تقدیر کے فیصلے

366

بارش کی شدت کم ہوکر ہلکی ہلکی پھوار میں تبدیل ہونے لگی۔ برآمدے میں پڑی ایک کرسی پر بیٹھی فائزہ صحن میں تسلسل سے گرتی ہوئی بوندوں کو انہماک سے دیکھے جارہی تھی۔ فون کی زوردار گھنٹی بجتے ہی اس کا انہماک ٹوٹ گیا۔ اُس نے لمبی جمائی لی اور فون کی طرف غور سے دیکھنے لگی۔ ’’آخر کس کا فون ہوگا؟‘‘ وہ سوچنے لگی۔

’’ارے فائزہ! کن خیالوں میں گم ہو؟ ذرا فون ہی اٹھا لو۔‘‘ چھت پر سے پانی میں شرابور آصفہ بیگم نے آواز لگائی۔ اس نے فوراً آگے بڑھ کر فون اٹھا لیا۔

’’ہیلو! السلام علیکم ! جی بلاتی ہوں ایک منٹ۔ امی خالہ کا فون ہے۔‘‘ فائزہ نے آواز لگائی۔ آصفہ بیگم فوراً آن موجود ہوئیں۔

’’فائزہ! چلو تم چھت پر جاکر ذرا وائیپر کردو ورنہ پانی سیڑھیوں سے نیچے صحن میں آنے لگے گا… میں فون سنتی ہوں۔‘‘

’’جی اچھا امی!‘‘ فائزہ نے فرماں برداری سے کہا۔

’’ہیلو!‘‘ آصفہ بیگم نے ریسیور کان سے لگایا۔

’’ہیلو،جی اچھا، کب؟ اچھا اچھا…‘‘

’’امی کو دیکھو، خالہ کا فون آتا ہے تو اچھا اچھا کی گردان شروع کردیتی ہیں۔‘‘ فائزہ نے دل میں سوچا اور چھت کی طرف چل دی۔

’’بیگم! آپ کیا سوچ رہی ہیں؟‘‘ خورشید صاحب نے آصفہ بیگم سے پوچھا جو دفتر سے واپسی پر آرام دہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’میں جب سے آیا ہوں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مسلسل کسی سوچ میں گم ہیں۔‘‘

’’وہ دراصل…‘‘ آصفہ بیگم کچھ ہچکچا کر چپ ہوگئیں۔

’’بتائیں نا…‘‘ خورشید صاحب نے اصرار کیا۔

’’وہ دراصل آج بڑی آپا کا فون آیا تھا۔‘‘

’’پھر…؟‘‘ خورشید صاحب نے سوالیہ انداز میں آصفہ بیگم کی طرف دیکھا۔ ’’اس میں پریشانی والی کون سی بات ہے؟‘‘

’’وہ بتا رہی تھیں کہ امریکا سے چھوٹی بھابھی آرہی ہیں نبیل کے رشتے کے سلسلے میں۔ آپا کا خیال ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں کوئی تدبیر لڑانی چاہیے کہ ان کا رُخ فائزہ کی طرف ہوجائے۔‘‘آصفہ بیگم نے جواب دیا۔

’’مثلاً کیسی تدبیر؟‘‘ خورشید صاحب نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔

’’آپا کا خیال ہے کہ فائزہ کے لیے میں ان کے ساتھ چل کر دو تین جوڑے خرید لوں جو کہ جدید فیشن کے مطابق ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری بیٹی جیسی قدامت پرست لڑکیوں کو کوئی پسند نہیں کرتا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹی کو ایک بزرگ بنادیا ہے۔ اس میں نوجوان لڑکیوں جیسی بات ہی نہیں۔‘‘ آصفہ بیگم نے تفصیل بتائی۔ ’’وہ پسند نہیں کرتا کہ آدھی آستین نہ پہن سکے اور چادر نما دوپٹہ اوڑھی رہے اور اپنے کزنز سے ٹھیک طریقے سے ہنسی مذاق نہ کرپائے۔‘‘

’’کیا تم ان کے خیال سے متفق ہو؟‘‘ خورشید صاحب نے پوچھا۔

’’یہی سوچ کر تو میں پریشان ہوں کہ ہماری بیٹی بڑی ہوگئی ہے۔ اس کی ساتھ کی لڑکیاں اپنے گھروں کی ہوگئی ہیں۔ لیکن ہم نے اپنی بیٹی کو جو باتیں سکھائی ہیں ان کو کیسے تبدیل کریں؟ ہم کیسے کہیں کہ بیٹی اب زمانہ بدل چکا ہے اور لوگوں کی ڈیمانڈ بھی… اب تم کو زمانے کے مطابق چلنا ہوگا، ورنہ ساری عمر تم باپ کی دہلیز پر ہی بیٹھی رہوگی۔ ‘‘ آصفہ بیگم کی آواز بھرا گئی۔

’’اگر بیٹی کا رشتہ جہنم کی آگ کے بدلے ہی ملے گا تو مجھے منظور نہیں۔‘‘ خورشید صاحب نے دوٹوک انداز میں کہا۔ ’’تقدیر کا قلم ہر بات کو لکھ چکا ہے۔ انسان کب پیدا ہوگا، کب مرے گا، اس کی شادی ہوگی یا نہیں، یا کب ہوگی؟ ہر بات کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ہم تم کچھ نہیں کرسکتے۔ ہم نے اپنی بیٹی کی اچھی تربیت کی کوشش کی ہے، اب ہم دعا کریں گے کہ اللہ اس کی قسمت اچھی کردے۔ تدبیر تقدیر کے آگے ہار جاتی ہے لیکن دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے۔‘‘

آصفہ بیگم صوفے پر چپ چپ بیٹھی تھیں۔ ان کے چہرے پر پریشانی اور فکر کے اثرات نمایاں تھے۔

’’کیا ہوا امی؟‘‘ فائزہ نے پوچھا۔

’’کچھ نہیں…‘‘ آصفہ بیگم نے ٹالنے کی کوشش کی۔

’’کیا ابھی کسی کا فون آیا تھا؟‘‘ فائزہ نے آصفہ بیگم سے پوچھا۔

’’ہاں بڑی بھابھی کی ثنا کی منگنی ہورہی ہے نبیل کے ساتھ، انہی کا فون تھا۔ اگلے ہفتے ہے منگنی۔‘‘ آصفہ بیگم نے بے زاری سے جواب دیا۔

’’تو آپ کیوں پریشان ہیں؟‘‘ فائزہ کے انداز میں حیرت تھی۔

’’نہیں بھئی میں پریشان نہیں ہوں۔‘‘ آصفہ بیگم نے جھنجھلا کر جواب دیا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔

’’کون ہے؟‘‘ فائزہ نے پوچھا۔

’’بیٹی! آپ کی امی گھر پر ہیں؟‘‘

’’جی…‘‘ آصفہ بیگم نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔

’’آئیے آئیے۔‘‘

چند برقع پوش خواتین کو دیکھ کر آصفہ بیگم نے خوش اخلاقی سے کہا اور ان کو ڈرائنگ روم میں لے گئیں۔

’’فائزہ‘‘ انہوں نے کچن میں آکر فائزہ سے کہا ’’جلدی سے اپنا حلیہ درست کرو اور ٹرے سیٹ کرکے لے آؤ۔‘‘

’’پھر وہی پریڈ…‘‘ فائزہ کا منہ بن گیا۔

فائزہ نے اندر جاکر سلام کیا اور ایک طرف بیٹھ گئی۔

’’بیٹی! آپ پڑھتی ہیں؟‘‘ ایک خاتون نے پوچھا۔

’’جی میں نے گریجویشن کیا ہے۔‘‘ فائزہ نے جواب دیا۔

’’یہ لیجیے۔‘‘ آصفہ بیگم نے خواتین کو ٹرے کی طرف متوجہ کیا۔ فائزہ نے موقع غنیمت جانا اور باہر نکل گئی۔

فائزہ نے شیشے میں اپنے آپ کو دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی اور کو دیکھ رہی ہو۔ دلہن بن کر اس پر بہت روپ آیا تھا۔ اُس دن جو خواتین آئی تھیں وہ اگلے ہی دن اس کا رشتہ لے کر آن موجود ہوئیں، اور خوش قسمتی سے وہ لوگ امی ابو کو بھی بھا گئے۔ لہٰذا جلد ہی اس کا رشتہ طے ہوگیا اور سال بھر کے اندر وہ دلہن بنی بیٹھی تھی۔

’’دلہن بن کر بیٹھنا کتنا مشکل کام ہے۔‘‘ فائزہ نے سر جھکاتے ہوئے سوچا۔ اچانک اس کی نظر سامنے سے آتی ہوئی مامی اور ثنا پر پڑی۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی تو ثنا امریکا سے واپس لوٹی تھی کبھی نہ جانے کے لیے۔ اس کے بقول نبیل اس کو مارتا تھا۔ وہ نفسیاتی مریض تھا اور ثنا کے ساتھ اس کی دوسری شادی تھی۔ اس کی آنکھوں کے حلقے، چہرے کی اداسی اور پژمردگی اس کی سچائی کی دلیل تھی۔ امی جو کہ فائزہ سے کوئی بات کرنے کے لیے آکر بیٹھی تھیں، ثنا اور مامی کی طرف دیکھنے لگیں۔ اچانک ہی زیر لب ان کے منہ سے نکلا ’’یا اللہ تیرا شکر ہے تُو اپنی مصلحتیں خوب جانتا ہے۔‘‘

فائزہ نے حیران اور الجھی ہوئی نظروں سے آصفہ بیگم کی طرف دیکھا جو اب اٹھ کر مامی سے گلے مل رہی تھیں، اور سر جھکا لیا۔

حصہ