میرے پیارے پیارے ننےمنے بچوں ! اسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ ۔ آج ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں جانیں گے انشاءاللہ۔۔۔ پیارے بچو ! آپ کو معلوم ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کون تھے۔۔۔ ؟ ہاں بچو ! ابراہیم علیہ السلامکے والد ایک بت پرست تھے ۔ وہ تو اپنے ہاتھوں سے بت تراش کر بناتے تھے ۔ وہاں کے سارے لوگ بتوں کو اپنے خدا مانتے تھے اور پوجا کرتے تھے ۔
ابراہیم ؑ جب آٹھ سال کے تھے ، اس وقت وہ سوچتے تھے کہ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بت ہمارے رب کیسے ہو سکتے ہیں ؟ وہ تو اللہ تعالٰی کو تلاش کرنے کے لئے دن رات سوچتے رہے ۔ غور و فکر میں لگے رہے ۔ بے چینی سے نیند سے بیدار ہو گئے ۔
رات کا وقت تھا آسمان کی طرف دیکھا تو چمکتا ہوا ستارہ نظر آگیا ۔ ستاروں کو دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ ہاں ” یہ میرا رب ہے “۔ جب ستارہ غائب ہوا تو وہ کہنے لگے کہ یہ میرا رب نہیں ہوسکتی ۔ پھر چاند نکلا تو وہ کہنے لگے کہ ہاں یہ بڑا بھی ہے اور چمکدار بھی ہے ۔ یہ ہمارا رب ہے ۔ جب چاند بھی غائب ہوا تو کہنے لگے کہ ” یہ ہمارے رب نہیں ہے۔ ” صبح جب سورج نکل آیا تو وہ کہنے لگے کہ ہاں یہ تو بہت بڑا بھی ہے اور زیادہ چمکدار بھی ہے ۔” یقیناً یہ میرا رب ہوگا ۔” شام ہوگئے تو سورج بھی ڈوب گیا ۔ پھر ابراہیم ؑ کہنے لگے کہ ” یہ میرا رب نہیں ہوسکتا ہے۔ “
وہ غور و فکر میں لگے رہے اور سوچھنے لگے کہ ساری کائنات بنانے والا کوئی ایک ہے وہی میرا رب ہے ۔ ابراہیم عہ بت پرست کا بیٹا ہونے کے باوجود بتوں سے سخت نفرت کرتے تھے ۔ اپنے ابو سے ہمیشہ کہتے تھے کہ ” ابو آپ یہ بت بنانا چھوڑ دو ۔ یہ ہمارے رب نہیں ہوسکتے ۔ لیکن وہ بالکل ماننے کو تیار نہیں تھے۔
ایک دن گاؤں کے سارے لوگ میلے میں چلے گئے ۔ اس دن ابراہیم ؑ میلے میں نہیں گئے ۔ یہ موقع دیکھ کر انہوں نے ایک کلہاڑی لی اور بتوں کو توڑ ڈالا ۔ ایک سب سے بڑا بت کوچھوڑدیا ۔ پھر اس بڑے بت کے ہاتھ پر کلہاڑی رکھ دی ۔ جب میلے سے واپس لوٹے تو پوجا کرنے کے لئے بت کدے گئے تو دیکھا کہ سارے بت ٹوٹے ہوئے تھے۔
یہ لوگ پریشان ہو گئے تھےاور سب جمع ہوکر ہو کر کہنے لگے کہ ” کس نے یہ حرکت کی ہے ؟
لوگوں نے کہا کہ ابراہیمؑ میلے میں نہیں گئے تھے ۔ اس سے پوچھو۔۔۔۔ ! جب ابراہیمؑ کو لایا گیا اور اس سے پوچھا گیا کہ ” یہ ہمارے معبودوں کو کس نے توڑا ہے۔۔۔۔؟ ” ابراہیم ؑ نے جواب دیا کہ ” ارے یہ سوال مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو۔۔۔؟ ” سب سے بڑا بت کے پاس کلہاڑی ہے اس سے پوچھو ۔” !
لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔ ؟ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ ” یہ تو جود کو ٹوٹنے سے بچا نہیں سکتے ، بول نہیں سکتے ، کچھ کر نہیں سکتے تو یہ کیسے رب ہو سکتے ہیں ۔۔۔؟ اس بات پر سب غضب ہوا اور غصےسے آگ میں جلانے کا فیصلہ کیا۔۔۔
خوب لکڑیاں جلانے کر بہت تیز آگ جلائی گئی ۔ پھر ابراہیم ؑ سے کہا گیا کہ ” ہمارے بتوں کو مان لو ۔ یا تو پھر اس آگ میں کود جاو ! حضرت ابراہیمؑ آگ میں کود نے کے لیے تیار ہو گئے ۔ جب انہیں آگ میں ڈال دیا گیا تو اللہ رب العالمین کے حکم سے وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی۔۔۔۔الحمدللہ۔۔۔
پیارے بچو ! ہمیں ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ثم آمین یارب العالمین۔۔۔