عید گزر گئی ، باقیات رہ گئی

325

عید گزر گئی، قربانی کے لیے لائے گئے جانور ذبح کردیے گئے، گھروں میں تکہ بوٹی کے پروگرام بھی چل پڑے۔ یوں یہ تہوار ختم ہوا، اگر کچھ رہ گیا تو وہ قربان کیے گئے جانوروں کی باقیات رہ گئیں۔ میرا مطلب ہے کہ سنتِ ابراہیمی تو ادا کردی گئی لیکن کراچی کی سڑکوں، محلّوں اور گلیوں میں جانوروں کی بدبو اڑاتی آلائشیں باقی رہ گئیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ انتظامیہ نے اپنے تئیں خاصی محنت کی، بلدیہ کراچی کی جانب سے آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے چلائی جانے والی گاڑیاں بھی سڑکوں پر دوڑتی نظر آئیں، لیکن اس کے باوجود شہر کی ہر شاہراہ، سڑک، محلہ اور گلی میں آلائشوں اور قربانی کے جانوروں کی باقیات کے ڈھیر لگے رہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے جنگی بنیاد پر کیے جانے والے انتظامات نہ صرف بدانتظامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں بلکہ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ دو کروڑ سے زائد آبادی کے شہر کراچی کو سہولیات کی فراہمی پی پی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے پیشہ ورانہ تربیت اور گڈگورننس کی ضرورت ہوتی ہے جو صوبائی حکومت کے ماتحت کسی بھی ادارے میں نظر نہیں آتی۔

یہی وجہ ہے کہ اب تک شہر کے بیشتر رہائشی علاقوں میں جگہ جگہ آلائشیں اور جانوروں کی باقیات سڑنے اور خون جمنے سے شدید تعفن پھیل رہا ہے، جبکہ آلائشوں پر منڈلاتے مچھر اور مکھیوں کے سبب گیسٹرو، ڈائریا سمیت وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ اگر یہی صورتِ حال رہی تو متوقع مون سون بارشوں سے مزید خرابی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ یوں ایک مرتبہ پھر سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی جانب سے شہر میں عید کے تینوں دن صفائی ستھرائی کے دعوے تو کیے جاتے رہے مگر عملی طور پر صورتِ حال ان دعووں کے بالکل برعکس نظر آئی۔ شہر کے کئی علاقوں خصوصاً لانڈھی، کورنگی، شاہ فیصل کالونی، ملیر، نارتھ کراچی اور لائنز ایریا جیسی گنجان آبادیوں میں آلائشوں کے ڈھیر لگے رہے، 24 سے 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی آلائشوں کو اٹھانے کا کام شروع نہ کیا جاسکا۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا شاہد ہوں کہ نعمت اللہ خان کے دور میں سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا عملہ ہر گھنٹے بعد علاقوں میں آتا تھا۔ اُن کے دور میں سڑکوں سے آلائشیں اٹھاکر فوراً چونے کا چھڑکاؤ اور جراثیم کُش اسپرے کیا جاتا تھا، جبکہ اجتماعی قربان گاہوں کو فائربریگیڈ کی گاڑیوں کی مدد سے دھویا جاتا تھا۔ لیکن اِس مرتبہ چند مقامات پر تو جراثیم کُش اسپرے کیا گیا لیکن نہ قربانی کے مقامات پر چونا چھڑکا گیا اور نہ ہی سڑکوں پر جمنے والے خون کو دھویا گیا۔ ہمارے علاقے کی صورتِ حال تو انتہائی ناگفتہ بہ رہی، گھر سے کچرا کنڈی تک جگہ جگہ جانوروں کے بہتے ہوئے خون سے بنی لکیریں محلے میں ہونے والی قربانی کا پتا دیتی ہیں۔ دوسری طرف عید کے تینوں دن کچرا کنڈیوں پر ہاتھوں میں چھریاں لیے افغانیوں کا راج رہا، میرا مطلب ہے کہ کم عمر افغانی بچے آلائشوں کے ساتھ لگی چربی کو اتارتے دکھائی دیے۔ اس وقت آلائشوں سے چربی اور چار کونا اتارتے افغان بچے کو دیکھ کر میرے ذہن میں کئی سوالات ابھرنے لگے۔ کبھی ذہن میں آتا کہ یہ اس کا کیا کریں گے؟ تو کبھی یہ سوچ کر اطمینان ہوجاتا کہ شاید یہ مشقت کھانے کے لیے کی جارہی ہے۔ بس اسی طرح کی ذہنی کیفیت لیے میں شاکر صاحب سے ملنے چلا گیا۔ شاکر صاحب سوشل سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں، اس لیے یہ موضوع انہی کا تھا۔ بس پھر کیا تھا، انہوں نے وہ وہ انکشافات کیے جنہیں سن کر نہ صرف میں بلکہ کوئی بھی ذی شعور انسان حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ شاکر صاحب کا کہنا تھا کہ افغانی بچوں کو سڑکوں سے کوڑا اٹھاتے اور آلائشوں سے چربی اتارتے دیکھ کر انہیں غریب یا ضرورت مند نہ سمجھو بلکہ یہ ان کا کاروبار ہے، یہ چھوٹے چھوٹے بچے سارا سال گلیوں، محلوں سے جو کچرا اٹھاتے ہیں وہ جاکر اپنے ٹھیکے دار کے پاس فروخت کردیتے ہیں جس کے عوض انہیں اچھے خاصے پیسے ملتے ہیں۔ ٹھیکے دار کے ہاں بوتلوں، کاغذ اور پلاسٹک کو الگ الگ کیا جاتا ہے۔ عید کے دنوں میں یہ افغانی بچے آلائشوں پر لگی چربی اور چار کونا لےجاکر اپنے ٹھیکے دار کو فروخت کریں گے جس سے انہیں تو چند پیسے ملیں گے لیکن ان کے ٹھیکے دار ان آلائشوں کو مختلف ممالک بھیج کر لاکھوں روپے کمائیں گے۔ یہ باقاعدہ کاروبار ہے۔ شاید ہمارے ہاں اس کو وہ مقام حاصل نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک میں حاصل ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے ساتھ دیگر اعضاء کی فروخت ایک ایسا کام ہے جس سے نہ صرف کروڑوں روپے کمائے جاسکتے ہیں بلکہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ”جانوروں کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جس کا استعمال کھانے اور دوسرے مقاصد کے لیے نہ کیا جا سکے۔ جانور کی گردن تک کی کھال چمڑے کی مصنوعات جیسے گارمنٹس، جوتے اور پرس وغیرہ بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ منہ کی کھال کی افریقہ میں بہت بڑی مارکیٹ ہے جو اسے بطور خوراک استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح جانور کے ناک کان تک استعمال ہوتے ہیں جسے سُکھا کر اس سے پاؤڈر بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح جانور کی زبان کو بھی بہترین کھانے کے طور پر دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ جانوروں کے جسم سے نکلنے والی انتڑیاں، اوجڑی اور پتو جھڑی بھی ان میں شامل ہیں، جنھیں ہمارے ہاں اکثر پھینک دیا جاتا ہے لیکن دنیا میں ان سے خوراک تیار کی جاتی ہے۔ جانوروں میں دو قسم کی آلائشیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک سرخ آلائشیں ہوتی ہیں اور دوسری سفید آلائشیں کہلاتی ہیں۔

سرخ آلائشوں میں سری پائے، گردے، کلیجی اور پھیپھڑے وغیرہ شامل ہیں، جبکہ سفید آلائشوں کا تعلق معدے سے ہوتا ہے جن میں انتڑیاں، اوجڑی اور پتو جھڑی شامل ہیں۔“
شاکر صاحب کہنا تھا کہ ”سرخ آلائشوں یعنی سری پائے،گردے،دل اور کلیجی کا استعمال عام طور پر نظر آتا ہے اور وہ ہمارے کھانوں کا حصہ ہیں،لیکن اس کے مقابلے میں ملک میں سفید آلائشوں کا نہ تو استعمال کیا جاتا ہے اور نہ ہی وہ ہمارے کھانے کا حصہ ہیں۔

ہمارے ملک میں آنتوں سے ساسیج اور اوجڑی سے سُوپ بنانے کا رواج نہیں ہے، جبکہ دنیا میں یہ چیزیں کھانے کا حصہ ہیں اور ان کی عالمی سطح پر طلب بھی ہے۔جن آلائشوں کو ہم کوڑے دان کی نذر کر دیتے ہیں دنیا میں انہیں پراسیس کر کے فوڈ آئٹمز بنانے کے کاروبار کی تاریخ ڈیڑھ سو سال پرانی ہے اور دنیا کے مختلف خطوں میں یہ کام ہوتا رہا ہے۔

آلائشوں سے بنے فوڈ آئٹمز کی عالمی تجارت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں اس کی تجارت کا حجم ساڑھے آٹھ ارب ڈالر ہے۔ دنیا میں امریکا سب سے زیادہ اس قسم کے فوڈ آئٹمز برآمد کرتا ہے اور چین ان آئٹمز کو درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔“
ان کا مزید کہنا تھا کہ ”مشرقِ وسطیٰ کے ملک شام میں آلائشوں کو پراسیس کرنے کی صنعت بہت مضبوط رہی ہے جو مختلف عرب ممالک سے آلائشیں اکٹھی کر کے ان سے فوڈ آئٹمز تیار کر کے دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی برآمد کرتا رہا ہے۔جبکہ مشرقِ بعید کے ملکوں میں آلائشوں سے تیار ہونے والی خوراک کی بہت زیادہ طلب ہے اور اسی طلب کو دیکھ کر انھوں نے اس سلسلے میں اس منصوبے پر کام شروع کیا ہے۔دنیا بھر کے مقابلے میں ہمارے نزدیک الائشیں کچرا ہے، تاہم دنیا میں یہ ایک بہت بڑا کاروبار ہے۔“
پاکستان میں ذبح کیے جانے والے جانوروں اور ان کی آلائشوں کو پھینک دینے کے بارے میں شاکر صاحب نے بتایا کہ آلائشوں کو اگر نہ سنبھالا جائے تو وہ تھوڑے وقت میں خراب ہو جاتی ہیں۔اگر آلائشوں کو فوراً سنبھال لیا جائے اور انہیں مناسب طریقے سے محفوظ کر لیا جائے تو یہ اے کلاس آلائشیں ہوتی ہیں جن سے بننے والی خوراک بھی اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے اور اس کی دنیا بھر میں طلب ہے۔

تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، اور آلائشوں کو محفوظ بنانے میں اتنا وقت گزر جاتا ہے کہ وہ ’بی کلاس‘ آلائشیں بن جاتی ہیں۔پاکستان دنیا میں واحد مسلم ملک ہے جہاں بقر عید پر جانوروں کو گھروں اور گلی محلوں میں لاکر ذبح کیا جاتا ہے۔قربانی کے وقت آلائشوں کو سنبھالنے کا کلچر ہمارے ہاں نہیں ہے، اس لیے وہ اکثر پھینک دی جاتی ہیں یا خراب ہو جاتی ہیں۔
لیجیے شاکر صاحب نے تو بقر عید پر آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا بہترین فارمولا بتا دیا جس سے نہ صرف اپنے محلوں کو صاف ستھرا رکھا جاسکتا ہے بلکہ اربوں روپے کا زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شاکر صاحب کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر حکومت کب عمل کرتی ہے؟ دیکھنا یہ بھی ہے کہ حکومت ان تجاویز کو مانتی ہے یا عوام کو گندگی کے ڈھیروں اور بدبو اڑاتی آلائشوں کے رحم کرم پر چھوڑ دیتی ہے؟

حصہ