حیات رضوی امروہوی کی رہائش گاہ پر مشاعرہ

حیات رضوی امروہوی شاعر اور ادیب ہیں‘ گزشتہ ہفتے انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر مسلم شمیم ایڈووکیٹ کی صدارت میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں ڈاکٹر جاوید منظر مہمان خصوصی تھے۔ حامد علی سید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ الحاج نجمی نے تلاوت کلام مجید کے ساتھ ساتھ مشاعرے کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ شعرائے کرام سے ملاقات کے لیے ان کے گھروں پر جا رہے ہیں تاکہ نظرانداز شعرا کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ضرورت مند قلم کاروںکی مدد کریں۔ حیات رضوی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ وہ اب 83 برس کے ہو گئے ہیں لیکن وہ اردو ادب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ کچھ دوستوں سے ملاقات ہو جائے لہٰذا میں نے یہ مشاعرہ ترتیب دیا ہے۔ ہمارا رسالہ عمارت کار 15 سال سے بلاتعطل شائع ہو رہا ہے لیکن اب پبلشنگ کے مسائل بڑھ گئے ہیں اور مہنگائی کے سبب رسالے کی اشاعت جاری رکھنا ممکن نہیں ہے لہٰذا میں 30 واں شمارہ کے بعد یہ پرچہ بند کر دوں گا تاہم آن لائن کام جاری رہے گا۔ مسلم شمیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے۔ شعرائے کرام ایک اہم طبقہ ہے‘ یہ قلم کار معاشرے کی ترقی و تنزلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس طبقے کی عزت کریں‘ ان کے مسائل کے حل میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا کہ زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مشاعرے بھی بہت اہم ہیں‘ مشاعرے ہمارے ذہنی آسودگی کا ذریعہ ہیں۔ مشاعرے میں مسلم شمیم ایڈووکیٹ‘ ڈاکٹر جاوید منظر‘ حیات رضوی‘ علی اوسط جعفری‘ اختر سعیدی‘ فیاض علی فیاض‘ زاہد حسین جوہری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ صفدر علی انشا‘ احمد سعید خان‘ محمد علی زیدی‘ سرور چوہان‘ کاشف رضا‘ حامد علی سید اور ذوالفقار علی پرواز نے اپنا کلام پیش کیا۔
فاطمہ زہرہ جبیں کا شعری مجموعہ

’’خوشبو جیسا دل‘‘ شائع ہوگیا
ادبی تنظیم نیاز مندانِ کراچی کے زیر اہتمام فاطمہ زہرہ جبیں کا تازہ ہائیکو مجموعہ ’’خوشبو جیسا دل‘‘ شائع ہوگیا۔ ’’خوشبو جیسا دل‘‘ فاطمہ زہرہ کی بہترین کاوش ہے جسے پڑھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ تخلیق کار پختہ شاعرہ ہیں‘ زندگی کے احساسات و مشاہدات پر مبنی یہ شعری مموعی ایک ناقابل فراموش کتاب ہے۔ فاطم زہرہ کے اشعار میں فلسفیانہ گہرائی اور گیرائی موجود ہے۔ انہوں نے زندگی کے گمبھیر مسائل کو آسان لفظوں میں بیان کر دیا ہے‘ ان کی شاعری سہل ممتنع کی شاعری ہے ان کے ہر شعر سے فنی پختگی ظاہر ہو رہی ہے انہوں نے ہائیکو کے لیے بہترین موضوعات کا انتخاب کیا ہے‘ ان کی ہائیکو غزل کی غنائیت اور جمالیاتی کیفیت کی عکاس ہیں۔ انہوں نے اپنی ہائیکو میں اپنی داخلی اور خارجی کیفیات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے ہاں نسوانی مسائل بھی نظر آتے ہیں‘ غم جاناں اور ذاتی دکھوں کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں سماجی اور معاشی حالات و مسائل بھی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے بہت سادہ زبان استعمال کی ہے‘ ان کی شاعری کا ابلاغ ہو رہا ہے انہوں نے ہائیکو کے مروجہ پیمانوں سے رو گردانی نہیں کی بلکہ وہ اردو غزل کے مضامین کے ساتھ ہائیکو کے میدان میں قدم جمائے کھڑی ہیں۔ اس کتاب میں حمد‘ نعت‘ منقبت کے علاوہ نظم اور غزل کے پیرائے میں ہائیکوز موجود ہیں یہ کتاب اردو ادب میں گراں قدر سرمایہ ہے۔

مشاعرہ بحوالہ ’’یومِ خندق‘‘
گزشتہ ہفتے پاکستان ورکرز ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ گلشن اقبال کی جانب سے یومِ خندق اور مزدور کی عظمت کے حوالے سے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کے محرک ممتاز مزدور رہنما پرویسر محمد شفیع ملک تھے‘ مشاعرے کی صدارت رفیع الدین راز نے کی۔ خالد عرفان بحیثیت مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ مشاعرہ کمیٹی کے کنوینر معروف شاعر و ادیب اور صحافی عطا محمد تبسم بھی اسٹیج کی زینت تھے۔ نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دیے۔ حافظ محمد نعمان طاہر نے تلاوت اور نعت پیش کی۔ وی ٹرسٹ کے چیئرمین پروفیسر محمد شفیع ملک نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ہمارے مشاعرے کا موضوع ’’جنگِ خندق‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’یومِ خندق‘‘ ہے جب ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ کر ایک عام مزدور کی طرح خندق کی کھدائی میں حصہ لیا یہ دن اسلام کی طرزِ حکمرانی کا ایک علامتی اظہار ہے۔ جن شعرائے کرام نے موضوعاتی مشاعرے میں اپنا کلام پیش کیا ان میں رفیع الدین راز‘ خالد عرفان‘ عطا محمد تبسم‘ انور انصاری‘ جمال احمد جمال‘ یامین وارثی‘ اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ طاہر سلطان‘ شارق رشید‘ نسیم شیخ‘ شاہد اقبال شاہد‘ احمد اقبال‘ نورالدین نور‘ آسی سلطانی‘ اکرم رازی‘ نظر فاطمی‘ کامران صدیقی‘ عقیل عباس اور زبیر صدیقی شامل تھے۔ یہ ایک یادگار مشاعرہ تھا۔ ایسے موضوعاتی مشاعرے انسان کی ذہنی اور فکر نشوونما میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ وی ٹرسٹ کے وائس چیئرمین سلمان اشرف نے کلماتِ تشکر ادا کرکے ہوئے کہا کہ ہم اسلامی موضوع کے تحت مشاعرہ کر رہے ہیں تاکہ مزدور کی عظمت نمایاں ہو سکے۔ رفیع الدین راز نے کہا کہ آج کے مشاعرے سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوا ہے اب موضوعاتی مشاعرے اور طرحی مشاعروں کا چلن کم ہو گیا ہے۔

حصہ