آنگن میں کھلتے پھول

363

باغبانی کا شوق ہمیشہ سے تھا لیکن اس شعبے میں ہمارا علم نہ ہونے کے برابر تھا۔ وقت اور وسائل کی کمی کے باعث اس شوق پہ زیادہ توجہ نہ دی جاسکی۔ گھر میں موجود چند گل دانوں میں جب وقت ملتا کچھ نہ کچھ اُگانے کی کوشش کی جاتی تو پھول کھلکھلا اٹھتے، ورنہ سارا سال ایلوویرا یا جنگلی بوٹیاں ہی خود بڑی ہوتی رہتیں۔

کورونا کے دوران موقع ملا کہ اس شعبے میں مزید طبع آزمائی کی جائے۔ ارادہ یہ ہوا کہ اب آرائشی پودے اُگانے کے بجائے کچھ پھل دار پودے اُگائے جائیں۔ دھنیا، پالک اُگانے کے بعد ہم نے آلو، ٹماٹر، لہسن، کریلے اور کدو اُگانے کی کوشش کی۔ یہاں پہلی مشکل تو یہ پیش آئی کہ صحیح بیج کہاں سے ملے؟ کتنے ہی بیج بوئے جاتے، کئی دن تک کونپلیں پھوٹنے کا انتظار رہتا لیکن اس صبر کا پھل میٹھا نہ نکلتا کہ بیج ہی خراب ہوتا۔ بڑی جدوجہد کے بعد صحیح بیج میسر آئے، لیکن ابھی شوق کے امتحان اور بھی تھے۔ بیج سے پھوٹنے والی کونپلیں ہمارا دل تو خوش کرتیں لیکن چند دنوں میں زیادہ گرمی یا مٹی اچھی نہ ہونے کے باعث مرجھا جاتیں۔ اب ہم نے زرخیز مٹی کا بندوست کیا۔ چھاؤں کا مناسب انتظام کیا۔ پودوں کو پانی دینے کے درست اوقات مقرر کیے۔ یوں ہماری کوششیں کچھ رنگ لانے لگیں۔ پودے بڑے ہونے لگے لیکن پھل اتارنے کا موسم اب بھی نہ آیا۔ اب بڑے ہوتے پودوں کو کھاد کی ضرورت تھی۔ تیار کھاد خریدی گئی۔ گھر میں کئی ٹوٹکے استعمال کرکے کھاد تیار کی گئی۔ لیکن یہاں امتحان اور مشکل تھا۔ کبھی زیادہ پانی کی وجہ سے پھل خراب ہوجاتا، کبھی لاعلمی میں کھاد غلط وقت میں دی جاتی تو پودے ایک دن میں ہی مرجھا کر داغِ مفارقت دے جاتے اور ہمارا مختصر سا باغیچہ بنجر رہ جاتا۔

اتنے ناکام تجربوں کے بعد باغ بانی کے شوق کو جاری رکھنے کے لیے مستقل مزاجی کی ضرورت تھی۔ اپنے شوق و جذبے سے یہ کام جاری رکھا۔ اب ہمارا باغیچہ ایسا ہے کہ آنے والوں کو اپنے باغیچے کی چھوٹی چھوٹی مرچیں، آلو، کریلے دکھا سکتے ہیں۔ ان چھوٹی نظر آنے والی چیزوں کے پیچھے بڑی جدوجہد کارفرما ہے۔

ایک شام اپنے باغیچے کے ہرے بھرے ماحول میں ساتھیوں کے ساتھ گفتگو جاری تھی کہ بات بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہونے لگی۔ ایک خاتون جن کے بچے بظاہر بہت سلجھے ہوئے، بہترین لباس میں نظر آتے ہیں وہ اپنے بچوں کے لیے پریشان تھیں کہ بچے بات نہیں سنتے، سارا وقت موبائل اور ٹی وی پر لگاتے ہیں۔ ایک اور خاتون جن کے بارے میں سب کا یہی کہنا تھا کہ وہ ہر وقت ہر پہلو کو بچوں کی تربیت کے حوالے سے دیکھتی ہیں کہ اپنے مشاغل، اپنی ذات کو بھی نظرانداز کردیتی ہیں، اور اس تربیت و توجہ کے بہترین نتائج اُن کے بچوں میں نظر آتے ہیں۔یہاں مجھے احساس ہوا کہ تربیت بھی باغبانی کی طرح ہی ہے۔ خیال نہ رکھا جائے تو بس سوکھی گھاس یا جنگلی بوٹیاں ہی اُگتی ہیں۔ صرف آرائشی پودے لگانے ہوں تو بھی اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی۔ ساری جدوجہد تو پھل دار پودے تیار کرنے میں ہوتی ہے۔ یہاں تو ہر چیز وقت پہ صحیح مقدار میں فراہم کرنی ہے۔ ان کھلتے پودوں کو رشتوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں رکھنا ہے۔ مستقل مزاجی سے قدم قدم پہ کام کرنا ہے۔ کہیں محبت سے پھولوں کی آبیاری کرنی ہے، تو کبھی کڑی نگاہوں سے بڑھتے پھولوں کا رخ بدلنا ہے۔ کہیں بیلوں کو سہارا دینا ہے تو کبھی زیادہ پانی بھی نقصان دہ ہے۔ یہ بچے آنگن میں کھلتے پھول ہیں، یہاں باغ بان والدین ہیں جن کی تربیت و توجہ ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ان کو کیسا پھول بنانا ہے۔

حصہ