ذوالحجہ میں ’’ح‘‘ پر زیر بھی پڑھی گئی ہے ، لیکن میں کہتا ہوں کہ زبر پڑھنا بھی ٹھیک ہے ؛ کیونکہ اس مہینے میں حج کیا جاتا ہے اس لیے اس مہینے کا نام ذو الحجہ ہے ، اس کی جمع: ’’ذوات الحجۃ‘‘آتی ہے ۔ ایک اعداد وشمار کے مطابق 1920ء میں 58,584 حجاج تھے اور موجودہ 2023 ء میں سرکاری اعلامیہ کے مطابق 1’626’500حجاج حج کررہے ہیں ۔
…٭…
٭ حضور ؐ کی شام روانگی : 25عام الفیل ،رسول ؐحضرت خدیجہؓ کی تجارت کی غرض سے شام کی طرف روانہ ہوئے ان کے ساتھ حضرت خدیجہ ؓ کے غلام میسرہ بھی تھے۔اسی سفر میں ایک عیسائی راہب سے راستہ میں ملاقات ہوئی جس نے آپ ؐ کو نبوت کی بشارت دی۔
٭حضرت عبداللہ ؓبن زبیر : پیدائش کے بارہ میں روایات مختلف ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یکم ہجری میں پیدا ہوئے اوربعض سے ۲ ھ ظاہر ہوتا ہے ،پہلی روایت زیادہ مستند ہے، تاریخ اسلام میں آپ کی پیدائش کو اس لئے غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کہ مہاجرین کے مدینہ آنے کے بعد عرصہ تک ان میں سے کسی کے اولاد نہیں ہوئی اور یہودیوں نے مشہور کردیا کہ مسلمانوں کی انقطاع نسل کے لئے انہوں نے سحر کردیا ہے، عین اسی شہرت کے زمانہ میں ان اوہام باطلہ کی تردید کے لئے حضرت عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے ، اس لئے مسلمانوں کو آپ کی پیدائش سے غیر معمولی مسرت ہوئی، آپ کی والدہ محترمہ نومولود فرزند کو لے کرآنحضرت ؐ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئیں اور ان کی آغوش رسالت میں دے دیا، آپ نے گود میں لے کر خیر و برکت کی دعا کی اور تبرکاً کھجور چباکر اس نومولود کے منہ میں ڈالے، اس طرح دنیا میں آنے کے بعد اس مائدہ عالم سے سب سے پہلے جو نعمت عبداللہ کے منہ میں گئی وہ آنحضرت ؐ کا لعاب دہن تھا۔
٭ بعت العقبہ الثانی : 13نبوت ،وعدہ کے مطابق مدینہ کے انصار دوسرے سال بھی منٰی میں ایام تشریق میں اسی جگہ ملے ان میں 73مرد اور دو عورتیں تھیں جنہوں نے اسلام اور بیعت کا شرف حاصل کیا۔
٭سیدنا حضرت فاطمۃ ؓ بنت رسول ؐ کی رخصتی : رخصتی کے بارے میں بھی مختلف اقوال ہیں: (1) ذی القعدہ 2 ہجری ، (2) ذی الحجہ 2 ہجری،(3) ایک قول یہ ہے کہ آپ ؐ نے حضرت عائشہ رضی تعالیٰ عنہ سے رخصتی کے ساڑھے چار ماہ بعد ، حضرت فاطمہؓ کا نکاح کیا، اور نکاح کے بعد ساڑھے نو ماہ بعد ان کی رخصتی کی ہے، اور حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی ہجرت کے پہلے سال شوال کے مہینے میں ہوئی۔
٭غزوہ السویق : 2ھ اس کو غزوہ سویق اس لیے کہا جاتا ہے کے مسلمانوں کو مالِ غنیمت میں بیشتر توشہ ستو ہاتھ آیا۔ واقعہ یوں ہے کہ جنگ بدر میں کفار مکہ کے بڑے بڑے سردار ہلاک ہوے تھے جس کی وجہ سے مکہ کے لوگ بہت مضطرب تھے اور دوسو شتر سواروں کے ہمراہ اس وقت کے سب سے بڑے سردار ابو سفیان کی سربراہی میں مدینہ منورہ کی طرف نکلے‘ اس جنگ کے لیے ابو سفیان کو خاصا بھروسہ تھا کہ وہاں کے یہودی اس کی حمایت میں نکلیں گے لیکن کویٔی بھی نہ نکلا ادھر 5 ذوالحجہ کو اتوارکے دن حضور رؐ دو سو سواروں کو ہمراہ نکلے لیکن اللہ تعالیٰ نے کفار پر ایسا رعب ڈال دیا کے وہ سر پر پائوں رکھ کر اور اپنا بوجھ ہلکا کرنے کی غرض سے ستو کی بوریاں گراتے گئے ۔
٭ ولادت ابراہیمؓبن رسول اللہؐ : 8ھ میں حضرت ماریہؓ قبطیہ کے بطن سے بیٹے کی ولادت ہوئی اور آپ ؑ نے اپنے جد اعلیٰ سید نا ابراہیمؑ کے نام پر اپنے صاحب زادہ کا نام اباھیم رکھا۔ ساتویں دن عقیقہ کے دو مینڈھے ذبح کئے اور صاحب زادے کے سر کے بال اتارنے کا حکم فرمایا سیدنا جبرئیل ؑ نے آنحضرتؐ کو ’’السلام علیکہ یا ابا ابراہیم ‘‘ کے خطاب سے سلام عرض کیا۔دو سال بعد ابن رسولؐ کی وفات ہوگئی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے ۔
٭ حجہ الوداع : 10ھ، آپؐؐ نے ہجرت کے بعد صرف یہی ایک حج کیا جو حجۃ الوداع ،حجۃ الاسلام،حجۃ البلاغ ، حجۃالتمام اور حجۃ الکمال کہلاتا ہے۔ حضور ؐ نے حج پر عمرہ کا احرام باندھ کر قران کیا ۔آپؐ کے ہمراہ حضرت فاطمہ الزہرہؓ اور ازواج مطہرات بھی تھیں ۔آپؐ نے اپنی اونٹنی’’ قصوا‘‘پر سوا ر ہو کر وقوف عرفات کیا۔ میدا ن عرفات میں جبل رحمہ کے پاس ایک عظیم و بلیغ خطبہ دیا جس میں احکام حج اور شرائع اسلام کی تعلیم دی ۔او ر اس میں فرمایا کے جاہلیت کے سب خون ساقط ہیں ، نیز جاہلیت کے تمام سود ختم کئے جاتے ہیں۔ دوران خطبہ ’’المائدہ‘‘ کی آیت کریم نازل ہوئی (ترجمہ) ’’آج کے دن دین کو تمہارے لیے کامل کر دیا اور میں نے تم پر اپنا انعام پورا کر دیا۔ یومِ النحر کو رمی جمرہ اور خطبہ کے بعد آپؐ نے اپنی عمر کے برابر اپنے دست مبارک سے 63 اونٹ نحر فرمائے ۔
٭ حج ابی بکر ؓ صدیق 12ھ : غزوہ تبوک کے بعد حضورؐ نے ذوالقعدہ 9 ھ میں تین سو مسلمانوں کا ایک قافلہ مدینہ منورہ سے حج کے لیٔے روانہ کیا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ’’امیر حج‘‘ مقرر کیا اور حضرت علی ؓ کو ’’نقیب اسلام‘‘ اور ساتھ ہی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ و حضرت جابر با عبداللہ ؓ و حضرت ابو ہریرہ ؓ تعالی عنہما کو معلم بنادیا ۔ اپنی طرف سے قربانی کے لیے بیس اونٹ بھی بھیجے۔ حضرت ابی بکر صدیق ؓ نے حرم مکہ شریف ‘ عرفات اور منیٰ میں خطبہ پڑھا۔
٭شام پر فوج کشی کا فیصلہ : حضرت ابو بکرؓ 12ھ میں شام پر فوج کشی کا فیصلہ کیا اور شام کی سرحدات پر مختلف دستے روانہ کیے ۔حضرت عمر ؓ بن عاص کو فلسطین ،حضرت یزیدؓ بن ابی سفیان کو دمشق،حضرت ابی عبیدہؓ کو حمص اور حضرت شرجیل بن حسنہ ؓ کو اردن پر مامور کیا۔ حضرت ابو عبیدہؓ اس تمام لشکر کے سپہ سالارمقرر ہوئے۔ ان تمام افواج کی متحدہ تعداد27 ہزار تھی ۔
٭ وادی عربہ : 12ھ حضرت یزید ؓ بن ابی سفیان معرکہ وادی عربہ (فلسطین) کی طرف مسلمانوں کی مدد کے لیے روانہ ہوئے جو حاکم فلسطین ’’سرجیوس‘‘سے بر سر پیکار تھے۔
٭ حضرت خالدؓ بن ولید : 12 ھ میں امیر المومنین سیدنا ابی بکر ؓ کے حکم پر عراق سے شام کی طرف مسلمان فوج کی مدد کے لیے روانہ ہوئے ۔(حضرت خالد بن ولید ؓ نے 125کے قریب جنگوں میں حصہ لیا اور کسی میں بھی شکست نہیں کھائی‘ وہ پیدائشی جنگجو سپاہی تھے‘ انھوں نے عربوں کے لیے جن علاقوں کو فتح کیا وہ اب بھی مسلمانوں کے پاس ہیں جبکہ باقی دیگر عالمی فاتحین نپولین ‘ چنگیز خان‘ تیمور لنگ اور ہٹلر نے جو علاقے فتح کیے وہ ان کی زندگی میں ہی یا بعد میں ان سے چھن گیے۔
٭ شہادت امیر المومنین عمر ؓ بن خطاب : 23ھ 25-4644 یا 26 ذوالحجہ بروز بدھ کو مدینے میں حضرت مغیرہ ؓ بن شعبہ کا ایک غلام (ابو لولو) نامی پارسی تھا۔ اس نے عمر ؓ کو نماز کی امامت کے لیے آگے بڑھتے ہوئے چھ وار کیے اور ساتھ ہی خود بھی خودکشی کر لی۔ آپ ؓ کا یکم محرم 24ھ کو انتقال ہوا۔ (یہ مجوسی ایک مرتبہ امیرالمومین حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پا س اپنے مالک ی شکایت لے کر آیاتھا کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں تو آپ اس میں کمی کرادیجیے۔ امیر المومنین نے فرمایا کہ تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمھارے لیے زیادہ نہیں ہیں۔
٭انتخاب امیر المو منین سیدنا عثمان غنیؓ : 23ھ میں سیدنا عمر ؓ نے وفات سے قبل امیر المومنین کے لیے چھ اشخاص نامزد فرمائے۔ ان میں حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، عبدالرحمٰن ؓ بن عوف،حضرت طلحہؓ‘ حضرت زبیرؓ بن عون اور سعد ؓبن ابی وقاص تھے۔ اور آخر می میں حضرت عثمان ؓ کے حق میں فیصلہ ہو گیا ۔آپ ؓ بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے۔
٭ شہادت سیدنا عثمان ؓ ؓ غنی بن عفان : یوم الجمعہ18ذو الحجہ 35ھ 4656ء کو آپؓ کی شہادت ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 82 برس تھی اور ان کی ولایت 11سال 11مہینے اور اٹھارہ دن رہی۔ آخر زمانہ زبردست شورش اور فتنوں کا شکار رہا آپؓ گھر میں محصور کر دیے گئے۔ بلوائی گھر کی دیواریں پھلانگ کر داخل ہو گئے۔ ذوالنورین کو شہید کر ڈالا جس کے بعد آج تک مسلمان آج تک یکجا نہ ہو سکے ۔
٭ بیعت سیدنا علیؓ بن ابی طالب کرم اللہ وجہ25 ذوالحجہ 35ہجری ،حضرت عثمان کی شہادت کے تین دن تک مدینہ میں بلوائیوں کی حکومت رہی۔ ان کا سردار غافقی بن حرب نمازوں کی امامت کرتا رہا اور اعلان کیا کے دو دن میں خلیفہ کا انتخاب کر لیا جائے۔ لوگ حضرت علیؓ کی طرف بڑھے آپ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا ’’امیر ہونے کے مقابلے میں وزیر ہونا مجھے زیادہ پسند ہے۔‘‘ لیکن لوگو ں کے اسرار پر آپ رضامند ہوگئے۔ سب سے پہلے مالک اشتر نخصی نے بیعت کی ۔حضرت طلحہ ؓ بن عبیداللہ (اسلام قبول کرنے والے پہلے آٹھ صحابہؓ میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں شامل تھے۔) گو کہ خود بھی امید وار تھے لیکن انھوں نے اس شرط پر بیعت کی کے آپؓ حضرت عثمان ؓ کا قصاص لیں گے ۔ حضرت علیؓ آپؐ کے چچا ابو طالب کے صاحبزادہ تھے والد نے نام اسد رکھا آپ ؐ نے علی کا نام دیا ۔لقب حیدر (شیر) اور مرتضٰی (پسندیدہ) مقبول ہوئے ۔حضرت علی ؓ نے آنحضرتؐ کے زیر سایہ تربیت پائی اور جاہلیت کی تما م آلائشوں سے پاک رہے۔ طلوع اسلام کے وقت آپ کی عمر دس برس تھی بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا ۔ہجرت کے بعد 2ھ میں آپؓ کا نکاح آنحضرتؐ کی سب سے چھوٹی صاحب زادی فاطمہ ؓ سے ہوا۔
٭ پہلی بحری جنگ (دور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ) 28 ھ ذوالحجہ :
خلیفۃ المسلمین سیدنا عثمان ؓ غنی کی اجازت اور ان کی نصیحت کے مطابق حضرت معاویہ ؓ نے سیدنا عبد اللہ بن قیس الحارثی کو امیر البحر بنا دیا۔ انہوں نے سردی اور گرمی میں پچاس بحری لڑائیاں لڑیں، جن میں ایک آدمی بھی غرق نہ ہوا اور نہ ہی کسی کو کوئی مشکل پیش آئی۔ (طبری، ج 3، ص 317)
حضرت امیر معاویہؓ 28ھ میں پوری شان و شوکت، تیاری و طاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ ’’بحر روم‘‘ میں اتروایا ، لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کر لی، لیکن ان کی بدعہدی کے بعد سیدنا حضرت امیر معاویہؓ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ جس میں تقریباً پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے، قبرص (سائپرس) کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص (سائپرس) کو فتح کر لیا۔
٭حضرت ابو موسی ؓ اشعری کی وفات صحیحہ ذالحجہ44ھ : حضرت ابو موسیٰ اشعری کا نام عبد اللہؓ ابن قیس ہے مکہ معظمہ میں ایمان لائے پھر حبشہ ہجرت کر گئے پھر کشتی والوں کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے راہ میں خیبر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، حضرت عمرؓ فاروق نے آپ کو بیس ہجری میں بصرہ کا حاکم بنایا آپ نے اہواز کا علاقہ فتح کیا شروع خلافت عثمانیہ تک آپ بصرہ کے حاکم رہے،پھر حضرت عثمانؓ نے آپ کو معزول کرکے کوفہ کا حاکم بنادیا،آپ حضرت عثمانؓ کی شہادت تک کوفہ کے حاکم رہے۔ جنگ صفین کے موقع پر حضرت علی ؓ کی طرف سے ثالث مقرر ہوئے۔ لیکن جب مصالحت کی کوششیں ناکام ہوگئیں تو گوشہ نشین ہوئے بیمار پڑے ا ور بروایت صحیحہ ذالحجہ44ھ میں وفات پائی۔
٭قتیبہ بن مسلم : 48ھ میں اور خیال ہے کہ ذوالحجہ میں پیدا ہوے۔ ابن اشعث کے خلاف معرکہ آرائی میں حجاج بن یوسف نے ان کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ عبد الملک نے حجاج بن یوسف کے مشورے سے قتیبہ کو خراسان کا والی مقرر کر دیا جس نے ان کو اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع فراہم کر دیا اور اپنی انہی صلاحیتوں کی وجہ سے انھوں نے بنی امیہ کی سلطنت کو وسعت دے کر اپنا نام اہم سپہ سالاروں کی صف میں لا کھڑا کیا ۔ 87ھ میں قتیبہ بن مسلم نے اموی دور حکومت میں سمر قند کو فتح کیااور اس پر اسلام کا جھنڈا لہرایا۔ یہ سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے عہدخلافت میں ہونے والا ایک نہایت منفرد نوعیت کا واقعہ ہے قتیبہ بن مسلم اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور کے مشہور مسلم سپہ سالاروں میں سے ایک تھے، جنھوں نے ترکستان کی مہمات میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔قتیبہ فتوحات اور جہاد کے شوق میں چین کی سرحد تک جا پہنچے۔ ولید کا دور قتیبہ کی فتوحات اور ترقی کا دور تھا لیکن سلیمان بن عبدالملک کے دور میں حالات ایسے پیدا ہوئے کہ قتیبہ نے بغاوت کر دی۔ قتیبہ حجاج بن یوسف کے حامی تھے جبکہ سلیمان حجاج سے نفرت کرتا تھا اس لیے نے اس نے یزید بن مہلب کو قتیبہ کی جگہ خراسان کا والی مقرر کیا جو قتیبہ کی بغاوت کی وجہ ثابت ہوئی لیکن اس کی فوج نے اس کا ساتھ نہ دیا اور اسے قتل کر کے سر کاٹ کے ولید کے پاس بھیج دیا۔
موسیٰ بن نصیر بن عبدالرحمن بن زید لخمی ۔ فاتح اسپین ( ولادت 91ھ): تابعین میں سے تھے۔ انھوں نے مشہور صحابی رسول ؐ حضرت تمیمؓ داری سے احادیث روایت کی ہیں، لیکن ان کی وجہ شہرت مجاہدانہ کارنامے اور عدل و انصاف پر مبنی کامیاب حکمرانی ہے۔ ایک روایت کے مطابق وہ قبیلہ بنولخم سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی نسبت سے لخمی کہلاتے ہیں۔ عہد ِفاروقی میں شام کی ایک بستی میں ۹۱ھ میں ان کی ولادت ہوئی۔ ان کے والد حضرت معاویہؓ کے دامن سے وابستہ تھے۔بدقسمتی سے موسٰی کا انجام بھی نہایت اندوہ ناک ہوا۔ ولید بن عبدالملک نے موت سے قبل موسی کو دمشق واپس پہنچنے کے احکامات دیے تھے۔ موسیٰ بن نصیر مال غنیمت اور زر و جواہر کے ساتھ پایہ تخت واپسی کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔ ولید کے مرض الموت میں مبتلا ہونے کے بعد سلیمان بن عبدالملک کی خواہش تھی کہ موسی کا ورود دمشق میں ولید کی موت کے بعد اور اس کی اپنی تخت نشینی کے وقت ہو لیکن موسیٰ بن نصیر اپنے محسن اور مربی کی خدمت میں جلد از جلد حاضر ہوکر تحفے اور تحائف اور مال غنیمت پیش کرنا چاہتا تھا۔ لہذا سلیمان کی خواہش کے خلاف نہایت سرعت سے پایہ تخت پہنچا۔ ولید کی طرف سے موسیٰ کے بے حد عزت افزائی ہوئی۔ انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے سلیمان نے تخت نشین ہونے کے بعد موسیٰ کے تمام اعزازات اور مناصب سے یکسر محروم کر دیا۔