدود نہیں بلکہ اصل عمل انگیز تو سوشل و ڈیجیٹل میڈیا ہے کہ جہاں پر ہونے والی گفتگو مجھ جیسا فرد تو سننے کی تاب نہیں لاسکتا۔ گزشتہ دنوں میری ایک طالبہ نے اپنے ایم فل کے لیے سوشل میڈیا یوٹیوبرز اور ان کے اثرات کی وجوہات پر اپنے مقالے کا عنوان رکھا اور اس کے لیے پاکستان کے بڑے یوٹیوبرز کا انتخاب کیا۔ یہ انتخاب ان کے فالوورز کی بنیاد پر کیا گیا تھا، یعنی یہ پاکستان میں سب سے زیادہ فالوورز رکھنے والے یوٹیوبرز تھے۔ جب ان کے مواد کا تجزیہ کرنے کے لیے طالبہ نے ان کی ویڈیوز کو دیکھنا شروع کیا تو مجھے بھی لنک بھیجے تاکہ اس کا تجزیہ کیا جائے۔ مجھے یہ دیکھ کر شدید حیرت و افسوس ہوا کہ سب سے زیادہ فالوورز رکھنے والے یوٹیوبرز کے بیشتر مواد میں انتہائی فحش باتوں اور گالیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ان کے فالوورز کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ ویڈیوز گیمز کی بھی تھیں کہ جن میں محض فحش کمنٹری کرکے لاکھوں نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جارہا تھا۔

اس مقالے کے بعد میں اس سوچ میں ہوں کہ اس قوم کی نوجوان نسل کا کیا ہوگا کہ جہاں اب کلام اور احسن کلام ہی فحش باتیں اور گالیاں رہ گیا ہو! پب جی اور ان جیسے نہ جانے کتنے گیم نہ صرف ہماری نوجوان نسل کا وقت ضائع کررہے ہیں بلکہ ان کے اخلاق کو بھی تباہ کررہے ہیں۔ اسی گیم کا ایک نتیجہ سیما حیدر کے بھارت جانے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ چار بچوں کی ماں، شادی شدہ خاتون کہ جس کا شوہر دیارِ غیر میں ان کی کفالت کے لیے محنت مزدوری کررہا ہے وہ ایک گیم سے ایک ہندو نوجوان سے تعلقات بناکر اپنے شوہر کو چھوڑ کر بچوں سمیت اس کے پاس نہ صرف چلی جاتی ہے بلکہ اپنا مذہب چھوڑ کر شادی بھی کرلیتی ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے معاشرے میں ناقابلِ قبول ہے لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے ڈرامے تو خود ایک نسل کو اس کی تعلیم دے رہے ہیں، اور بدقسمتی سے ان ڈراموں کی ریٹنگ عروج پر ہے۔ نہ تو پیمرا اور نہ ہی حکومت کو اس پر کوئی تشویش ہے کہ ہمارے اس معاشرے میں جہاں نہ انصاف ہے نہ قانون، اگر ڈراموں کو حقیقت سمجھ کر معاشرے میں اپنا لیا گیا تو معاشرہ کہاں جائے گا؟

ابھی سیما حیدر کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ کراچی کے ہی علاقے گلستانِ جوہر میں ایک سی سی ٹی وی کی ویڈیو زیر گردش ہے کہ جس میں ایک موٹر سائیکل سوار فرد ایک خاتون پر جنسی حملے کی کوشش کرتا دکھایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ایسا ہیجان برپا ہے کہ سگے رشتے بھی پامال ہورہے ہیں، وہاں حکومت، میڈیا اور عدالت کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

مغرب خود آزادی کے اپنے تمام تر نظریات کے باوجود ہر ایک کو مختلف طریقوں سے پابند کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ مادر پدر آزادی کی بنیاد پر معاشرہ تباہ ہی نہ ہوجائے۔ اس ضمن میں مختلف قانون سازی کی جاتی ہیں تاکہ عورتوں و بچوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ اس کے علاؤہ حکومت کے زیراہتمام مختلف کمیشن اور چیریٹیز بھی اس کام میں معاونت کرتے ہیں۔ حکومت نہ صرف میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا بلکہ گیمز پر بھی کڑی نظر رکھتی ہے، مختلف قسم کے میڈیا گیمز پر پابندی بھی عائد کی جاتی ہے جس کے لیے باقاعدہ طور پر ڈپارٹمنٹ فور ڈیجیٹل، کلچر میڈیا اینڈ اسپورٹس بھی قائم کیا گیا ہے جوکہ ڈیجیٹل میڈیا اور گیمز پر پابندی بھی عائد کرتا ہے۔

اس تمام تر احتیاط، انتظام، قوانین اور قانون کی عمل داری کے باوجود بھی مغرب خود اس ہیجان انگیز معاشرے سے بچ نہیں پارہا ہے، اور اس کی ہر قسم کی کوشش مثبت کے بجائے منفی اثرات پیدا کررہی ہے، یا یوں کہہ لیں کہ اس جنسی ہیجان کا اثر و دائرئہ کار اب بڑھتا جارہا ہے۔ اگر مغرب میں اس کا اثر کم ہونے میں نہیں آرہا تو ہمارا میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا جس جنسی ہیجان میں پورے پاکستانی معاشرے کو مبتلا کررہے ہیں اس کی حد کیا ہوگی؟ شاید اس کا تخمینہ لگانا بھی ناممکن نظر آتا ہے۔ ایک ہیجان انگیز معاشرے کا انجام اللہ کے قانون کے مطابق جو ہوتا ہے اس کی نظیر ہم کو قوم لوط کی صورت میں نظر آتی ہے۔ لیکن اس سے قبل کہ پتھر برسائے جائیں، ہیجان انگیز معاشرے میں جب انسان خود حیوان بن جائے تو یہ پتھر برسانے سے قبل ہی ایک شدید قسم کا انسانی عذاب بن کر نازل ہوتا ہے۔

آج پاکستان میں اس شدید معاشرتی بحران پر کوئی بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔ مشرق یا مغرب کی این جی اوز، مسجد و محراب، گنبد و مینار، سیاسی جماعتیں، مذہبی جماعتیں، اسلامی نظریاتی کونسل، علماء و مشائخ، پارلیمان سمیت سب کو یکجان ہوکر پہلے اس شدید معاشرتی بحران کا تخمینہ لگانا ہوگا اور اس کے بعد شعور، آگہی، تعلیم، تبلیغ، قانون سازی اور قانون پر فوری عمل درآمد کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ یہ سیلابِ بلاخیز پاکستان میں معاشی بحران سے بھی زیادہ شدید تر ثابت ہوگا کہ جہاں کسی کی بھی عزت و آبرو محفوظ نہیں رہے گی۔ جس طوفان سے مغرب پریشان ہے وہ ہمارے معاشرے میں آچکا ہے۔ اگر اب اس پر بند باندھنے میں تاخیر ہوئی تو پھر کچھ باقی نہ رہے گا۔

حصہ