احمد جاوید کا ایک یادگار انٹرویو
(تیسری قسط)
طاہر مسعود: ایک پے چیدگی یہ بھی ہے کہ علما مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں‘ ان کے شدید مسلکی اور فقہی اختلافات کی موجودگی میں اجتہاد پر اجماع کیسے ہو؟ اس رکاوٹ کو آپ کے خیال میں کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟
احمد جاوید: میرے خیال میں علما کے لیے اجتہاد کی جو کمیٹی بنے گی اس کا تقرر حکومت کی طرف سے ہونا چاہیے۔ جو لوگ بھی انفرادی اور ملکی طور پر اجتہاد کرنا چاہیں‘ کریں۔ شرعی قانون سازی چونکہ حکومت کی ضرورت ہے‘ اس کے لیے علما کی ایسی جماعت ہونی چاہیے جن کو یہ ذمہ داری حکومت نے دی ہو۔ ہمارے ہاں اسلامی نظریاتی کونسل کی شکل میں بنا بنایا ادارہ موجود ہے۔ اس ادارے میں ضروری ترمیم کرکے اجتہاد کا کام لیا جاسکتا ہے۔
طاہر مسعود: پچھلے برسوں میں ہمارے ہاں اسلامی بینک کاری کا تجربہ کیا گیا۔ مفتی تقی عثمانی صاحب جو مفتیٔ اعظم پاکستان‘ مفسر قرآن‘ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ‘ مفتی محمد شفیع کے صاحب زادے‘ فیڈرل شریعت عدالت کے جج اور معروف دینی اسکالر ہیں‘ انہوں نے اپنے طور پر اجتہاد کرکے بلاسودی بینک کاری کا نیا دروازہ کھولا لیکن راسخ العقیدہ علما کا ایک بڑا طبقہ اسے تسلیم نہیں کرتا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں کے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے محض تقی عثمانی صاحب کے معیارِ تقویٰ ان کے علم و فضل اور خاندانی پس منظر کے پیش نظر اس اجتہاد پر اظہار اعتماد کیا ہے لیکن اب بھی ایک تعداد ایسی ہے جو گومگو کی کیفیت میں ہے کہ راسخ العقیدہ علما پر اس معاملے میں اعتماد کرے یا مفتی تقی عثمانی کے اجتہاد کو درست مانے۔ آپ اس قضیے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
احمد جاوید: اصولی بات تو یہ ہے کہ اجتہاد عالم کا قیاس ہوتا ہے جس میں غلطی کا امکان بہرحال ہوتا ہے۔ جہاں تک معاملہ تمام علما کے اتفاق کا ہے‘ کیا مسلمانوں کی تاریخ میں کوئی ایسا اجتہاد ہوا ہے جس پر سارے علما متفق ہوں۔ شاید کبھی نہیں۔ تقی عثمانی صاحب نے بینک کاری کی کچھ خاص صورتوں کو اسلامی قرار دیا ہے‘ اس پر ایک سنجیدہ بحث و مباحثے کی ضرورت ہے جس میں علما کے ساتھ ماہرین شریک ہوں۔ اس مباحثے کے بعد یہ کھل کر سامنے آجائے گا کہ تقی عثمانی صاحب کا مؤقف صحیح ہے یا نہیں۔
طاہر مسعود: پریشانی یہ بھی تو ہے کہ ہمارے ہاں کھلے مکالمے (Open Discussion) کی روایت موجود نہیں ہے۔ یہاں اختلاف کو پسند نہیں کیا جاتا خصوصاً دینی مسائل میں اختلاف کرنے والے کو لائق گردن زدنی سمجھا جاتا ہے۔
احمد جاوید: آپ کا خیال درست ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مکالمے کی تہذیب فنا ہو چکی ہے لیکن کچھ محدود دائروں میں مکالمے کی روایت کا احیا کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً کوئی دو چار ادارے خواہ وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری۔ اس قسم کے مسائل و موضوعات پر سیمینار کی ایک سیریز شروع کر دیںتوبھی ہمارا مقصد حاصل ہو جائے گا۔
طاہر مسعود: ہمارے پرانے معاشرے میں آج سے سو ڈیڑھ سو سال قبل جب کہ دین و مذہب کا اس قدر چرچا بھی نہیں تھا‘ نہ میڈیا سے وعظ و نصیحت ہوتی تھی‘ نہ اتنی بھانت بھانت کی مذہبی اور دینی تحریکیں و تنظیمیں تھیں‘ گھروں اور مسجد میں درسِ قرآن اور درسِ حدیث کی محفلیں ہوتی تھیں اور نہ مذہبی لٹریچر اس وسیع پیمانے پر چھپتے اور پڑھے جاتے تھے۔ اس کے باوجود ہمارا وہ معاشرہ دینی اور اخلاقی اعتبار سے نہایت اچھا اور پرسکون معاشرہ تھا۔ آج مذہب کا قرآن کی تفسیر و تشریح اور احادیث کی تعلیم کا ہر طرف پبلسٹی اور پروپیگنڈہ ہے لیکن آج کا معاشرہ دن بہ دن اخلاقی لحاظ سے پست سے پست ہوتا جا رہا ہے۔ آخر اس زوال و انحطاط کی کوئی بنیادی وجہ تو ہوگی؟ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے علما نے عوام و خواص میں فقہی اسلام کو رواج دیا ہے۔ ہر معاملے اور ہر مسئلے کو وہ حرام‘ حلال‘ مباح اور مکروہ کے پیمانوں سے جانچتے ہیں‘ اس سے ہمارا دین فقط قوانین کا نظام نظر آتا ہے اور یہ دین‘ دینِ رحمت نہیں رہا۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
احمد جاوید: میرے خیال میں ہمارے ہاں دین سے تعلق ایک رسمی اور ظاہری پھیلائو تو ضرور حاصل کر چکا ہے لیکن اس میں کوئی گہرائی اور وابستگی نہیں ہے۔ ہم اپنے مستقل احساسِ جرم اور تشویش سے بچنے کے لیے عارضی طور پر تسلی و تسکین کا کچھ سامان یعنی ظاہری اعمال اور رسمی مجلسوں کی صورت میں کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح کی رسمی اور بے حقیقت کاوشوں کی صورت چاہے کتنی خوش نما ہو‘ وہ خوش نمائی کسی نقاب کی ہوتی ہے‘ زندہ انسانی چہرے کی نہیں۔ دورِ جدید کا یہ بڑا المیہ ہے کہ یہ صورت پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی حقیقت قبول کرنے سے خود کو ایک اہتمام کے ساتھ روکے رکھتا ہے۔ یہ دین سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور خدا سے بھاگنے میں مشغول رکھتا ہے۔جو چیز کرنے کی ہے‘ جسے کیے بغیر کوئی دینی مقصود ہاتھ نہیں آسکتا وہ ہے حسنِ معاشرت۔ ہمارے ہاں دین داری کے مروجہ تصورات کی صرف و محض تشہیر اور اس کا چرچا دوسروں سے لاتعلقی پیدا کرتے ہیں۔ جب تک ہم خود کو ایک مسلمہ اچھی معاشرت کا فعال رکن نہیں بنائیں گے‘ اس وقت تک اپنے دین کی مراد کو اپنے اندر جذب کر لینے کی صلاحیت سے کلی طور پر محروم رہیں گے۔ ہمارا دین آدابِ تعلق سکھانے آیا تھا‘ ہم نے اسے لاتعلقی کا لائسنس بنا لیا۔ دوسری بات جو شاید اتنی ہی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر مسلمان پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنی ذات سے یہ ثابت کرے کہ اخلاقی حدود کی تعمیر اور تکمیل اسلام کے بغیر نہیں ہوتی یعنی وہ اپنے عمل اور رویے سے سامنے والے کو یہ دکھا دیںکہ اسلام کی اوّلین برکتوں میں سے ایک لازمی برکت یہ ہے کہ اس دین کا علم رکھنے والا‘ اسے ماننے والا‘ اس پر چلنے والا اقدار کی اصلی یعنی بے نفسی تک پہنچ جاتا ہے۔
ہمارے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ہم دینی اخلاق اور سیکولر اخلاق میں اصولی فرق کو محسوس نہیں کرتے۔ سیکولر اخلاق میںخود پسندی کی گنجائش ہے لیکن دینی اخلاق کی بنیاد ہی اس بے نفسی پر ہے جو خود پسندی سے پاک کرتی ہے اور ایثار پر آمادہ کرتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ دین کی معاشرتی اور اخلاقی قدریں اس قدر فراموش کی جا چکی ہیں کہ ہم خدا اور بندے کے تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانوں کے باہمی تعلق کے نظام سے عملاً ہی نہیں علمی سطح بھی بے خبر ہو چکے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی تصور دو اجزا پر مشتمل ہوتا ہے ایک انفرادیت اور دوسرے اجتماعیت۔ انسان اپنی انفرادی بناوٹ میں کیا ہے اور اپنی اجتماعی ساخت میںکیا ہے۔ ان دونوں سوالوں کے جواب سے تہذیبیں باہم مختلف ہوتی ہیں۔ اسلام ان دونوں سوالوں کا جو جواب دیتا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیںکہ ایک سچے مسلم معاشرے میں اسلام انفرادیت کو ذوقِ عبادت پر اور اجتماعیت کو بے لوثی‘ انکسار اور ایثار پر استوارکرتا ہے۔ ہمارے مذہبی منظر نامے میں یہ سب چیزیں یا تو بھلا دی گئی ہیں یا پھر اس بری طرح گڈمڈ ہوگئی ہیں کہ ان سے کسی نتیجے کا نکلنا محال ہو چکا ہے۔ میں خود کو مایوسی سے نکالنے کے لیے اپنے طور پر یہی کوشش کرتا ہوں کہ ذوقِ عبادت اور حسنِ معاشرت کے دینی مقاصد میری تمام تر کمزوریوں کے باوجود نظر سے اوجھل نہ ہونے پائیں۔
آپ کی یہ بات ایک سو ایک فیصد درست ہے کہ ہمارے علما الاّ ماشاء اللہ دین کو فقہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور آج کے صوفیہ ایک خیالی خدا کی طرف سے یک سو رہنے کی عادت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ دین کو فقہ بنا کر دین کے نتائج حاصل نہیں ہوسکتے بلکہ دین کا کوئی درست تتصور قائم نہیں کیا جاسکتا‘ اسی طرح ایک خیالی خدا کی طرف مراقب ہو جانے سے میرے اور معبود کے تعلق سے لازماً برآمد ہونے والے فطری مظاہر کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ آج علما خداداد آزادی کی قدر نہیں کرتے اور بندگی کو غلامی کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح آج کا صوفی پابندی اور ذمہ داری کا شعور نہیں رکھتا اور دین کو خیال کی آزادی کا پروانہ بنائے بیٹھا ہے۔ اس گمبھیر صورت حال میں ہمیں دین کی تعلیم اور تربیت کے جاری نظام پر بہت خدا خوفی کے ساتھ نظرِ ثانی کرنی ہوگی ورنہ ہم صرف ایک میوزیم کے متولی بن کر بیٹھ جائیں گے۔ اللہ وہ دن نہ لائے۔
طاہر مسعود: کچھ باتیں ادب کے حوالے سے۔ ہمارے خیال میں انسانی شخصیت کی تہذیب و تربیت میں جہاں مذہب ایک مرکزی کردار ادا کرتا ہے وہیں ادب کا مطالعہ بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جس طرح ہماری زندگیوں سے دین کے حقیقی روح غائب ہو گئی وہیں معاشرے میں ادب کا جو چلن عام تھا‘ وہ بھی رفتہ رفتہ مفقود ہو گیا۔ ہمارے قومی اور ملّی زوال کی دیگر وجوہ میںکیا یہ وجہ بھی شامل نہیں ہے؟ مثلاً ایک رائے یہ بھی ہے کہ ادب کے انحطاط کے ذمہ دار ادیب ہیں کہ ادب ان کے لیے اسلوبِ حیات نہیں رہا۔
احمد جاوید: پہلی بات تو یہ کہ دین اور ادب کے درمیان کسی مماثلت کو خارج از امکان رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس ہمہ گیر زوال جس نے دین اور ادب سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ کچھ اسباب سے جڑوا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک سبب ’’لفظ سے دوری‘‘ ہے۔ اس دوری نے دین کے ساتھ ہمارے تعلق کو کمزور کیا‘ ادب بہ چھوٹی چیز ہے لیکن اس کے ساتھ بھی وہی ہوا۔ کسی تہذیب کو اپنی بقا کے لیے جہاں مذہبی اور عقلی شعور کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہیں جمالیاتی شعور بھی اس کے لیے لازم ہے تو جب مجموعی شعور میں انحطاط پیدا ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ جمالیاتی شعور بھی اس سے غیر متاثر نہیں رہ جاتا۔ ادب کے زوال کی سب سے بڑی وجہ میرے خیال میں جمالیاتی شعور میں سطحیت کا پیدا ہوجانا ہے۔ اس کی تفصیل میں جائے بغیر اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ہم معمولی چیزوں سے تسکین پانے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ جمالیاتی شعور کو اپنی سیرابی کے لیے جن بلندیوں اور گہرائیوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ سرے سے غائب ہو گئی ہیں۔ ادب کے وجود کا جواز ہی اس دعوے میں پوشیدہ ہے کہ ادب جمالیاتی شعور کے عام تقاضوں کو ان کی انتہا پر لے جاکر پورا کرسکتا ہے۔ آپ جانتے ہیںکہ ادب کی اس کے سوا کوئی تعلیم نہیں ہے کہ یہ جمالیاتی شعور کا سب سے مکمل اظہا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ وہ حسن جو بڑے بڑے حقائق کو حالتِ حضور میںرکھتا ہے‘ وہ شاعری وغیرہ کا موضوع ہی نہیں رہ گیا۔ نتیجتاً ادب میں سے وہ کشش ماند پڑ گئی جو اسے آپ کے لفظوں میں اسلوبِ حیات بنا لینے پر اکساتی تھی۔ ابھی کوئی پچاس برس پہلے تک میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیںکہ جن کے سانس لینے کا عمل بھی ویا کسی بڑی تخلیقی کھوج سے گزرنے کا حال ہوا کرتا تھا۔ جیسے میرے استاد‘ میرے مربی‘ میرے محبوب سلیم احمد تھے۔ جنہیں دیکھنا بھی گویا آدمی کو احساسات کی ایک بلند سطح پر لے جاتا تھا اور جن سے مل کر زندگی کی آتشیں گہرائیاں سامنے آجاتی تھیں۔ سلیم احمد ایسے کیوں تھے؟ اس لیے کہ ان کی نبض شناسی کیوجہ سے ان کے جمالیاتی شعور کی پختگی کی بدولت جمال ہی کی ایک طغیانی تھی جو انہیں ہر وقت شرابور رکھتی تھی۔ کبھی تسکین کی صورت میں‘ کبھی جذب کی حالت میں‘ کبھی اضطراب کی کیفیت میں‘ کبھی دیوانگی کی حیران کن معنویت میں۔ لفظ سے اگر مناسبت پیدا ہو جائے تو جو شخصیت بنتی ہے‘ وہ ایک ادیب کی شخصیت ہوتی ہے‘ ہمہ وقت مواج‘ ہمہ حال سیراب۔ میں نے سلیم بھائی کے بہت قریب رہ کر انہیں دیکھا ہے کہ شعر و ادب میں گہری رسائی کس طرح چیزوں کے معمولی پن سے بلند اور بے نیاز رکھتی ہے۔ یہ بلندی اور بے نیازی آج کے ادیب و شاعر میں ناپید ہے اور اس کی وجہ سے ان کی تخلیقی سطح گر گئی ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارا عہد جمالیاتی خلا میں پیدا ہوا ہے‘ جسے ہم دوسری چیزوں سے بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ادیب بننے کی صلاحیت اس دور میں ختم ہو گئی ہے۔
طاہر مسعود: رسالہ ’’فنون‘‘ میں آپ کی ایک گفتگو محمد ارشاد کی بابت شائع ہوئی ہے۔ یہ محمد ارشاد وہی ہیں جن کے ایک مضمون سے رینے گینوں اور روایت کی بحث چھڑی تھی۔ سلیم احمد کے دوست اور ان کے علم اور فکر کے خوشہ چیں جمال پانی پتی مرحوم نے تفصیلی جوابی مضمون لکھا تھا۔ آپ نے اس گفتگو میں محمد ارشاد کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے جو قلابے ملائے ہیں‘ اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے عسکری اور سلیم احمد کا فکری کیمپ چھوڑ کر محمد ارشاد اور ان کے ہم خیالوں کے کیمپ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ کیا آپ کے بارے میں یہ تاثر درست ہے؟
احمد جاوید: بھائی میں ایک کم استعداد مگر وفادار آدمی ہوں۔ میرا ہر استاد میرا مستقل محبوب ہے‘ آپ کے اس سوال کا یہ حصہ کہ محمد ارشاد کی مداحی میں جو گفتگو میں نے کی ہے‘ اس میں اتنا مبالغہ ہو گیا ہے کہ پڑھنے والے کو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ جیسے میرے ادبی تصورات اور ادبی نسبتوں میں کوئی بنیادی تبدیلی آگئی ہے۔ بے تکلفی سے کہہ رہا ہوں کہ میرا مزاج ایسا ہے کہ دوسرے کی تعریف کرنے میں ایک جوش و خروش پیدا ہوجاتا ہے۔ چاہے وہ تعریف کسی ایسے صاحب ہی کی کیوں نہ ہو جن سے ادبی اور علمی اختلاف ہو۔ محمد ارشاد پر جو باتیں میں نے لکھوائی ہیں‘ انہیں میرے مزاج کی اس کمزوری پر محمول کیا جائے اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں دوسروں کی تعریف کو پسند کرتا ہوں اور ان پر تنقید کرنے میں ناگواری محسوس کرتا ہوں۔ ایک تو مجھے اس عذر میں معاف کر دیا جائے اور دوسری چیز یہ ہے کہ میں جب سے محمد ارشاد صاحب سے متعارف ہوا ہوں‘ اس وقت سے میری ان کے بارے میں رائے ہے کہ وہ ایک عالم فاضل آدمی ہیں اور تحریر میں صاحبِ اسلوب ہیں۔ یہ وہ رائے ہے جو سلیم احمد کی زبان سے کچھ کلمات سن کر میرے اندر پختہ ہو گئے ہیں۔ آپ کو یقینا پتا ہوگا کہ جب عسکری صاحب کے مسئلے پر محمد ارشاد صاحب کے ساتھ ہمارے دوستوں کا مجادلہ چل رہا تھا‘ اس نازک اور حساس وقت میںبھی سلیم احمد جو محمد حسن عسکری کے جاں نثار جانشین تھے‘ محمد ارشاد صاحب کی علمیت اور ادبیت کے بارے میں بری رائے نہیں رکھتے تھے۔ محمد ارشاد صاحب کے مضمون سے سلیم بھائی کو ظاہر ہے کہ سخت اذیت پہنچی تھی لیکن اس کے باوجود میں نے ان کے منہ سے کبھی ہلکی بات محمد ارشاد کے بارے میں نہیں سنی۔ اس پس منظر میں مجھے یہ احساس ہوا کہ محمد ارشاد صاحب اپنے پڑھنے والوںکی بے بضاعتی کا شکار نہ ہو جائیں‘ اس لیے میری ذمہ داری ہے کہ میں ان کا ایسا تعارف کروائوں جس سے ان کی تحسین بھی ہو‘ ان کے علمی مرتبے کا احترام بھی ہو اور پھر آگے چل کر ان کے ساتھ اپنے اختلافات کا تذکرہ بھی ہو۔ یہ ہے اس گفتگو کا پس منظر۔ اس کی پہلی قسط آپ نے پڑھی ہے‘ اس کی اگلی قسط میں نے لکھوائی ہے۔ جہاں تک دبستانِ عسکری سے دبستانِ ارشاد میں منتقل ہو جانے کا خدشہ ہے تو اس کے جواب میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ یہ فقرہ تقریباً میرا تکیہ کلام بن چکا ہے کہ عسکری اس دور کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ لہٰذا اس اندیشے کو بہرحال ایک طرف رکھ دیا جائے۔
طاہر مسعود: اردو ادب کے احیا کے لیے ادیبوں پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟
احمد جاوید: اس سوال کے دو جوابات ہو سکتے ہیں۔ ایک تو وہ جو میری خواہش پر مبنی ہے‘ دوسرا وہ جو میرے ذہن سے ابھرتا ہے۔ خواہش پر مبنی جواب تو یہ ہے کہ شعر و ادب کا احیا ضرور ہو سکتا ہے بشرطیکہ دو چیزوں پر ہمارے ادیب اور شاعر کو گرفت حاصل ہو جائے۔ ایک تاریخی شعور اور طرزِ احساس اور دوسرے زبان۔کسی بھی ادب میں بڑائی اور خوبی کے چند مسلمہ عناصر ہوتے ہیں جن سے خالی ہو کر ادبی روایت خود کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ ان میں سے مثلاً دو سبب یہ ہیں جو میں نے عرض کیے۔ ہمارا تخلیقی ادب بلکہ تنقید بھی خاصے عرصے سے ایک بحران سے گزر رہی ہے۔ اس بحران کی پیدائش کے بڑے عوامل یہی ہیں کہ ایک تو ہمارے شعور اور طرزِ احساس میں تاریخی بننے کی سکت ختم ہو چکی ہے اور ہماری شخصیت کے تخلیقی دائروں میں توسیع کا عمل رک چکا ہے یعنی ہمارے محسوسات میں ایسا پھیلائو نہیں رہ گیا کہ تکلیف کا تجربہ ہی نہیں اس کا تصور اور مشاہدہ بھی ہمارے اندر ایک گہری اور خلاق الم ناکی پیدا کرسکے۔ اسی طرح آج کے ادیب کا خود اپنی ذات کے بارے میں کوئی ایسا تصور باقی نہیں رہ گیا ہے جس کی تشکیلِ مزید اور اظہار میں یک سوئی‘ سنجیدگی اور مستقل مزاجی کا مربوط انداز میں مظاہرہ کر سکے۔ تو اپنی طرف اور اپنے باہر کی طرف تجربہ اور کیفیت فراہم کرنے والی توجہ ان کے فقدان نے ہمیں یعنی ادیبوں اور شاعروں کو ایک طرح کی چالاکی اور بچکانہ شعبدے بازی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ جہاں معنی کا التباس تو پیدا ہوتا ہے معنی نہیں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر ہم ایک محسوساتی خلا میں رہنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں یعنی ہمارے محسوسات ابھی احساس بننے کی معروف سطح تک نہیں پہنچ پاتے گویا احساسات میں ایک تجریدی عمل سا چل رہا ہے اور یہ صورت حال اتنی مہمل ہے کہ اس کی لایعنیت محسوس ہونے لگی ہے۔ تاہم امید کا پہلو یہ ہے کہ ہمارا تاریخی وجود اتنا پے چیدہ المیہ‘ ہمہ گیر اور ایک خاص معنی میں طاقت ور ہو چکا ہے کہ معمولی درجے کی تخلیقی صلاحیت بھی بہت اہم تخلیقی فن پارے وجود میں لا سکتی ہے کیوں کہ تاریخ میں یہ سب حالتیں پیدا ہو جائیں تو ان کا ایک مثبت نتیجہ اس صورت میں نکلتا ہے کہ معمولی ذہن اور طرز احساس ایک ضروری فن شناسی کے ساتھ نسبتاً اونچے درجے کے تخلیقی کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ پے چیدہ اور لائوڈ تاریخ‘ شخصیت میں پائی جانے والی سطحیت کو ڈھانپنے کا کام بھی کرتی ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ تخلیقی فن کاروں کو پہنچتا ہے یا پہنچ سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں المیہ ہر تخلیقی روایت اور اس کے اظہار کی ماں ہے اور اب ہم اپنے چاروں طرف دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہماری تاریخ ایک آفاقی المیے کے سانچے سے ڈھل کر نکلی ہے۔ گویا تخلیقی تجربات کا ضروری اور غیر معمولیContent شخصیت میں سانس روک کر غواصی کے بغیر محض آنکھوں کے ذریعے سے میسر آجاتا ہے۔ اتنی بڑی آسانی کا شاید تصور بھی نہ کیا جاسکے کہ تخلیقی تجربات کی فراہمی کا بہت پُر شور اور پیچ دار عمل خارج سے داخل کی طرف ہو رہا ہے۔ اب ایسی صورت حال میں ادیب اور شاعر کا بس ایک کام رہ جاتا ہے کہ وہ ادراک اور اظہار کے سب سے بڑے مشترکہ میڈیم یعنی زبان پر ضروری قدرت بہم پہنچائیں۔ اگر لفظ شناسی کی موجودہ پستی میں بہتری کی صورت پیدا ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ تاریخی شعور اور لفظ شناسی کے ملاپ سے اردو شعر و ادب کی روایت کے بہترین اجزا کا احیا اور پیدائش نہ ہو سکے۔ وہ جواب جسے میں نے عرض کیا کہ خواہش کی بنیاد پر نہیں بلکہ تفکر اور تجزیے کی اساس پر ہے‘ وہ یہ ہے کہ اب انسان مغرب کے تصورِ انسان اور حدود انسانیت کو پوری طرح قبول کر لینے کے بعد آفاقی اسکیل پر ایک بالکل مختلف آدمی بن چکا ہے۔ وہ آدمی جو ریاضی کا بنایا ہوا ہے‘ سرمایہ داری نظام کا پروردہ ہے‘ ٹیکنالوجی کی تخلیق ہے اور شخصیت کے مسلسل سکڑنے کے عمل کا عادی ہے وغیرہ۔ یہ انسان شاعری اور دیگر تخلیقی فنون سے متاثر ہونے اور ان کی طرف کشش محسس کرنے کے By Default ہی نہیں رہ گیا۔ اب زبان وغیرہ محض ضرورتوں اور معمول کے سماجی رشتوں کو اظہار دینے والی ایک یک سطحی شے بن کر رہ گئی ہے۔ تشبیہ‘ استعارہ‘ علامت وغیرہ کے درجات اب لسانی اسٹرکچر میں سے معدوم ہو چکے ہیں اور کثیر الاطراف لفظ کے متوازی رہنے والا کثیر الجہات شعور یا تو فن اہو چکا ہے یا فنا کے مراحل طے کر رہا ہے۔ ان حالات میں یہ سوچنا بھی عجیب سا لگتا ہے کہ شاعری وغیرہ کا کوئی ایسا مستقبل ہے جب یہ انسان کے اندر اور باہر کی دنیا کو اسی طرح متاثر کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے گی جس طرح کی صلاحیت مثال کے طور پر فزکس‘ ریاضی اور سائبر ٹیکنالوجی میں دکھائی دے رہی ہے۔ اصل میں انسان اتنا بدل چکا ہے اور زبان سے دوری کی اتنی منزلیں طے کر چکا ہے کہ اس کا اپنی پرانی ساخت میں آنا اور لفظ سے خود کو Identical بنانا اب ایک مفروضے کے طور پُرکشش نہیں رہ گیا تو جناب سوچ سمجھ کر دیا جانے والا جواب تو یہی ہے کہ ہمارے استاد مرحوم سلیم احمد کے بہ قول ادب مر چکا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیںکہ اس کے وارث ہی اس کی تجہیز و تکفین میں تاخیر کیے جا رہے ہیں۔ تاہم یہ ہمارے شرمانے کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک عالم گیر واقعہ ہے جس کا ایک حصہ ہم اپنا ہاں دیکھ رہے ہیں۔ (جاری ہے)