قربانی

386

’’سنتِ ابراہیمیؑ کی پیروی میں عیدالاضحی میں قربانی کی جاتی ہے، لیکن قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنی جان و مال، اولاد، نفس، خواہشات، جذبات کی قربانی بھی اللہ کے لیے کی جانی چاہیے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ساری زندگی ہنستے کھیلتے یہ کر جاتے ہیں اگرچہ انہیں ان کے ایثار و قربانی کے قدردان نہیں ملتے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ اصل قدردان تو رب ہی ہے۔

سوتیلی ماں کا لفظ ایسا ہے جس سے ایک ظالم عورت کا تصور ذہن میں آتا ہے جو سوتیلی اولاد پر ظلم کی انتہا کردیتی ہے۔ لیکن نرگس باجی کی کہانی اس سے مختلف ہے، انہوں نے سوتیلی ماں ہونے کے باوجود اپنی خدمت، خلوص، اور خواہشات کی قربانی سے ایک مثال قائم کردی۔

نرگس باجی کا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جہاں عزت سے دو وقت کا کھانا بھی مل جائے تو غنیمت تھا۔ چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں، عمر بھی صرف سترہ سال تھی۔ حالات کے مارے والدین نے ان کی شادی دگنی عمر کے اسلم صاحب سے کردی جن کی پہلی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا اور تین بچے بھی تھے۔

کہتے ہیں کہ عورت خوب صورت اور کم عمر ہو تو مرد اسے مہارانی بنا کر رکھتا ہے، لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ وہ تو بس بے دام غلام تھیں جن کا کام شوہر کا حکم بجا لانا اور ان کے بچوں کی خدمت کرنا تھا۔ باپ کا رویہ دیکھ کر بچوں نے بھی کبھی انہیں وہ عزت و احترام نہ دیا جو ایک ماں کا حق ہوتا ہے۔ وہ خود بھی دو بچیوں کی ماں بنیں لیکن اس کے باوجود اپنی بچیوں کو نظرانداز کرکے سوتیلے بچوں کی خدمت گزاری اور ناز برداریوں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

گھر کی ہر چیز پر سوتیلے بچوں کا راج تھا۔ نرگس باجی اور ان کی بچیوں کو ایسے نظرانداز کیا جاتا جیسے ان سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ انہوں نے اپنی بچیوں کے حق کے لیے کبھی شکوہ نہ کیا۔ بے چاری نرگس باجی کے شادی شدہ زندگی کے سارے ارمان مرجھا گئے تھے۔ سوتیلے بچے ان کی بچیوں کو اپنے باپ کی اولاد مانتے ہی نہیں تھے۔

اسلم صاحب کے انتقال کے بعد تو رہا سہا لحاظ بھی ختم ہوگیا، معاملات اور بھی گمبھیر ہوگئے لیکن انہوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ شوہر کے انتقال کے بعد ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بھی انہوں نے بہت مشقت جھیلی، پھر ان کی شادیاں کیں۔

اپنی ہر خواہش، ہر جذبہ، یہاں تک کہ اپنی ممتا کو بھی اُن بچوں پر قربان کردیا جنھوں نے کبھی انہیں ماں کا درجہ دیا ہی نہیں۔

مسلسل ذہنی اور جسمانی تھکن، سوتیلے بچوں کی بے رخی اور کم عمری کی بیوگی نے انہیں وقت سے پہلے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچا دیا۔ پھر بھی وہ کبھی ناامید نہیں ہوئیں، کبھی رب سے شکوہ نہیں کیا۔ انہوں نے ہمیشہ اس آیت پر عمل کیا ’’صبر اور نماز سے مدد لیا کرو۔‘‘(البقرہ)

ایک اطمینان ان کے چہرے پر ہمیشہ نظر آتا۔ اکثر وہ اپنی ایک خواہش کا اظہار کرتیں کہ اللہ انہیں اتنی مہلت دے کہ اپنی بچیوں کو اپنے سامنے رخصت کرسکیں۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، ایک دن وہ ایسی سوئیں کہ دوبارہ نہ اٹھ سکیں۔ لیکن انہوں نے اپنی بے لوث محبت، ایثار اور قربانی سے نیکی کا جو بیج بویا تھا اس کا پھل ان کی بچیوں کو ملا۔
بالآخر ان کی خدمت، محبت اور قربانی کا اعتراف ان کے سوتیلے بیٹے نے ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کیا۔ ان کی بچیوں کو بہن مانتے ہوئے ان کی شادیاں کیں، وراثت میں سے ان کو حصہ بھی دیا۔ آج وہ اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ واقعی نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔

حصہ