مذاکرہ کیا تھا اہلِ درد کا اجتماع تھا کہ جب 26 جون 2023 بروز پیر فاران کلب میں وہ ایک اہم موضوع ’’کراچی میں پانی قلت کی وجوہات اوراس کے خاتمے کے امکانات‘‘ پہ کچھ کہنے سننے کو اکٹھے ہوئے تھے۔ یہ اہلِ درد بزم فکر و عمل کی اس سوچ کے شریک تھے کہ حالات کی ابتری پہ محض کڑھنا لاحاصل ہے اس لیے محض:
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اس مذاکرے میں حافظ نعیم الرحمن کو بھی شریک ہونا تھا لیکن انہیں اسلام آباد جانا تھا جس کے باعث وہ مذاکرے میں شریک نہیں ہوسکے۔ یہ شام اس وقت یادگار ہوگئی جب وطنِ عزیز میں آبی ذخائر اور وسائل کی صورت حال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ماہر آب رسانی ڈاکٹر بشیر لاکھانی نے بات کو کراچی میں پانی کے مسئلے سے جوڑا اور پھر اپنی اس نہایت پُرمغز و معلوماتی بریفنگ میں شہر میں پانی کی قلت کے مختلف پہلوؤں اور وجوہات سے گفتگو کی اور اس کے حل کی بابت ایک بڑے قدم کے طور پہ میگا منصوبہK-4کی تفصیلات اور پیش رفت سے آگاہ کیا جو اس شہر کے لیے 260 ملین گیلن پانی فراہمی کا ایک بہت بڑا منصوبہ ہے اور وہ اس منصوبے کے نگراں و ٹیم لیڈر ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کو اس سے قبل 100 ملین گیلن کے تھری واٹر سپلائی اسکیم K-3 کو بھی نہایت مہارت سے مکمل کرانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انہوں نے آب رسانی کی انجینئرنگ کی خصوصی تعلیم اہم بین الاقوامی تعلیمی اداروں سے حاصل کی مگر اس کے بعد انہوں نے اپنی اس تعلیم سے وطن عزیز کو فائدہ پہنچانے کا تہیہ کیا اور وطن لوٹ آئے۔ تب سے وہ بڑی لگن سے کئی ڈیموں اور بیراجوں کے علاوہ آب رسانی کے کئی منصوبے کام کررہے ہیں۔
ہماری بزمِ فکر و عمل کو اب ان کی سرپرستی بھی حاصل ہے ان شاء اللہ ہم ان کی مہارت اور مشوروں سے بھی مستفید ہوںگے۔
واپس آتے ہیں مذاکرے کی طرف۔ بزمِ فکر و عمل درحقیقت اس اہم مذاکرے کی صورت خود ہی کو چیلنج دے بیٹھی اور بحمدللہ سرخرو ٹھہری کیوں کہ عرصے بعد اس کی سرگرمیوں کی بحالی معمولی بات نہ تھی اور مزید خدشات یہ تھے کہ ایک تو موضوع بہت سنجیدہ تھا اور دوسرے یہ کہ منعقد ہونے کا وقت گرم موسم کے ورکنگ ڈے کی شام کا تھا مستزاد یہ کہ عیدِ قرباں محض دو دن دوری پہ تھی اور اکثر کی مصروفیات کی نوعیت اسی نسبت سے تھی۔ تاہم اس پروگرام کی اہمیت نے پیاسے کراچی کے چنیدہ اہل علم و ہنر کو یہاں آنے پہ مائل کرلیا تاہم اس سلسلے میں جو محنت کی گئی وہ شاندار ٹیم ورک کی عمدہ مثال تھی۔ یہاں ذیل میں اس تقریب کا ایک مختصر احوال پیش خدمت ہے جس کی نظامت بزم کے ایک سرکردہ ساتھی مسعود وصی نے نہایت متانت اور تدبر سے کی۔ تقریب کے دوسرے نظامت کار کئی امور کی مہارت رکھنے والے شفیق اللہ اسماعیل تھے جو اس شعبے کے بھی ماہر ہیں مگر وہ اپنی مصروفیت کے باعث تقریب کے آخری حصے میں شریک ہوئے۔ یوں تقریب کی نظامت کا سار بوجھ مسعود وصی کے کاندھوں پہ آن پڑا مگر انہوں نے کمال مہارت سے نظامت کاری کے قرینوں کو نبھایا۔
پروگرام کا آغاز شہر کی ہردل عزیز سماجی شخصیت اور بزم کے ایک مرکزی رہنما فہیم برنی نے سورۂ اخلاص کی تلاوت سے کیا۔ فہیم برنی کے بعد بارگاہ رسالت میں ہدیۂ نعت پیش کرنے کے لیے خوش گلو شاعر نورالدین نور کو بلایا گیا جنہوں نے اپنا نعتیہ کلام بہت دل نشین انداز میں پیش کیا۔ فیروز ناطق خسرو نے موضوع کی رعایت سے کراچی کے مسائل و تکالیف کا احاطہ کرتی اپنی ایک خصوصی دل گداز نظم پیش کی جسے کراچی کا نوحہ باور کیا جانا چاہیے اور ان کی اس برملا نظم کو بڑی پزیرائی ملی۔ خسرو صاحب پاک فضائیہ کے سابق افسر منفرد لہجے کے شاعر اور8 شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ کراچی کے ابتر معاملات کی بابت نظم کے لیے ان سے میری یہ گزارش اس تقریب سے محض 3 روز قبل ہی کی گئی تھی مگر اس کی تکمیل یوں جس شتابی و عمدگی سے کی گئی اس پہ خسرو صاحب خصوصی داد اور شکریے کے مستحق ہیں۔ اس موقع پہ ادب دوست جناب مسعود وصی کی شریک حیات محترمہ عفت مسعود نے کراچی کے مسائل سے متعلق اپنی خصوصی تحریر پڑھ کر سنائی جس میں اہل کراچی کی مشکلات و تکالیف کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا۔
نمازِ مغرب کے بعد تقریب کا دوسرا سیشن کا بڑا حصہ ڈاکٹر بشیر لاکھانی کی پریزینٹیشن پہ مشتمل تھا۔ ملٹی میڈیا کی مدد سے پیش کی گئی پریزینٹیشن متعلقہ حقائق اور اعداد و شمار سے لبریز تھی اور اس کے ذریعے K-4کے مختلف مراحل کو اس درجہ خوش اسلوبی سے حاضرین کے سامنے نمایاں کیا گیا کہ 45 منٹ کی اس بریفنگ میں کوئی اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں اور ان کا یہ انہماک بعد ازاں ان کی جانب سے کیے گئے ان متعدد سوالات سے بہ خوبی ظاہر ہوا کہ جس میں کئی اہل علم و صحبان فن نے موضوع سے متتعلق کئی نکات اٹھائے اور ان کی مزید تفہیم کے طالب ہوئے۔ ڈکٹر بشیر لاکھانی نے ان سوالات کے جوابات نہایت خندہ پیشانی سے دیے۔
تقریب کے مہمان اعزازی اور انرجی اَپ ڈیٹ کے بانی و منتظم نعیم قریشی نے اپنی تقریر میں پانی کی اہمیت اور اس کی کفایت کے طریقوں پہ اظہار خیال کیا اور اس حوالے سے ماحولیاتی تقاضوں کو نبھانے پر بھی زور دیا۔ تقریب کے دوسرے مہمان اعزازی انجینئر آفتاب الدین قریشی تھے جو بزمِ فکر و عمل کے سرپرستوں میں بھی شامل ہیں۔ وہ این ای ڈی کے سابق طالب علم رہنما ہونے کے علاوہ انجینئرنگ اور کنسٹرکشن کے میدان میں کئی بڑے پروجیکٹس کی تکمیل کے اعزاز کے بھی حامل ہیں۔ انہوں نے کراچی میں پانی کی قلت کے کئی پہلوؤں پہ کی درستی کے لیے کے الیکٹرک کا عملہ ہمہ وقت مصروفِ عمل رہتا ہے‘‘ جیسے سفید جھوٹ بول کر اپنی نااہلی پر پردہ ڈااظہار خیال کیا اور اس کے سدباب کے لیے ڈاکٹر لاکھانی کی خدمات کو بھی سراہا۔ ان کے خطاب میں ماضی کے کئی اہم حوالے بھی شامل تھے۔
آفتاب الدین قریشی کے خطاب کے بعد اس خاکسار (سید عارف مصطفیٰ) نے بزم فکر و عمل کے صدر کی حیثیت سے اپنی گفتگو میں اس عزم کا اظہار کیا کہ ملکی تعمیر و ترقی اور اس کو درپیش دیگر مختلف مسائل کے حوالے سے ایسے کئی مذاکروں کا انعقاد کیا جائے گاجن میں اگلے کا عنوان بجلی کہاں گئی ، آئی پی پیز کیسے نازل ہوئیں ہوگا اور اس ضمن میں یہ بھی بتایا کہ اس معاملے میں کے الیکٹرک کی بدترین کارکردگی اور اس کی زیادتیوں کو بھی زیر بحث لایا جائے گا اور اس کے ازالے کے لیے کیا کچھ کیا جانا ممکن ہے اس پر بھی گفتگو کی جائے گی۔
بعد ازاں ڈاکٹر بشیر لاکھانی سمیت مہمانان اعزازی و مہمان خصوصی کو پندرہ کتابوں کے مصنف و مؤلف اور معروف محقق میرحسین علی امام نے اپنی تازہ کتاب ’’احکامِ قرآن مجید‘‘ کی جلدیں اور گلدستے پیش کیے گئے۔
تقریب کے آخری میں مہمان خصوصی جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد نے خطاب کیا اور شہر کراچی کو پانی کی فراہمی کے میگا منصوبے پہ خصوصی فوکس کیا اور اس بابت پیش کی گئی پریزنٹیشن کو سراہتے ہوئے اس سے منسلک کئی اہم سوالات بھی اٹھائے جن کے جواب ڈاکٹر بشیر لاکھانی نے دیے۔