صفائی

393

ہوا کچرے کو اِدھر اُدھر بکھیر رہی تھی۔ کسی کا کچرا کسی کی چھت پر اُڑ کر جا رہا تھا۔ ہوا آج کسی اور ہی ترنگ میں تھی۔ کچھ لوگ اپنے گھر کا کچرا گلی محلے میں پھینکتے تھے۔ آج وہ ہوا کی اس جھکڑ بازی کو دیکھ کر پریشان تھے۔ ایسے میں جاوید صاحب اور دیگر افراد کے جانوروں کے عضلات کی بُو بھی شامل تھی جو ہوا کے ذریعے ہر جگہ پہنچ رہی تھی۔ اس گلی میں سب سے بڑا جانور جاوید صاحب کا آتا تھا، لیکن صفائی کے معاملے میں وہ بالکل لاپروا تھے۔ صفائی کے لیے ایک روپیہ خرچ کرنے کے روادار نہ تھے۔ ان کے پڑوسی اقبال اور نذیر صاحب ان کی اس عادت سے تنگ تھے۔
’’جاوید بھائی! ذرا یہ گوبر تو اٹھوادیں۔‘‘ اقبال صاحب نے دوبارہ یاد دہانی کروائی۔
’’ارے بھائی اٹھوا لیں گے… پیچھے کیوں پڑ گئے ہو…! ویسے بھی میں نے ابھی صفائی کروائی ہے۔‘‘
’’آپ نے صفائی کرکے کچرا میرے گھر کے آگے کردیا ہے۔‘‘ اقبال نے گوبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’اٹھوا لوں گا… بھائی! صبر کرو۔ اس عید پر تو یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’تو بھائی اپنے گیٹ کے آگے کرو۔ دوسروں کے گیٹ کے آگے کیوں کررہے ہو؟‘‘
جاوید صاحب پر کسی بھی بات کا کوئی اثر نہ ہوا، اور اقبال صاحب نے خود صفائی کی۔ اسی طرح عید کے دن بھی دوسروں کے گھروں کے آگے جانور کی آلائش چھوڑ کر اپنے گھر کے سامنے دھلائی کی اور گوشت گھر میں لے گئے۔ اہلِ محلہ نے ان کے گھر جاکر کہا کہ گلی کی صفائی کروا دیں لیکن وہ گوشت بنوانے میں مصروف رہے۔ دوسری طرف بیگم جاوید بھی تلملاتے ہوئے کہہ رہی تھی ’’بھئی میں تو بیگم اقبال اور بیگم نذیر کے گھر گوشت نہیں بھیجوں گی، وہ مجھ سے کئی دفعہ صفائی کے معاملے میں لڑ چکی ہیں۔‘‘
’’مگر امی! انہوں نے تو قربانی بھی نہیں کی۔‘‘ چھوٹے بیٹے نے کہا۔
’’تو انہوں نے اہلِ محلہ سے بنا کر بھی تو نہیں رکھی، تم یہ چھیچھڑے ذرا باہر پھینک آؤ۔‘‘ بیگم جاوید نے ایک شاپر بیٹے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

حصہ