چنانچہ تورج اور ایرج کے باپ کے متعدد سوالات کے جواب میں اس نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ جناب میں یہ نہیں جانتا کہ آپ کا بیٹا ہرقلیہ کیوں آیا تھا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ سیتھین اس کے دشمن کیوں ہوگئے۔ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ اس نے سیتھین سپاہیوں کے نرغے سے نکل کر اس طرف بھاگنے کی کوشش کی تھی جہاں رومی سپاہی کھڑے تھے۔ لیکن قبل اس کے کہ رومی اس کی کوئی مدد کرسکتے وہ ایک سیتھین سوار کے نیزے سے زخمی ہو کر گرپڑا۔ اس کے بعد خاقان کے طوفانی دستے وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے رومیوں پر حملہ کردیا۔ اب رہا یہ سوال کہ انہوں نے آپ کے بیٹے کو قتل کیوں کیا۔ اس کا صحیح جواب صرف وہ لوگ دے سکتے ہیں جو ایرج کے ساتھ گئے تھے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوگا‘‘۔
بوڑھے نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’کیا یہ ممکن نہیں کہ میرے بیٹے کو رومیوں نے قتل کیا ہو؟‘‘
عاصم نے قدرے پریشان ہو کر جواب دیا۔ ’’اگر رومی اس قتل کے مجرم ہوتے تو مجھے آوار کو اس کے قتل کا الزام دینے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔
’’تم رومیوں کے ساتھی ہو‘‘۔
عاصم نے کرب انگیز لہجے میں جواب دیا۔ ’’میں صرف سین کا ساتھی تھا اور میں یہ سمجھتا تھا کہ سین کے دوست میرے دوست اور سین کے دشمن میرے دشمن ہیں۔ لیکن سین مرچکا ہے اور اب میرا کوئی دوست یا دشمن نہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ایرج کی موت کے اسباب کے متعلق آپ کی تسلی نہیں کرسکا۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسے سیتھین نے قتل کیا اور مرتے وقت جب میں نے اسے سہارا دینے کی کوشش کی تھی۔ تو میرے متعلق اس کے تاثرات ایک دوست اور بھائی کے تاثرات سے مختلف نہ تھے۔ ہم دونوں کو اس بات کا افسوس تھا کہ زندگی میں ہم ایک دوسرے کے قریب کیوں نہ آسکے۔ میں نے یہ باتیں آپ کو خوش کرنے کے لیے نہیں کیں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ اب آپ کی خوشی یا ناراضگی میری قسمت پر اثر انداز نہیں ہوسکتی‘‘۔
’’مجھے یقین ہے کہ تم جھوٹ نہیں کہتے اور میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ مجھے صرف اس بات کا افسوس ہے کہ میں اس شخص کی کوئی مدد نہیں کرسکتا جس نے میرے بیٹے کو مرتے وقت سہارا دیا تھا‘‘۔ ایرج کا باپ یہ کہہ کر غور سے عاصم کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اچانک اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور وہ اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
تورج نے قید خانے کے داروغہ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’تم انہیں دروازے تک چھوڑ آئو۔ میں قیدی سے چند ضروری باتیں پوچھنا چاہتا ہوں‘‘۔
داروغہ نے تورج کے حکم کی تعمیل کی اور وہ قدرے توقف کے بعد عاصم سے مخاطب ہوا۔ ’’جب ایک آدمی شیر کے منہ میں اپنا سر دے چکا ہو تو اس کے بہترین دوست بھی اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ میں سین کے معاملے میں بے بس تھا۔ لیکن تمہارا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ تم اگر ہوش سے کام لو تو شاید اپنی جان بچا سکو۔ اگر تم میری نصیحت پر عمل کرو تو ممکن ہے کہ شہنشاہ کچھ عرصہ بعد تمہیں قید سے آزاد کرنے پر بھی رضا مند ہوجائے۔ میری بات غور سے سنو۔ سین کا خون رائیگاں نہیں گیا۔
ہمیں ملک کے کئی شہروں سے اس قسم کی اطلاعات ملی ہیں کہ شہنشاہ کے بعض دشمن سین کو مظلوم ثابت کرکے لوگوں کو بغاوت پر اُکسا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ فوج میں ایک عنصر ایسا ہے جو جنگ کی طوالت سے تنگ آچکا ہے۔ کل شہنشاہ نے پہلی بار دست گرد کے امراء اور فوج کے اعلیٰ افسروں سے یہ مشورہ لینے کی ضرورت محسوس کی تھی کہ روم کے ایلچیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اور ہماری اکثریت نے یہ رائے دی تھی کہ شہنشاہ اول تو ان سے ملاقات کریں۔ ورنہ انہیں حفاظت سے واپس بھیج دیں۔ دست گرد کے بڑے کاہن کے علاوہ صرف چند امراء ایسے تھے جنہوں نے رومیوں کے لیے قتل یا قید کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔ شہنشاہ نے ملاقات کی تجویز منظور کرلی ہے۔ اور رومیوں کے متعلق یہ حکم دے دیا گیا ہے کہ سردست ان کے ساتھ انتہائی معزز مہمانوں کا سا سلوک کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ شہنشاہ انہیں بہت جلد شرف بازیابی عطا کریں گے۔ اور اگر رومیوں نے ان کی تمام شرائط مان لیں تو صلح ہوجائے گی۔ اب تمہارا مسئلہ رہ جاتا ہے۔ میں آج قیصر کے آدمیوں سے ملا تھا اور وہ یہ کہتے تھے ہم سب سے پہلے شہنشاہ کی خدمت میں تمہاری رہائی کی درخواست پیش کریں گے۔ لیکن میں نے انہیں یہ سمجھایا تھا کہ اگر تم نے اس قسم کی کوئی درخواست کی تو وہ ٹھکرادی جائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ عاصم کی طرح تم بھی شہنشاہ کے زیر عتاب آجائو۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم سردست شہنشاہ کے سامنے عاصم کا ذکر تک نہ کرو۔ جب صلح کی شرائط طے ہوجائیں گی تو ممکن ہے کہ عاصم کے حق میں تمہاری آواز بھی موثر ثابت ہو۔ اب شاید وہ تمہاری حمایت میں زبان کھول کر اپنی الجھنوں میں اضافہ کرنے کی غلطی نہ کریں۔ لیکن تمہیں اس بات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے تمہارے بچائو کا ایک راستہ نکالا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تم حقیقت پسندی سے کام لو‘‘۔
قید خانے کا داروغہ کمرے میں داخل ہوا۔ لیکن تورج نے ایسے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کچھ دیر اور باہر ٹھہریں میں قیدی سے ایک ضروری بات کررہا ہوں‘‘۔
داروغہ اُلٹے پائوں باہر نکل گیا اور تورج دوبارہ عاصم کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ سین کے قتل پر مختلف شہروں کے عوام کے ردعمل کے متعلق جو اطلاعات آرہی ہیں ان کے باعث شہنشاہ کافی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ تم اگر چاہو تو شہنشاہ کی تمام پریشانیاں دور کرسکتے ہو‘‘۔
عاصم نے سوال کیا۔ ’’میں شہنشاہ کی پریشانیاں کیسے دور کرسکتا ہوں؟‘‘۔
’’تم ایک مدت سے سین کے ساتھی ہو۔ اور اس کے متعلق تمہاری ہر بات درست مانی جائے گی۔ تم جانتے ہو کہ شہنشاہ رعایا کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے۔ اور انہیں ہر وقت ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام کے سامنے ان کا ہر اقدام صحیح ثابت کرسکیں؟‘‘
’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘۔ عاصم نے مضطرب ہو کر سوال کیا۔
’’میرا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اپنی جان بچانے کے لیے بھرے دربار میں یہ کہنا پڑے گا کہ سین واقعی ایک باغی اور غدار تھا اور اس نے رومیوں کو بچانے کے لیے محاذ جنگ پر ہمارے لشکر میں بددلی اور مایوسی پھیلادی تھی۔ تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ سین دل سے عیسائی ہوچکا تھا۔ اور اس کے زیر اثر کئی سپاہی رومیوں کے حامی بن گئے تھے‘‘۔
ایک ثانیے کے لیے عاصم کا سارا خون سمٹ کر اس کے چہرے پر آگیا۔ اور وہ کرب انگیز لہجے میں چلایا۔ نہیں نہیں! میں اپنی موت سے پہلے مرنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ میں اس شخص پر غلاظت نہیں پھینکوں گا، جس کے ساتھ عقیدت، محبت اور وفاداری کا رشتہ میری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے‘‘۔
تورج نے کہا۔ ’’بیوقوف نہ بنو۔ سین کے ساتھ تمہاری عقیدت اور محبت صرف تمہیں ہلاکت کا راستہ دکھا سکتی ہے۔ اُسے واپس نہیں لا سکتی۔ اگر تم سین کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دو تو یہ تمہارے قید خانے کا دروازہ کھول کر یہ نہیں کہے گا کہ اب تم آزاد ہو۔ اور اگر تم اس کی مذمت کرو تو وہ تمہارے مصائب میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتا۔ اس کی موت کے بعد اس کے ساتھ تمہارے سارے رشتے ختم ہوچکے ہیں۔ لیکن کسریٰ زندہ ہے اور اسے تمہاری زندگی اور موت پر پورا اختیار ہے۔ اگر تم اپنے لیے نہیں تو ان لوگوں کے لیے زندہ رہنے کی کوشش کرو جنہیں تمہاری ضرورت ہے تم سین کی بیوہ کو سہارا دے سکتے ہو۔ اس کی بیٹی کے آنسو پونچھ سکتے ہو‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’ایک گرا ہوا آدمی کسی کا سہارا نہیں بن سکتا۔ اب تک میں یہی سمجھتا تھا کہ اس دنیا میں موت سے بھیانک کوئی چیز نہیں۔ لیکن آپ مجھے ایک ایسی زندگی کا راستہ بتارہے ہیں جو موت سے زیادہ بھیانک ہے اگر آپ کو میرا امتحان مقصود ہے تو مجھے اپنے شہنشاہ کے سامنے لے چلیے۔ میں بھرے دربار میں یہ اعلان کروں گا کہ میں سین کا دوست ہوں اور میں اس کے قاتل سے اپنے لیے رحم کی بھیک نہیں مانگ سکتا۔ تم سین کی طرح میری کھال اُتار سکتے ہو۔ لیکن کوئی اذیت، کوئی خوف اور کوئی لالچ مجھے اس عظیم انسان کے خلاف زبان کھولنے پر آمادہ نہیں کرسکتا۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ میرے زندہ رہنے کو اس قدر اہمیت دے رہے ہیں۔ لیکن میں ایسی حقیر زندگی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا‘‘۔
تورج کچھ دیر ٹکٹکی باندھ کر عاصم کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر وہ اچانک اپنی کرسی سے اُٹھ کر آگے بڑھا اور عاصم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔ ’’میرے دوست میں بے بس ہوں۔ اگر میں کسریٰ کی طرح بااختیار ہوتا، تو میرا پہلا حکم یہ ہوتا کہ اس قیدی کی بیڑیاں اتار دی جائیں اور ایران کے سارے خزانے اس کے قدموں میں ڈھیر کردیئے جائیں‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’اگر آپ مجھ سے خفا نہیں ہوئے تو میری یہ درخواست ہے کہ آپ سین کی بیوی اور بیٹی کو مصیبت سے بچانے کی کوشش کریں۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کا انجام سین سے زیادہ عبرتناک نہ ہو‘‘۔
’’میں تم سے خفا نہیں ہوں بلکہ مجھے تم پر رشک آتا ہے۔ سردست کسریٰ کی توجہ سین اور اس کی بیوی کی طرف مبذول نہیں ہوسکتی۔ اور ہم اس بات کی پوری کوشش کریں گے کہ ان پر کوئی مصیبت نہ آئے۔ میں تمہارے مستقبل کے متعلق بھی بہت زیادہ مایوس نہیں۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ صلح کے بعد ہمارے لیے تمہیں رہا کروانا مشکل نہیں ہوگا۔ کسریٰ محاذِ جنگ کی کمان مجھے دینا چاہتا تھا لیکن رومیوں کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ کرنے کے لیے مجھے چند دن کے لیے روک لیا گیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ صلح کے بعد محاذ جنگ پر میری ضرورت نہیں ہوگی‘‘۔ تورج نے یہ کہہ کر تالی بجائی قید خانے کا داروغہ اور مسلح سپاہی اندر داخل ہوئے۔ اس نے عاصم کو لے جانے کا حکم دیا۔
پرویز نے رومی ایلچیوں کو شرفِ باریابی عطا کرنے سے پہلے اُن کے سامنے صلح کی شرائط پیش کرنے کی ذمہ داری اپنے وزراء اور فوج کے عہدہ داروں کے علاوہ اُن مجوسی کاہنوں کو سونپ دی تھی جو عیسائیوں کی تذلیل اپنا مذہبی فریضہ خیال کرتے تھے۔ اور ان لوگوں نے چند دن غور و فکر کے بعد ہرقل کے ایلچیوں کے سامنے جو مسودہ پیش کیا تھا، وہ ایسی توہین آمیز شرائط پر مشتمل تھا جو صرف ایک ظالم فاتح اپنے پائوں میں گرے ہوئے دشمن کی شہ رگ پر تلوار رکھ کر منوا سکتا تھا۔ لیکن رومیوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ (جاری ہے)