علاقے میں سب سے پہلے شعیب کا بکرا آیا تھا۔ لمبا تڑنگا اور صحت مند۔ محلے میں بہت شور مچا تھا۔ وسیم اس کا جگری دوست تھا، وہ بھی اسے مبارک باد دینے آیا تو کچھ خاموش خاموش محسوس ہوا۔
شعیب نے اس کی پریشانی بھانپ لی ’’کیا بات ہے وسیم! کچھ اداس لگ رہے ہو، کچھ ہے جو چھپارہے ہو۔‘‘
وسیم نے بات ٹالنے کی کوشش کی مگر شعیب اس کا ہمدرد دوست تھا، اس نے وجہ معلوم کرنے کی ٹھان لی۔ دن بھر وہ دونوں بکرے کی مختلف سرگرمیوں میں مصروف رہے، شام کی سرخی پھیلنے تک شعیب نے وسیم سے اس کی پریشانی کا سبب اگلوا ہی لیا۔
اس کی بڑی بہن کی شادی سر پر تھی اور جہیز کے انتظام کے ساتھ ساری تیاریاں درکار تھیں۔ اس کے ابا جس فیکٹری میں کام کرتے تھے مختلف ٹیکس لگنے کے باعث اس فیکٹری کے مالکان نے تنخواہیں بھی روک رکھی تھیں، جب کہ وسیم آٹھویں کلاس میں ہونے کے باوجود کچھ نہ کچھ ٹیوشن پڑھاکر کسی حد تک اپنا خرچہ اٹھا لیتا۔
اماں نے کپڑوں کی سلائی اور کپڑوں کی فروخت کے کام سے بیٹی کا جہیز جوڑ توڑ کرکے بنا لیا تھا، مگر باقی خرچوں نے سراسیمہ کیا ہوا تھا۔
اگلے دن جب شعیب اپنے والد کے ساتھ ناشتا کررہا تھا تو اس نے وسیم کی ساری روداد والد صاحب کو بتائی۔ شعیب کے والد اسامہ صاحب بہت مہذب اور نیک انسان تھے، محلے میں سب لوگوں کو جمع کرکے درس بھی دیا کرتے تھے، ان کاشادی بیاہ کے کھانوں اورکیٹرنگ کا کاروبار تھا جس سے وہ اچھی کمائی کرتے۔ محنتی بھی تھے، اپنے ساتھ شعیب کو بھی کام پر لگاکر رکھتے۔ نماز کے لیے مسجد لے کر جاتے، وہاں پر مسجد میں جمع ہونے والے نمازیوں سے بھی بہت تعاون کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے کاروبار میں بہت برکت تھی۔
وسیم اور اس کے گھر والے انتہائی خوددار لوگ تھے، جتنی آمدن تھی اسی میں صبر شکر کرکے گزارہ کرنے والے۔
جب شعیب کے والد اسامہ صاحب کو پتا چلا وسیم کی پریشانی کا، وہ فوراً ہی وسیم کے گھر گئے۔ وسیم کے ابا اس وقت کہیں جانے کی تیاری کررہے تھے۔
اسامہ صاحب کے ساتھ بیٹھ کر ان کی بہت خاطر کی، انہیں اپنے گھر پاکر بہت خوش ہوئے۔
اسامہ صاحب نے باتوں باتوں میں ایک پیشکش کی:
’’آپ کی بیٹی کی شادی پر میں آپ کو بطور تحفہ شادی کی تقریب کا کھانا آدھی قیمت میں بنوا کر دینا چاہتا ہوں اور کیٹرنگ کے باقی معاملات کے انتظامات بھی میری طرف سے ہوں گے۔‘‘
وسیم کے ابا محوِ حیرت تھے۔ کچھ لمحے خاموش رہے پھر بولے ’’آپ یہ سب کرکے مجھے بوجھل کررہے ہیں۔‘‘
اسامہ صاحب نے ان کی آنکھوں کی نمی دیکھ کر بے ساختہ کہا ’’ہرگز نہیں… تحفہ بوجھ نہیں ہوتا، مسلمان مسلمان آپس میں بھائی ہیں‘ ان کے دکھ سکھ ایک دوسرے سے جڑے ہیں، پھر یہ مہینہ قربانی کا ہے۔ اخوت، اتحاد، یک جہتی کا ہے۔ جب ہم اس قربانی کی روح تک نہ اتریں گے کیسے تکمیل ہوگی اس فریضے کی!‘‘
وہ یہ کہہ کر چلے گئے اور وسیم کے ابا اپنی آنکھوں میں آنسو بھر کر آسمان کی طرف نگاہ کرکے دل کے اترے بوجھ پر شکر گزاری کے لیے لفظوں کا انتخاب کررہے تھے۔