”کراچی کے صارفین عید کی تعطیلات کے دوران لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ رہے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ کے الیکٹرک کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز کے ساتھ فیلڈ اسٹاف بھی چوبیس گھنٹے مکمل طور پر فعال اور الرٹ رہا، اور شہر میں بجلی کی فراہمی کی صورتِ حال پر بھرپور نظر رکھی گئی۔“
’’کس کو کہہ رہا ہے؟‘‘
’’تجھے بتارہا ہوں۔‘‘
’’یہ کون کہہ رہا ہے؟‘‘
’’کے الیکٹرک انتظامیہ۔‘‘
’’کب کی بات ہے؟‘‘
’’اِسی عید کی۔‘‘
”اسی بقرعید کی؟“
”ہاں ہاں بھائی، لیکن تُو حیرت زدہ کیوں ہے؟“
’’جانے دے یار، کوئی دوسرا لطیفہ سنا۔‘‘
’’سچ کہہ رہا ہوں، یقین نہیں تو اخبار پڑھ لے۔‘‘
’’میں اخبار کیوں پڑھوں! اخبار تو وہ پڑھے جو نہیں جانتا۔‘‘
’’یار تجھے یقین کیوں نہیں! اِس مرتبہ عید پر نہ کی جانے والی لوڈشیڈنگ کی خبر سنا رہا ہوں، لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کی نوید تھوڑی دے رہا ہوں جو تُو مجھ پر طنز کے نشتر برسانے لگا ہے۔ اور پھر اس میں میرا کیا ہے! کے الیکٹرک انتظامیہ نے جو کچھ بھی کہا ہے وہی تو بتارہا ہوں۔‘‘
’’تجھے پتا ہے ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھا دینے والے کو کیا کہتے ہیں؟‘‘
’’پھر وہی فضول باتیں کرنے لگا۔ بھائی میں تو اخبار میں لگی خبر کی بات کررہا ہوں، اور تُو مجھ کو ہی آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔ اچھا چل دوسری خبر سن لے: اِس مرتبہ قربان کیے گئے جانوروں کی آلائشیں بروقت اٹھا لی گئیں، اس عید پر کسی علاقے میں گندگی کے ڈھیر دکھائی نہیں دیے!‘‘
’’میں تجھ پر طنز کررہا ہوں نہ ہی تجھے آڑے ہاتھوں لے رہا ہوں۔ سیدھی بات تجھے سمجھ بھی تو نہیں آتی، اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ کوئی دوسرا لطیفہ سنا، لیکن تُو اپنے تئیں بڑا نامہ نگار بنا ہوا ہے۔ جہاں تک آلائشیں اٹھانے کی بات ہے اس موضوع پر پھر بات کریں گے، ابھی کے الیکٹرک تک محدود رہ۔‘‘
’’تیرا کیا خیال ہے… اخبار پڑھنا، خبریں سننا اور حالات سے باخبر رہنا… سب چھوڑ دوں؟‘‘
’’مجھے بھلا کیوں اعتراض ہونے لگا! میری بلا سے، تُو جاکر کسی چینل کو جوائن کرلے، اس سے مجھے کیا فرق پڑتا ہے! میں تو اس جھوٹی خبر کی بات کررہا ہوں جو تُو مجھے مسلسل سنائے جارہا ہے۔‘‘
’’چھوڑ یار بحث نہ کر، تجھ سے تو کسی بھی موضوع پر بات کرنا فضول ہے۔‘‘
’’اچھا سچ کہہ دیا تو برا لگ گیا!‘‘
’’کون سا سچ؟‘‘
’’سچ سننا ہے تو سن۔ میرے والد کہا کرتے تھے کہ بیٹا بڑی عید پر جب بھی قربانی کا جانور لینے جائو تو دانت دیکھنے سے پہلے اس کے سینگوں پر نظر ڈال لیا کرو، بڑے سینگوں والا جانور دو دانت کا نہیں ہوتا، یعنی جس کے بڑے بڑے سینگ نظر آرہے ہوں اس کے دانت دیکھنے کی کیا ضرورت! یہی کے الیکٹرک کا بھی حال ہے۔ ظاہر ہے جب ہم کو اُن کے کرتوت دکھائی دیتے ہیں تو اُن کی جانب سے اخبارات کو جاری کردہ پریس ریلیز پڑھ کر اپنا خون کیوں جلائیں!‘‘
’’اچھا تم اپنا خون نہ جلاؤ، کوئی دوسری بات کرلو۔“
’’نہیں نہیں، اب تو یہی بات ہوگی، ان جھوٹوں کا ہی ذکر ہوگا۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں ایسے بیانات دینے سے حقیقت نہیں چھپائی جاسکتی۔ کون نہیں جانتا کہ کراچی میں کے الیکٹرک کی جانب سے برسوں پہلے شروع کیا جانے والا لوڈشیڈنگ کا سلسلہ کسی وقفے کے بغیر اب تک جاری ہے۔ عید ہو یا شب برات، سردی ہو یا گرمی… ان کے معمول میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ صبح، دوپہر، شام کسی ڈاکٹری نسخے کے مطابق بجلی کی بندش یہاں کا معمول بن چکا ہے۔ اس عرصے میں خوش خبریاں تو بہت دی گئیں لیکن فقط اعلانات کی حد تک… ہر تہوار پر لوگوں کو بجلی بند نہ کرنے کی تسلی ضرور دی جاتی ہے مگر علاقے میں خرابی کے نام پر گھنٹوں بجلی بند کردی جاتی ہے۔ لوگوں کو اذیت دینا اس ادارے کا پرانا وتیرہ ہے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ دنیا کے درجنوں ممالک سے بڑے اور پاکستان کو سب سے زیادہ ریونیو کماکر دینے والے شہر کو کے الیکٹرک نے بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم کررکھا ہے۔ ماضی میں کے الیکٹرک انتظامیہ کی جانب سے ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ کراچی میں بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کی بڑی وجہ شہر کا پرانا بوسیدہ ترسیلی نظام ہے جس کی وجہ سے یہاں کے عوام کو لوڈشیڈنگ جیسی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ پھر ترسیلی نظام میں بہتری کے نام پر سارے ہی شہر میں نصب تانبے کے تاروں کو تبدیل بلکہ چوری کرکے سلور کے ناقص ترین تار لگا دیے گئے۔ اُس وقت بھی شہریوں نے کے الیکٹرک انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی واردات یا تانبے کی اس بڑی چوری کے خلاف خاصا احتجاج کیا تھا، لیکن کسی حکومت یا کسی بااختیار ادارے کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یوں گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے، یعنی اپنے ہی لوگوں نے اپنے ہی محکمے میں، وہ بھی دن دہاڑے، کھربوں روپے کی ڈکیتی ماری اور کسی نے پوچھا تک نہیں، جبکہ تانبا چوری کرنے کا سلسلہ مہینوں تک جاری رہا۔‘‘
’’بھائی میں نے تو بس یونہی ایک خبر پڑھ کر سنائی تھی، تم تو تمام تاریخ ہی لے کر بیٹھ گئے ہو۔‘‘
’’توبہ کرو، میں تاریخ بیان نہیں کررہا۔ اور ویسے بھی اس حوالے سے کراچی کی تاریخ بہت روشن ہے، اسی لیے یہ شہر عروس البلاد کہلاتا تھا۔ جس دور میں بجلی نہیں تھی، یعنی 1847ء میں بھی اس شہر کی سڑکوں کو روشن کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر ایک بورڈ بنایا گیا تھا جس نے خاصے غور و خوض کے بعد شہر کی سڑکوں کو روشن رکھنے کے لیے سڑکوں کے کنارے ناریل کے تیل سے جلنے والے لیمپ نصب کروائے۔ ان لیمپوں کو روشن رکھنے کے لیے زمین کے اندر تیل کی ایک چھوٹی سی ٹنکی بنائی گئی، جبکہ لیمپ 5 سے 6 فٹ کی اونچائی پر نصب کیے گئے، میونسپلٹی کے اہلکار صبح کے اوقات میں ان کی چمنیاں صاف کرکے ان میں تیل بھرا کرتے تھے، جبکہ رات کو انہیں دوسرے اہلکار روشن کرنے کے لیے آیا کرتے تھے۔
بجلی آجانے کے باوجود 1925ء تک کراچی کی سڑکوں پر بجلی کے بلبوں کے ساتھ تیل اور پیٹرول سے جلنے والے لیمپ استعمال ہوتے رہے۔ اُس وقت تیل سے جلنے والے لیمپوں کی تعداد 1196،پیٹرول سے جلنے والے لیمپ 325، کٹسن لیمپ 261،بجلی کے بلب 338 تھے، اور مجموعی طور پر شہر کی سڑکوں اور چوراہوں کو روشن رکھنے کے لیے 2195 بلب، گیس بتیاں اور لالٹین روشن کی جاتی تھیں۔ 1945ء تک شہر میں 240 سے 245 یونٹ تک بجلی استعمال ہوتی تھی۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ 1970ء کی دہائی تک ہمارے علاقے میں بھی ایک بوڑھا شخص سڑک کنارے بجلی کے کھمبوں پر لگے بلبوں کو باقاعدگی سے روشن کیا کرتا تھا، بلب روشن کرنے کے لیے اُسے الگ الگ بٹن آن کرنا پڑتے۔ یہی کچھ کرتا ہوا وہ میلوں دور نکل جاتا۔ یہ اس کی ڈیوٹی تھی۔ جبکہ آج کے الیکٹرک کی راشی انتظامیہ کی بدولت عروس البلاد کہلانے والے شہر میں اندھیروں کا راج ہے، اور نااہل افسران بڑھتی ہوئی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ پر اپنا بھونڈا مؤقف دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جہاں بجلی چوری ہوتی ہے اُن علاقوں میں لوڈشیڈنگ جاری رہے گی۔ یعنی غریب بستیوں میں کی جانے والی لوڈشیڈنگ وہاں بسنے والے لوگوں کے لیے بدترین سزا ٹھیری۔ عجیب منطق اور فلسفہ ہے کہ اگر کچھ لوگ بجلی چوری میں ملوث ہیں بھی، تو بجائے اُن کے خلاف محکمانہ کارروائی کرنے کے، اس کی سزا باقاعدگی سے واجبات ادا کرنے والوں کو بھی دی جارہی ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ آپ کے پڑوس میں کوئی ڈکیت گروپ آکر آباد ہوجائے اور پولیس انہیں گرفتار کرنے کے بجائے یہ اعلان کرنا شروع کردے کہ چونکہ آپ کے محلے میں ڈاکو رہتے ہیں اس لیے یہاں اب ہر روز گھر لوٹے جائیں گے۔
حالیہ سخت ہوتے موسم میں بڑھتی ہوئی گرمی پر کے الیکٹرک کی جانب سے عوام کو دی جانے والی اذیت کو ہی دیکھ لو، جوں جوں موسم تیور بدل رہا ہے، کے الیکٹرک کے فیڈر بھی دم توڑتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے آئے دن لانڈھی، کورنگی، ملیر، ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، لیاری اور لیاقت آباد سمیت کئی علاقے تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں، جبکہ گرمی بڑھنے کے ساتھ لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس بدترین صورتِ حال میں جبکہ محکمہ موسمیات کی جانب سے ہیٹ ویو کی وارننگ بھی جاری کردی گئی ہے، بجائے عوام کو ریلیف پہنچانے کے، کے الیکٹرک انتظامیہ ’’لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کسی بھی قسم کا کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ بجلی کی ترسیل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے، اگر کہیں بجلی کی بندش ہے تو وہ علاقائی فالٹ ہیں جن کی درستی کے لیے کے الیکٹرک کا عملہ ہمہ وقت مصروفِ عمل رہتا ہے‘‘ جیسے سفید جھوٹ بول کر اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے، جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔کراچی میں رہنے والے جانتے ہیں کہ 2015ء میں جب ہیٹ ویو کے دوران بحیرۂ عرب کے گہرے سمندروں میں بھارتی علاقے رن آف کچھ کے نیچے ہوا کے کم دباؤ کے باعث سمندرکی جنوب مغربی ہوائیں مکمل طور پر بند ہوگئی تھیں تو اُس وقت بھی کے الیکٹرک کی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ہی کراچی میں ہزاروں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔‘‘
’’میرے یار تم نے اتنا لمبا چوڑا لیکچر دے ڈالا ہے۔یہ باتیں کون نہیں جانتا! تم بالکل درست کہہ رہے ہو،لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں! جو بااختیار ہیں وہ بھی بے بس ہیں۔میں جانتا ہوں کہ کے الیکٹرک باقاعدہ ایک مافیا ہے،ناجائز بلنگ کی صورت میں غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالتا ہے،شہر میں لگائے جانے والے ڈیجیٹل میٹروں کو اپنی مرضی ومنشا کے تحت چلانے کی تمام سائنسی کمانڈ پر بھی عبور رکھتا ہے… سب ٹھیک،لیکن میرا سوال پھر وہی ہے کہ اس ساری صورتِ حال میں عوام کیا کرسکتے ہیں؟‘‘
’’میں مانتا ہوں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے، جو کچھ بھی کرنا ہے وہ حکومتوں کو ہی کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ہم آواز تو بلند کرسکتے ہیں، اپنی پریشانیاں اور اپنے مسائل بتا تو سکتے ہیں۔ اگر پچھلے حکمران کراچی کے عوام کے لیے کچھ نہ کرسکے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خاموش ہو بیٹھیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم مسلسل جدوجہد کرتے رہیں۔ ماضی کی حکمرانوں کی بات چھوڑو، وہ تو نیا پاکستان بناکر چلے گئے، اس حکومت کو جگا دو، ان دعویداروں، کرپشن سے پاک نظام کے قیام کی صدائیں بلند کرنے والوں تک ہی اپنی فریاد پہنچا دو، یہ آواز بلند کردو کہ اب جب کہ کے الیکٹرک کا معاہدہ ختم ہوچکا ہے حکومت کے الیکٹرک کو اپنی تحویل میں لے کر اس کی سابقہ حیثیت کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کرے، ایک کمیشن بناکر چوری کیے گئے تانبے اور صارفین سے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام سے ناجائز طور پر وصول کی گئی رقم کا حساب لیا جائے، کے الیکٹرک کا آڈٹ کیا جائے۔ حکومت اس ڈکیت گروپ کو بائے بائے کہہ کر اس سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہ کرے، شہر کو کسی ایک کمپنی کے حوالے کرنے کے بجائے مختلف کمپنیوں کو بجلی کی ترسیل کی اجازت دی جائے۔ ایسے اقدامات سے ہی ملک سے باہر بیٹھے ظالموں اور جابروں سے غریب پرور شہر کراچی کے باسیوں کو نجات مل سکے گی، بصورتِ دیگر کراچی کو مزید اندھیروں میں دھکیلا جاسکتا ہے۔‘‘