بزم یاران سخن کراچی کا سب سے اہم اصول وقت کی پابندی ہے‘ پروگرام 6 بجے شروع ہوتا ہے 6 بجے کے بعد آنے والے شعرا کا شمار سامعین میں ہوتا ہے۔ ادارے کے منتظم نے اس اصول پر کبھی مفاہمت نہیں کی بلکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے اس ادبی تنظیم نے گزشتہ ہفتے پی ایم اے ہائوس میں محسن اسرار کے چوتھے شعری مجموعے ’’رنگ و نور کا دکھ‘‘ کی تعارفی تقریب اور مشاعرے کا اہتمام کیا۔ مجلس ِ صدارت میں رفیع الدین راز اور سعید الظفر صدیقی شامل تھے۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ مہمانانِ خصوصی تھے جب کہ محسن اسرار مہمان اعزازی تھے۔ یاسر سعید صدیقی نے نظامت کے فرائض بہت خوش اسلوبی سے انجام دیے اور کہیں بھی مشاعرے کا ٹیمپو خراب نہیں ہونے دیا۔ تلاوتِ کلامِ پاک کی سعادت نظر فاطمی نے حاصل کی جب کہ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے نعت رسولؐ پیش کی۔ محسن اسرار کی تقریب پذیرائی کے پہلے مقرر رانا خالد محمود نے کہا کہ محسن اسرار کے شعری موضوعات مشاہداتی ‘ واقعاتی اور ذاتی ریاضت پر مشتمل ہیں جو عصرِ رواں کے سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور روحانیت سے بھرپور ہیں۔ ان مضامین میں انسانی روّیوں اور اخلاقیات کو اہمیت حاصل ہے جو شعری جمالیات میں ایک احساس پیدا کرتا ہے۔ ان کی شاعری کی بنیاد بھی سچائی اور محبت پر ہے‘ ان کا شمار شاعری کے اساتذہ کرام میں ہوتا ہے وہ بہت سینئر شاعر ہیں۔ ان کا کلام عہدِ حاضر کی مؤثر آواز ہے۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ محسن اسرار کی کتاب رنگ و نور کا دکھ دراصل محاسنِ شعری تخلیق ہے جس میں زندگی کے مختلف مضامین موجود ہیں ان کے اشعار میں روانی اور شیریں بیانی ہے‘ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ساتھ تنوع موجود ہے۔ انہوں نے کائنات کا مطالعہ کیا اور اس کے مختلف رنگوں سے اپنی شاعری کو سجایا ہے۔ محسن اسرار نے اپنی شاعری میں صفتِ تضاد کا استعمال اپنی شاعری کو پرکشش بنایا ہے انہوں نے ضائع بدائع کے استعمال سے اشعار سجائے ہیں۔ ان کے ہاں صفت تکرار بھی موجود ہے انہوں نے عشقِ حقیقی اور عشق مجازی پر سیر حاصل کلام کیا ہے ان کی شاعری میں بے شمار خوبیاں ہیں۔ رفیع الدین راز نے کہا کہ محسن اسرعار ایک قادرالکلام شاعر ہیں‘ ان کے یہاں انسانی کردار و عمل کا تجزیہ بڑی عمدگی سے ملتا ہے ان کی شاعری میں زبان و بیان کی ندرت نظر آتی ہے وہ غزل کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ جدید لفظیات استعمال کرتے ہیں انہوں نے جہاں اپنے ذاتی تجربات بیان کیے ہیں وہیں انہوں نے معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل بھی بیان کیے ہیں۔ سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ محسن اسرار جہاں دیدہ اور توانا فکر کے شاعر ہیں‘ وہ داخلی اور خارجی محسوسات کو بیان کرنے کا پورا شعور رکھتے ہیں‘ ان کے کشتِ ادب میں شگفتہ اور سدا بہار پھولوں کی کوئی کمی نہیں‘ وہ شعر و سخن میں استاد کے درجے پر فائز ہیں۔ ان کی شستہ زبان قارئین اور سامعین پر سحر کاری کا اثر رکھتی ہے‘ ان کی غزلیں اور نظمیں شاہکار ہیں‘ ان کے ہاں جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے مضامین بھی نظر آتے ہیں تاہم روحانی اور وجدانی کیفیات کے اشعار بھی ان کی شعری کا حصہ ہیں۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے کہا کہ محسن اسرار کے لہجے میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کا شعور موجود ہے‘ ان کی شاعری میں تقدس آمیز روشنی پھوٹتی نظر آتی ہے ان کی شاعری میں سلاست اور نغمگی بھری ہوئی ہے جو کہ ان کے علمی دسترس کا ثبوت ہے۔ ان کی غزلوں میں عشق کا مفہوم جداگانہ ملتا ہے‘ ان کے ہاں زندگی رواں دواں ہے‘ ان کی شاعری آج کے عہد سے جڑی ہوئی ہے‘ ان کے بہت سے اشعار حالتِ سفر میں ہیں ان کے ہاں کیف و مستی اور موسیقیت پائی جاتی ہے‘ یہ غزل کے شاعر ہیں تاہم ان کی نظمیں بھی قابل تحسین ہیں۔ محسن اسرار نے کہا کہ وہ بزمِ یارانِ سخن کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ اس ادارے نے میرے لیے تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا‘ آج بہت سے لوگ میری محبت میں اس تقریب میں شریک ہیں۔ میں نے زندگی میں بے شمار مسائل و مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن میں نے حوصلہ و ہمت نہیں ہاری۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر شاعر کو زمینی حقائق بیان کرنے کی ہمت ہونی چاہیے۔ اس موقع پر محسن اسرار نے کئی غزلیں سنا کر خوب داد و تحسین حاصل کی۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں مشاعر ہوا جس میں رفیع الدین راز‘ سعیدالظفر صدیقی‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ محسن اسرار‘ اختر سعیدی‘ زاہد حسین جوہری‘ ڈاکٹر نثار‘ مقبول زیدی‘ نورالدین نور‘ رانا خالد محمود‘ آئرین فرحت‘ نظر فاطمی‘ صفدر علی انشا‘ ضیا حیدر زیدی‘ شاہدہ عروج‘ شائستہ سحر‘ یاسر سعید‘ فخراللہ شاد‘ شائق شہاب‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ کشور عروج‘ کامران صدیقی‘ سرور چوہان‘ جاوید اقبال ایڈووکیٹ اور مظہر مہدی نے کلام نذر سامعین کیا۔ سعید جدون نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے بروقت آنے سے ہمارا پروگرام کامیابی سے ہم کنار ہوا‘ اردو زبان و ادب کی خدمت کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت پروگرام منعقد کر رہے ہیں۔ سرور چوہان نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ہماری تنظیم بزم یارانِ سخن کا کسی بھی تنظیم سے کوئی جھگڑا نہیں‘ ہم ہر ادبی ادارے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔