قسط (108)
جب پرویز کو اُس کے نمائندوں نے یہ اطلاع دی کہ ہرقل کے ایلچی زہر کے تلخ گھونٹ اپنے حلق سے اُتارنے پر آمادہ ہوگئے ہیں تو اُس نے ایک دن پوری شان و شوکت کے ساتھ اپنا دربار منعقد کیا، اور ہرقل کے ایلچی بے بس قیدیوں کی طرح وہاں لائے گئے۔
ایک بلند چبوترے پر جو بیش قیمت قالینوں سے آراستہ تھا، شہنشاہ کی مسند کے قریب سونے کے آتش دان میں مقدس آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے اور چبوترے سے نیچے سلطنت کے اکابر حسب مراتب صفیں باندھے کھڑے تھے۔ ملکہ شیریں شہنشاہ کے پہلو میں رونق افروز تھی۔
رومیوں کے لیے یہ وسیع ہال جس کے ستون اور دیواریں سونے اور چاندی سے مزین، فرش بیش قیمت قالینوں سے آراستہ تھے اور جس کی چھت لاتعداد فانوسوں سے سجائی گئی تھی، ایک طلسم کدہ تھا۔ وہ حاضرین دربار کی قبائیں اور جواہرات سے مرصع ٹوپیاں دیکھتے اور انہیں ایسا محسوس ہوتا کہ دنیا کی ساری دولت سمٹ کر اس دربار میں جمع ہوگئی ہے۔ وہ یہ اُمید لے کر آئے تھے کہ شاید کجکلاہِ ایران اُن کی التجائیں سُن کر صلح کی شرائط نرم کرنے پر آمادہ ہوجائے لیکن ابھی وہ مسند سے چند قدم دور تھے کہ سپاہیوں نے اُن کی گردنیں دبوچ لیں اور انہیں زبردستی سربسجود ہونے پر مجبور کردیا۔ پھر چند ثانیے بعد کسریٰ کے ہاتھ کا اشارہ پا کر سپاہیوں نے انہیں بازوئوں سے پکڑ کر اُٹھا دیا اور وہ دم بخود ہو کر اُس کی طرف دیکھنے لگے۔
نقیب رومی زبان میں چلایا۔ ’’تم فاتح عالم کے دربار میں کھڑے ہو۔ اگر جان عزیز ہے تو اپنی گستاخ نگاہیں نیچی کرلو‘‘۔
انہوں نے حکم کی تعمیل کی لیکن چند ثانیے بعد سائمن نے قدرے جرأت سے کام لیتے ہوئے کہا۔
’’عالیجاہ! ہم ہرقل کی طرف سے …‘‘
نقیب دوبارہ چلایا۔ خاموش تمہیں فاتح عالم کے ساتھ ہمکلام ہونے کی جرأت نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
سائمن کی زبان گنگ ہو کر رہ گئی۔
پرویز کے وزیر نے شہنشاہ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’فاتح عالم! آپ کا ادنیٰ غلام صلح کی شرائط کا اعلان کرنے کی اجازت چاہتا ہے‘‘۔
کسریٰ نے اپنے سر کو ہلکی سی جنبش دی اور وزیر نے یہ اعلان کیا۔ ’’فاتح عالم، فرمانروائے اعظم خسرو پرویز نے صلح کے لیے روم کے حکمران ہرقل کی التجا قبول فرماتے ہوئے اُس کے بااختیار نمائندوں کے ساتھ حسب ذیل شرائط طے فرمائی ہیں۔
ہرقل شام، فلسطین، مصر، آرمینیا اور ایشیائے کوچک کے تمام مفتوحہ علاقوں پر شہنشاہِ ایران کی حکمرانی تسلیم کرتا ہے۔ فاتحِ عالم یہ اعلان فرماتے ہیں کہ باسفورس کے مغرب میں رومی سلطنت کے کسی اور حصہ پر قبضہ نہیں کریں گے اور اس کے بدلے رُومی انہیں، ایک ہزار ٹالنٹ سونا، ایک ہزار ٹالنٹ چاندی، ایک ہزار حریر کی قبائیں، ایک ہزار بہترین گھوڑے اور ایک ہزار رُومی دوشیزائیں بطور خراج پیش کریں گے۔ اگر چھ ماہ کے عرصے میں یہ شرائط پوری نہ کی گئیں تو یہ معاہدہ کالعدم سمجھا جائے گا۔ اب شہنشاہِ عالم ہرقل کے ایلچی سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ انہیں یہ شرائط قبول ہیں؟‘‘۔
سائمن نے کسریٰ کی طرف دیکھا اور بھرآئی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’عالیجاہ! ہرقل کے آپ کے احکام کی تعمیل سے انکار نہیں ہوگا۔ لیکن رُوم کے حالات آپ سے پوشیدہ نہیں۔ ہرقل کو اتنا خراج جمع کرنے کے لیے زیادہ مہلت کی ضرورت ہوگی‘‘۔
ملکہ نے شہنشاہ کو اپنی طرف متوجہ کرکے کچھ کہا اور وہ پہلی بار سائمن سے مخاطب ہوا۔ ’’اگر ہرقل نے ہمیں اِس بات کا اطمینان دلا دیا کہ وہ نیک نیتی سے ہماری شرائط پورا کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کی درخواست پر اُسے مزید مہلت دینے کے متعلق سوچیں گے‘‘۔
سائمن نے کہا۔ ’’عالیجاہ! میں آپ کو یہ اطمینان دلا سکتا ہوں کہ ہرقل آپ کی شرائط تسلیم کرنے میں پس و پیش نہیں کرے گا اور اس سلسلہ میں اُن کے اپنے ہاتھ کی تحریر آپ کے پاس پہنچ جائے گی‘‘۔
پرویز نے کہا۔ ’’تُم ہرقل کو ہماری طرف سے یہ پیغام دے سکتے ہو کہ اگر اُس نے حیلہ جوئی سے کام لیا تو ہمارے سپاہی دنیا کے آخری کونے تک اُس کا پیچھا کریں گے اور قسطنطنیہ کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے گا‘‘۔
سائمن نے جواب دیا۔ ’’عالیجاہ! ہرقل کو اس بات کا پورا احساس ہے کہ آپ کی ناراضگی ہمارے لیے کس قدر تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر فاتح عالم مجھے اجازت دیں تو میں ایک اِلتجا کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘۔
’’عالیجاہ! ایک عرب نے دستگرد تک ہماری رہنمائی کی تھی اور اب وہ آپ کی قید میں ہے۔ اُس کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ رُوم اور ایران کی صلح کا خواہش مند تھا۔ میری التجا ہے کہ اُسے رہا کردیا جائے‘‘۔
پرویز نے غضب ناک ہو کر کہا۔ ’’وہ عرب ایران کے ایک ایسے غدار کا دوست تھا جسے موت کے گھاٹ اُتارا جاچکا ہے۔ اور ہم تمہیں اُس کی حمایت میں زبان کھولنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ تم جا سکتے ہو؟‘‘۔
سائمن نے سر جھکا کر سلام کیا اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اُلٹے پائوں باہر نکل آیا۔
دستگرد کا بڑا کاہن آگے بڑھا اور مسند کے قریب کھڑا ہو کر بولا۔ ’’عالیجاہ! میں آپ کی رعایا کی طرف سے اِس عظیم فتح پر آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اب ایران کے فرزند فخر کے ساتھ سر اُونچا کرکے یہ کہہ سکتے ہیں کہ قیصر اُن کے شہنشاہ کا ایک حقیر غلام ہے‘‘۔
ایک وزیر نے بلند آواز سے نعرہ لگایا۔ ’’فاتح عالم! آپ کا اقبال بلند ہو اور آپ کے دشمن ذلیل و خوار ہوں‘‘۔ اور حاضرین دربار اُس کی تقلید میں آوازیں بلند کرنے لگے۔ کسریٰ کا اقبال بلند ہو۔ کسریٰ کے دشمن ذلیل و خوار ہوں‘‘۔
پرویز نے اچانک ہاتھ بلند کیا اور وہ خاموش ہوگئے۔ اُس نے کہا۔ ’’ہم اس کامیابی کی خوشی میں ایک ہفتہ کے لیے جشن عام کا حکم دیتے ہیں‘‘۔
اگلی صبح قیصر کے ایلچی دستگرد سے روانہ ہوچکے تھے۔
ایک رات یوسیبیا اپنے بستر پر سو رہی تھی اور فسطینہ اُس کے قریب دوسرے پلنگ پر تکیے سے ٹیک لگائے کشیدہ کاری میں مصروف تھی۔ کسی نے آہستہ سے دروازے پر دستک دی اور اُس نے چونک کر پوچھا۔ ’’کون ہے؟‘‘۔
’’بیٹی دروازہ کھولو، میں فیروز ہوں‘‘۔
فسطینہ نے ریشمی کپڑا ایک طرف رکھ دیا اور اُٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ عمر رسیدہ نوکر تذبذب کی حالت میں یوسیبیا کے بستر کی طرف دیکھنے لگا۔
’’کیا بات ہے چچا! امی جان کو جگا دوں؟‘‘
’’نہیں اِس وقت انہیں بے آرام کرنا ٹھیک نہیں۔ تم میرے ساتھ آئو، دست گرد سے ایک آدمی آیا ہے اور وہ کوئی ضروری پیغام دینا چاہتا ہے‘‘۔
ایک ثانیہ کے لیے فسطینہ کا سارا وجود لرز اُٹھا اور پھر اُس نے اپنے حواس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’کہاں ہے وہ؟‘‘
’’بیٹی میں اُسے کونے کے کمرے میں چھوڑ آیا ہوں‘‘۔
فسطینہ کمرے سے باہر نکلی تو شدتِ اضطراب سے اُس کے پائوں لڑکھڑا رہے تھے۔
اچانک اُس نے رُک کر سوال کیا۔ ’’چچا تم نے اس سے ابا جان کے متعلق نہیں پوچھا؟‘‘۔
’’میں نے اُس سے کئی سوال کیے ہیں لیکن وہ یہ کہتا ہے کہ میں صرف سین کی بیٹی یا بیوی سے کوئی بات کرسکتا ہوں‘‘۔
’’اگر وہ کوئی اجنبی ہے تو میں امی جان کو جگا دیتی ہوں‘‘۔
’’بیٹی وہ کلاڈیوس ہے‘‘۔
’’کلاڈیوس! وہی جو ابا جان کے ساتھ گیا تھا؟‘‘۔
’’ہاں!‘‘
’’تم نے پہلے یہ کیوں نہیں بتایا‘‘۔ فسطینہ یہ کہہ کر کمرے کی طرف بڑھی۔ کلاڈیوس کمرے کے اندر ٹہل رہا تھا۔
’’آپ کب آئے، ابا جان کہاں ہیں؟ آپ تنہا کیوں آئے، آپ کے ساتھی کہاں ہیں؟‘‘ فسطینہ نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کردیئے اور پھر سراپا التجا بن کر کلاڈیوس کی طرف دیکھنے لگی۔
چند ثانیے کلاڈیوس کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔ پھر اُس نے بھرآئی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’آپ کے ابا جان اور عاصم ہمارے ساتھ نہیں آسکے۔ میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ غروبِِ آفتاب کے وقت یہاں پہنچا ہوں۔ ہم نے باہر پڑائو میں قیام کیا ہے۔ ہم علی الصباح کشتی پر سوار ہوجائیں گے۔ مجھے اندیشہ تھا کہ شاید میں جانے سے پہلے آپ کو نہ دیکھ سکوں۔ قلعہ کے محافظ نے مجھے بڑی مشکل سے رات کے وقت اندر آنے کی اجازت دی ہے۔ آپ کی امی جان کیسی ہیں؟‘‘۔
’’اُن کی طبیعت کئی دنوں سے خراب ہے آج وہ سو گئی تھیں اور میں نے انہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا لیکن اگر ضروری ہو تو میں انہیں بلا لاتی ہوں‘‘۔
’’نہیں، نہیں، انہیں تکلیف نہ دیجئے۔ آپ بیٹھ جائیں، میں آپ سے چند ضروری باتیں کہنا چاہتا ہوں‘‘۔
فسطینہ اضطراب کی حالت میں ایک کُرسی بیٹھ گئی، کلاڈیوس کچھ دیر پریشانی کی حالت میں دروازے کے سامنے فیروز کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اُس نے کہا۔ ’’کچھ کہنے سے پہلے میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے نوکر پر کہاں تک اعتماد کرسکتی ہیں‘‘۔
فسطینہ نے جواب دیا۔ ’’ابا جان نے فیروز کی وفاداری پر کبھی شبہ نہیں کیا، اور میں اسے چچا فیروز کہا کرتی ہوں‘‘۔
کلاڈیوس نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’آپ کو معلوم ہے کہ میں عاصم کا دوست ہوں‘‘۔
’’مجھے معلوم ہے اور میں آپ کو اپنا بھائی سمجھتی ہوں۔ لیکن خدا کے لیے آپ میری قوتِ برداشت کا امتحان نہ لیں‘‘۔