دنیا کا کوئی بھی دانش ور، محقق، فلسفی، ادیب یا خطیب حق و باطل کا پیمانہ نہیں قائم کر سکتا ہے۔ صرف اور صرف اللہ تعالٰی نے اپنے انبیائے کرام اور رسولوں کے ذریعے اپنے نازل کردہ صحیفوں اور آسمانی کتابوں کے ذریعے قائم کر دیا ہے اور یہی رہتی دنیا تک حق اور باطل کا پیمانہ ہے اور رہے گا۔ اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آخری کتاب قرآن مجید میں یہ کسوٹی اور پیمانہ موجود ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حیاتِ طیبہ میں اس پیمانے اور میزانِ عدل کو قائم کیا اور آپ کے جانشین خلفائے راشدین اور بعد کے صالح مسلم حکمرانوں نے اس پر عمل کیا۔
قرآن مجید کا آغاز سورہ فاتحہ سے ہوتا ہے جس میں ایک مسلمان صراط مستقیم پر چلنے کی دعا مانگتا ہے اور مغضوبین سے پناہ مانگتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ صاحبِ ایمان کو معلوم ہے کہ اس دنیا میں کون لوگ صراطِ مستقیم پر چلنے والے تھے اور ہیں اور کون اللہ کے غضب کا شکار ہوتے ہیں اور ہوئے ہیں‘ جن کی اجڑی ہوئی بستیاں آج بھی نشانِ عبرت ہیں۔ اللہ بندوں کی اس دعا کے جواب میں سورہ بقرہ سے لے کر سورہ الناس تک حق کی ان تمام راہوں کو واضح طور پر بیان کرتا ہے نہ صرف ہدایت دیتا ہے بلکہ باطل اور طاغوتی حربوں سے بچنے کا عمل بھی دکھاتا ہے۔ باطل کے تمام کار پردازوں اور راستوں کی نشاندھی کرتا ہے اور اس پر چلنے والی قوموں کے انجام سے بھی ڈراتا ہے۔
سورۃ البقرہ کے آغاز میں اللہ اس کتاب کو ’’لاریب‘‘ قرار دے کر ماننے والوں کو بھی لاریب ایمان لانے کی ہدایت دیتا ہے۔ پھر ابتدائی آیات میں حق والے لوگوں کے اوصاف بیان کرنے کے بعد انکار کرنے والوں کی صفت اور منافقین جبلت سے آگاہی دیتا ہے اور حق والوں کو دنیا و آخرت میں کامیابی اور باطل والے افراد کی رسوائی کی نشاندھی موجود ہے۔ حق کے لیے یہ مشروط نہیں ہے کہ اکثریت اس کے حمایت کرے حق بذات خود حق ہے۔
جان دی دی اسی کی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے
اس تمہید کے بعد میں قرآن مجید کی چند مثالیں دینے کی جسارت کروں گا۔
سورۃ البقرہ:
میں نے حق و باطل کو الگ کر دیا ہے ، جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا گویا اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی چھوٹنے والا نہیں اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔
جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس کو اپنا دوست بناتے ہیں اللہ ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔ اور جو انکار کرکے طاغوت کو اپنا ولی بناتے ہیں اللہ ان کے نور بصیرت کو چھین کر اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔یہ آیت کرسی کے بعد کی آیات ہیں۔
سورہ الشمس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’مجھے اس نفس کی قسم جس کو میں نے پیدا کیا اور اسے ہموار کیا اس پر فجور و تقویٰ واضح کردیے۔ جس نے پاکیزہ سیرتِ اپنائی اسے فلاح نصیب ہوئی اور جس نے نیکی کے جذبے کو دبا دیا وہ نا مراد ٹھہرا۔
آدم علیہ السلام اور ماں حوّا کے توبہ اور استغفار اللّٰہ کی خوشنودی کا ذریعہ بنے مگرعزرائیل کے تکبر اور اللہ کی نا فرمانی نے اسے راندہ درگاھ بنا کر ابلیس بنا دیا۔ دنیا فانی ہے اور ہر شے یہاں کی آنی جانی ہے باقی صرف اللہ کی ذات ہے جس کے سامنے روز محشر ہم سب کو پیشِ ہونا ہے۔ اسی ایمان و عقیدے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس قول و فعل سے راضی ہے وہ حق ہے اور باقی سب باطل ہے۔
حق اور باطل کا فیصلہ تو اس وقت ہی ہو گیا تھا جب مقتول ہابیل کو حق پرست اور قاتل قابیل کو گناہ گار ٹھہرا کر انسان کا پہلا خونی اور جہنمی قرار دیا گیا۔ آتش نمرود نے ابراہیم علیہ السلام کو توحید کا علمبردار اور نمرود کو باطل قرار دیا۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
طوفان نوح میں ڈوبتے ہوئے بیٹے کو نہ بچانے کا خدائی فرمان نے حق و باطل کا فیصلہ کر دیا۔ فرعون کے دربار میں جادو گروں کا تماشا عصائے موسوی کے سامنے ہزیمت سے دوچار ہونا حق وباطل کا پیمانہ ہے۔ بنی اسرائیل کا سمندر پار ہونا اور فرعون کا اپنے لشکر کے ساتھ ڈوبنا حق وباطل ہی ہے۔
حق اور باطل میں رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ورنہ لوط علیہ السلام کی بیوی عذاب الہٰی کا مستحق نہ ٹھہرتی۔ حضرت داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، یوسف علیہ السلام اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی رسول کو حکمرانی نہیں ملی مگر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام اس دنیا کے برگزیدہ ترین ہستیاں ہیں اور تمام ہی پیغام توحید لے کر آئے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو پورے خطۂ ارض پر شرک کا غلبہ تھا حتیٰ کہ اللہ کا گھر بھی 360 بتوں سے بھرا ہوا تھا۔ مگر جیسے ہی صفا کی چوٹیوں سے یا ایھا الناس قولو لا الہ الااﷲ تفلحون کا کلمہ بلند ہوا طاغوت کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا اہلِ مکہ جو آپ کو صادق و امین تسلیم کرتے اور احترام کیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن بن گئے اور ایک نہ رکنے والا سلسلہ 13 سال تک جاری رہا۔ آخر کار آپؐ کو اپنے اصحابؓ کے ساتھ مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔ اس کے باوجود بھی بولہبی اور بوجہلی جارحیت رکی نہیں اور ہجرت کے دوسرے سال ہی رمضان المبارک کی 17 تاریخ کو میدانِِ بدر میں 313 کی قلیل تعداد نے کفار کے ہزار کے لشکر کو شکست دی جسے قرآن نے ’’یومِ فرقان‘‘ کہا جس دن حق اور باطل کا فیصلہ ہوا۔
اس معرکۂ حق کو باطل میں چرخ کہن نے عجیب منظر دیکھا۔ حضرت عبیدہ بن الجراح نے اپنے ہاتھ سے اپنے کافر باپ کو قتل کیا‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے اپنے ماموں کو قتل کیا۔ حضرت مصعبؓ کے بھائی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس قیدی بنے۔ یہ دلیل کافی ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے اور پیرو کار ہے‘ وہ حق پر ہے۔ اور جو اس سے ہٹ کر ہے وہ باطل پرست ہے۔ اور یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ فتح مکہ کے بعد جزیرہ عرب سے کفار کا خاتمہ ہو گیا۔ فتح مکہ کے بعد جب خانہ کعبہ کے بتوں کو توڑا جا رہا تھا تو سورہ بنی اسرائیل کی یہ آیت مبارکہ نعرے کی صورت گونج رہی تھی۔
’’کہہ دیجیے حق آگیا اور باطل مٹ گیا اس لیے کہ باطل تو مٹنے والا ہے۔‘‘
کربلا کے میدان میں اہلِ بیت کی شہادت تو ہوئی مگر یزید راندہ درگاہ بنا‘ کثرت اور حکومت رد ہوئی اور قلت سرخرو ٹھہری۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
کربلا کے خونچکاں واقعہ نے رہتی دنیا کے لیے یہ بات ثابت کردی کہ باطل اور حق کے درمیان جب بھی معرکہ برپا ہوا تو دنیاوی اعتبار سے باطل ہمیشہ حق کے مقابلے میں بظاہر طاقتور رہا ہے مگر باطل فاتح ہونے کے باوجود سواد اعظم نے اسے حق تسلیم نہیں کیا۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب مسلم دنیا پے در پے یورپی سامراج کے قبضے میں چلی گئی تو سب سے بڑی سامراجی قوت برطانیہ نے مسلم دنیا کے تہذیب ، تعلیم ، سماجی اقدار ، ثقافت اور عقیدہ توحید ورسالت کو بدلنے کی نہ صرف ریاستی کوشش کی بلکہ ہر طرح کے جبر و استبداد بھی کیا۔ اسلام کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام ، اور اشتراکی ظلم اور جبر کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا۔ حق کے مقابلے میں باطل بھیس بدل کر آتا ہے۔ اور عقلی دلیل کی جگہ عیاری و مکاری سے حق کو پسپا کرنا چاہتا ہے۔
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم
اسلام کے محققین ، دانشور ، علما نے یہود ونصاریٰ اور اشتراکی نظریہ کو شکست سے دو چار کر دیا۔ ڈارون کا نظریۂ ارتقا، فرائڈ کی جنسی آزادی یا داس کیپٹل کا اشتراکی نظامِ معیشت سب ایک صدی کے اندر زمین بوس ہو گیا۔
مولانا مودودیؒ کا یہ قول کہ ’’ایک وقت آئے گا جب اشتراکی بت لینن گراڈ میں زمین بوس ہوگا۔‘‘ اور یہ بت بلآخر زمین بوس ہو گیا۔ اور ’’ایک دن آئے گا جب سرمایہ دارانہ نظام لندن اور واشنگٹن میں دم توڑے گا۔‘‘ اور آج جس کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں۔
بیسویں صدی کے آخری عشرے میں افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت گیارہ سال میں ایسی پسپائی سے دوچار ہوئی کہ روس کا شیرازہ ہی بکھر گیا۔ پھر 9/11 کے بعد افغانستان پر امریکہ کا حملہ اور نہتے افغانوں کا ایمان کی قوت کے ساتھ ڈٹ جانا اور پھر امریکہ کی ذلت کے ساتھ منہ کالا کرکے افغانستان سے بھاگنا علامہ اقبال کے ان اشعار کی تعبیر ہے:
دنیا کو ہے معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیٔ مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر اُمم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ
قرآن کی بشارت ’’نہ گھبراؤ نہ غم کرو تم ہی کامیاب ہو گے اگر تم مومن ہو۔‘‘
سورۃ الصف: ’’اللہ اُن سے شدید محبت کرتا ہے جو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔‘‘
فلسطین کے حماس، کشمیر کے حزب المجاہدین اور البدر، لشکر طیبہ کے مجاہدین اور جیش محمد کے سرفروش، برما کے روہنگیا ، صومالیہ، فلپائن ایریٹیریا ہر جگہ طاغوتی قوتوں کے خلاف جہاد جاری ہے اور وہ دن دور نہیں جب قرآن کی بشارتیں پوری ہوں گی اور نصرت و فتح قدم چومیں گی۔ 40 سال کے اندر افغانستان میں دو عالمی قوتوں کا دھڑن تختہ ہو جانا حق اور باطل کا وہ پیمانہ ہے جو عقل والوں کو سمجھ جانا چاہیے۔
اب یہ معرکہ نئے رنگ و روپ کی صورت میدان میں جاری ہے جس کو Digital War کہا جا رہا ہے‘ یہ ہوائی جنگ سوشل میڈیا کے مختلف Versions کے روپ میں طلسماتی انداز میں مسلم دنیا کے ہر عمر کے مرد و زن کی ذہنی اور اخلاقی زوال کا سلسلہ ہے۔ دیگر مذاہب اور لادین عوام اس شیطانی اور دجالی میڈیا وار کا ہدف اس لیے نہیں ہیں کہ وہ تو پہلے ہی سے خدا بیزار زندگی گزارنے کے عادی اور اس طاغوت کے غلام ہیں۔ مزاحمت تو صرف اور صرف اللہ والوں کی جانب سے جاری ہے اور ان شاء اللہ اس کو بھی منہ کی کھانی پڑے گی۔
دنیا سب ہی باطل کی طلب گار لگے ہے
جس روح کو دیکھو وہی بیمار لگے ہے
شاید نئی تہذیب کی معراج یہی ہے
حق گو ہی زمانے میں خطا کار لگے ہے
مگر اے باطل پرستو! ‘یہود ونصاریٰ اور اہل ہنود کے مغربی آقاؤں سن لو۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا
اہلِ ایمان قوت کا محافظ اور ناصر اللہ رب العزت کی ذات ہے۔