(دوسری قسط)
طاہر مسعود: علما سے ایک عمومی شکایت یہ بھی ہے کہ یہ مسلمانوں کو فروعی مسائل میں الجھاتے ہیں اور جو حقیقی اور بڑے مسائل ہیں‘ ان سے تعرض نہیں کرتے۔ آپ کے خیال میں اس کا سبب کیا ہے؟
احمد جاوید: اس کا بے تکلفانہ جواب تو یہ ہے کہ حلال اور معروف ذرائع سے اپنی مارکیٹ ویلیو بنانا۔ جو چیز ماکیٹ میں وقعت نہیں رکھتی‘ اس کی تاثیر منفی ہو جاتی ہے۔ اس بات کو علمی پیرائے میں کہا جائے تو یوں کہیں گے کہ طبقۂ علما میں استاد اور مفتی ہونے کی روایت کی وجہ سے ایک جذبۂ حکم رانی پیدا ہو گیا ہے۔ یہ جذبہ معروف طریقے سے تسکین حاصل نہیں کر پاتا تو پھر یہ طاقت کے ایسے اسٹرکچر بنانا شروع کردیا ہے جو دنیا کی تعمیر کے لیے نہیں‘ انہدام کے لیے وجود میں آتے ہیں۔ آخر کوئی وجہ تو ہوگی کہ مذہب کے نام پر اٹھنے والی ہر تحریک اور عَالم کے دفتر سے جاری ہونے والا ہر فتویٰ ایک ڈرائونا پن ضرور رکھتا ہے‘ یک اجنبیت کا حامل یقینا ہوتا ہے۔
طاہر مسعود: ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام اخلاقی تعلیمات اور اخلاقی اقدار مذاہب کی عطا کردہ ہیں لیکن مغرب نے مذہب کو کلیسا کے اندر پابند کرکے اور مذہب کو مسترد کرکے اخلاقی اقدار کو کیسے اختیار کر لیا۔ آج مغرب کا عام آدمی بھی اخلاقی اعتبار سے ان ملکوں کے عام آدمی سے کہیں بہتر ہے جو ملک مذہبی ہونے کی پہچان رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ فقرہ بھی عام ہو گیا ہے کہ اگر مغرب صرف کلمہ پڑھ لے تو وہ مسلمانوں سے زیادہ مسلمان ہو جائے گا۔ ایسی صورت حال میں بجا طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر مذہب کو ترک کرکے اخلاقی اقدار کو اپنایا جا سکتا ہے تو پھر مذہب کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
احمد جاوید: سب سے پہلی بات تو یہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ اخلاق فطری اور آفاقی ہوتے ہیں۔ فطرت میں موجود خیر کے فعال اجزا کو اخلاق کہتے ہیں‘ یہ اوصافِ خیر کی دعوت‘ نظریے اور عقیدے کی رہنمائی میں اور تحریک پر عمل بلکہ ایک اجتماعی عملی نظم کی صورت اختیار کرتے ہیں تو اس سارے اخلاقی نظام کو اس تہذیب کی طرف نسبت کی جاتی ہے جو چند مستقل نظریات اور نظریات سے قائم ہونے والی اقدار پر کھڑی ہوتی ہے۔ اسی لیے اخلاق میں فطری اشترک اور آفاقیت کے باوجود اس کے محرکات اور مقاصد مختلف تہذیبوں میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ مغرب اور اسلام کے درمیان بہت سے اخلاقی مظاہر فطری اور انسانی ہونے کی بنا پر ظاہر ہے ک مشترک ہوں گے لیکن وہ اخلاقی اصول جن سے انسان کے انفرادی اور اجتماعی اخلاقی وجود کی تشکیل ہوتی ہے‘ اس کے حدود مقرر ہوتے ہیں اور اس کے مقاصد طے پاتے ہیں۔ وہ اخلاقی اصول ہمارے کچھ اور ہیں اور مغرب کے کچھ اور۔ اصولِ اخلاق میں ہمارا اور ان کا فرق تضاد کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔ ہمارا تصورِ اخلاق‘ حُسنِ نیت اور خیالِ آخرت پر قائم ہے۔ جب کہ اُدھر نیت اور آخرت غیر متعلق تصورات ہیں۔ اصل چیز ہے انسانی آزادی اور راحت کی ضمانت سے بننے والے ماحول کی تعمیر۔ تمام اخلاقی قوتیں مغرب میں اسی مقصد کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہوتی ہیں اور اس میں وہ یقینا بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں کیوں کہ اخلاق کار زندگی کی فطری اور لازمی ضرورت اور ناگزیر ہونا مغربی دنیا میں ایک عملی مسلمے کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سچ نہ بولنے‘ غذائوں میں ملاوٹ کرنے کا نتیجہ خود ان کے نقصان کی صورت میں نکلے گا گویا مغربی اخلاق قابلِ رشک حد تک نتیجہ خیز ہونے کے باوجود سوسائٹی کو آرگنائزیشن کے نمونے پر چلاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھیں تو فرد کا اخلاقی وجود مغرب کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے ہاں اخلاق اجتماعی ماہیت رکھتے ہیں۔ اس کی تفصیل میں کیا جانا لیکن اتنا عرض کر دینا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اخلاق کا اصل محل فرد ہے اور انفرادیت کی تشکیل میں علم کے ساتھ اخلاق کا بنیادی کردار ہوتا ہے لیکن معاشرے کے برعکس فرد کا اخلاقی وجود کسی بائنڈنگ نظریے اور تصورِ حیات کے بغیر نمو نہیں پاتا۔ فرد کی اخلاقی وابستگی اپنی اصل میں مستقل اور نظریاتی ہوتی ہے‘ عارضی اور افادی نہیں۔
اس موضوع پر کم از کم دو پہلو اور بھی قابل غور ہیں۔ اخلاق جواب دہی کے خوش گوار یقین سے پیدا ہوتا ہے یعنی جبر نہیں ہوتا۔ جواب دہی کسی کو کرنی ہے‘ یہاں سے اخلاقی نظریات جنم لیتے ہیں۔ مغرب میں چونکہ جواب دہی کا باقاعدہ قانونی نظام موجود ہے جو عمل کے ساتھ ساتھ حرکت میں رہتا ہے اس لیے وہاں ایک خاص معنی میں اخلاقی چوکسی کی روایت پڑ گئی ہے۔ اور آدمی اخلاقی نوعیت رکھنے والے قوانین کی خلاف ورزی میں بہت زیادہ آزاد نہیں ہے جب کہ ہمارے تصورِ اخلاق میں جواب دہی اللہ کی ہے اور اس کا موقع آخرت میں آئے گا۔ چونکہ ہم دین کو دنیا پر مثبت تخلیقی اور تحقیقی مفہوم میں غالب نہ کرسکے یا نہ رکھ سکے تو اس کا سبب سے بڑا اثر یہ پڑا کہ ہمارے اخلاقی آئیڈیلز اس ماحول ہی سے منقطع ہو کر رہ گئے جس میں ان کا عمل میں آنا ممکن تھا۔ زندگی کو بنانے‘ بگاڑنے اور دنیا کو بدلنے اور چلانے کی قوت سے مکمل محرومی نے ہمارے اخلاقی وجود کو مضحکہ خیز حد تک کاروبار زندگی سے لاتعلق کرکے رکھ دیا۔ اس لاتعلقی کا وہی نتیجہ نکلنا تھا جو ہم دیکھ رہے ہیں یعنی اخلاقی وجود کی پژمردگی۔ تاہم امید کا یہ جواز بہرحال موجود ہے کہ ہمارے تمام آئیڈیلز ابھی ہمارے حافظے سے خارج نہیں ہوئے اور ہمارے جذبات و احساسات میں ہلکا سا تموج ضرور پیدا کرسکتے ہیں۔ پس ہمارا اجتماعی حافظہ ابھی پوری طرح کند نہیں ہوا۔ اس سے توقع باندھی جاسکتی ہے کہ ہمارے آئیڈیلز حافظے سے عمل میں آنے کا امکان ضرور رکھتے ہیں بشرطیکہ ہمیں بھی مغرب کی طرح ایک ہمہ گیر تبدیلی کا محرک مل جائے۔ انقلاب ہمیشہ حافظے اور احساسات میں زندگی پیدا ہونے سے آجاتا ہے۔ ہمیں بس زندگی کی رَو کا انتظار ہے جو فی الحال ہمارے ویران ساحلوں سے اتنی دور ہے کہ جشمِ تصور سے بھی دکھائی نہیں دیتی۔ دوسرا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ ’’اخلاق کیا ہے؟‘‘ کا جواب ’’انسان کیا ہے؟‘‘ کے جواب سے جڑا ہوا ہے۔ جدید مغرب کا تصورِ انسان اسلامی ہی نہیں ہر مذہبی تصورِ انسان سے سراسر مختلف ہے۔ مغربی اخلاق کو قبول کرنے کے لیے ان کے تصورِ انسان پر بھی ایمان لانا پڑے گا جس کے شاید ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ہاں سرسید ایسے حضرات نے یہ جراتِ رندانہ کی تو اس کے نتائج اچھے نہ نکلے۔ مغرب کی اخلاقی مداحی یقینا کئی پہلوئوںسے کی جاسکتی ہے لیکن اس میں ایسا مبالغہ بچکانہ ہے۔ گویا کے مغرب نے اخلاقی وجود کو پہلی بار تخلیق کر دکھایا ہے۔ اخلاق کے بے شمار فطری لوازم اور آفاقی مسلمات ایسے ہیں جنہیں مغربِ جدید میں باقاعدہ پامال کردیا گیا مثلاً انکسار‘ مہمان نوازی‘ حیا وغیرہ۔ یہ اخلاقی اسٹرکچر کے ستون ہیں جنہیں مغرب اپنی دنیا میں پوری طرح ڈھا چکا ہے۔
ہماری اخلاقی پس ماندگی یہ لازم نہیں کرتی کہ ہمارے تصوراتِ اخلاق بھی پس ماندہ ہیں۔ ہم اپنی تمام تر ناکارگی اور پستی کے باوجود مسلمان بعض فطری اخلاقی آئیڈیلز کے واحد امین ہیں۔ یہ اگر نہ رہیں تو اخلاق کی بہت سی بنیادی انسانیت کے حافظے سے بھی غائب ہو جائیں گے تو ہمیں اپنی موجودہ زبوں حالی سے لڑنا ہے لیکن ایسے احساس کمتری میں مبتلا ہوئے بغیر جو اہلِ مغرب کی طرح ہمیں بھی اپنے اخلاقی اصول پر اعتماد سے محروم کر دے بلکہ ان کی طرف سے جارحانہ بے زاری پیدا کر دے۔
طاہر مسعود: یہ فرمایئے کہ مغرب میں اخلاقی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میںکیا چیز امرِ مانع نہ ہوئی؟
احمد جاوید: اس سوال کے جواب میں کچھ باتیں نمبر وار عرض کرتا ہوں۔
-1 جدید مغرب اپنے تجربے میں آئے ہوئے مذہب سے شدید نفرت اور بے زاری سے پیدا ہوا ہے۔ ان کا تصورِ انسان اور تصور دنیا پوری احتیاط کے ساتھ مذہبی اثرات سے محفوظ رکھتے ہوئے وضع ہوا ہے۔
-2 مغربی نشاۃ ثانیہ کے مقاصد علمی تھے اخلاقی نہیں۔ مغرب کو تاریخِ انسانی میں سب سے بڑی کامیابی یہ ہوئی کہ اس نے اپنے مقاصدِ ا نقلاب کو نہ صرف یہ کہ حاصل کیا بلکہ اسے ایک روبہ کمال حرکت کے ساتھ محفوظ بھی رکھا۔ یہ کارنامہ دو بنیادوں پر انجام پایا۔ ایک علم یعنی آزادانہ تحقیق اور دوسرے طاقت۔ مغربی تصورِ علم میں یوں لگتا ہے کہ علم آزاد ہے اور معلوم مجبور۔ یعنی مغرب نے کلاسیکی معلوم کو رد کرکے اپنے لیے نیا معلوم تراشا ہے۔ یعنی دنیا اور حیاتیاتی نفسِ انسانی۔
-3 مؤثر اور نتیجہ خیز علوم اور دنیا پر غالب آنے والی طاقت مغربی تہذیب میں ایک خود اعتمادی پیدا کرتی ہے۔ یہ اعتماد کہ وہ انسان کو بھی جتنا چاہیں بدل سکتے ہں اور دنیا کو بھی جس رُخ پر چلانا چاہیں چلا سکتے ہیں۔ یہ تہذیب اپنے اوپر ایسا اعتماد رکھنے میں حق بجانب تھی کیوں کہ اس نے اپنے تمام دعوئوں کو بڑی سرعت اور پھیلائو کے ساتھ مل میںلا کر دکھا دیا۔
-4 مغربی تہذیب کی اس خود اعتمادی اور خود انحصاری نے ان کے قانونی انتظامی اور اندرونی نظام پر بھی اعتماد پیدا کیا۔ یہی اعتماد موجودہ مغرب کی تعمیر کا سنگِ بنیاد ہے جو آج دنیا کے لیے عملاً اخلاقی نمونہ بن چکا ہے۔
-5 مسلمان بھی جب تک علم اور طاقت میں آگے رہے۔ باقی دنیا کے لیے ایک مثالی تہذیب کی حیثیت میں رہے۔ علم و طاقت کے اسٹرکچر میں انہدام آجانے کی وجہ سے اسلامی تہذیب اور مسلم نفسیات میں اپنے اوپر اعتماد ختم ہو گیا۔ یہی سبب ہے کہ ہم جو مانتے ہیں ویسا بننے میں کامیاب نہیں ہیں کیوں کہ ہمارے لیے ’’ماننے‘‘ کی فضا کسی قدر سازگار ہے لیکن ’’بننے‘‘ کا ماحول بالکل ناموافق ہو چکا ہے۔ ہماری علمی پس ماندگی اور کم زوری کی وجہ سے۔ علمی تفوق اور غالب قوت کے بغیر ایمانیات بھی معلق رہ جاتی ہے اور ان میں نتیجہ خیزی کی صلاحیت ماند پڑی جاتی ہے۔ انسان سبب و اثر کے قانون کا پابند ہے۔ سبب چاہے جتنا مقدس ہو اگر اس کا نتیجہ نہیںنکل رہا تو اسے معطل حافظے میں تو رکھا جاسکتا ہے‘ فعال شعور میں نہیں۔ آپ دیکھتے نہیں کہ خدا جو دینی انفس و آفاق کا مرکز ہے‘ ہمارے احساساتِ تعلق میں کہیں موجود نہیں رہا۔ ہم اس پر باتیں تو بہت کر لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ تعلق کی حرارت کو اپنا متاع وجود بنانے سے قاصر ہیں اور مسلم اخلاقیات تعلق باللہ کے مرکز سے پھوٹتی ہے کیوں کہ آپ جانتے ہیںکہ اخلاق دراصل تعلق کے شعور اور احساس کا نام ہے۔ مغربیوں نے دنیا سے‘ دنیا میں کامیابی سے اپنے تعلق کو زندہ اور متحرک بنانے میں کامیابی حاصل کی لہٰذا دنیاوی زندگی کو آزادی‘ راحت وغیرہ کی اقدار پر چلانے میں انہیںکسی بڑی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے لیکن ہم اپنے مدارِ تعلق کو زندہ نہ رکھ سکے۔
طاہر مسعود: قوموں کا عروج و زوال ایسا لگتا ہے کہ تقدیر کا فیصلہ ہے۔ دنیا میں پہلے یونانیوں‘ پھر رومیوں اور ایرانیوں پھر مسلمانوں بعدازاں انگریزوں اور اب امریکیوں کو عروج نصیب ہوا ہے۔ غور کیا جائے تو ایک خاص حالت میں ایک قوم بیدار ہو جاتی ہے‘ اس میں قوتِ عمل اور قوتِ فکر بھی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر ہر شعبۂ زندگی میں فتوحات اور کامیابیاں اس کا مقدر بن جاتی ہیں اور ایک خاص عرصہ گزر جانے کے بعد اس میں زوال اور کہولت کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ زوال و پس ماندگی کا شکار ہو کر تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔ قرآنِ حکیم کی ایک آیتِ مبارکہ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہم زمانے کو لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں تاکہ بدتر کی جگہ بہتر کو لایا جاسکے۔گویا عروج و کامیابی میں انسانی کوشش اور سعی و جستجو کا حصہ برائے نام ہے‘ یہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں کہ کس قوم کو آگے بڑھایا اور کسے پیچھے ہٹایا جائے۔ آپ کی اس بارے میںکیا رائے ہے؟
احمد جاوید: اسبابِ عروج و زوال قانونِ فطرت کا حصہ ہیں اور بالکل واضح ہیں‘ جو قوم بھی اپنے مقاصدِ زندگی کے ساتھ مخلص رہے گی‘ اور اپنی تمام سرگرمیوں کا رُخ ان ہی کی طرف رکھے گی‘ وہ حالتِ عروج میں رہے گی اور جو قوم ایسا نہیں کرے گی‘ وہ زوال میں چلی جائے گی۔ اس میں مومن اور غیر مومن کی کوئی تخصیص نہیں جیسا کہ مولانا رومؒ نے فرمایا:
ہر ہلاک اُمت پیشیں کہ بود
زانکہ بر جندل گماں بروند عود
(پچھلی امتوں میں سے جو امت بھی ہلاک ہوئی اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے پتھر کو عُود سمجھ لیا تھا۔)
طاہر مسعود: یہ فرمایئے کہ مسلمانوں کے لیے انحطاط اور زوال سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟
احمد جاوید: علم اور اخلاق میںباقی دنیا کے مقابلے میں فوقیت حاصل کرنا‘ یہ واحد راستہ ہے موجودہ زوال سے نکلنے کا۔ لیکن ایک اندرونی تدبیر بھی ہے جسے اختیار کیے بغیر ہم زوال کے ان اسباب کو ختم نہیں کرسکتے جو خود ہمارے اندر پائے جاتے ہیں بلکہ ہمارے ہی پیدا کردہ ہیں۔ وہ تدبیر یہ ہے کہ اپنے دین کے مزاج کو پہچانیں اور اسے اپنے اندر آبِ حیات کی لہر کی طرح جاری کریں۔ دینِ اسلام دو بڑے مقاصد ہمارے سامنے رکھتا ہے جنہیں پورا کیے بغیر مسلمان ہونا انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر بہت زیادہ بامعنی نہیں رہ جاتا۔ وہ دو مقاصد ہیں:
ذوقِ عبادت اور حُسنِ معاشرت۔
ذوقِ عبادت سے فرد کی تکمیل ہوتی ہے اور حُسنِ معاشرت اجتماعی اسلامی وجود کی بنیاد ہے۔
طاہر مسعود: سوال تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ دونوں باتیں کیسے پیدا کی جاسکی ہیں؟ یہ کام کیسے ہو سکے گا‘ کون کرے گا؟
احمد جاوید: کام کی اہمیت مان لی جائے تو اس کے ہونے کے اسباب خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے کسی خارجی محرک کی زیادہ ضرورت نہیں رہتی۔ سب سے پہلے ہم انے اندر ان مقاصد کی پیاس کو محسوس کرنا سیکھیں‘ پھر اسے بجھانے کا سامان ایک تہذیبی اور تاریخی عمل میں خود سے ہو جائے گا یعنی کسی قائد کا انتظار کرنے سے انقلاب کا آغاز نہیں ہوتا بلکہ زخم کی شدت مرہم کی موجود بن جاتی ہے۔ یہ کوئی شاعرانہ بات نہیں ہے۔ دنیا میں تمام بڑے بڑے غیر پیغمبرانہ انقلابات اسی طرح آئے ہیں۔ خواہشِ انقلاب کا وفور اپنی قیادت خود پیدا کر لیتی ہے۔ ہم اپنے دستیاب وسائل کا جائزہ لے کر یہ نہیں بتا سکتے کہ ہماری مطلوبہ تبدیلی ان صاحب یا اسی جماعت سے آئے گی۔ جو اصحاب اور جماعتیں موجودہ صورت حال میں کام کر رہی ہیں‘ وہ خود اسی صورت حال کا حصہ ہیں‘ اس کا علاج نہیں۔
طاہر مسعود: اس وقت عالمِ اسلام مبینہ طور پر ’’مسلم دہشت گردی‘‘ کی بہیمانہ کارروائیوں کی وجہ سے بدنام ہو رہا ہے۔ چاہے وہ طالبان ہو یا داعش۔ آپ کے خیال میں مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقے میں انتہا پسندی کے یہ رجحانات کن وجوہ کی بنا پر در آئے ہیں؟
احمد جاوید: مجھے لگتا ہے کہ ہم مغربی بننے کی تگ و دو میں مکمل ناکامی کے بعد اس خواہش تک پہنچیں گے کہ ہمیں اپنے اصل کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔ اسی طرح طاقت پر انحصار کرنے والا طبقہ بھی آخر کار اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ دہشت گردی ہمارے مسائل کا حل نہیں۔ انحطاط کا یہ دائرہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔ اسے مکمل ہونا ہے۔ طالبان اور داعش وغیرہ کا وجود قوت کی ضرورت سے پیدا ہوا ہے اور قوت کے واہمے پر قائم ہے‘ جب تک ہم قوت کی تعریف میں تخریب کے بجائے تعمیر کا عنصر داخل نہیں کریں گے‘ اس وقت تک ہمارا تصورِ جہاد اور اس تصور کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قاتل گروہ زہریلی جھاڑیوں کی طرح اُگتے رہیں گے۔ میرے خیال میں اس وقت امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا فرض یہ ہے کہ وہ غیر مسلموں کے دل میں اپنی محبت اور تعظیم پیدا کریں۔ ہر وہ رویہ اور عمل جو اس فریضے کی راہ میں رکاوٹ بنے‘ وہ یقینا دین دشمنی ہے۔
طاہر مسعود: وقت اور حالات کے بدلنے سے جو نئے مسائل اور نئی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے اس کے نتیجے میں نئے احکامات اور نئے قوانین کی ضرورت پیش آجاتی ہے یا پرانے قوانین میں گنجائش یا وسعت درکار ہو جاتی ہے۔ ہمارے دین میں اسی لیے اجتہاد کی سہولت رکھی گئی جسے اقبال نے دین کے اصولِ حرکت کا نام دیا ہے تو کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد اب بالکل نئے حالات‘ نئی معاشرت اور نئے زمانے میں اجتہاد کے دروازے کو کھولا جائے تاکہ دین قابلِ عمل ہو سکے؟
احمد جاوید: آپ کے سوال میں اجتہاد کی اہمیت و ضرورت جو اجاگر کی گئی ہے اس کی شدت و اہمیت سے تو کوئی شخص اختلاف کر ہی نہیں کرسکتا۔ اجتہاد کے دروازے کو بالکل بند کر لینے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی زندگی میں اب فاصلہ پیدا ہوگیا ہے بلکہ ایمانیات کے دائرے میں بھی کئی مسائل جنم لے چکے ہیں۔ میرے ذہن میں اصولی بات یہ ہے کہ اجتہاد دین میں نہیں‘ اُس قانون سازی میں ہوتا ہے جو فرد اور معاشرے کو دینی احکام کے دائرۂ تعمیل میں رکھنے کے لیے کی جاتی ہے لہٰذا قانون سازی کا کوئی بھی عمل اپنے مخاطب یعنی انسان اور اپنے میدانِ عمل یعنی دنیا سے لاتعلق ہو کر نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا یہ بات اتنی ہے کہ اللہ کے ثابت شدہ احکام کو بدلتے ہوئے انسان اور دنیا میں واجب التعمیل کرنے کے لیے قانون سازی کا عمل ہمیشہ جاری رکھا جائے گا۔ قانون سازی میں یہی تسلسل ثابت شدہ شریعت کو تاثیر کے ساتھ قابل عمل رکھتا ہے اور مطلوبہ دین کو مطلوبہ اطاعت کے لیے نئے مظاہر کے ساتھ زندہ و بیدار رکھتا ہے‘ اسی کو اجتہاد کہتے ہیں۔ اجتہاد دین میں اور نصوص میں نہیں ہوتا بلکہ فقہ میں کیا جاتا ہے۔ اگر اجتہاد یعنی بدلتے ہوئے حالات میں مطلوبہ اور مؤثر قانون سازی کے عمل کو ترک کر دیا جائے یا معطل رکھا جائے تو اس کے نتیجے میں دین اور دین کے ماننے والوں میں ایک مغائرت اور اجنبی پن پیدا ہوجاتاہے۔ اسی ملتی جلتی صورتِ حال جو ہمارے مشاہدے میں ہے کہ ہم دین کے ساتھ اپنے تعلق کو اہمیت دیتے ہیں لیکن زندگی میں اور پورے شعور میں درآنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ہم وہ راستہ نہیں ڈھونڈ پاتے جسے کام میں لا کر ہم اپنے دین کے ساتھ ایک زندہ نتیجہ خیز اور بامعنی تعلق پیدا کر سکیں۔ اس کی وجہ سے ہماری دین داری کے انفرادی اور اجتماعی دونوں دائروں میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جو بھرنے میں نہیں آرہا۔ اس ماحول میں جہاں دین کو ماننا دین پر چلنے میں مددگار ثابت نہ ہو رہا ہو‘ اس سے دو طرح کے رویے پیدا ہوتے ہیں اور دونوں ہی منفی ہیں ایک تو انحراف کا رویہ ہے دوسرا لاتعلقی کا‘ اس میں انحراف والا رویہ خاصا پے چیدہ ہے‘ یہ رویہ اپنی قبولیت کے لیے ایسی اصطلاحیں استعمال کرتا ہے جو دینی شرعی اور فقہی ہیں مثلاً تفکر و تدبیر‘ سنت‘ صفیہ اور اجتہاد وغیرہ تو جب میں نے یہ عرض کیا تھا کہ اجتہاد کی ضروری ہونے پر جو پُرزور اصرار کیا جا رہا ہے وہ غلط نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ آوازیں ایسی بھی شامل ہو گئی ہیں جو اجتہاد کا نام لیتی ہیں لیکن ارادہ شریعت کو بدلنے کا رکھتی ہیں۔ اس طرف سے ہمیں بہت محتاط رہنا ہوگا کہیں ایسا تو نہیں کہ اجتہاد کی ایک غیر متوازن وکالت اس لیے کی جا رہی ہے کہ حالات کو حکم پر غالب کر دیا جائے اور خود کو اپنی خواہش کے تابع کر دیا جائے۔ آپ یہ سنتے رہے ہوںگے کہ عقائد اور عبادات کو اجتہاد کا موضوع ہونا چاہیے یا یہ کہ نصوص میں بھی اجتہاد کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ تصورات ہیں جنہیں میںانحراف کے رویے کی پیداوار کہتا ہوں۔
طاہر مسعود: اجتہاد کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اجتہاد کا حق کسے دیا جائے‘ کیا انفرادی طور پر کسی مفتی کو یہ حق حاصل ہو یا اسلامی مملکت میں پارلیمنٹ کو؟ کچھ اس بارے میں ارشاد فرمائیں۔
احمد جاوید: انفرادی اجتہاد مشکل ہو گیا ہے۔ اجتہاد کی قابلِ عمل صورت اجتماعی ہوگی۔ میری رائے میں اجتہاد دو قسم کے طبقات کو مل کر کرنا چاہیے۔ پہلا طبقہ علما کا ہے جو قرآن اور حدیث کو جانتا ہے اور دوسرا طبقہ ماہرین کا ہے جس کا تعلق ان شعبوں سے ہے جس میں اجتہاد کی ضرورت ہے مثلاً بینک کاری کے معاملات میں صرف علما اجتہاد نہیں کرسکتے جب تک کہ اس میدان کے تسلیم شدہ ماہرین ان کی معاونت نہ کریں۔ اسی طرح معیشت کے معاملات میں علما کو ماہرین کی کمک بہرحال درکار ہے۔ دیگر معاملات کو بھی اسی پر قیاس کیا جائے۔ اب اگر حکومت شریعت کو سپریم لا مانتی ہے جیسا کہ ہمارے ہاں ہے تو پھر اجتہاد کے نفاذ کی منظوری پارلیمنٹ سے لینی ہوگی۔ (جاری ہے)