یقین اور بے یقینی

705

 

یہ خیال عام ہے کہ ممکن اور ناممکن کا تعلق مادی وسائل سے ہے۔ لیکن یہ خیال جتنا عام ہے اس سے زیادہ غلط ہے۔ ممکن اور ناممکن کا تعلق مادی وسائل سے نہیں، انسان کے یقین اور بے یقینی سے ہے۔ جہاں یقین موجود ہوتا ہے وہاں ناممکن بھی ممکن ہوجاتا ہے، اور جہاں یقین موجود نہیں ہوتا وہاں ممکن بھی ناممکن بن جاتا ہے۔

ایمان یقین کی اعلیٰ ترین صورت ہے اور ایمان کے معجزات سے مذاہب کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے خانہ کعبہ تعمیر کرچکے تو اللہ تعالیٰ نے کہاکہ اے ابراہیم اب تم پوری انسانیت کو کہو کہ وہ اللہ کے گھر کا حج کرے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: یااللہ یہ کیسے ممکن ہے؟ بھلا میں ساری انسانیت تک آپ کا پیغام کیسے پہنچا سکتا ہوں؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: صدا لگانا تمہارا کام ہے، صدا کو سارے انسانوں تک پہنچانا ہمارا کام ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس ارشادِ باری تعالیٰ کے بعد کامل ایمان کے ساتھ صدا لگائی، اور روایات میں آیا ہے کہ دنیا کے ایک ایک فرد نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز کو محاورتاً نہیں واقعتاً سنا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب منجنیق کے ذریعے آتشِ نمرود میں پھینکا گیا تو منجنیق اور آگ کے درمیانی فاصلے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ کہیں تو میں آپ کی مدد کروں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: میرا رب میری آرزو کو خوب جانتا ہے۔ اور پھر یہ بات پوری انسانی تاریخ پر محیط ہوگئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان اور اللہ پر کامل توکل نے آتشِ نمرود کو گلزار بنادیا۔

حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے کا ذکر ہے کہ دریائے نیل خشک ہوگیا۔ رواج تھا کہ دریائے نیل کے خشک ہونے پر نوجوان لڑکی کی قربانی پیش کی جاتی تھی۔ لیکن اسلام نے انسانوں کی طبیعتوں کو یکسر بدل دیا تھا اور عہدِ جاہلیت کی تمام رسمیں اور رواج ترک کردیئے گئے تھے۔ چنانچہ لوگ حضرت عمرؓ کے پاس تشریف لائے اور اپنی تکلیف کا ذکر کیا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے دریائے نیل کے نام ایک ذاتی خط تحریر فرمایا۔ آپؓ نے لکھا: اے نیل اگر تُو کسی اور کے حکم سے رواں ہوتا ہے تو خشک پڑا رہ، لیکن اگر تُو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رواں ہوتا ہے تو جاری ہوجا۔ لوگوں نے حکم کے مطابق حضرت عمرؓ کا خط دریائے نیل میں پھینک دیا اور پھر چند گھنٹوں میں دریائے نیل جاری ہوگیا۔

حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ بھی مشہور ہے کہ آپؓ مسجدِ نبوی میں جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک آپؓ ٹھیرے اور آپؓ نے مدینے سے 300 کلومیٹر دور معرکہ آرا اسلامی لشکر کے سپہ سالار کا نام لے کر پکارا اور کہاکہ دشمن پہاڑ کی طرف سے آرہا ہے اس جانب توجہ کرو۔ آپؓ نے یہ فرمایا اور پھر خطبے میں مصروف ہوگئے۔ اسلامی لشکر لوٹا تو لشکر کے سپہ سالار نے گواہی دی کہ اس نے میدانِ جنگ میں حضرت عمرؓ کی آواز سنی اور ان کی ہدایت کے مطابق پہاڑ کی طرف دیکھا تو وہاں سے دشمن کو حملہ آور ہوتے پایا۔ اگر اس مرحلے پر اسلامی لشکر کے سپہ سالار تک حضرت عمرؓ کی آواز نہ پہنچتی تو معرکے میں مسلمانوں کو شکست ہوسکتی تھی۔

ایمان کیا، صرف یقین کی قوت بھی حیرت انگیز ہے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے، ٹیلی وژن پر افریقہ کے کسی ملک کی ایک مشہور جھیل کے بارے میں دستاویزی فلم پیش کی جارہی تھی۔ دستاویزی فلم کے میزبان نے معروف معنوں میں ’’جاہل‘‘ نظر آنے والے سیاہ فام افریقی سے کہاکہ جھیل کے بارے میں مشہور ہے کہ اس میں جل پریاں رہتی ہیں، اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ سیاہ فام افریقی نے ایک لمحے توقف کیا اور کہا: جب لوگ یقین کرتے تھے کہ جھیل میں جل پریاں ہوتی ہیں تو جھیل میں جل پریاں ہوتی تھیں، مگر اب اس بات پر کوئی یقین نہیں کرتا اس لیے جھیل میں اب کوئی جل پری نہیں پائی جاتی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ایمان کو قوت کہاں سے فراہم ہوتی ہے اور اس میں کمزوری کہاں سے نمودار ہوتی ہے؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ان کے حواریوں نے پوچھا: آپ پانی پر کیسے چل لیتے ہیں؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ایمان کی قوت سے۔ حواریوں نے کہا: ایمان تو ہمارے پاس بھی ہے۔ یہ سن کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پانی میں ہاتھ ڈالے، ہاتھ باہر نکلے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک ہاتھ میں اشرفیاں تھیں اور دوسرے ہاتھ میں کنکریاں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: تم لوگوں کے نزدیک ان میں قیمتی چیز کون سی ہے؟ حواریوں نے کہا: اشرفیاں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اشرفیاں اور کنکریاں پانی میں پھینک دیں اور فرمایا: میرے لیے یہ دونوں برابر ہیں۔

اس روایت کا مفہوم واضح ہے۔ ایمان کی قوت کا ظہور اس وقت ہوتا ہے جب اہلِ ایمان کے لیے اللہ ہی کافی ہوجائے اور دنیا کی ہر شے پر انسان کا انحصار ختم ہوجائے اور پوری دنیا انسان کی نظر میں حقیر ہوجائے۔ دوسری جانب ایمان کی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی درجے میں دنیا کی رغبت پیدا ہوجائے۔ دنیا کی رغبت جیسے جیسے بڑھتی ہے ایمان کی کمزوری میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ گناہ، اور مذہب سے انحراف کی ہر صورت ایمان میں کمی اور کمزوری کا باعث ہوتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ یقین کے معنی کیا ہیں؟

اردو کے تین لفظوں یعنی خواہش، آرزو اور تمنا سے اس امر کی وضاحت میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ اردو میں خواہش، آرزو اور تمنا ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان کے معنی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خواہش انسانی وجود کے کسی ایک حصے کے تقاضے کے سوا کچھ نہیں، یہی وجہ ہے کہ خواہش پائیدار نہیں ہوتی۔ وہ تیزی سے پیدا ہوتی ہے اور سرعت کے ساتھ فنا ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس آرزو وجود کے ایک سے زائد گوشوں پر محیط ہوتی ہے اور اس میں خواہش کے مقابلے میں زیادہ پائیداری ہوتی ہے۔ خواہش متضاد بھی ہوسکتی ہے لیکن آرزو میں تضاد کی صورت کم ہوتی ہے۔ ان دونوں کے مقابلے میں تمنا پوری وجود کی ترجمان اور علامت ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسانی وجود کا کوئی تقاضا پورے وجود پر حاوی ہوگیا ہے، یعنی وہ روح کا مطالبہ ہے، دل کا تقاضا ہے اور ذہن کی طلب ہے۔ تمنا تضادات سے پاک کیفیت ہے اور مذہبی معنوں میں اسی سطح پر جاکر ایمان کامل ہوتا ہے اور غیر مذہبی معنوں میں اسی مقام پر یقین مکمل اور پختہ ہوتا ہے۔

ایمان پوری انسانیت کی مشترکہ میراث نہیں البتہ یقین کی دولت غیر مذہبی لوگوں کو بھی فراہم ہوتی ہے، لیکن اس یقین کی شرط یہ ہے کہ خواہش ترقی پاکر تمنا بن جائے۔ خواہش کے تمنا بننے کا عمل ہوس کے عشق بننے کا عمل ہے۔ دنیا میں عبقری انسانوں یعنی Geniuses کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنے کام میں اتنے غرق ہوتے ہیں کہ ان کا کام ان کی زندگی کی واحد دلچسپی بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں اس سرگرمی میں صبح شام کی تمیز اور کھانے پینے کا خیال نہیں رہتا۔

آئن اسٹائن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ اپنے کام میں اتنا مصروف ہوتا کہ کئی کئی ہفتوں تک اسے شیو بنانے اور کپڑے بدلنے کا خیال نہیں آتا تھا۔ وہ اکثر کھانا کھانا بھول جاتا تھا۔ وین گوف جدید مصوری کا امام ہے۔ فطری مناظر اس پر دیوانگی طاری کردیتے تھے۔ وہ بسا اوقات رکے بغیر چوبیس چوبیس گھنٹے تصویریں بناتا رہتا۔ اس دوران اسے نہ نیند آتی تھی، نہ بھوک محسوس ہوتی تھی۔ یہ خواہش کے تمنا بن جانے کی مثالیں ہیں۔ یہ انہماک مذہبی دائرے میں ہو تو معجزے رونما ہوتے ہیں۔ یہ اہتمام صرف یقین کے دائرے میں ہو تو ایجاد و تخلیق کے بڑے بڑے کارنامے وجود میں آتے ہیں۔ اسی لیے اقبال نے کہا ہے:
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

حصہ