کراچی کا موسم بہتر ہوتے ہی لوگ مویشی منڈیوں میں پہنچ گئے، خاص کر اتوار کو عوام نے بڑی تعداد میں قربانی کے جانور خریدے۔ کراچی کی مویشی منڈیوں میں اربوں روپے سے زائد کے کاروبار اور بڑھتی ہوئی گہماگہمی کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اِس سال زیادہ قربانی ہوگی، جبکہ عوام کے مطابق جانور مہنگے ہونے کی وجہ سے اِس مرتبہ خریدار انتہائی پریشان ہیں، ایک سے ڈیڑھ من کے جانور کے ڈیڑھ لاکھ تک دام وصول کیے جارہے ہیں، جبکہ درمیانے درجے کا جانور تین سے چار لاکھ روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ دوسری طرف محکمہ موسمیات کے مطابق سمندری طوفان گزر جانے کے بعد کراچی میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ اس سے مویشی منڈی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ جو بھی صورتِ حال ہو، میری تحریر چھپنے تک وہ عوام کے سامنے آچکی ہوگی، یعنی جب تک یہ تحریر عوام کے سامنے ہوگی عید آنے میں دو چار دن ہی رہ جائیں گے۔ اُس وقت منڈی کے کیا حالات ہوں گے یا موسم کیا رنگ دکھائے گا، سب کچھ عیاں ہوچکا ہوگا۔ خیر ہماری روایت رہی ہے کہ ہم مذہبی تہواروں کو بھی کھانے پینے کے دن بنادیتے ہیں، یعنی عیدالفطر کو میٹھی عید کا نام دینے سے مٹھائی اور سوّیاں یاد آنے لگتی ہیں، اسی طرح بقرعید کو زیادہ تر لوگ بکرا عید سمجھتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہمارے یہ مذہبی تہوار زبان کے چٹخاروں تک محدود کردیے گئے ہیں، تبھی تو قربانی والے دن انتظار کیا جاتا ہے کہ کب گوشت آئے اور کب ہم دیگچے چولہوں پر چڑھائیں۔ کڑاہی گوشت سے لے کر بریانی، تکہ کباب سمیت مختلف چٹ پٹے کھانے بنا اور کھا کر سنتِ ابراہیمی ادا کردی جاتی ہے، جبکہ قربانی کے بارے میں حکم ہے کہ جو لوگ جانور قربان کریں وہ اس کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کریں، دوسری صورت میں قربانی کرنے والے چاہیں تو سارا گوشت اپنے گھر میں ہی رکھ سکتے ہیں۔ یعنی اس کی بھی اجازت ہے، لیکن بہتر طریقہ یہی ہے کہ قربانی کے گوشت کا ایک حصہ عزیزو اقارب، اور ایک غریبوں میں تقسیم کیا جائے۔ لیکن ہم دوسری صورت پر عمل کرتے ہوئے یہ سارا گوشت فریزر کے حوالے کرکے سال بھر نہ صرف مزیدار پکوان پکاتے ہیں بلکہ گھر میں آنے والے مہمانوں کو بھنا ہوا قیمہ اور گوشت سے تیار کردہ کھانے کھلا کر ان پر رعب جھاڑتے ہیں۔ یوں ہمارے ذہنوں میں سارا سال واقعہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یادیں بھی تازہ ہوتی رہتی ہیں۔ یعنی جب جب گھر میں بقرعید کا گوشت پکے گا تب تب ہمیں وہ واقعہ یاد آتا رہے گا، اس طرح ہم سال میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ مسلسل سنتِ ابراہیمی ادا کرتے رہتے ہیں۔
کوئی بھی مذہبی تہوار ہو یا قومی دن، ان موضوعات پر لکھنے والے کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ عید پر اور عید کے بعد بھی اخبارات میں قربانی اور منڈی کی صورت حال پر لکھاری بہت کچھ لکھتے رہیں گے، اس لیے میں نے یہی بہتر سمجھا کہ اس دن کی مناسبت سے اُن لوگوں کی رائے عوام کے سامنے رکھوں جو عید پر بھی مزدوری کریں گے۔ عید والے دن کسی قصائی کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے، میرا مطلب ہے کہ قربانی کے جانوروں کو ذبح کروانے کے لیے اس کام سے منسلک شخص کو ڈھونڈنا انتہائی دشوار گزار کام ہوتا ہے۔ کیوں کہ مجھے اپنے مضمون کے لیے بقرعید کی مناسبت سے کچھ نہ کچھ تحریر کرنا تھا اس لیے میں نے قصابوں کے کام سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی ٹھانی، بس اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں ندیم قریشی کی دکان جا پہنچا جس کا خاندان کئی دہائیوں سے نہ صرف گوشت فروخت کرتا ہے بلکہ بقرعید پر درجنوں جانور بھی ذبح کرتا ہے۔
میں جس وقت ندیم قریشی کے پاس پہنچا وہ اپنے اوزاروں پر جن سے اسے جانور ذبح کرنے تھے، دھار لگا رہا تھا۔ مختلف قسم کی چھوٹی بڑی چھریاں دیکھ کر یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کسی جنگ کی تیاری کی جارہی ہو۔ ندیم قریشی نے مجھ سے جس طرح بات شروع کی وہ میرے ذہن میں آنے والے خیالات کے عین مطابق تھی۔ اُس نے ابتدا ہی اُن الفاظ سے کی جو میرے ذہن میں آنے والے سوالات تھے۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگا:
”بھائی میاں! عید پر جنگ لڑنا پڑتی ہے، جانوروں کو کاٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اپنی جان پر کھیلنا پڑتا ہے۔ ہم خاندانی قصاب ہیں، مصنوی(مصنوعی) نہیں ہیں۔ عید پر بڑی تعداد میں ”مصنوی“ قصاب آجاتے ہیں جو جانوروں کی ہڈیوں کا چُورا کردیتے ہیں جب کہ گوشت بھی نوچ نوچ کر اتارتے ہیں، آدھا گوشت کھال کے ساتھ ہی لگا رہتا ہے۔ ہمارے ہاتھ میں بڑی صفائی ہے، اس لیے جو لوگ برسوں پہلے ہم سے جانور کٹواتے تھے اب تک ہمارے ہی گاہک ہیں۔ ہم چھوٹے علاقوں میں کام نہیں کرتے، بہادر آباد سوسائٹی اور ڈیفنس جاتے ہیں۔ اِس سال جانور وزن کے حساب سے کاٹا جائے گا، فی من کے حساب سے مزدوری ہوگی۔ چھوٹے علاقوں میں زیادہ پیسے نہیں ملتے جبکہ چھوٹے علاقوں میں ہر دوسرا آدمی ہم سے بڑا قصاب بنتا ہے۔“
ندیم قریشی کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر عید کے تین دنوں میں لاکھوں روپے کما لیتا ہے لیکن کاریگروں کو دے دلاکر اس کے پاس صرف اتنی رقم بچتی ہے جس سے وہ عید کے بعد اُن دنوں کا خرچہ چلاتا ہے جب اس کی دکان بند رہتی ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ عید پر کمائی جانے والی رقم تو سب کی نگاہوں میں ہوتی ہے، مگر عید کے بعد دو سے تین ماہ تک گوشت کا کاروبار نہیں چلتا یہ کوئی نہیں جانتا۔ بات سیدھی سی ہے، جب لوگوں کے گھروں میں قربانی کا گوشت وافر مقدار میں ہوگا تو ایسے میں گوشت کون خریدے گا؟ اُس وقت گھر چلانے کے لیے عید پر کمائی گئی رقم ہی کام آتی ہے۔
ندیم قریشی نے دورانِ گفتگو ایسے راز سے پردہ اٹھایا جسے سن کر میرے اوسان خطا ہوگئے۔ اس نے بتایا کہ قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے کراچی کی مختلف آبادیوں میں رہنے والے غیر مسلم بھی نکل آتے ہیں جو باقاعدہ لوگوں کے گھروں میں جاکر قربانی کے جانور کاٹتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر اسے کوئی غیر مسلم قربانی کا جانور ذبح کرتے ہوئے دکھائی دے تو وہ متعلقہ لوگوں کو ضرور بتاتا ہے، لیکن سمجھانے کے باوجود زیادہ تر لوگ کم دیہاڑی کی وجہ سے ایسے لوگوں سے ہی اپنا جانور کٹوا لیتے ہیں۔ میرے نزدیک مسلمانوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ جو شخص قربانی کا جانور ذبح کرے اُس کے بارے میں معلومات ضرور ہونی چاہیے۔ انہیں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ تھوڑی سی رقم بچانے کے چکر میں کہیں اللہ کی راہ میں قربان کیا جانے والا جانور حرام نہ ہوجائے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ نہ صرف بقرعید پر غیر مسلم سرگرم ہوتے ہیں بلکہ لانڈھی بھینس کالونی میں قائم سلاٹر ہاؤس میں بھی غیر مسلموں کی خاصی بڑی تعداد جانوروں کی کٹائی و چھلائی کے کام سے وابستہ ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اس کا علم سلاٹر ہاؤس کی انتظامیہ کو بھی ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ اتنا کچھ جاننے کے باوجود بلدیہ کراچی کے اعلیٰ افسران کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ میں تو حیران ہوں کہ ایک مسلمان ملک میں حلال جانوروں کو ذبح کرنے والے غیر مسلموں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں، یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے! اس مسئلے کا حل بتاتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ حکومت خاص طور پر بلدیاتی اداروں کا یہ فرض ہے کہ وہ عیدِ قرباں سے قبل اس پیشے سے وابستہ افراد کے کوائف جمع کرکے انہیں ایسے کارڈز کا اجراء کرے جن سے اصلی قصاب اور موسمی اناڑیوں کی شناخت ہوسکے، بلدیہ کراچی اپنی گشتی ٹیموں کو پابند کرے کہ بغیر کارڈ کے کوئی بھی شخص جانور ذبح نہ کرسکے۔ قربانی کے جانوروں سے متعلق اس کے ذہن میں پورا معاشی پروگرام تھا، وہ باتوں میں ماہر معاشیات سے کم نہ تھا۔ چرم قربانی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا بلکہ اس کی تجویز تھی کہ حکومت ایک ایسا ادارہ قائم کرے جو پورے ملک سے کھالیں جمع کرے، اس ادارے کے سوا کسی کو بھی چرم قربانی جمع کرنے کی اجازت نہ ہو، اس طرح حکومت اربوں روپے کا زرمبادلہ کما سکتی ہے۔ ویسے بھی ہم مقروض قوم ہیں، غیر ملکی اداروں خصوصاً یہودیوں سے سود پر قرض لینے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم اپنے ملک سے کھالوں کی مد میں سالانہ اربوں روپے حاصل کرلیا کریں۔ اسی طرح بلدیاتی اداروں کے تحت چلائے جانے والے ذبح خانوں سے جہاں روز سیکڑوں جانور کٹتے ہیں، ان جانوروں کی آلائشوں اور خون کی مد میں کروڑوں روپے کمائے جا سکتے ہیں جس پر بلدیاتی اداروں کی ملی بھگت سے بااثر افراد کا قبضہ ہے، اگر ہمارے حکمران ان بااثر افراد کا، خون اور آلائشوں پر قبضہ ختم کروا دیں تو یقیناً پاکستانی خزانے میں اربوں روپے کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اپنی رٹ قائم کرے۔
ندیم قریشی کی باتوں پر یقین کرلینا چاہیے۔ جو معلومات اس کے پاس ہیں شاید بلدیاتی عملے کے پاس بھی نہ ہوں۔ اس نے جو انکشافات کیے ہیں وہ قابل غور ہیں۔ میں نے اس کی بتائی ہوئی باتوں کے بارے میں اس کام سے منسلک دوسرے لوگوں سے بھی معلومات حاصل کیں، ان لوگوں کے مطابق اس کی بتائی ہوئی ایک ایک بات سو فیصد درست ہے، ہر دوسرا شخص ندیم قریشی کی باتوں کی تائید کرتا ہوا دکھائی دیا۔ ایک شخص نے بتایا کہ گوشت کا کام ایک صنعت ہے، جانور کی کوئی بھی چیز ضائع نہیں ہوتی، اگر حکومت توجہ دے تو اس صنعت کے ذریعے سالانہ اربوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چرم قربانی کے استعمال کا شعور مولانا مودودیؒ نے سب سے پہلے پیش کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد لانڈھی میں قبرستان بہت دور تھا اور لوگوں کو اپنے مُردے دفنانے کے لیے بہت دور تک کا سفر طے کرنا پڑتا تھا، اُس زمانے میں قربانی کی کھالیں جگہ جگہ پڑی رہتی تھیں یا قصائی اپنے ساتھ لے جاتے تھے، اُس وقت لوگوں میں شعور نہیں تھا کہ اس کا کیا استعمال ہوسکتا ہے، مولانا نے جماعت اسلامی کے لوگوں میں قربانی کی کھالیں جمع کرکے شرعی اور فلاحی کاموں میں خرچ کرنے کا شوق ابھارا۔ قبرستان، مدرسوں اور دیگر کاموں کے لیے کھالیں بیچ کر فنڈ اکٹھا کیا جانے لگا۔ شروع میں جماعت اسلامی اپنے نام سے کام کرتی تھی، بعد میں اس کا الخدمت کا شعبہ قائم کردیا گیا اور یہ ایک باقاعدہ مہم کی شکل اختیار کرگیا۔ 1970ء کی دہائی میں الخدمت سوسائٹی بنی اور اب الخدمت فاؤنڈیشن کے نام سے پورے ملک میں کئی منصوبے چل رہے ہیں۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ مولانا مودودیؒ کے دیے گئے شعور کی وجہ سے ہی آج چمڑے کی صنعت پاکستان کی بڑی صنعت ہے۔