بچے امت کا سرمایہ ۔۔۔۔۔مگر کیسے

440

 

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیا ل کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ جس پر نہایت تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔‘‘ (التحریم 66:6)
اللہ، ربِ مہربان ہمیں خود کو اوراپنے اہلِ خانہ کو دوزخ کی شدید آگ سے بچنے کا حکم دے رہے ہیں۔ وہ آگ جس پر مقرر فرشتوں کے دلوں میں کسی کے لیے کوئی نرمی نہ ہوگی۔ کسی کی فریاد اور آہ وبکا ان پر کوئی اثر نہ کرے گی۔ وہ دوزخ جس کی آگ دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ شدید ہو گی۔

جہاں شدید تپش اور جلن ہو گی لیکن پینے کو ٹھنڈا پانی نہ ہو گا بلکہ جلتے ہوئے زخموں سے نکلنے والی پیپ اور کھولتا ہوا پانی ہو گا، اللہ کی پناہ! جہاں کھانے کو ایسا زہریلا اور کانٹے دار درخت ’تھوہر‘ ہو گا کہ جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اگر دوزخ کے’ تھوہر‘ کا ایک قطرہ بھی دنیا میں ٹپک پڑے تو یہا ں رہنے والوں کا جینا دو بھر ہو جائے۔ پھر ان پر کیا بیتے گی جن کی غذا ہی ’تھوہر‘ ہو گی‘‘۔ (ترمذی )

کیا ہمیں معلوم ہے کہ دوزخ میں لے جانے والے اعمال کون کون سے ہیں؟ کیا ہم نے ان سے خود اور اپنے اہل وعیال کو بچانے کا کوئی منصوبہ بنا رکھا ہے؎؟ ماں تو وہ ہستی ہے جو اپنے بچوں کو ایک کانٹے کا چبھنا بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ بچہ بیمار ہو تو ماں کی جان پر بن جاتی ہے۔ وہ علاج کے ساتھ ساتھ اللہ کے آگے ہاتھ بھی پھیلا دیتی ہے اور سب ملنے والوں سے کہتی پھرتی ہے کہ میرے بچے کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔ اس کی تعلیم کے لیے سخت پریشان ہوتی ہے اور اس میں کوتاہی پر بچے کی مار کٹائی سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ بچے کی دنیوی ضروریات کے لیے ایک ماں نہ اپنا آرام دیکھتی ہے، نہ دن اور رات کا چین۔لیکن کتنی مائیں ایسی ہیں جنھیں یہ فکر ہو کہ بچے جنت کے باغوں کے پھول بن رہے ہیں یا دوزخ کا ایندھن بننے جارہے ہیں؟ اور کتنی تحریکی مائیں ایسی ہیں جنھیں یہ تڑپ ہو کہ ان کے بچے ان کے نصب العین کے وارث بنیں اور اقامت دین کی تحریک کے باعمل ومتحرک داعی بنیں؟ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق: ’’ہم راعی ہیں اور ہم سے ہماری رعیت کے بارے میں سوال ہو گا ‘‘۔

اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ دنیا میں بھی ایک اَن پڑھ اور پڑھے لکھے فرد کے امتحانی سوالات کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک غیر تحریکی اور کم شعور رکھنے والی ماں کا حساب کچھ اور طرح کا ہوگا، اور زندگی کا مقصد سمجھ کر اس کو عملاً اپنانے والی ماں کا بحیثیت راعی ذمے داریوں کا حساب فرق ہوگا۔ دُعا ہے کہ اللہ ہم سے آسان حساب لے اور نرمی کا معاملہ کرے۔ آمین !
ایک خصوصی قلیل المیعاد منصوبہ بنائیں اور بہت ساری خصوصی دعائیں کریں تا کہ ہم روزِ قیامت کے اس منظر کو دیکھنے سے بچ سکیں کہ خدا نخواستہ ہمارے اہل وعیال میں سے کسی کو فرشتے طوق اور زنجیریں پہنا کر دوزخ کی طرف کھینچ رہے ہوں۔اس وقت ہماری زندگیاں تین طرح کی معاشرت کا ملغوبہ ہیں:کچھ اسلامی شعائر پر مبنی طرزِ زندگی‘ جاہلیتِ قدیمہ اور خاندانی رسومات۔جدید تعلیم اور مغربی معاشرت تیزی سے ہماری زندگی پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ خصوصاً معاشرتی قدریں تیزی سے بدل رہی ہیں۔ دین داری ’انتہا پسندی‘ ٹھیری ہے۔ شرافت، حیا، عزت کے سکّے کھوٹے ہورہے ہیں۔ سادگی ، کفایت شعاری کی جگہ مادیت پرستی اور ریا کاری نے لے لی ہے۔

اصل اور خالص اسلام خال خال نظر آتا ہے۔ دین کا فہم اور زندگی کا شعورو مقصد رکھنے والی ایک ماں کو نہ صرف ماحول کے اثرات سے اپنے بچوں کو بچانا ہے، بلکہ اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ اور فروغ دین کے لیے اپنے بچوں کو تیار کرے، تا کہ اللہ کی زمین شیطان کے حملوں سے محفوظ ہو سکے اور اللہ کے بندے اللہ کی جانب رجوع کر کے دوزخ سے بچ سکیں۔ اور ایسی مائیں بگاڑ کے اس دور میں یقینا انقلاب برپا کر سکتی ہیں، ان شاء اللہ۔ شرط یہ ہے کہ دل میں تڑپ پیدا ہو جائے اور اتنی حرارت پیدا ہو جو انھیں متحرک کر دے۔ کرنا کیا چاہیے ؟اس کے لیے لائحہ عمل پیش ہے!

والدین کا کردار :
رب کائنات کے فرمان کے مطابق پہلا حکم ہے :’’اے ایمان والو ! اپنے آپ کو بچائو۔‘‘ (التحریم 66-6)سب سے پہلے ماں اور باپ کو اپنے ایمان وعمل کا تجزیہ کرنا ہے۔ اس کی اصلاح کرنی ہے۔ اپنے آپ کو سچا مسلمان بنانا ہے۔ رول ماڈل بننا ہے۔ کیونکہ بچے کی تربیت کا آسان طریقہ اپنا بہترین کردار بچے کے سامنے رکھنا ہے۔ نمازی ماں کے بچے نا سمجھی کی عمر میں بھی جاے نماز لے کر اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں، اور گالیاں دینے والے والدین کے بچے گالیاں ہی سیکھتے ہیں۔ اس لیے ذرا ان نکات پر غور کریں:
٭ہمارا ایمان کس درجے کا ہے ؟
٭فکرِ آخرت کتنی ہے ؟
٭اپنے انجام سے کتنے خوف زدہ رہتے ہیں؟
٭حب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس درجے کی ہے ؟
٭عبادات کی کیفیت کیا ہے ؟
٭نمازیں کس پابندی اور کتنے خشوع سے ادا ہوتی ہیں ؟
٭قرآن پاک سے تعلق کتنا ہے ؟
٭دیگر عبادات اور انفاق فی سبیل اللہ کس قدر ہے ؟
٭بچوں اور اہل خاندان سے معاملات کیسے ہیں ؟
٭میاں بیوی کے تعلقات کیسے ہیں ؟
یقینا جھوٹ بولنے والی ، غیبتیں کرنے والی ماں کی اولاد کا حسن خلق سے آراستہ ہونا بہت مشکل ہے۔ (الا ما شاء اللہ!) ماں کا لبا س حیا دار ہو گا تو بچے بھی حیا سے آراستہ ہوں گے۔ باپ غیرت مند ہو گا تو اولاد بھی ویسی ہی ہو گی۔ ان شاء اللہ !اسی طرح تمام معاملات میں احساس ذمہ داری ماں کے اندر کتنا ہے؟وہ کاموں کو احسن طریقے سے انجام دینے والی ہے یا ذمہ داریوں میں ڈنڈی مارنے والی ہے ؟_ الغرض ماں اور باپ وہ سانچے ہیں جن کے مطابق اولاد ڈھلتی ہے اور اس کا بہترین پیمانہ خود رب کائنات نے تقویٰ کو قرار دیا ہے۔ خاندان کی تشکیل سے لے کر موت تک تقویٰ کا حکم دیا: ’’اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو ، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا۔‘‘ (النساء4:1)

یہ تقویٰ ایک پیمانہ ہے۔ برعظیم کے ایک معروف عالمِ دین سے کسی نے اولاد کی نافرمانی کی شکایت کی تو انھوں نے فرمایا :اپنی زندگی کو دیکھو !تم اللہ کے کتنے فرماں بردار ہو ؟ گویا اولاد کی صالحیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین اللہ کے اطاعت گزار اور اس سے ڈرنے والے ہوں۔ ان شاء￿ اللہ رحیم وکریم اللہ اولاد کو ضائع نہیں کرے گا (اِلا یہ کہ کوئی آزمائش مطلوب ہو)۔
گھر کا ماحول: والدین کے کردار کے بعد بچوں پر اثر انداز ہونے والی دوسری چیز گھر کا ماحول ہے۔ جہاں ماحول غیر اسلامی ہو ، گھر میں رات دن فحش فلمیں اور ٹی وی ڈرامے چلتے ہوں، جہاں لڑائی جھگڑا رہتا ہو، مخلوط معاشرت ہو، اسراف وتبذیر ہو، طرزِ زندگی اسلام کے بجاے مادیت پرستی کا عَلم بردار ہو، گھر کی پاکیزہ معاشرت کے بجائے مصنوعی سجاوٹ وبناوٹ پر زیادہ زور ہو، وہاں بچوں کا صالح بن کر اُٹھنا دشوار ہے۔ لہٰذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ اولاد کے دنیا میں آنے سے قبل اپنے گھر کے ماحول کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی بھرپور کوشش کریں۔ عمومی زندگی سے لے کر خصوصی تقریبات تک سب پر اللہ کا رنگ غالب ہو تو بچوں پر بھی یہ ہی رنگ چڑھے گا۔ ان شاء اللہ ! ’’اللہ کا رنگ، اور اللہ کے رنگ سے اچھا اور کون سا رنگ ہو سکتا ہے۔‘‘ (البقرہ 2-138)

کاش! ہمیں یہ یقین ہو جائے کہ یہی بہترین رنگ ہے، بہترین ماحول ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی اسی میں عافیت ہے۔ اگر ایسا ہو جائے کہ ہمارا سونا جاگنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، اوڑھنا بچھونا، سجاوٹ بناوٹ ، سب کچھ درست ہو جائے۔ تقریبات میں ہندوانہ تہذیب کی بجائے اللہ کا رنگ غالب آ جائے اور لباس، وضع قطع یہود و نصاریٰ جیسی بنانے کے بجائے جگر گوشۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا جیسی بنا کر ہمیں سکون و اطمینان حاصل ہو، تو بھلا خاندان پر اسلامی سوچ کیوں نہ غالب ہو گی۔

یقینا جس گھر میں توحید کا بول بالا ہوتا ہے ، وہ شرک اور بدعات سے بچ جاتا ہے۔ اس گھر کے بچوں پر مفاد پرست اور علمائے سوء کی تعلیمات اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ ان شاء اللہ۔ جو مائیں جنوں اور پریوں کی کہانیاں سنانے کے بجائے اپنے بچوں کو قصص الانبیاء سناتی ہیں، ان کا آئیڈیل انبیا علیہم السلام ہی بنتے ہیں۔ جو مائیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رول ماڈل بناتی ہیں، وہ ان کی زندگی کے خدوخال سے اپنے بچوں کو گفتگو میں، کھانے پر، اُٹھتے بیٹھتے آگاہ کرتی رہتی ہیں، تو بچے اس ماحول میں خود کو پروان چڑھاتے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ درج ذیل امور میں بچوں کی رہنمائی ضروری ہے:
بنیادی تعلیمات راسخ کرنا
توحید: بچوں میں توحید راسخ کرنے کی شعوری اور انتہائی کوشش کرنا بہت ضروری ہے، اس لیے کہ ’شرک‘ وہ گناہ ہے جو معا ف نہ ہو گا ’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے، معاف کر دیتا ہے۔‘‘ (النساء۔4:48)

شرک کرنے والوں پر جنت حرام ہے:
’’جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا ، اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی۔‘‘ (المائدہ5:72) موجودہ دور کے خطرات اور شرور میں ’دین کے نام پر بے دینی کے سود اگروں‘ کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔ خصوصاً میڈیا کی وجہ سے بے حیائی کے ساتھ ساتھ بدعات اور شرک کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔ لہٰذا بہت چھوٹی عمر میں کلمہ طیبہ کا مفہوم بچوں کے ذہن میں پختہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد صراط مستقیم پر قائم رہنے کے لیے انہی دو چیزوں کو مضبوطی سے تھامنا ضروری ہے، جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو تھامے رکھو گے تو گمراہ نہ ہو گے ، یعنی قرآن اور سنت رسولؐ۔لہٰذا ،اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ہمارے گھروں میں ان بنیادوں سے وابستگی کتنی ہے؟ ان کی تعلیم و تدریس کا کیا بندوبست ہے؟ بچے قرآن وحدیث کو کتنا سمجھتے ہیں ؟ کتنے بچے قرآن پاک کا ترجمہ سمجھتے ہیں؟ اور تفسیر کی شد بد ھ رکھتے ہیں؟ اور اس کے لیے کتنی محنت کی جاتی ہے؟ اس کا ایجنڈا بنانا اور بچوں کی عمر کے لحاظ سے نصاب طے کرنا اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔

نبی کریم ؐکی محبت :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق بچوں کے اندر پیدا کرنا_ اتنی محبت، اتنی محبت، کہ جو تمام محبتوں پر غالب آ جائے ورنہ تو ایمان ہی مکمل نہیں۔ چھوٹے بچوں کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم دل نشین انداز میں کہانی کی صورت میں قسط وار سنائی جائے اور بڑے بچوں کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرایا جائے۔

فکرآخرت:
آخرت پر مضبوط ایمان اور فکر آخرت ہی شرور سے بھری اس دنیا میں گناہوں اور برائیوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ بچوں کے اندر جنت کا شوق ، دوزخ کا ڈر مؤثر طریقے سے پیدا کیا جائے۔ اس طرح کہ بچے جنت کے حصول اور دوزخ سے بچنے کی تیاری میں لگ جائیں۔میڈیا کے بگاڑ کے اس دور میں خشیت الٰہی اور فکر آخرت ہی وہ چیز ہے جو اس کے نقصانات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ والدین پاس موجود ہوں یا نہ ہوں، بچے کو یہ شعور ہو کہ اللہ دیکھ رہا ہے، تو یہ فکر بہترین محاسب ہے۔ ان شاء اللہ !

صحابہ کرامؓ بطور مثال:
بدلتی ہوئی قدروں اور اس زوال پذیر معاشرت میں، جب بھانڈ، گویے اور کھلاڑی نوجوانوں کے آئیڈیل بنا دیے گئے ہیں، ان کی سوچ اور تخیل کو درست رکھنے کے لیے اعلیٰ ترین کردار بطور مثال ان کے سامنے پیش کرنے ضروری ہیں۔ صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست تربیت کردہ مثالی انسان تھے۔ عشقِ رسولؐ سے بچوں کو سرشار کرنے کے بعد، اس عشق کے تقاضے پورے کرنے والوں کی عملی تصاویر اور نمونے، آج کے ہیروز کے ساتھ تقابل کر کے اصل روح کے ساتھ بچوں کے سامنے رکھے جائیں۔ بچپن میں کہانیوں کی صورت میں اور بعد میں لٹریچر اور اسٹیڈی سرکلز کی صورت میں تاکہ وہ اپنے تصور میں طے کرلیں کہ ’بڑا ہو کر کیا بنوں گا‘ اور پھر ان کو ویسا بننے میں پوری مدد ومعاونت فراہم کی جائے۔

عبادات:
خصوصاً نماز کی عادت پختہ کرنا۔ ابتدائی عمر سے تقریباً سولہ سال کی عمر تک بچوں کی نماز کے معاملے میں نگرانی اور یاددہانی کا تسلسل رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد الحمد اللہ بچے پختہ عادات اپنا لیتے ہیں۔ اس دوران محض ’نماز پڑھو‘ کی گردان نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ’نماز مومن کی معراج‘ بناکر بچوں کے قلب وروح کے اندر اتاری جائے اور ہر دکھ درد، مشکل کا علاج بذریعہ نماز سکھایا جائے۔ نیز اس کا دین کا ستون ہونا دلائل سے ثابت کیا جائے۔ پھر نماز نہ پڑھنے پر حکمِ رسولؐ کے مطابق کچھ نہ کچھ سختی ضروری ہے تاکہ انھیں احساس ہو کہ نماز چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔

شیطانی حربے:
شیطان ، اس کے چکر ، اس کا وسواس الخناس ہونا، اس کے حربے قرآن وسنت کی روشنی میں بچوں کو بتائے جائیں۔ قدم قدم پر اسے باور کرایا جائے کہ وہ سوچے کہ کس کے راستے پر چل رہا ہے ، اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر یا شیطان کے ؟ حلال وحرام کی حدود، معروف و منکر کے بدلتے تصورات (مثلاً موسیقی، تصاویر وغیرہ کا معاملہ )، اخلاق وکردار ، میڈیا میں درست یا غلط، تمام امور میں واضح رہنمائی دینا ضروری ہے۔

مادیت پرستی سے بچانا:
شیطان کا بہت بڑا وار مادیت کے راستے پر دھکیلنا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے، جس کے بارے میں نبی کریمؐ نے خبر دار کیا تھا ’’اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں ہے کہ تم مفلس ہوجائو گے۔ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ ہو جائے گی جیسے تم سے پہلی امتوں پر یہ کشادہ ہوئی تھی۔ پھر تم اسے چاہنے لگو گے جیسے انھوں نے اسے چاہا۔ پھر تم اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرو گے جیسے انھوں نے کیا۔ پھر یہ د نیا کی فراوانی اور اس کی طرف بے انتہا رغبت تمھیں تباہ کر کے رکھ دے گی جیسے اس نے تم سے پہلوں کو کیا۔‘‘ (متفق علیہ)اسی کو’ وہن‘ بھی کہا گیا اور یہ مال ودولت کی دوڑہی ہے جس نے دنیا کا سکون تباہ کر دیا ہے۔ فساد ، قتل وغارت گری عام ہو گئی ہے، اور ساہو کاروں او ر سرمایہ داروں کی گندی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مال بٹورنے کی خاطر دنیا کو بے حیائی کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ لہٰذا صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کی مثالیں دیتے ہوئے ان کا سادہ اور غریبانہ طرزِ زندگی واضح کرنا، غنٰی کے معنی بتانا اور برکات کے حصول کے طریقے سکھانا، قناعت اختیار کرنے پر رغبت دلانا، یہ سب مائوں کے کام ہیں ( بشرطیکہ مائیں خود سادگی اور قناعت کے راستے پر چل رہی ہوں۔ )

اخلاق و معاملات:
بچوں کے اخلاق پر چھوٹی عمر ہی سے نظر رکھنا ضروری ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرتِ صحابہؓ سناتے ہوئے ان کے بہترین اور آئیڈیل اخلاق کو واضح کرنا اور بچوں کے لیے اس کے حصول کو ہدف بنانا ضروری ہے۔ اس وقت جب ہمارا معاشرہ اخلاقی اصولوں کی پاس داری سے بہت حد تک عاری ہے، بچوں کا بہترین اخلاق پر عمل اسی وقت ممکن ہے جب والدین اس کا بہترین نمونہ پیش کر رہے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ طہارت ، صفائی، بہترین شہری کی صفات پیدا کرنا، قانون کی پاس داری کا جذبہ بیدار کرنا، ملک وملت سے محبت اور امت کے ’جسدِ واحد‘ ہونے کا تصور پیدا کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔
حیا، ایمان اور اخلاق کا اہم ترین جز ہے۔ ’حیا‘ پر ہی شیطان نے کاری وار کر کے ہماری قوم کی غیرت کا جنازہ نکال دینے کی سر توڑ کوشش کی ہے۔ بچوں کے اندر حیا پیدا کرنا ضروری ہے۔ نماز کی عمر کو پہنچیں تو مکمل لباس کی عادت بن جانی چاہیے۔ لڑکے پانچ سال کی عمر کے بعد نیکر اور لڑکیاں چھوٹی آستین اور جانگیہ نہ پہنیں۔ بچیوں کو نماز کی عمر سے دوپٹے اور اسکارف کی عادت ڈالی جائے۔ مائیں بھی اپنے طرزِ عمل پر ضرور نظر ڈالیں کہ گھروں میں مکمل لباس میں ملبوس ہوتی ہیں یا دروازے پر گھنٹی بجے تو دوپٹہ ڈھونڈنے دوڑتی ہیں۔

’لباس التقویٰ ‘ کی تشریح مائوں کو بھی آتی ہو اور بچوں کو بھی سمجھائیں۔ اس حدیث کو یاد رکھیں کہ ’عورتیں جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں، جنت کی خوشبو بھی نہ پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو ہزاروں میل سے آتی ہو گی‘‘۔ پتلا، چست اور نامکمل لباس، سبھی یہاں مراد ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ ’لباس کے احکام ‘ گھر کے اندر کے لیے ہوتے ہیں، باہر کے لیے حجاب کے احکا م ہیں۔ قرون اولیٰ میں یہ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی عورت بغیر حجاب کے محض لباس پہن کر باہر جائے گی۔ شیطان کی اس چال سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ عورتیں گھروں میں ایسا لباس پہن سکتی ہیں جو ساتر نہ ہو۔ یاد رکھیں غیر ساتر لباس میں نماز قبول نہیں ہوتی۔ اس لیے پتلے کپڑوں میں پڑھی گئی نماز یں ضائع ہو جائیں گی۔ لہٰذا، اپنے بچوں کو دوزخ سے بچانے اور جنت میں داخل کرا نے کے لیے بے حیائی وبے حجابی سے بچانا اشد ضروری ہے۔ لڑکیوں کے لباس کا حیا دار ہونا بھی ضرور ی ہے۔

تعلیم و تربیت:
تعلیم کا قبلہ درست رکھنا ’اصل علم ‘ کا مفہوم سمجھنا اور اس کے مطابق بچوں کی تعلیم وتربیت کی فکر ضروری ہے۔ یاد رکھیں ! تعلیم کے نام پر اس وقت ’تجارت ‘ ہے اور ’سوداگری‘۔ یہ سودا گر ایمان کے بدلے مال کما رہے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم نے نسلیں تباہ کر دی ہیں۔ بقول مولانا مودودی ؒ’’یہ تعلیم گاہیں نہیں ، قتل گاہیں ہیں‘‘۔ اس تعلیم نے آکر ہماری نسلوں کو مکمل کافر نہیں بنایا تو مسلمان بھی کم ہی چھوڑا ہے۔ صحابہ کرامؓ کبھی سوچ سکتے تھے کہ ایک دور ایسا آئے گا جب مسلمان ’قرآن‘ کے معنی تو نہ جانتے ہوںگے لیکن اوکسفرڈ اور ہارورڈ کی کتابیں گھول کر پیتے ہوں گے اور فرنگی علوم کے ماہر ہونے پر فخر کرتے ہوں گے۔ افسوس کہ’ تعلیم کے تیزاب‘ نے ہماری نوجوان نسل کے ایمان کو جلاکر بھسم کر دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
یہ والدین ہی کا فرض ہے کہ وہ ’تعلیمی ادارے‘ کے انتخاب میں اللہ کے نور کی روشنی سے دیکھیں اور ایسے ادارے کا انتخاب کریں، جو عصری علوم سے بہرہ ور تو کرے لیکن ’ایمان کی قیمت‘ پر نہیں۔ اور اگر اسکول میں وہ تعلیم نہیں، جو بچوں کو ان کا مقصد زندگی سمجھا کر اس کی ادائی کے لیے تیار کر سکے تو اس کا بندوبست گھر میں کرنا ہو گا، جیسے فزکس اور کیمسٹری کے لیے ٹیوٹر رکھا جاتا ہے۔ ’قرآن وحدیث ‘ کے لیے بدرجۂ اولیٰ استاد کا بندوبست کرنا اور ترجمہ و تفسیر باقاعدہ سکھانے کا اہتمام کرنا والدین کا فرضِ عین ہے۔ یہاں تک کہ اسلامی نظام غالب آ جائے اور اسکولوں کا قبلہ درست ہو جائے، ان شاء اللہ!

شادی بیاہ:
بہوکی تلاش میں آج کل ’مال دار حوریں‘ تلاش کی جاتی ہیں اور داماد کی تلاش میں بڑے قدوجسامت کے ساتھ ساتھ ’موٹی اسامی‘۔ اس معاملے میں دین کی ترتیب کو بالکل اُلٹ کر دیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کی شرافت کی وجہ سے، اس کی خوب صورتی کی وجہ سے، اور اس کے دین کی وجہ سے۔ اور تو دین دار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر۔ اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی آخرت میں تجھ کو ندامت ہو گی )‘‘۔ (متفق علیہ )
اگر دین دار والدین کا معیار بھی دوسروں جیسا ہی ہو گا، تو اس ترتیب کو درست کون کرے گا؟ دین سب سے پہلے ہے، حسن ونسب اور دولت اس کے بعد۔ تحریکی شادیوں کو رواج دیا جائے تو ان شاء اللہ، تحریکی خاندان وجود میں آئیں گے۔ اللہ کا حکم ہوا تو نسل در نسل دین کا کا م جاری رہے گا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی کتنی پیاری دعا ہے : ’’اے رب ! ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان )بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا ، جو تیری فرماںبردار ہو۔‘‘ (البقرہ 2:128)
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اولاد کے لیے اُمتِ مسلمہ کی تمنا کرتے ہیں۔ سوچ کی بلندی دیکھیے! اگلی نسلوں کی فکر کرنا انبیا ؑ کی سنت ہے۔ نسلوں کی تعمیر کی پہلی اینٹ وہ ’رشتہ ‘ ہے جو ہم اپنے بچوں کے لیے چنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہترین شادی اسے قرار دیا گیا ہے ’جو کم خرچ ہو‘۔ اس کی فکر کرنا، اسراف و تبذیر سے بچنا اور اپنے بچوں کو بچانا، تقریبات میں ’رضاے الٰہی ‘ مد نظر رکھنا ، یہ سب والدین کی ذمہ داریاں ہیں۔ اس معاملے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو مجبوری بنا کر اللہ کے حکم سے رْوگردانی کرنا مومنین کا شیوہ نہیں ہے۔

خاندان کا استحکام:
مسلمانوں کا مستحکم خا ندانی نظام اس وقت دشمنانِ دین کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے اور اس پر چاروں طرف سے شیطانی قوتیں حملہ آور ہیں۔ خاندان کے استحکام کے لیے جہاں مائوں کو خود اچھی ساس اور بہو بننا ہے وہیں اپنے بیٹوں کو اچھا ’قوام ‘ بنانے کی شعوری کوشش کرنا ہے۔ ان کے اندر خودی اور عزت و احترام کو بیدار کرنا ہے۔ لیکن ’جاہل مرد‘ بننے سے بچانا یقینا ایک سمجھ دار ماں کا ہدف ہونا چاہیے اور لڑکوں کی تربیت اس ضمن میں لڑکیوں سے زیادہ اہم ہے۔ اچھا شوہر کیسا ہوتا ہے؟ یہ تعلیم اسکول نے نہیں ، والدین نے دینی ہے۔اسی طرح لڑکیوں میں ’صالحات اور قانتات‘ کی روح پیدا کرنی ہے۔ اچھی بیوی اور بہو کی صفات اُجاگر کرنا ، محبت کے خمیر میں اس کے اخلاق کو پروان چڑھانا، محنت و مشقت کا عادی بنانا، قربانی اور صبر و حوصلہ کی صفات پیدا کرنا۔ یہ سب ہو گا تو خاندان مستحکم ہو گا (یاد رہے کہ اپنے بچوں میں ’تقویٰ‘ جو کہ خاندان کے استحکام کی بنیاد ہے، پیدا کرنے کی بات ہم پہلے کر چکے ہیں۔)

گھر کے بزرگوں کے ساتھ نرمی ومحبت کا برتائو، ان کی خدمت اور آرام کا خیال رکھنا، جو مائیں سکھائیں گی کل کو ان کے بچے بھی ان کی خدمت کر رہے ہوں گے، اور ’حیات طیبہ ‘ بسر کرنے والے خاندان وجود میں آئیں گے۔ ان شاء اللہ !خاندان کو درپیش تمام خطرات سے مائوں کا آگاہ ہونا اور اپنے بچوں کو ان سے بچانے کی تدابیر کرنا اور ان پر محنت سے عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔ سسرال میں پیش آنے والے مسائل سے بچوں کو آگاہ کرنا اور ان کا اسلام کی روشنی میںحل دینا بھی ضروری ہے۔ اسلام نے اس ضمن میں حقوق و فرائض کا واضح طور پر تعین کردیا ہے۔ یہ بدنصیبی ہے کہ شرح طلاق میں اضافہ ہونے کی وجوہات میں ایک وجہ مائوں کی نا سمجھی بھی ہے۔ بہو کی جائز معاملات میں بھی حمایت نہیں کرتیں اور بیٹیوں کی ناجائز مطالبات میں بھی لڑائی مول لے کر غلط رہنمائی کرتی ہیں۔ لہٰذا اپنے بچوں کے گھر بسانے اور خاندان کو مستحکم بنانے میں ماں کی ’دین داری اور سمجھ داری ‘ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

شہداء علی الناس:
ہر مسلمان بہ حیثیت ’مسلمان ‘ شہادت حق ادا کرنے کے منصب پر فائز ہے ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اْمتِ وسط‘ بنایا ہے تا کہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو۔‘‘ (البقرہ2:143)
والدین بچوں کو جیسے دنیا میں رزق کمانے کا طریقہ سکھاتے ہیں اور دنیا کے دیگر فرائض ادا کرنے کے لیے محنت سے تیار کرتے ہیں، اس ذمہ داری کے لیے تیار کرنا بھی ان کا فرض ہے اور اس کا حساب بھی روز قیامت ان سے لیا جائے گا۔ وہ والدین جو خود ’مقصد زندگی‘ سمجھ چکے ہیں اور یہ فرض ادا کر رہے ہیں، ان میں اس ذمہ داری کے بارے میں کتنی حساسیت پائی جاتی ہے ؟ اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے:
٭بچوں کے اندر اقامت دین کی ذمہ داری کی فکر بیدار کرنا۔
٭تحریک سے جوڑنے کے طریقے سوچنا۔
٭ہم عمر تحریکی ساتھیوں سے ملانا اور اجتماعیت میں شامل کرنا۔
٭تحریکی لٹریچر کا مطالعہ کرانا اور اس کے لیے مشق اور تیاری کرانا۔
٭تیز رفتار زندگی کی دوڑ میں اس فریضے کو فراموش نہ کرنا۔
یہ فرضِ منصبی ہے، اس مقصد کے لیے :
٭چھوٹے بچوں کو مائیں پروگرام میں اپنے ساتھ رکھیں۔
٭گھروں میں تحریکی رسائل جاری کروائیں۔
٭متعلقہ کتب پر سٹڈی سرکل اور ڈسکشن فور مز رکھیں۔
قرآن پاک اگر اپنی روح کے ساتھ بچوں کو پڑھا دیا جائے تو ناممکن ہے کہ بچے اپنے فرض سے غافل رہ جائیں۔ دین کے لیے قربانی کا تصور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر دیا جائے۔
بچوں کوآسائشوں سے بچا کر ان میں سخت کوشی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ یقینا ایک تحریکی ماں کے بچے ایسے نخرے والے نہیں ہو سکتے کہ فلاں چیز نہیں کھانی اور فلاں لباس نہیں پہننا اور فلاں بستر کے بغیر سو نہیں سکتا وغیرہ۔

تکمیل تربیت :
یقینا بچوں کی تربیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی جب تک معاشرہ تربیت یافتہ نہ ہو جائے جہاں اس کو زندگی بسر کرنی ہے۔ وہ تعلیمی ادارے درست نہ ہو جائیں جہاں اسے تعلیم حاصل کرنا ہے۔ میڈیا کا قبلہ درست نہ ہو جائے اور وہ بگاڑ کے بجاے اصلاح کا فریضہ انجام دینے لگ جائے۔جب تک سودی نظام سے نجات نہ مل جائے جو اخلاقِ فاسد پیدا کر رہا ہو، اور رزقِ حرام قبولیت حق میں مانع ہو رہا ہو۔یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اللہ رب العالمین کا نازل کردہ اور پسندیدہ دین ’اسلام ‘ غالب نہیں آ جاتا۔ دین غالب نہیں آ سکتا جب تک ہم سب اور ہمارے بچے مل کر اس کے لیے جدوجہد نہیں کرتے اور اس فرض کو ادا کرنے میںتن من دھن لگا نہیں دیتے۔کیا ہم اپنا فرض تندہی سے ادا کر رہے ہیں ؟ دُعا ہے کہ ’’اے اللہ! ہمارا حساب آسان کرنا‘‘۔

دعائیں :
’’جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولی ومرشد (رفیق: سیدھی راہ دکھانے والا) نہیں پا سکتے۔ (الکہف 18:17) لہٰذا ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے اوراس کی رحمت کے بغیر ملنی مشکل ہے۔ قرآن و حدیث میں بے شمار دعائیں موجود ہیں، جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہیں۔ ان کا بکثرت اہتمام ضروری ہے۔ یہ دعائیں ہمارے سامنے اولاد کی تربیت کا معیار بھی رکھ دیتی ہیں اور دل کی تڑپ کو اْجاگر بھی کرتی ہیں مثلاً حضرت ابراہیم ؑ کی دعا جس کا پیچھے تذکرہ کیا گیا۔ یہ اولاد کو ایسی امت میں دیکھنے کی تڑپ ہے جو خود ہی مسلمان نہ ہو بلکہ دنیا کو بھی مسلمان بنانے کا ہدف رکھتی ہو۔
اسی طرح سورہ فرقان میں دعا سکھائی گئی کہ ’’اور وہ جو کہتے ہیں کہ ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے۔‘‘
گویا ’اولاد صرف آنکھوں کی ٹھنڈک ہی نہ ہو‘ ’متقین‘ کی بھی امامت کرے، یعنی ’نیکوں میں سب سے نیک اور ’امام‘ امامت کرنے والا، رہنمائی کرنے والا۔ امام رول ماڈل ہوتا ہے، جس کی لوگ پیروی کرتے ہیں، جس کی اقتداکرتے ہیں۔ گویا اللہ سے یہ دعا کی جائے کہ ہمارے بچے انسانیت کی رہنمائی کرنے والے ’قائدین‘ ہوں اور دنیا ان کے پیچھے چلنے والی ہو اور تمام دنیا کے لیڈر کی طرح نہیں بلکہ ’متقین کے امام‘ ہوں۔ یہ ایک آئیڈیل ہے جو ہمیں دکھا دیا گیا۔ لہٰذا اپنے اہل خانہ کے لیے متقین کا امام بننے کے لیے دعائیں اور صلوٰۃ حاجت ، ان کی اصلاح کے لیے ، ان کا فرضِ منصبی سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اور اس کے نتیجے میں دنیا و آخرت کی فلاح کے لیے، ہمارے معمول میں شامل ہونی چاہیے۔ بے شک رب کریم ہے اور ستر مائوں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ ماں جب دردِ دل سے دعا کرتی ہے تو قبول ہوتی ہے ’’اور جو کچھ ہم کر پا رہے ہیں، اس کو قبول فرما۔ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘ (البقرہ2:127)

حصہ