خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت قربانی بھی امارت کے اظہار کا ذریعہ بن گئی۔ اخبارات میں خبریں اور تصاویر شائع ہوتی ہیں کہ فلاں آدمی نے اتنی قیمت کی گائے یا بکر ے کی قربانی کی، یا فلاں آدمی نے 15لاکھ کی گائے خریدی۔ میں ایک صاحب کو جانتا ہوں، وہ کہنے لگے کہ میں جس قیمت کے جانور لاتا ہوں شہر بھر کی بات تو نہیں کرتا مگر پورے فیڈرل بی ایریا میں میرے مقابلے میں کوئی ایسا جانور نہیں لاتا۔
قربانی ایک مقدس فریضہ ہے جو ہر صاحبِ استطاعت پر واجب ہے۔ ہمارے ہاں کچھ ایسے مغرب زدہ افراد بھی ہیں جن کے پاس دولت کے ڈھیر ہیں اس کے باوجود وہ بقرعید کے دن کو بھی ایک عام دن کی طرح گزار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ مسلمانوں کا ملّی شعار ہے۔ ایک اچھے تندرست جانور کو ذبح کرنا، پھر اسے خود بھی کھانا اور اعزہ و اقربا اور مساکین کو بھی کھلانا نہ صرف قربانی کا جذبہ پیدا کرتا بلکہ مہمان نوازی اور فیاضی کی روایت کو بھی قائم واستوار کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں آج بہت سے نودولتیوں کے طور و طریق سے جو نمائشِ بے جا، بسیار خوری، ذخیرہ اندوزی ہورہی ہے، اس نے قربانی کے ادارے کو بھی تباہ کردیا ہے۔ مہنگی سے مہنگی قیمت کے جانور خریدے جارہے ہیں اور اس پر مزید خرابی یہ کہ انہیں پھول، پتیوں اور زیورات سے مزین کیا جارہا ہے۔ انہیں گلی گلی لے کر پھرا جاتا ہے۔ گویا قربانی نہ ہوئی اپنی دولت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہوگیا۔ اب اس پر مزید خرابی یہ ہورہی ہے کہ قربانی کے گوشت کو تقسیم کرنے کے بجائے، جمع کیا جارہا ہے۔ یہ کوئی صحیح طریقہ نہیں کہ سالم جانور سرد نعمت خانے (ریفریجریٹر) اور یخ خانے (ڈیپ فریزر)کی نذر کردیئے جائیں، خود بھی بسیار خوری کی جائے اور پیٹ بھروں کے بھی پیٹ بھرے جائیں۔ ہمارے ہاں بقرعید پر موسم بہت شدید ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بجلی کی آنکھ مچولی بھی جاری رہتی ہے۔ ایسے میں ان سرد نعمت خانوں میں رکھے ہوئے گوشت کی کیفیت کس طرح صحیح رہ سکتی ہے! اب یہ گوشت کھاکر آدمی بیمار نہیں ہوگا تو کیا ہوگا…!
اس موقع پر مجھے سیرت پاک میں پڑھا ہوا ایک واقعہ یاد آگیا۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے، آپؐ نے دیکھا ایک صحابی بکری ذبح کررہے ہیں۔ ان سے سلام دعا کے بعد آپؐ آگے تشریف لے گئے۔ واپسی پر پھر ان صحابی سے ملاقات ہوئی۔ آپؐ نے صحابی سے پوچھا کہ گوشت کا کیا کیا؟ صحابی نے فرمایا: سارا گوشت بانٹ دیا، بس یہ ران بچی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں بچا تو وہ جو تم نے بانٹ دیا۔
دوسری طرف ہم اپنا جائزہ لیں جو قربانی کے اصل فلسفہ اور مقصد کو بھول گئے ہیں۔ نہ ہی قربانی کا گوشت شریعت کے حکم کے مطابق تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں جس میں سے ایک حصہ غربا اور مساکین کا، دوسرا اعزہ واقربا کا، اور تیسرا اپنے گھر کے استعمال کا۔ اب تو سارا گوشت ڈیپ فریزر میں جمع کرلیتے ہیں اور پھر مہینوں اس کو استعمال کرتے اور بیماریوں کو فروغ دیتے ہیں۔
آئیے اب بات کرتے ہیں قربانی سے حاصل ہونے والے (بھیڑ، دنبہ، بکرا، گائے، اونٹ)کے گوشت کی غذائیت کی۔
متوازن غذا ایسی غذا کو کہتے ہیں جس میں جلد ہضم کی صلاحیت ہو اور اس کے کھانے کے بعد طبیعت میں گرانی پیدا نہ ہو بلکہ وہ طبیعت کو ہشاش بشاش کردے، جسم توانائی اور فرحت محسوس کرے۔ یا ایسی غذا جو تندرستی کی ضامن ہو اور جسم کی بنیادی اکائی (سیل) کو طاقت دے۔
دیگر غذائوں کی طرح گوشت بھی ایک مکمل غذا ہے۔ انسان بنیادی طور پر ہمہ خور جانور ہے جو گوشت بھی کھاتا ہے اور سبزی بھی۔ اگر گوشت کو مستقل ترک کردیا جائے تو لحمیات کی کمی ہوجاتی ہے۔
تیز نوکیلے دانتوں کے بجائے ہماری ڈاڑھیں چپٹی ہوتی ہیں جو اناج کے دانوں اور بیجوں کو چبانے کے لیے زیادہ موزوں ہیں، چنانچہ اس مقصد کے لیے ہمارے جبڑوں میں بڑی لچک بھی ہے۔ وہ حرکت کرکے انھیں اچھی طرح چبا سکتے ہیں۔ گوشت خور ڈاڑھوں سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کے جبڑے بھی صرف اوپر نیچے حرکت کرسکتے ہیں۔ وہ چباتے نہیں ہیں۔ البتہ ہمارے منہ میں چار نوکیلے دانت (کچلیاں) ضرور ہوتے ہیں۔ گوشت خور انھی کا سہارا لے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسان تھوڑا بہت گوشت خور بھی ہے۔
گوشت انسان کی سب سے اوّلین غذا ہے۔ آدم نے اس کرۂ ارض پر اپنی زندگی کا آغاز کیا اور پھل اور پتے کھانے کے بعد جانور کا شکار کرکے اس کا گوشت کھانا شروع کیا، اور آج تک ہم گوشت سے غذائیت حاصل کررہے ہیں۔ اس لیے جب کوئی گوشت کو مسلسل ترک کردے تو اس میں لحمیات کی کمی ہوتی ہے اور سبزیوں میں موجود کم غذائی عناصر سے مطلوبات حاصل کرنے کی کوشش میں آنتوں کا حجم بڑھ جاتا ہے اور پیٹ بڑا ہوتا ہے۔ گوشت میں جن عناصر اور حیاتین کی کمی ہوتی ہے ان میں سے اکثر خون اور کلیجی میں پائے جاتے ہیں۔ گوشت خور جانوروں کو خدا نے اتنی عقل دی ہے کہ وہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پہلے شکار کا خون پیتے ہیں، پھر اس کا کلیجہ چباتے ہیں اور اس طرح وہ ایک مکمل اور متوازن غذا حاصل کرلیتے ہیں۔ چونکہ انسانی معدہ خون ہضم نہیں کرسکتا اس لیے انسانی خوراک کی تکمیل کے لیے سبزیاں ضروری ہوجاتی ہیں۔
کھانے کے لیے گوشت کا انتخاب ہر ملک کے لوگوں میں مختلف ہے۔ مثلاً یورپی ممالک میں زیادہ تر گائے، اس کے بعد سور اور پرندے شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ پرندوں سے زیادہ کھپت مچھلیوں کی ہے۔ ایشیائی ممالک میں دنبہ، بکرا، بھیڑ زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ اور گائے کے گوشت سے مراد بھینس کا گوشت بھی ہوسکتا ہے۔
اسی طرح گوشت خوروں کے معدے کے رس یا رطوبات تیزابی ہوتی ہیں جو حیوانی عضلات اور ہڈیوں کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس کے برخلاف انسان اور سبزی خور جانوروں کے معدوں کی رطوبت گوشت خور حیوانوں کی رطوبات کے مقابلے میں 20گنا کم تیز ہوتی ہے۔
گوشت خور جانوروں کی آنتیں ان کے جسم سے تین گنا بڑی، جبکہ نباتات خور جانوروں کی آنتیں ان کے جسم سے دس گنا بڑی ہوتی ہیں۔ اسی طرح پھل کھانے والے جانوروں کی آنتیں ان کے جسم سے 12گنا بڑی ہوتی ہیں۔ رہ گئے حضرتِ انسان، تو ان کی آنتیں 12گنا بڑی ہوتی ہیں۔
آنتوں کی لمبائی کے اس فرق کی وجہ بھی سمجھ لیجیے۔ گوشت کھانے والے جانوروں کی آنتیں اس لیے چھوٹی ہوتی ہیں کہ گوشت بہت جلد خراب ہوجاتا ہے۔ چوں کہ آنتیں چھوٹی ہوتی ہیں اس لیے وہ بہت جلد ہضم کے مراحل سے گزر کر خارج ہوجاتا ہے۔ اس کے برخلاف سبزیوں کو ہضم کے مراحل سے گزرنے کے لیے تقریباً ڈیڑھ دن کی مدت درکار ہوتی ہے۔ اس حساب سے گوشت کو ہضم ہونے میں پانچ دن لگیں گے۔ اب اگر انسان کی غذا صرف گوشت ہو تو ایسی صورت میں آنتوں میں زہریلا فضلہ بہت بنے گا۔
ماہرینِ غذا بہ کثرت گوشت خوری کو مضر صحت قرار دے رہے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ محض اسی کی وجہ سے انسان کی صحت روز بروز گررہی ہے اور وہ نت نئی بیماریوں کا شکار ہورہا ہے۔ انسان کا جسم گوشت خوری کے لیے موزوں نہیں ہے۔ گوشت خور جانوروں کو قدرت نے گاڑھی جمنے والی چکنائیوں، چربیوں اور کولیسٹرول ہضم کرنے کی زبردست صلاحیت دی ہے، لیکن سبزی خور جانور اس صلاحیت سے محروم ہیں۔ چنانچہ جب ان کی غذا میں چربی اور چکنائی شامل کی جاتی ہے تو ان کی شریانوں میں کولیسٹرول جم جاتی ہے اور وہ اپنی لچک کھو دیتی ہیں۔
ہمارے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی غذا بہت سادہ تھی۔ آپؐ گوشت بھی تناول فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ام سلمیٰؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھنا ہوا گوشت کھایا۔ آپؐ کو دست اور گردن کا گوشت بہت مرغوب تھا۔ حضرت ضباعہ بنتِ حضرت زبیر ؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم نے اپنے گھر میں بکری ذبح کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام بھیجا کہ اس میں سے ہمارا حصہ بھیج دیں۔ میں نے عرض کیا کہ صرف گردن کا گوشت بچا ہے اور مجھے اسے بھیجتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اس پر آپؐ نے کہلا بھیجا کہ وہی بھیج دو، گردن کا گوشت بکری کا عمدہ حصہ ہے، گردن خیر سے قریب تر اور نقصان سے بعید تر ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے دست سے (گوشت) کھاتے ہوئے دیکھا۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دست، گردن، ران، شانہ، پشت اور پکے ہوئے گوشت میں بھنا ہوا گوشت پسند تھا۔
آئیے اب آپ کو عید پر ذبح ہونے والے مختلف جانوروں کے گوشت کے خواص بتا تے ہیں۔
1) بکرے کا گوشت: یہ گرم تر اور طاقت بخش ہے، خون پیدا کرتا ہے، مقوی باہ ہے اور مادہ تولید پیدا کرتا ہے۔ تپ دق، سنگرینی اور کمزوری میں اس کی یخنی مفید ہے۔ بعض اطباء کا قول ہے کہ بکرے کے جس عضو کا گوشت کھایا جائے انسان کے اسی عضو کو طاقت ملتی ہے۔ بکری کے بچے کا گوشت ضعیف اور کمزور لوگوں کے لیے مفید ہے۔ ریاح دور کرتا ہے، سوداوی مزاج والوں کو نقصان دیتا ہے۔ وہ لوگ جوکم محنت کرتے اور دماغی کام کرتے ہیں، ان کے لیے فائدے مند ہے۔
2) بھیڑ کا گوشت: یہ کسی قدر گرم اور معتدل ہے۔ کمزوری دور کرکے بدن کو طاقت بخشتا اور موٹا کرتا ہے۔ بھوک لگاتا ہے۔ معدے کو طاقت دیتا ہے۔ قوتِ باہ کو بڑھاتا ہے۔ تپ دق کے مریضوں کے لیے اس کا شوربا بہت مفید ہے۔ مرگی کے مریضوں کو اس کا گوشت نہیں کھانا چاہیے۔
3)گائے کا گوشت:گرم خشک ہے۔ خون کو خراب اور پیٹ میں اپھارہ کرتا ہے۔ دماغ میں زہریلے مواد پیدا کرتا ہے، جوڑوں کے درد میں نقصان دہ ہے۔ اس کے استعمال سے ہونٹ اور مسوڑھے متورم ہوجاتے ہیں۔ گائے کی چربی کو پکا کر جلے ہوئے پر لگانے سے زخم ٹھیک ہوجاتا ہے۔ برص کے داغ پر گائے کا بھیجا سرکے میں ملا کر طلوعِ آفتاب سے پہلے لگانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ گائے کا گوشت پکاتے ہوئے ادرک اور گرم مسالہ ضرور ڈالیں۔ میرے استادِ محترم شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید کہا کرتے تھے کہ حدیث میں آیا ہے کہ گائے کے گوشت میں بیماری اور دودھ میں شفاء ہے۔
4) اونٹ کا گوشت: تیزابیت، یاسیت، بواسیر، نمونیا اور سانس اور اعصابی امراض کے شکار افراد کے لیے فائدہ مند ہے۔ موٹے، فربہ اور اہلِ دل بھی یہ گوشت استعمال کرسکتے ہیں۔ قوتِ باہ میں اضافہ کرتا ہے۔ یرقان اور پیشاب کی جلن میں فائد ہ دیتا ہے۔ اونٹ کے گوشت میں کولیسٹرول گائے اور مرغی سے کم ہوتا ہے۔ چربی بھی گائے سے کم ہوتی ہے اور چربی میں ایک تہائی چربی غیر سیر شدہ چربی پر مشتمل ہوتی ہے جو صحت کے لیے فائدہ مند ہے جس سے مدافعتی نظام میں معاونت ہوتی ہے۔ اونٹ کے گوشت میں گلاکوجن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے تھکن محسوس نہیں ہوتی اور آدمی ہشاش بشاش رہتا ہے۔
گوشت کی پہچان:
گائے بیل کا گوشت سرخ… بکری کا ہلکا سرخ… بھیڑ، دنبے کا ہلکا سرخ… بھینس کا گہرا سرخ اور اونٹ کا سرخ ہوتا ہے۔
گائے کی چربی کا رنگ زرد اور خشک اور بکری کی چربی کا سفید ہوتا ہے۔ دنبے کی چربی میں ریشے ملتے ہیں، بھینس کی چربی سفید اور اونٹ کی چربی ہلکی زرد ہوتی ہے۔
قدیم اطباء کا یہ خیال تھا کہ جانور کے جو اعضاء انسان استعمال کرتا ہے، اس سے اُس کے انھی اعضاء کو تقویت ملتی ہے، مثلاً اگر کسی جانور کا بھیجا استعمال کیا جائے گا تو انسان کا دماغ تیز ہوگا۔ دورِ جدید کے اطباء اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔
اگر آپ نے کئی جانوروں کی قربانی کی ہے تو اس کے دو حصے (غریبوں اور اعزہ و اقربا میں) تقسیم کرنے کے بعد بھی گوشت خاصی مقدار میں بچ جائے تو صرف دو سے تین ہفتوں کا گوشت اپنے پاس رکھیں باقی اللہ کی راہ میں تقسیم کردیں۔ جتنا تقسیم کریں گے آپ کے مال میں اتنی ہی زیادہ برکت ہوگی، اور مال تقسیم کرنے سے کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے۔ ہمارے شہر اور ملک کے بہت سے علاقوں میں رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنہیں سال بھر گوشت کھانے کو نہیں ملتا۔ اپنے حصے کا گوشت اُن کو کھلائیں اور پھر دیکھیں کتنا سکون ملے گا اور کتنی اچھی نیند آئے گی۔
گوشت کٹنے کے دوران اور اس کے حصے ہونے تک دھوپ میں نہ رکھیں۔ بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ گوشت کٹ کر آپ تک پہنچتا ہے تو خراب ہوجاتا ہے۔ اِس مرتبہ تو ہمارے شہر کا موسم بھی سخت گرم ہے۔گوشت کو ڈیپ فریزر میں رکھنے سے پہلے ایک بڑے برتن میں پانی گرم کریں۔ اس میں پودینہ سبز، تیزپات اور تھوڑی سی ہلدی ڈال دیں اور اس کے بعد اس میں دیسی سرکہ بھی ملائیں۔ اب جو گوشت آپ فریزر میں رکھنا چاہتے ہیں اس کو دھوکر اس پانی میں ڈال کر10منٹ بعدنکالیں اور ایک دن میں جتنا استعمال کرنا ہے اس کے حساب سے تھیلیاں بناکر سرد خانے (ڈیپ فریزر) میں رکھ دیں۔ تھیلیوں کے درمیان پودینہ، تیزپات یا کڑی پتّا کے پتّے بھی رکھ دیں۔ فریزر کے چاروں کونوں میں بغیر استعمال کیے ہوئے دیسی کوئلے کے تین انچ کے ٹکڑے رکھ دیں۔
گوشت استعمال کرنا ہو تو مٹی کی ہنڈیا یا کسی دوسرے برتن میں ہلکی آنچ پر پکائیں۔گوشت کو ابالتے یا پکاتے وقت سونٹھ، چھوٹی الائچی، سونف، تیز پات اور تازہ پودینہ کی چھوٹی سی پوٹلی بناکر ڈال دیں، کھانا پکنے کے بعد یہ پوٹلی نکال دیں۔ اب جو ڈش تیار کررہے ہیں اس کے مطابق مسالے ڈال کر ڈش تیار کرلیں (یہ پوٹلی صرف فریج میں سے نکالے ہوئے گوشت کے لیے ہے)۔ سن رسیدہ، کمزور اور بیمار افراد کے لیے عیدِ قرباں کے گوشت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یخنی بنائیں۔
گوشت کی یخنی: گوشت کی بوٹی، ہڈیاں گڈیاں، چقندر، گاجر، ٹماٹر، سیب، پیاز، تازہ پودینہ، ادرک، لہسن، دارچینی، فلفل سیاہ، سونف، نمک سیاہ ڈال کر جوش دیں اور زینون کے تیل کا بگھار دے کر یخنی پلائیں۔ عید کے تین سے چار دن کے بعد دن میں صرف ایک مرتبہ گوشت استعمال کریں اور دوسرے وقت سبزی یا دال کھائیں۔ عید کے دنوں میں سلاد لازماً استعمال کریں۔ کوئلوں پر سنکا ہوا بھنا ہوا گوشت، گھی اور تیل ڈال کر بنائے ہوئے سالن سے بہتر ہے۔ جوڑوں کے درد، بلڈ پریشر، ذیابیطس، جگر اور دل کے امراض میں مبتلا افراد گوشت کھاتے وقت احتیاط کریں۔گائے کا گوشت صرف تبرک کے طور پر کھائیں۔
گوشت گلانے کے طریقے :
(1) خربوزے کے چھلکے سائے میں خشک کرکے پیس کر محفوظ رکھیں اور گوشت پکاتے وقت دو تین چٹکیاں ڈال دیں، گوشت جلد گل جائے گا (ایک کلو میں 20گرام چھلکے کا پائوڈر ملائیں)۔
(2) پان میں کھانے والا چونا گوشت پکانے والے برتن کے ڈھکن پر تھوڑا سا لگا دیں اور اوپر وزن رکھ دیں۔
(3)کچا پپیتا چھلکے سمیت خشک کرلیں اور اس کا سفوف بنا لیں۔ یہ بھی گوشت گلا دے گا۔
(4)گوشت پکاتے وقت چھالیہ کے موٹے ٹکڑے ڈال دیں۔
(5) گوشت پکانے سے پہلے تھوڑی سی کچری پیس کر گوشت پر لگا دیں اور دو گھنٹے بعد گوشت پکائیں۔
(6) فریج میں سے گوشت کا پیکٹ نکال کر کسی پیالے میں رکھ دیں اور بغیر دھوئے پکائیں۔ اس طرح غذائیت بھی ضائع نہیں ہوگی اورجلدی گل بھی جائے گا۔
(7) گوشت ہلکی آنچ پر گلائیں۔ گل بھی جائے گا اور مزیدار بھی ہوگا۔
روسٹ: گوشت دھونے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے سرکہ، نمک اور کالی مرچ لگا کر رکھ دیں اور پھر اسے تلیں۔ چانپ روسٹ کرتے وقت چانپوں کو مسالے اور دہی میں بھگو کر فریج میں رکھ دیں۔ اگر آپ سرکہ میں بھگونا چاہتے ہیں تو اس میں مسالے ملادیں۔ پپیتا اور مسالے لگاکر بھی چند گھنٹوں کے لیے فریج میں رکھ سکتے ہیں۔ چانپیں خستہ اور مزے دار بنیں گی۔ لیموں کے رس میں بھی چانپ بھگو کر رکھی جاسکتی ہے۔
گوشت خراب ہونے سے کیسے بچائیں:
٭گوشت میں نمک اور آدھی پیالی پانی ڈال کر جوش دے لیں۔ چوبیس گھنٹے بعد پھر ایک بار گرم کرلیں۔ اس طرح تین چار دن بقرعید کے موقع پر گوشت بغیر فریح کے رہ سکتا ہے۔ ٭گوشت کے ٹکڑے کرکے نمک اور سرکہ لگائیں۔ چھری یا کانٹے سے گہرا کٹ لگائیں، پھر ہلکا سا تیل لگا کر رکھیں۔ اس سے گوشت پر جو پپڑی جم جاتی ہے وہ نہیں جمے گی۔٭پہاڑی علاقے میں گوشت کے پارچے پہاڑیوں پر سُکھا کر محفوظ کرتے ہیں۔ ان پر نمک ضرور لگاتے ہیں۔ سوکھا ہوا یہ گوشت لذیذ ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کھانا ہضم کرنے کے لیے کولڈڈرنک پینا چاہیے۔ کسی بھی قسم کی کولڈڈرنک پینے سے کھانا ہضم نہیں ہوتا بلکہ تیزابیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بقرعید کے دنوں میں گوشت کا استعمال زیادہ کرتے ہیں جس سے ہمارا معدہ بھی زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ پیٹ میں ہونے والی خرابیوں کے سلسلے میں چند گھریلو چٹکلے: (1) ہم اپنے گزشتہ کالم میں کرشماتی دوا امرت دھارا کا ذکر کرچکے ہیں۔ یہ ہر گھر کی لازمی دوا ہے اور ایمرجنسی میں کام آتی ہے۔ بقرعید کے دنوں میں بھی اس کے استعمال کے فائدے بہت ہیں۔ اگر زیادہ کھانے سے الٹی، متلی، قے ہورہی ہو تو فوراً امرت دھارا کے چند قطرے پان کے پتے پر لگا کھلائیں، فوراً فائدہ ہوگا۔ (2) اگر دست آنے لگیں تو کھانے کا سوڈا پانی میں گھولیں، اس میں دیسی سرکے کے دو چمچے ملا کر پلادیں۔ مرض کی شدت میں اس عمل کو کئی بار دوہرایا جاسکتا ہے۔ (3) دیسی سرکہ اور شکر ملا کر پلانے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ (4) اگر پیٹ پر اپھارا ہوجائے یا پیٹ میں سخت درد محسوس ہو تو امرت دھارا کے چند قطرے پیٹ کے اوپر مَلیں یا ہیرا ہینگ پانی میں گھول کر پلا بھی دیں اور پیٹ پر بھی مَلیں۔ (5) وہ افراد جن کو گائے کا گوشت کھانے سے جوڑوں کا درد اور ریح محسوس ہو وہ سہاجنہ جسے مونگے کی پھلی بھی کہتے ہیں اور اس کے خود رو درخت ہوتے ہیں، کو جوش دے کر اس کا پانی پلائیں۔ (6) ہمارے ملک کے بعض علاقوں میں چھاچھ یا مٹھا پینے کا رواج ہے، بقرعید کے موقع پر بھی اس کا استعمال لازماً کریں۔ (7) ہاضمے کے چورن کا ایک آسان نسخہ جس کے فائدے بے شمارہیں: نوشادر، نمک سیاہ، فلفل سیاہ، نمک لاہوری 50گرام، ہینگ 10گرام، زنجبیل، دھنیا، سونف، اجوائن25گرام، ست لیموں 75گرام… سب کو گرائنڈر میں پیس کر خشک شیشی میں محفوظ کرلیں۔ وقتِ ضرورت خود بھی کھائیں اور اپنے مہمانوں کو بھی کھلائیں۔
عید کے دنوں میں جب آپ گوشت استعمال کررہے ہوں تو سونے سے پہلے یہ چائے ضرور استعمال کریں۔ چائے کی ترکیب: چھوٹی الائچی، تازہ پودینہ، تیزپات، ادرک، سونف کو جوش دے کر لیموں کا رس ڈال کر دیسی کھانڈ یا شہد سے میٹھا کرکے نوش کریں۔ اہلِ دل اس میں دیسی گلاب کے تازہ پھول بھی ڈال سکتے ہیں۔