پُر اسرار عمارت

354

ننھے جا سوس۔ قسط(5)

اپنے کمرے میں پہنچ کر جمال نے کمال کے بدن پر زوردار چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ یار دیکھنا ہم کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں جس پر جمال نے جواب دیا کہ بے شک ہم نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا لیکن سب کچھ خواب جیسا ہی لگتا ہے۔ وہ دھماکا کیسا تھا جو ہمارے گاڑی میں بیٹھتے ہی ہوا اور پھر گولیوں کی آواز، لگتا ہے کہ اس ہوٹل پر کوئی حملہ ہونے والا تھا جس کی اطلاع پاکر یہ سب کاروائی نہایت برق رفتاری کے ساتھ ہوئی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہونے والا دھماکا ہمارے اپنے کمرے میں ہی ہوا ہو اسی لئے ہمیں نہ صرف فوراً باہر نکالا گیا بلکہ کچھ بتائے بغیر پھرتی کے ساتھ ہم سب کو کندھوں پر اٹھا کر باہر لایا گیا۔ خیر جب تک انسپکٹر حیدر علی ہم سے یا ہم ان سے نہیں ملیں گے اس وقت تک کسی بھی قسم کی کوئی تفصیل ہمیں پتا نہیں چل سکے گی لیکن یہ بات تو طے ہے کہ معاملہ بہت ہی حساس نوعیت کا ہے جس کی وجہ سے شاید پاکستان کی خفیہ ایجنسی خود براہِ راست اس میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اسی قسم کی نہ جانے کتنی باتیں ایک دوسرے سے کرتے اور سوچتے جمال اور کمال نیند کی گہری وادیوں میں پہنچ گئے۔
بے شک جمال اور کمال کل غیر معمولی حالت سے گزرے تھے اور گھر آکر بہت دیر میں سو سکے تھے لیکن حسبِ معمول وہ فجر کی اذان کے ساتھ ہی اٹھ کر اپنا بستر چھوڑ چکے تھے۔ وضو کر کے جیسے ہی انھوں نے باہر جانے کے لیے گھر کا دروازہ کھولا، دروازے کے قریب ہی ایک انڈے دبل روٹی والا اپنی سائیکل سمیت کھڑا ہوا تھا۔ ویسے تو انڈے ڈبل روٹی والا اس گلی سے گزرا ہی کرتا تھا لیکن یہ پرانے والا نہیں تھا۔ اس سے پہلے کہ یہ اس سے سوال کرتے، اس نے آہستہ سے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارا خدشہ غلط نکلا کہ آپ کا تعاقب کیا گیا ہوگا لیکن پھر بھی آپ کے گھر سے دن کے 12 بجے سے پہلے کوئی باہر نہ نکلے۔ ہم اپنی جانب سے ہر طرح کا اطمنان کرنا چاہتے ہیں۔ بس اتنا کہہ کر وہ سائیکل پر سوار ہوکر چلا گیا۔ دونوں واپس آ گئے۔ ان کے پیچھے ان کے والد صاحب بھی نماز کے لیے باہر جانے کے لیے تیار ہی تھے کہ بچوں کو اندر آکر دروازہ بند کرنے پر حیرانی سے پوچھا کہ خیریت ہے، جس پر انھوں نے آہستہ سے ساری بات اپنے والد کو بتا دی۔ پوری بات سن کر جیسے انھوں نے سکون کا سانس لیا ہو اور وہ بھی اپنے کمرے کی جانب لوٹ گئے۔

رات اور وہ بھی سردیوں کی رات، اتنی تو گہری ہو چکی تھی کہ اب سب ہی سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ دستک نہایت دھیمے انداز میں ہوئی تھی۔ کال بیل ہونے کے باوجود دستک اور وہ بھی آہستہ سے، جمال اور کمال چونک گئے لیکن اس سے قبل کہ دونوں میں سے کوئی بستر چھوڑتا، ان کے والد نے دروازے کے پاس جاکر ہلکے سے پوچھا۔ کون؟، جواب ملا میں حیدر علی، آپ دروازہ کھولئے۔ والد صاحب نے دروازہ کھولا تو وہ اجازت لے کر گھر میں داخل ہوئے اور فوراً ہی دروازہ بند بھی کر دیا۔ یہ سب اتنی آہستگی کے ساتھ ہوا کہ کسی قسم کی آہٹ تک نہ ہوئی۔ جمال اور کمال کے والد حیران تھے کہ انسپکٹر حیدر علی اتنی رات گئے کیوں آئے ہیں، وہ بھی بنا وردی اور وہ بھی موٹر سائیکل پر۔ انھوں نے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولا اور انسپکٹر حیدر علی کو بٹھا کر وہ جمال اور کمال کے کمرے کی طرف چلے ہی تھے کہ وہ دونوں اپنے کمرے سے باہر آتے دکھائی دیئے۔ تمہیں انکل حیدر علی بلا رہے ہیں۔ مجھ سے کہا ہے کہ آپ آرام کریں شاید ان کو تم دونوں سے ہی اکیلے میں بات کرنی ہے، یہ کہہ کر وہ اپنے بیڈ روم کی جانب چلے گئے۔ جمال اور کمال نے اپنے اپنے کیمرے الماری سے نکال کر پہلے ہی اپنے گلے میں لٹکا لئے تھے۔ جب وہ دونوں ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو انسپکٹر حیدر علی کو اپنا منتظر پایا۔
ہمیں یقین تھا کہ یا تو آپ ہمیں اپنے پاس بلائیں گے یا پھر کسی بھی وقت خود یہاں آئیں گے۔

تم دونوں درست سوچ رہے تھے۔ کیس کی نوعیت کو تم دونوں سمجھ ہی چکے ہوگے اس لئے اسے بیان کئے بغیر مختصراً میں تم دونوں کو بتاتا چلوں کہ ہم گزشتہ چار ہفتوں سے اس عمارت میں عجیب و غریب سرگرمیاں ہوتے دیکھ رہے تھے۔ اس کا ہر وقت صاف رہنا، رات کے سخت اندھیرے میں کبھی کبھی آنا جانا لگا رہنا وغیرہ جیسے واقعات ہماری توجہ کے کے لیے کافی تھے۔ ایک مرتبہ ہم نے ایک فرد کا تعاقب بھی کروایا جو رات کے اندھیرے میں کسی سائے کی طرح حرکت کرتا نظر آ رہا تھا۔ وہ عمارت میں داخل تو ہوتے دیکھا گیا لیکن اس کی واپسی نہیں ہوئی۔ صبح جب وہاں تلاش کیا گیا تو کسی انسان کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ مزید غور کرنے کے بعد اندازہ ہوا کے اس کے جانے والے قدموں کے نشانات تو ہیں مگر واپسی کے کوئی شواہد نہیں۔ کل جب میں نے تم لوگوں کو وہاں دیکھا تو سوچا کہ تم کسی قسم کی کسی اطلاع پر وہاں گئے ہوگے اسی لئے میں نے پہرے داروں کو چپکے سے بتا دیا تھا کہ اگر یہ لوگ عمارت میں جانا چاہیں تو ان کو نہ روکا جائے اور نہ ہی کسی قسم کی سر گرمی پر ٹوکا جائے۔ مجھے امید تھی کہ تماری خداداد صلاحیتیں خود بخود تمہیں کسی نہ کسی کے شواہد جمع کرنے پر مجبور کر دیں گی۔ کیس بہت ہی سنجیدہ نوعیت کی شکل اختیا کرتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی خفیہ ایجنسی اس میں دلچسپی لے رہی ہے لیکن انھوں نے مجھے اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ کل جو کچھ ہوا یہ ایجنسی کی اپنی خفیہ اطلاعات پر ہوا۔ میرے علم میں یہ بھی آیا ہے تم دونوں کی پوری ہسٹری ہم سے کہیں زیادہ بہتر طور پر خفیہ ایجنسی کے پاس ہے۔ ان کے خیال میں بھی یہی ہے کہ تمہارے پاس کچھ بہت اہم معلومات ہیں جو کیس کو حل کرنے میں بہت ہی مفید ثابت ہونگی۔ کل ان کی بر وقت کارروائی کی وجہ سے تم سب لوگوں کی جانیں محفوظ رہیں۔ تمہارے کمرے میں وہ لوگ ریموٹ کنٹرول بم نصب کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے لیکن اس سے قبل کہ وہ اسے پھاڑتے، تم سب کو بچا لیا گیا۔ ہوٹل کے ارد گرد کئی دہشت گرد موجود تھے جس میں سے ایک ہاتھ لگا اور ایک ہلاک کر دیا گیا۔ اس سے جو معلومات حاصل ہو رہی ہیں وہ بہت خطرناک ہیں۔ اب جتنی جلد ہو سکے اپنی معلومات شیئر کرو تاکہ ان کی روشنی میں کارروائی کو مزید تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا جا سکے۔

جمال بولا۔ انکل آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ ہم نے بھی نوٹ کیا ہے کہ راستے میں کچھ جوتوں کے نشانات ایسے ہی جو صرف جانے والوں ہی کے ہیں جبکہ کچھ صرف آنے والوں ہی کے ہیں۔ باقی آنے جانے والے جوتوں کے نشانات شاید ہماری طرح آنے جانے والے وزیٹرز کے ہونگے۔ لیکن اس سے بھی ایک حیرت انگیز بات کسی جیپ کے ٹائر کے نشانات کے ہیں جو اندر دوسرے صحن کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑے سائز کے پتھر پر محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ جب جیپ یا کسی بھی کار کے اندر جانے کا کوئی راستہ ہے ہی نہیں تو کوئی کار یا جیپ نما گاڑی اندر گئی کیسے۔

کیا کہہ رہے ہو، یعنی صحن کے بیچ میں جو بڑا سنگِ مرمر کا پتھر نصب ہے تم نے اس پر کسی جیپ جیسی گاڑی کے ٹائروں کے نشانات محسوس کئے ہیں؟، انسپکٹر حیدر علی نے حیرت سے کہا۔
جی ایسا ہی ہے۔ شاید ہم ایسا محسوس نہیں کر پاتے لیکن اس سے بھی اہم ترین بات جو ہم آپ کے علم میں لانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جیپ کے ٹائروں کے نشانات یا جوتوں کے ایسے نشانات جو صرف جانے والوں کے یا صرف آنے والوں ہی کے ہیں ٹھیک ایک اور مقام پر بھی ہم نے نوٹ کئے تھے۔ ان کی یہ بات سن کر انسپکٹر حیدر علی کے جیسے ہوش ہی اڑ کر رہ گئے تھے۔ کیا کہہ رہے ہو تم دونوں۔ کوئی خواب تو دیکھ کر بیدار نہیں ہوئے۔

جی ایسا نہیں ہے۔ ہم نے اپنی جانب سے کوشش کی ہے ان کی تصاویر اتارنے کی۔ بے شک ہمارے کیمرے بہت خاص تو نہیں لیکن جہاں سے خریدے ہیں اس کمپنی کا یہی کہنا ہے کہ یہ بہت کمزور نشانات کی عکس بندی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس میں ریل موجود ہے جس کو ڈؤلپ کرنے پر ہماری ہر بات کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ کیا آپ کے علم میں ہے کہ عمارت سے ڈیڑھ دو فرلانگ کے فاصلے پر ایک مقبرہ ہے جو ہشت پہلوی ہے۔ ہم نے سب سے پہلے وہاں کے راستے پر ایسا محسوس کیا تھا کہ کچھ قدموں یعنی جوتوں کے نشانات صرف جا رہے ہیں یا صرف آ رہے ہیں۔ اس بات نے ہماری حسِ جاسوسیت کو مہمیز دی۔ پھر ہم نے کسی جیپ کے ٹائر کے نشان بھی نوٹ کئے لیکن بہت غور کرنے پر بھی اسی جیپ کی واپسی کے کوئی نشانات نظر نہیں آئے تو یہ بات ہمارے لئے اور بھی تجسس کا سبب بنی۔ ہم جوتوں اور ٹائروں کے نشانات کے تعاقب میں مزار کے اندر داخل ہوئے تو ایک بہت بڑا سا پتھر مزار کے بیچوں بیچ دیکھا اور اسی پر ٹائروں کے نشانات کو بھی نوٹ کیا جب جیپ یہاں تک آئی تو شاید وہ یہاں سے اڑ کر کہیں چلی گئی اس لئے کہ ریورس ہونے یا موڑ کاٹ کر جانے کے کوئی آثار وہاں نظر نہیں آئے اور اسی طرح جوتوں کے نشانات میں سے کچھ اسی پتھر تک نظر آئے۔ اب ضروری سا محسوس ہونے لگا تھا کہ عمارت کے اندر کا جائزہ لیا جائے لیکن اسی وقت آپ کو دیکھ کر ہمیں خطرہ ہوا کہ شاید اب ہم اندر نہ جا سکیں۔ ہم سمجھ چکے تھے کہ معاملہ کسی اہم نوعیت کا ہے لیکن آپ نے جاتے جاتے ہمیں اجازت دے کر بہت ہی اچھا کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم نہ تو جوتوں کے نشانات کا معمہ حل کر پاتے اور نہ ہی جیپ کے ٹائروں کے نشان دیکھ کر کوئی اندازہ قائم کر پاتے۔ عمارت سے باہر آنے والے جوتوں کے نشانات مقبرے میں جانے والے جوتوں جیسے اور عمارت کے اندر جانے والے جوتوں کے نشانات مقبرے سے باہر آنے والے جوتوں کے نشانات جیسے پائے۔ اس سے یہ ثابت ہو رہا تھا کہ جو مقبرے تک آتا ہے وہ عمارت سے باہر نکل جاتا ہے اور جو عمارت کے اندر جاتا ہے وہ مقبرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے تھانے والوں نے جس کا تعاقب کیا تھا وہ آپ کو پوری عمارت میں کہیں بھی نہ مل سکا تھا۔ ویسے تو مسئلہ حل کر ہی چکے تھے لیکن ٹائر کے نشان نے سارا کا سارا مسئلہ روزِ روشن کی طرح عیاں کر دیا۔

انسپکٹر حیدر علی نے حیرت سے کہا، کیا مطلب؟۔ سر اس کا صاف مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ مقبرے کا وہ بڑا سارا پتھر جو اس کے بیچوں بیچ نصب ہے اور جو عمارت کے اندر کے صحن کے درمیان موجود ہے وہ دونوں کسی لفٹ کی طرح کام کرتے ہیں اور مقبرے اور عمارت کے درمیان ایک کشادہ سرنگ کی نشاندھی بھی کرتے۔ انسپکٹر کا بس نہیں چل رہا تھا جمال اور کمال کو اپنے اندر ہی اتار لے۔ خوشی کی وجہ سے اس کے جسم کی کپکپاہٹ کو صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ کیمرے کے علاوہ دیگر اور بہت سی معلومات جمع کرنے کے بعد وہ جمال اور کمال سے اجازت لے کر بہت عجلت میں یہ کہہ کر روانہ ہو گئے کہ انھیں یہ ساری معلومات فوری طور پر خفیہ اداروں تک پہنچانی ہے۔
جمال اور کمال بہت خوش تھے کہ انھوں نے پاکستان کے لیے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ نہ اسکول میں آثارِ قدیمہ کے متعلق کوئی لیکچر ہوتا، نہ ان کے والد صاحب اسی بہانے انھیں ان کی بستی کے قریب پائے جانے والے مقبروں اور ایک وسیع و عریض عمارت کی سیر کرانے لے جاتے اور نہ ہی وہ کسی بھی قسم کی ایسی معلومات حاصل کر پاتے جو پولیس سمیت خفیہ ادارے کے لیے مفید ثابت ہو سکتی تھیں۔

دوسرے دن کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں نے جیسے ایک ہل چل مچا کر رکھ دی تھی۔ ہاتھوں ہاتھ اخبارات بک رہے تھے۔ جمال اور کمال بھی اپنی ناشتے کی میز پر بڑے انہماک سے ان خبروں کو پڑھ رہے تھے جو خبریں کم اور رپورٹیں زیادہ لگ رہی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کی والدہ و والد بھی ناشتہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخبارات کے مطالعے میں مصروف تھے۔

خبروں کے مطابق اسی رات خفیہ ادارے نے پوری مشینری کے ساتھ مقبرے اور عمارت پر ریڈ کیا۔ مقبرے اور عمارت کے اندر ان بڑے پتھروں کو مشینوں کی مدد سے توڑا گیا تو یہ دیکھ کر سب اہل کار اللہ اکبر کا نعرہ لگانے پر مجبور ہو گئے کہ وہاں ایک جدید اور بہت چوڑی سرنگ موجود تھی جس میں ایک بڑی ساری جیپ دوڑائی جا سکتی تھی۔ دونوں پتھر واقعی لفت نما تھا جن کو نیچے اوپر کیا جا سکتا تھا۔ لفٹ کو آپریٹ کرنے کے لیے جو نظام بنایا گیا تھا وہ ہنڈڈ آپریٹڈ تھا اور یہ اس لئے تھا تاکہ کسی مشین کی آواز آئے بغیر اسے استعمال کیا جس سکے۔ اس پتھر پر آکر انسان یا جیپ کھڑی ہوجاتی، لفت اسے سرنگ کی سطح تک لے جاتی اور جیپ چل کر اس دوسرے پتھر تک جاتی جو عمارت کے صحن میں نصب تھا۔ جیپ کے آنے پر اسے نیچے لایا جاتا اور پھر جیپ کو اس پر کھڑا کر کے اوپر لے جایا جاتا۔ اس سے بھی خوفناک بات یہ تھی کہ اسی عمارت کے دوسری جانب ایک اور طویل سرنگ بھی دریافت ہوئی جو کئی میل لمبی تھی۔ اس کا دوسرا سرا نکلتا تو پاکستان ہی کی سر حد کے اندر تھا لیکن وہاں سے دشمن ملک کی سرحد بہت ہی قریب تھی۔ سرنگ ہو، مقبرہ ہو یا عمارت، ان سب میں بہت ہی بڑے پیمانے پر بیڑی کا نظام نصب کر دیا گیا تھا اور کچھ مقامات پر مختلف میزائل بھی نصب کر دیئے گئے تھے جن کا رخ دشمن ملک کی ہی جانب تھا۔ ان سب مقامات پر درجنوں میزئلز نصب کرنے کی گنجائش تھی جس پر کام ابھی باقی تھا۔ منصوبے کے مطابق یہاں سے راکٹ فائر کرکے دشمن ملک پر مارے جاتے اور اس کا بہانا بنا کر پہلے پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جاتی اور پھر کوئی بڑا حملہ بھی کر دیا جاتا۔ آخر میں ایک جملہ بہت جعلی حرفوں میں کچھ یوں درج تھا لیکن ہمارے دو ننھے جانبازوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایسی معلومات جمع کیں جن سے ہماری خفیہ فورسز دشمن کے عزائم خاک میں ملانے میں کامیاب ہو گئیں۔ مزید یہ بھی لکھا تھا کہ ہم تو ان کو سلام پیش کرتے ہی ہیں، پوری قوم کو بھی ان کو سلام پیش کرے اور ان کی زندگیوں کے لیے دعائیں مانگے۔ آخر کے یہ الفاظ پڑھ کر خوشی اور شکرانے کے آنسو جمال اور کمال کی آنکھوں سے تو بہہ ہی رہے تھے، ان کے والدین بھی بے اختیار خوشی کے اشک بہا رہے تھے۔

حصہ