ٹک۔۔۔ٹک۔۔۔ٹک عبداللہ اور رانو دونوں کی نظریں مستقل گھڑی پہ تھی کہ آج جانے ابّا کو اتنی دیر کیوں ہوگئ انہوں نے تو جلدی آنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
چلو بچو! کھانا کھالو ابّا جانے کب آئیں۔
رضیہ کوئی تیسری دفعہ کھانے کا پوچھ چکی تھی پر بچے بضد تھے کہ ابّا کے ساتھ ہی کھائیں گے۔
وقت تھا کہ جیسے کٹ ہی نہیں رہا تھا سات سالہ عبداللہ اور دس سالہ رانو دونوں دروازے پہ نظریں گاڑے بیٹھے تھےاسی اثناء میں دروازہ پہ دستک ہوئی۔
ابّا آگئے ۔۔۔ابّا آگئے۔
دونوں خوشی سے ناچتے ہوئے ماں کے پیچھے ہولیے۔
دروازہ کھلتے ہی لاڈلا بیٹا باپ سے جا لپٹا۔
’’ابّا میری ٹافیاں؟‘‘
’’ارے باپ کو اندر تو آنے دو کہ دروازہ پر ہی ساری فرمائشیں ہو جائیں گی” رضیہ نے بچوں کو ٹوکا۔‘‘
رجب علی نے عبداللہ کو لفافہ تھماتے ہوئے دروازہ بند کیا اور اندر چلا آیا۔
…٭…
’’ابّاآپ نے کہا تھا آج چاچا فضل کمیٹی کے پیسے دیں گے تو آپ بکرا لائیں گے، کب لائیں گے بکرا ابّا۔۔۔ اب تو صرف چار دن ہی رہ گئے ہیں؟
رانو نے بڑی بےصبری سے استغفار کیا۔
’’ہاں ابّا پتا ہے میرے دوست کا بھی بکرا آگیا، ہمارا کب آئے گا؟چھوٹے عبداللہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
’’آئےگا بچوں ضرور آئےگا کل صبح چاچا فضل اور میں جائینگے منڈی‘‘۔
’’ابّا میں بھی جاؤنگا آپ کے ساتھ‘‘
’’ہاں کیوں نہیں میرے شہزادے‘‘
…٭…
’’عبداللہ کا بکرا آگیا۔۔۔عبداللہ کا بکرا آگیا‘‘
گلی میں بچوں نے خوب شور مچایا ہوا تھا ۔
رانو اور اماں شور پہ دروازےکی طرف لپکیں۔
دیکھاعبداللہ بکرے کی رسی تھامے پھولے نہیں سما رہا آگے آگے عبداللہ اور بکرا اورپیچھے پیچھے سارے محلے کے بچے ۔۔۔
گھر کے صحن میں باندھ کر اب اس کی خدمت کی باری تھی اسے کھلایا پلایا گیا پھر اس کو خوب نہلایا گیا۔
بچوں کے ہاتھ اچھا خاصہ مشغلہ لگ گیا تھا عبداللہ تو صرف سونے ہی کے لیے الگ ہوتا تھا ۔ دونوں بہن بھائیوں نے دن رات ایک کر رکھا تھا مہندی سے بکرے پہ ’’عیدمبارک‘‘ بھی لکھا گیا تین دن کیسے پر لگا کر اڑ گئے پتا ہی نہ چلا۔۔۔
…٭…
’’رضیہ تم نے عبداللہ کو دیکھا ہے دیکھو پتا نہیں کہاں غائب ہوگیا ہے نماز کو دیر ہورہی ہے ‘‘ یہ سن کر رضیہ بھی پریشان ہو گئی پورے گھر میں عبداللہ کی ڈھونڈ مچ گئی۔
رانو چھت پہ گئی تو دیکھا ایک کونے میں بیٹھا عبداللہ خوب آنسو بہا رہا ہے کہ اس کا پیارا بکرا قربان کر دیا جائے گا امّاں ابّا دونوں نے اُسے مل کر سنتِ ابراہیمی کے بارے میں پھر سے سمجھایا، ’’بیٹا اپنی عزیز اور پسندیدہ چیز کو اللہ تعالیٰ کی خوشی کی خاطر پیش کر دینا ہی تو قربانی ہوتی ہے۔ دیکھو! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو اپنے بیٹے کو ہی قربان کر دیا تھا، اور اسی لیے اللہ نے انہیں اپنا دوست بنا لیا۔۔۔۔۔ کیا تم اللہ کے دوست بننا نہیں چاہتے۔۔۔ ؟‘‘
عبد اللہ ابا کی بات سن کر مسکرایا، اور عید کی نماز کے لیے چل پڑا۔ ادھر رانو بھی اپنی تیاریوں میں لگ گئی، اسے بھی تو پورے محلے میں گوشت تقسیم کرنا تھا ناں۔۔