(دوسرا اور آخری حصہ)
-13 سندھ میں علیحدگی کی سوچ اور قوم پرستی کا زور توڑنے کے لیے ملک کی نادیدہ ہیئتِ مقتدرہ نے خود قوم پرستوں پر بھرپور کام کیا اور ان سے بھرپور کام لیا۔ سائیں جی ایم سید کو بعض حوالوں سے رام کیا گیا۔ ذاتی سطح پر انہیں اہمیت دی گئی اور نوازا بھی گیا۔ لیکن انہی جی ایم سید نے ایک اور چال چلی‘ جس نے سندھ کے باشندوں کی سیاسی صف بندی میں جوہری فرق ڈال دیا۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے سر پر ہاتھ رکھا‘ اس کے قائد کو اپنے قصبے سَن بلایا اور ابھرتی مہاجر قیادت کو پنجابیوں اور پختونوں کے خلاف تحریک چلانے اور کارنر کرنے پر آمادہ کرلیا۔ سائیں جی ایم سید کی سوچ اور حکمت ِ عملی یہ تھی کہ چونکہ ’’سندھی قوم پرست‘‘ دیگر قومیتوں کی مشترکہ قوت سے تنہا نہیں نمٹ سکتے لہٰذا انہیں آپس میں دست بہ گریباں کیا جائے۔ پھر باری باری ان سے نمٹا جائے۔ ان کی حکمتِ عملی ایم کیو ایم کی مدد سے کامیاب رہی۔ چنانچہ ’’مہاجر قوم پرستی‘‘ کا جن بوتل سے باہر آیا اور سندھ کی پرانی سیاسی صف بندی تبدیل ہوگئی۔ اُسی دور میں یہ نعرہ بھی متعارف ہوا کہ ’’سندھی مہاجر بھائی بھائی‘ دھوتی نسوار کہاں سے آئی؟‘‘ یوں وہ ’’مہاجر‘‘ جو پاکستان کی روحِ عصر تھے‘ اس کے اجزائے ترکیبی کو یک جان و ہم رنگ مرکب بنانے اور جذبۂ تحریکِ پاکستان کو قوم کی رگِ جاں میں رواں رکھنے والے تھے‘ وہ خود ایک عاملِ تقسیم (Dividing Factor) اور جزوِِ حقیر بننے پر راضی ہوگئے۔ ’’چوں کفر از کعبہ بر خیزد‘ کجا ماند مُسلمانی‘‘ (جب کفر کعبہ ہی سے ابھرنے لگے تو مسلمانی کہاں رہی؟)
-14 سائیں جی ایم سید کی مذکورہ بالا حکمتِ عملی اور ایم کیو ایم کی کوتاہ نظری کا حاصل یہ ہواکہ 1985ء تک سندھ میں آباد لوگوں کی جو صف بندی ’’سندھی‘‘ اور ’’غیر سندھی‘‘ (مہاجر‘ پنجابی‘ پختون) کی بنیاد پر تھی‘ وہ چند برسوں میں ’’مہاجر‘‘ اور ’’غیر مہاجر‘‘ (سندھی‘ بلوچ‘ پختون‘ پنجابی) کی تقسیم بن گئی۔ یعنی ’’مہاجر‘‘ اکیلے رہ گئے اور دیگر لسانی آبادیاں ان سے شاکی و ناراض اور بڑی حد تک خوف زدہ کردی گئیں۔اس کے بعد جو کچھ کراچی میں ہوا، اس میں اُس نئی سیاسی و لسانی صف بندی کا بنیادی کردار تھا۔
یہ نئی صف بندی بھی اخلاص پر مبنی نہیں تھی‘ بلکہ سندھ کے قوم پرستوں کی محض تزویراتی چالبازی (Strategic Move) تھی۔ اس لیے اس سے کوئی خیر یا سندھ کے سیاسی و سماجی مسئلے کا کوئی حل برآمد نہ ہوسکا۔ بس یہ ہوا کہ اس چالبازی کے ذریعے اردو بولنے والے ’’مہاجروں‘‘ کو دوسرے ’’آباد کاروں‘‘ (پنجابیوں اور پختونوں) اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ڈھال یا ’’پنچنگ بیگ‘‘ بنا کر پیش کردیا۔ ’’مہاجروں‘‘ کی نئی قیادت نے بہ خوشی یہ پوزیشن اپنا لی۔ یوں سارے ملک میں ’’مہاجر‘‘ تنہا ہوگئے اور جسدِ ملّی میں داخل ایک ناپسندیدہ عنصر سمجھے جانے لگے۔ ان کی اس طرز سیاست‘ تدبیر اور طریق کار نے شہرِ کراچی کو بھی یک جا اور متحد نہیں کیا‘ بلکہ اسے منتشر اور متحارب گروہوں میں بانٹ کر رکھ دیا۔
-15 ’’مہاجر قومی موومنٹ‘‘ (بعدہٗ متحدہ قومی موومنٹ) بیسویں صدی کی نویں اور دسویں دہائی میں سندھ کے مہاجروں میں اس شان و شوکت‘ زور و قوت‘ عوامی تائید و حمایت اور ہیبت و دہشت کے ساتھ ابھری کہ اس کی مثالیں کم ہی ملیں گی۔ پاکستان کی تاریخ سے اس کی صرف دو مثالیں دی جاسکتی ہیں، مشرقی پاکستان میں ’’عوامی لیگ‘‘ کی، اور سندھی بلوچی آبادیوں میں ’’پیپلزپارٹی‘‘ کی۔ بیسویں صدی کی دو خالص یورپی تحریکوں (جرمنی کی ’’نازی‘‘ پارٹی اور اٹلی کی ’’فاشی‘‘ پارٹی) کی مماثل‘ ان کی خوشہ چینی سے تنظیم بندی کرنے اور انہی کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کرلینے والی ایم کیو ایم کو کراچی شہر پر وہ غلبہ و تسلط حاصل ہوا کہ جس کے سلسلۂ عمل و ردِعمل نے شہر کو مسلسل لہولہان کیےرکھا۔
پاکستان میں کسی پارٹی نے آج تک ریاست، اس کے اداروں اور ریاستی وسائل کو اُس طرح نہیں برتا اور استعمال کیا تھاجس طرح ایم کیو ایم نے کیا بالکل ایک الگ ریاست بن کر، ریاست کے اندر ریاست۔ جو ادارے ریاستی سطح پر ہوتے ہیں،تقریباً وہ تمام ایم کیو ایم نے اپنی سطح پر تشکیل دے رکھے تھے اور حسبِ موقع و ضرورت انہیں بروئے کار بھی لاتی رہی، یہاں تک کہ مسلح افواج کی طرح ان کی بھی عسکری ہیئتِ مقتدرہ رہی ہے۔ پارٹی کا یہ عسکری بازو عام حالات میں نظروں سے اوجھل (اپنی ’’چھائونیوں‘‘ میں) ہوتاتھا۔ طلبی پر ’’اسائنمنٹ‘‘ پورے کرتا اور پھر روپوش ہوجاتا یا پرواز کرکے سمندر پار چلا جاتا تھا (اس کی حقیقت سے خود ایم کیو ایم کے عام کارکن بھی آگاہ نہیں)۔ خفیہ ایجنسیوں کی مانند‘ مخبری کا بھی اپنا بھرپور‘ مربوط‘ منظم اور مؤثر نظام موجود تھا اسی طرح ’’ریونیو‘‘ کا پورا سسٹم اور ’’جزا و سزا‘‘ کا اپنا نظام رہا۔ ’
-17 آپ اسے ملک‘ صوبہ اور شہر کی کم نصیبی کہیں یا کچھ اور‘ تمام حکمراں گروہوں نے عموماً اور صوبائی حکمرانوں نے خصوصاً کراچی کو کبھی اپنا شہر نہیں سمجھا۔ اسے وہ اہمیت و محبت ہی نہیں ملی جس کا یہ اتنا بڑا‘ کلیدی اور اہم شہر مستحق تھا۔ وزیراعلیٰ اور کراچی کے باہر کے مرکزی و صوبائی وزراء اس شہر سے کوئی حقیقی رشتہ نہیں رکھتے‘ سوائے اس کے کہ ان کے دولت کدے اس شہر میں بھی ہیں اور وہ یہاں کے تاجروں اور صنعت کاروں سے جینے اور کاروبار کرنے کا خراج وصول کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے اندر کراچی سے احساسِ اپنائیت (Sense of Belonging) تو ناپید ہے‘ لیکن احساسِ ملکیت (Sense of Ownership) جوش مارتا رہتا ہے۔
-18 کراچی کثیر لسانی شہر تو سالوں سے ہے‘ مگر مختلف لسانی آبادیوں کا تناسب اور اُس کی تقسیم (Demography) اب تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اگر پہلے یہاں ’’مہاجروں‘‘ کا تناسب 80 فیصد تھا تو اب یہ 50 فیصد سے کچھ ہی زیادہ ہوگا۔ فی الوقت اس شہر کی دوسری بڑی آبادی پختونوں پر مشتمل ہے۔ تیسری بڑی آبادی پنجابی اور سرائیکی بولنے والوں کی ہے۔ چوتھے نمبر پر سندھی اور پھر بلوچ آتے ہیں۔ اس کے بعد بنگالی اور برمی بھی ہیں۔ گزشتہ دس برسوں میں کراچی کی آبادی میں سب سے تیزی کے ساتھ اضافہ پختونوں اور ان کے بعد سرائیکیوں کا ہوا ہے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں‘ جاری ہے۔ کراچی کے بدلتے ہوئے اس آبادیاتی تناسب (Demography) کے پہلو بہ پہلو یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ شہر کے ارد گرد کئی صادق آباد اور کئی بنّوں آباد ہوچکے ہیں‘ جن کو مٹانا یا ہٹانا اب کسی کے بس میں نہیں۔ یہ بات جتنی جلد تمام فریقانِ معاملہ کی سمجھ میں آجائے اتنا ہی اچھا ہوگا کہ اب کراچی سے کوئی لسانی گروہ کسی دوسرے لسانی گروہ کو بے دخل نہیں کرسکتا۔ ان سب کو یہیں رہنا ہے۔ اب یا تو وہ لڑتے، مرتے، مارتے رہیں یا پھر مل جل کر رہیں اور ہر ایک کے حوالے سے Share & Care (شراکت داری اور خدمت گزاری) کے مشترک نکات پر اتفاق کر لیں۔
-19 ملک بھر میں آبادیوں کی نقل مکانی کے رجحانات دیکھتے ہوئے اندازہ ہے کہ آنے والے برسوں میں کراچی شہر میں ’’مہاجروں‘‘ کا تناسب گھٹتا چلا جائے گا۔ ملک بھر سے پختون‘ پنجابی‘ سندھی آتے رہیں گے‘ مگر اب بھارت سے ’’مہاجرین‘‘ کے آنے کے دروازے بند ہیں۔ یوں وقت کی رفتار ’’مہاجروں‘‘ کے خلاف ہے۔ یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ کراچی میں لسانی تنائو اور خصوصاً پیپلزپارٹی مافیا کے دبائو نے ’’مہاجروں‘‘ کے لیے شہر کی نئی مضافاتی بستیوں میں رہنے بسنے کے امکانات محدود کردیے ہیں۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو اگلے برسوں میں کراچی شہر کا بیرونی دائرہ ’’مہاجروں‘‘ کے لیے تنگ ہوتا جائے گا اور وہ وسطِ شہر کی طرف واپس آنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
-20 دنیا بھر میں کثیر النوع سماجی گروہوں پر مشتمل شہر اکثر لاقانونیت سے دوچار رہتے ہیں، مگر ایم کیو ایم نے گزشتہ ربع صدی میں منظم لاقانونیت کو جو فروغ دیا، اس فضا میں اب دیگر متعدد خوف ناک مافیائوں کی کراچی میں بہار آگئی ہے۔ ان لسانی اور فرقہ وارانہ مافیائوں نے شہر کو بری طرح تقسیم کر رکھا ہے۔ ایم کیو ایم کے ظہور و عروج کے ’’رول ماڈل‘‘ کو اپناکر عوامی نیشنل پارٹی‘ پیپلزپارٹی اور بریلوی‘ دیوبندی اور شیعہ مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی مافیائوں نے علاقے تقسیم کرلیے ہیں۔ چھوٹی اور بے نام و نسب مافیائیں ان کے علاوہ ہیں۔ لیکن یہ ’’نام و نسب‘‘ والی نصف درجن مافیائیں سب سے آگے ہیں‘ جو باری باری دست بہ گریباں رہتی ہیں۔ خالی فلیٹوں اور پلاٹوں پر قبضہ‘ بھتہ وصولی‘ بینک ڈاکے‘ آبادیوں اور بستیوں پر کنٹرول‘ یہاں تک کہ بجلی و پانی کے نظام کی نگرانی پر بھی ان کے درمیان تصادم معمول بن گیا ہے۔ کسی کے زیر کنٹرول محلے اور علاقے میں رہنے اور کاروبار کرنے کا ’’ٹیکس‘‘ (مختلف ناموں سے) دیے بغیر رہنا ممکن ہے اور نہ کاروبار کرنا۔ بعض علاقوں میں تو بیک وقت دو‘ تین مافیائوں کو یہ ’’ٹیکس‘‘ دینا پڑتا ہے۔ شہر پر قبضے کی جنگ میں‘ بدقسمتی سے کوئی گروہ کراچی کی ’’اصلی ماں‘‘ بننے کو تیار نہیں۔ ہر ایک کو ’’بچے‘‘ کے جسم کا ایک ٹکڑا چاہیے۔
-21 یہ بھی عجوبہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم اپنی اپنی مافیائوں کی سرپرستی اور دوسروں کی بیخ کنی پر تلی ہوئی ہونے کے باوجود حکومتی گھاٹ پر لمبے عرصے سے یکجا ہیں اور سرکاری وسائل کی گنگا سے یکجا اَشنان کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ لیکن صورتِ حال کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ حکومتی پارٹیاں قانون شکنی‘ مافیا پروری اور سرکاری ہی نہیں‘ نجی املاک کی لوٹ مار میں بھی جُتی ہوئی ہیں۔ پھر معمول کا نظامِ کار درہم برہم ہوئے بغیر کیسے رہ سکتا ہے؟ پولیس تھانوں میں پناہ گیر ہے یا پھر عام آدمی کو روک کر چالان کرنے اور جیب ٹٹولنے پر مامور ہے۔ رینجرز کی ناک کے نیچے بھتہ خوری‘ قبضہ گیری‘ اغوا‘ ڈاکے‘ قتل وغیرہ کا بازار خوب گرم رہتا ہے۔ ریاستی رِٹ ختم اور حکومت نظم و نسق مفلوج ہوچکا ہے۔ اسی کیفیت کو Total Administrative Failure and Law & Order Break Down کہا جاتا ہے۔ سنگین جرائم کرنے والا خوفِ خدا سے تو عاری ہوتا ہی ہے‘ اسے قانون کا‘ قانون نافذ کرنے والی مشینری اور کسی احتساب و گرفت اور سزا کا بھی کوئی خوف نہیں۔ اگر پکڑا بھی گیا تو کوئی نہ کوئی پارٹی اس کو اپنا کارکن قرار دے کر رہا کرا لے گی۔ کراچی میں روزافزوں اسٹریٹ کرائم سے لے کر قتل و غارت گری اور ’’دلیرانہ‘‘ ڈاکوں تک‘ ہمہ اقسام جرائم کے اس ’’موسمِ بہار‘‘ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے یہ اعلانِ عام کردیا گیا ہو کہ ’’چلو‘ چلو‘ کراچی چلو‘ جہاں خون بھی معاف ہے اور مال بھی۔ قانون اور سزا کا کوئی خوف نہیں۔‘‘ یوں گویا کراچی ایک ایسا جنگل بنتا جارہا ہے جس کے ہر باسی کو اپنے تحفظ اور سلامتی کا خود ہی انتظام کرنا ہوگا۔ ورنہ وہ بے امان رہے گا۔
-22 مرکز میں ’’سندھی‘‘ وزیراعظم یا صدر‘ اور صوبے میں غالب صوبائی حکومتی ڈھانچہ ’’سندھی‘‘ ہوتا ہے تو اہلِ کراچی (اپنی صلاحیتوں‘ قابلیتوں اور صوبائی دارالحکومت کا باشندہ ہونے کے باوجود) اقتدار کے کھیل سے خود کو باہر سمجھتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے اس کھیل میں کبھی جوگی اور کبھی بلیک میلر بن کر حصہ لیا تواور پھر اس کیفیت کی ایکسپلائی ٹیشن پر ایم کیو ایم کا بت کھڑا رہا ہے۔
-23 اس سب کے باوجود ’’مہاجروں‘‘ کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کے آبا و اجداد جب سندھ کی سرزمین پر اترے تھے تو یہاں کے باشندوں نے ’’انصار‘‘ بن کر اُن کا استقبال کیا تھا۔ یہ احسان و اکرام یاد بھی رکھنا چاہیے اور اس ناتے اہلِ سندھ کو معمول سے بڑھ کر الائونس بھی دینا چاہیے۔ اسی طرح ’’پرانے سندھیوں‘‘ کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ’’نئے سندھی‘‘ اس سرزمین میں تعمیر و ترقی اور شادابی و خوش حالی کا ذریعہ بنے ہیں‘ بدحالی و تباہی کا نہیں۔ مگر بدقسمتی سے‘ ادلے بدلے کی نفسیات اور انتقامی ذہنیت نے سندھ کے ’’انصار‘‘ اور ’’مہاجرین‘‘ میں مسلسل عداوت و مخاصمت اور رقابت و مغائرت کی فضا قائم کردی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ سندھ عموماً اور کراچی خصوصاً سلگتا اور ابلتا رہتا ہے اور برسوں ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ پہلے ہی اس کا علم و دانش برباد، اور معتبر و معزز مقام پامال ہوچکا۔ رفتہ رفتہ اس کی صنعتی‘ تجارتی اور مالیاتی حیثیت بھی تحلیل اور منتقل ہوتی چلی جائے گی۔ نائیجیریا کا سب سے بڑا اور پھولتا پھلتا شہر لاگوس گم نام ہے‘ برباد ہوچکا ہے۔ وہاں بھی کم و بیش ایسے ہی مسائل تھے۔ اس انجام سے بچنے کی فکر یوں تو کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ہونی چاہیے لیکن سب سے زیادہ اُن کو ہونی چاہیے جو کراچی کے سب سے بڑے ’’اسٹیک ہولڈر‘‘ ہیں اور جن کے پیروکار کراچی سے ہجرت کرکے کہیں اور جا بھی نہیں سکتے۔
-24 کراچی کے مسئلے کو نہیں سمجھا جاسکتا جب تک یہ بات نہ سمجھ لی اور یاد رکھی جائے کہ یہاں جو ’’مہاجر‘‘ ہیں‘ ان کا کوئی اور ’’وطن‘‘، کوئی اور گائوں یا ضلع نہیں۔ جو کچھ ہے کراچی ہی ہے‘ کراچی ہی میں ہے۔ جب کہ دیگر لسانی اور سماجی گروہوں کے دیگر شہر‘ قصبے‘ گائوں‘ ضلع، وطن وغیرہ موجود ہیں۔ نیز یہ کہ ہندوستان سے جو لوگ اپنے آبائی گھر بار‘ جائدادیں‘ زمینیں‘ کاروبار‘ مساجد اور بزرگوں کے مقابر و مزارات چھوڑ کر پاکستان آئے‘ وہ واپس جانے کے لیے ہرگز نہیں آئے تھے۔ دنیا بھر میں ’’مہاجرین‘‘ کی حیثیت پناہ گیروں کی ہوتی ہے‘ جو بالآخر اپنے آبائی علاقے میں جانے کے متمنی ہوتے ہیں‘ چاہے اس عمل میں برسوں لگیں (جیسے افغانی) یا کئی عشرے گزر جائیں (جیسے فلسطینی) یا صدیاں بیت جائیں (جیسے یہود)۔ نسلوں سے دستورِ جہاں یہی رہا ہے کہ عام مہاجرین دراصل عارضی نقل مکانی کرتے ہیں اور حالات بدل جانے یا بہتر ہوجانے پر‘ ان کی کثیر تعداد واپس چلی جاتی ہے (کچھ نئی سرزمین پر بھی بس جاتے ہیں۔ مگر یہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں)۔ ترکِ وطن کرکے ہمیشہ کے لیے نئی سرزمین پر بس جانے کی روایت تو ’’سنتِ محبوبؐ الٰہی‘‘ ہے۔ برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اکثریت نے پاکستان کو ہمیشہ کے لیے اپنی جائے قرار اور اپنا وطنِ مالوف بنانے کے ارادے سے (مدینہ آبسنے والے مہاجروں کی طرح‘ ایمان و اسلام کی بنیاد پر) ہجرت کی تھی۔ وہ یہاں رَچ بس بھی گئے اور پکے سچے ’’پاکستانی‘‘ بن بھی گئے۔ مگر جب اس سطح سے نیچے ان کی شناخت کا سوال اٹھتا ہے تو ’’مہاجر‘‘ کہلانے کے سوا کوئی عملی جواب دستیاب نہیں ہوتا۔
-25 بالکل اسی طرح کراچی کے ’’مہاجروں‘‘ کو بھی تاریخ کا پہلو سامنے رکھنا چاہیے کہ افغانی اور پشتون جہاں بھی گئے ہیں‘ رفتہ رفتہ وہیں کے ہورہے ہیں اور اپنی زبان تک بھول گئے ہیں۔ صرف افغان حملہ آور جرنیل اور سلاطین ہی اپنے علاقوں میں واپس جاتے رہے ہیں‘ کیوں کہ وہاں عدم استحکام‘ بغاوت اور باہمی چپقلش صدیوں کی روایت رہی ہے‘ جو اَب بھی جاری ہے اور آئندہ بھی نہ جانے کتنی صدیوں تک جاری رہے گی۔ اسی سبب ہندوستان کے وسطی و شمالی علاقوں پر حملہ کرکے قبضہ کرلینے کے باوجود اکثر افغان جرنیل اور سلاطین واپس جاتے رہے‘ یہاں تک کہ آخری افغان فاتح ہند احمد شاہ ابدالی بھی واپس جانے پر مجبور ہوا۔ جبکہ فاتحین کے ساتھ آنے والے بے چارے سپاہی‘ تاجر‘ علما‘ صوفیہ اور عام افغانی ہندوستانی معاشرے میں ہی رچ بس گئے۔ برصغیر میں پھیلے ہوئے کئی ملین اردو بولنے والے مغل‘ مرزا اور پٹھان وسط ایشیا‘ افغانستان اور کچھ قبائلی علاقوں سے آئے ہوئے ترکی‘ فارسی اور پشتو بولنے والے آبا و اجداد کی اولادیں ہیں۔ چنانچہ کراچی کے حالات اگر پُرسکون رہیں تو یہاں آبسنے والے پختونوں کی کثیر تعداد‘ چند نسلوں کے بعد مقامی بن جائے گی اور کراچی کے دیگر شہریوں کی طرح ’’کراچی والی‘‘ (Karachiites) ہوگی اور کراچی کی قوت و دولت اور شان و شوکت میں اضافے کا سبب بنے گی۔
-26 یہ بدنصیبی ہے کہ پورے شہر کے تمام باشندوں کی ترجمانی کرسکنے والی قومی جماعتوں کو اکھاڑ پھینکنے کی خفیہ اور ظاہری کوششیں رنگ لائیں۔ انہیں سماج کے سبھی گروہوں میں کام کرنے اور سب کو ملا کر اور لے کر چلنے اور سب کی نمائندگی کے لائق نہیں رہنے دیا گیا۔ خود ایم کیو ایم نے بھی ’’متحدہ‘‘ کا نام اختیار کرلینے کے باوجود یہ خلا پُر کرنے کی سنجیدہ اور اخلاص پر مبنی کوششیں نہیں کیں (اور اب اس کے ’’سائے‘‘ مہاجر صوبہ کی مہم بھی چلا رہے ہیں۔) ساری دنیا کو بے وقوف سمجھنے کی ایم کیو ایم کی اس نفسیات (Psyche) نے اسے سارے شہر کا تو کیا‘ سارے ’’مہاجروں‘‘ کا بھی نمائندہ نہ بننے دیا۔ محض ایک مافیا بن کر شہر پر راج کرنا کوئی کمال نہیں تھا۔ یہ ’’مہاجروں‘‘ کے مفاد میں رہا نہ کراچی کے۔ ’’مہاجروں‘‘ کے مفاد میں تو یہ ہے کہ وہ شکر کی طرح ’’شربت‘‘ کے پورے ’’جگ‘‘ میں تحلیل ہوجائیں‘ نظر نہ آئیں مگر اپنی شیرینی سے پہچانے اور چاہے جائیں۔ ’’مہاجروں‘‘ کے لیے سلامتی کی راہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ یا تو ایم کیو ایم اپنا مافیائی رول ترک کردے اور قومی و وفاقی پارٹی بن کر کام کرے، یا پھر خود ’’مہاجر‘‘ اسے ترک کرکے کسی قومی یا وفاقی پارٹی سے وابستہ ہوجائیں۔
-27 پیپلزپارٹی ’’مہاجروں‘‘ کے لیے اپنا دامنِ دل وسیع نہیں کرسکی۔ آئندہ بھی اس کا کم ہی امکان ہے۔ مسلم لیگ ایسا کرسکتی ہے‘ لیکن اس کی قیادت جس ’’اسٹیل‘‘ سے بنی ہے وہ لچک کی حامل ہے نہ وسعت کی، اور نہ اس سے دوربینی کی کوئی زیادہ صلاحیت ظاہر ہوئی ہے۔ دینی جماعتوں اور خصوصاً جماعت اسلامی سے پاکستانی ہیئت مقتدرہ (Establishment) خوف زدہ یا بے زار ہے۔ اگرچہ یہ بات عام تاثر کے برعکس ہے‘ مگر حقیقت یہی ہے۔ پھر عالمی استعمار کو بھی تو مطمئن رکھنا ہے‘ اس لیے اس کو آگے بڑھتا وہ دیکھ نہیں سکتی۔ حالانکہ مہاجر چہرے‘ مہاجر شناخت اور مہاجر سماجی کلچر رکھنے والی جماعت اسلامی کراچی کے ’’مہاجروں‘‘ کے لیے بہت بہتر متبادل سیاسی پلیٹ فارم ہے اور لوگوں کا رجوع بڑھا ہے۔ یہ ”مہاجروں‘‘ کے علاوہ پختونوں‘ پنجابیوں‘ بلوچوں اور خود سندھیوں کو بھی متوازن اور معتدل طور پر اپنے پَروں کے نیچے سمیٹ لینے‘ سمیٹے رکھنے اور آگے لے کر چلنے کی غیر معمولی استعداد رکھتی ہے۔
-28 کراچی میں صرف مقامی‘ لسانی‘ گروہی‘ سیاسی اور مذہبی عوامل ہی کارفرما نہیں‘ بلکہ یہ عالمی استعماری ضروریات اور حکمتِ عملی کا بھی حصہ ہے۔ کراچی کے باہم دست بہ گریباں گروہوں کے امریکا و برطانیہ سے اچھے مراسم ہیں۔ امریکی و برطانوی سفارت کار اور وہاں سے آئے ہوئے سیاست کار اور اہل کار ان سب جماعتوں کے قائدین سے تواتر سے ملتے اور ان کے دفاتر کے دورے کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ان جماعتوں کے قائدین بھی باقاعدگی سے امریکا کا دوستانہ دورہ کرتے ہیں جب کہ برطانیہ تو ان کا دوسرا گھر ہے۔ گویا کراچی کے ’’رومن اکھاڑے‘‘ کے تمام کھلاڑی امریکا و برطانیہ سے قربت کا ’’اعزاز‘‘ رکھتے ہیں۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ’’کراچی بحران‘‘ محض مقامی مسئلہ ہے؟ قرائن سے صاف پتا چلتا ہے کہ عالمی استعماری قوتوں نے مملکتِ خدادادِ پاکستان کے بازو مروڑنے کے لیے جو حکمتِ عملی بنائی ہے‘ کراچی جیسے معاشی‘ مالیاتی‘ صنعتی اور مواصلاتی اہمیت کے حامل‘ سب سے بڑے اور کلیدی شہر کو بے سکون اور خوف زدہ کرکے سارے ملک کو خوف زدہ رکھنا اور بلیک میل کرنا بھی اُس کا ایک نکتہ ہے۔
30- آخری بات یہ کہ کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ کراچی والوں کو گناہ کی سزا مل رہی ہے‘ کیوں کہ ان کے گناہ ملک بھر کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور سب سے بڑے پاپی کراچی والے ہیں‘ تو یہ خلافِ واقعہ ہے اور اہل کراچی کے ساتھ زیادتی بھی۔ یہ شہر‘ ملک بھر میں سب سے زیادہ دین کو سمجھنے‘ سمجھ کر اس پر چلنے‘ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے‘ نمازیں پڑھنے اور خانۂ خدا کو آباد کرنے والوں اور غریب پرور لوگوں کا شہر ہے۔ سارے ملک کے مدارس کو چلانے میں کراچی والوں کے عطیات کا حصہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ مسجدوں کی تعمیر سے لے کر رفاہِ عامہ کے عام کاموں میں مالی تعاون تک‘ یہ شہر انفاق و ایثار کا قابلِ رشک کلچر رکھتا ہے۔ ان خوبیوں کے باوجود (اور اسلام اور مسلم امہ کے معاملے میں حساس اور جذباتی ہوتے ہوئے بھی) یہ دعا اور توقع کی جانی چاہیے کہ اہلِ کراچی کی درج بالا نیکیاں بالآخر اللہ کی رحمت کو مائل کرنے کا سبب بنیں گی۔
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری‘ رنگ بدلتا ہے کیا
(اس تفصیلی مضمون کی ایک قسط اس سے قبل پچھلے شمارے میں شائع ہوچکی ہے۔ مضمون کے تسلسل کے پیش نظربعض تفصیلات کو اس آخری قسط میں واقعاتی لحاظ سے قطع و برید سے کام لے کر حذف کیا گیا ہے۔(ادارہ)