خطۂ بنگال دعوتِ حق سے وابستہ یادوں، عزیمتوں اور قربانیوں کی سرزمین ہے۔ پہلے یہ مشرقی پاکستان تھا اور اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔ وہاں تحریک اسلامی کے تابندہ نقوش کی ایک تاریخ ہے، جسے محفوظ کرنا ہم پر قرض ہے۔ آج بنگلہ دیش، تحریک اسلامی سے وابستگان کے لیے قید، تعزیر اور تختۂ دار سے منسوب ایک خطہ ہے، جہاں قدم قدم پر ظلم کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ اسی سرزمین پر قیامِ پاکستان کے تین سال بعد تحریک اسلامی کے ایک نوعمر طالب علم محبوب الٰہی نے تعلیمی دُنیا میں دعوتِ دین سے منسوب کھجور کا پودا لگایا تھا۔ یہی محبوبِ الٰہی ۹۱برس کی عمر فانی گزار کر، یکم مئی ۲۰۲۳ء کو ربِّ جلیل و کریم کے حضور پیش ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے مقربین میں مقام عطا فرمائے، آمین۔
خواجہ صاحب کے آباواجداد کشمیر اور سہگل برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم، رہائشی تعلق پنجاب کے ضلع جہلم، پنڈ دادن خاں سے تھا۔ محبوب الٰہی جولائی ۱۹۳۲ء میں پیدا ہوئے ۔ بچپن کا ابتدائی حصہ اپنے والدین کے ساتھ پٹنہ ، گریڈی ( بہار) اور کلکتہ میں گزارا۔ شدید بیماری کے دوران کلکتہ میں والدین نے ان کی تعلیم کے لیے گھرپر ہی انھیں ایک اتالیق محمدرفیق شبلی کی نگرانی میں دے دیا۔ رفیق صاحب مولانا مودودی کی کتب کے شیدا تھے۔ انھوں نے اپنے طالب ِ علم محبوب الٰہی کو مولانا مودودی کی تحریریں پڑھنے کے لیے دیں اور اسلام سے عملی وابستگی کی شاہراہ پر گام زن کردیا۔ قیامِ پاکستان کے زمانے میں محبوب صاحب والدین کے ہمراہ آبائی وطن آگئے۔
آپ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے بالکل ابتدائی زمانے کے رفقا میں سے تھے۔ ۱۹۵۰ء میں اپنے نانا محمد امین صاحب کے ہاں مشرقی پاکستان چلے گئے، جنھوں نے پٹ سن کی مصنوعات کے لیے ’امین جیوٹ مل‘ قائم کر رکھی تھی۔ محبوب صاحب نے خطبات، سلامتی کا راستہ اورشہادتِ حق سے دعوتِ حق کی جو روشنی حاصل کی تھی، اسے بانٹنے کے لیے انھوں نے ڈھاکا شہر کے علاوہ مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں چٹاگانگ،راج شاہی، کھلنا، میمن سنگھ سے چیدہ چیدہ طلبہ کو جمع کرکے اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) قائم کی۔اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کے ناظم کی حیثیت سے لاہور میں منعقدہ چوتھے سالانہ اجتماع ۲،۳،۴ نومبر ۱۹۵۱ء [دہلی مسلم ہوٹل، انارکلی، لاہور]میں شرکت کی ۔ پھر کچھ مدت میں باقاعدہ کوشش کرکے تنظیمی ذمہ داریاں مقامی بنگالی رفقا کے سپرد کیں۔ اپنے بعد سید محمد علی کو مشرقی پاکستان جمعیت کا ناظم مقرر کیا اور کچھ عرصہ بعد ڈھاکا جمعیت کا ناظم قربان علی صاحب کو بنایا ۔یہ خواجہ صاحب کی مردم شناسی کا ثمر تھا کہ اس زمانے میں سید محمد علی، عبدالجبار، شاہ عبدالحنان (بعد میں اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر )،اور فیاض الدین جیسے مثالی کارکن نظم جمعیت میں آئے اور مستقبل میں تحریک اسلامی کو ایک دانش ور اور عملی قیادت فراہم کرنے کا ذریعہ بنے۔ اسی طرح خواجہ صاحب جمعیت کی دعوتی اور تنظیمی کاوشوں کو وسعت دینے اور جملہ مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے صف اول میں کھڑے رہے ۔
۱۹۵۶ء میں، ڈھاکا یونی ورسٹی سے ایم اے اکنامکس کیا، اور اعلیٰ تعلیم کی غرض سے لندن اسکول آف اکنامکس سے گریجوایشن کی، اور لندن ہی سے چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کا امتحان پاس کیا۔ خواجہ محبوب صاحب نے برطانیہ میں جماعت اسلامی کے پہلے نمایندہ فرد کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا ۔ اسلامک کلچرل سنٹر، بیکرسٹریٹ میں درسِ قرآن کا حلقہ قائم کیا، اور مصر سے اخوان المسلمون کے وابستگان سے ربط و تعلق قائم کیا۔ یہ سلسلہ ’یوکے اسلامک مشن‘ سے بھی پہلے تحریک اسلامی کی کونپل ثابت ہوا۔ انھی کوششوں کے نتیجے میں آج لندن کی سب سے بڑی مسجد کا انتظام بنگالی رفقا بڑے مثالی طریق پر چلا رہے ہیں، جسے اِن نوجوانوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا تھا۔ یہیں آج کل ’ریسرچ اینڈ آرکائیوز سنٹر‘ ممتاز محقق، جناب جمیل شریف کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے ۔
اسی قیام کے دوران خواجہ صاحب نے ڈھاکا سے جمعیت کے ہونہار لیڈر قربان علی صاحب کو لندن بلاکر بیرسٹری کا امتحان دلانے میں فراخ دلانہ تعاون کیا۔ بیرسٹر قربان علی مرحوم بڑے جذبے سے اس واقعے پر شکر گزاری کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ خواجہ صاحب قیامِ لندن کے دوران ہفت روزہ ایشیا لاہور (مدیر: نصراللہ خاں عزیز) میں باقاعدگی سے ’مکتوب لندن‘ لکھتے رہے، جو معلومات اور راست تجزیے کا مرقع ہوتا تھا۔ لکھنے کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے لندن کے مختلف اخبارات کو بعض اوقات مراسلے اور مختصر مضامین اپنے قلمی نام Saigal (سیگل) سے بھیجے، جو اشاعت پذیر ہوئے۔ پروفیسر احمد شاہ بخاری کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا کہ انھوں نے کیمبرج میں قیام کے دوران لندن کے اخبار کو مضمون بھیجا، جو نہ چھپا، لیکن پھر وہی مضمون چند روز بعد ’پطرس‘ کے نام سے بھیجا تو شائع ہوگیا۔(یہ ہے یورپ کا نام نہاد ’غیرمتعصب‘ پریس!)
خواجہ صاحب تعلیم مکمل کرکے دوبارہ مشرقی پاکستان ہی منتقل ہو گئے اور امین جیوٹ ملز کے شعبۂ حسابات سے منسلک ہوئے اور باقی وقت تحریکی مصروفیات کے لیے وقف کیا۔۱۹۶۵ء میں خواجہ محبوب الٰہی نے ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے امیرخرم جاہ مراد اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے سیکرٹری جنرل پروفیسر خورشید احمد کو تجویز پیش کی کہ اگر مولانا عبدالرحیم صاحب، امیرجماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو تنظیمی ذمہ داریوں سے فراغت دلائی جائے اور وہ پورا وقت تفہیم القرآن کو بنگالی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے مختص کردیں، تو اس ضمن میں تمام مالی اخراجات کو وہ ذاتی طور پر ادا کریں گے،اور اس مد کے لیے پانچ سو روپے ماہانہ اعانت دیں گے (یاد رہے ، تب ایک سو بیس ، پچیس روپے تولہ سونا ہوا کرتا تھا)۔ پھر ۶۷- ۱۹۶۶ میں اس تجویز پر عمل شروع ہوا ،اور مولانا عبدالرحیم صاحب نے یہ کارنامہ بہت تیزی اور کمال درجے محنت سے مکمل کردیا۔
۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کی بغاوت کے دوران شرپسندوں نے امین جیوٹ مل لوٹ لی اور خواجہ صاحب بہت مشکل حالات میں واپس مغربی پاکستان آئے ۔یہاں فیملی کے صنعتی اور کاروباری اداروں میں بطور معاشی مشیر ذمہ داریاں ادا کرنے لگے۔ پھر ’نیلم گلاس‘ اور ’لائنر پاک جیلاٹین‘ (کالا شاہ کاکو) پراجیکٹ کو کامیابی سے چلایا ۔
آزاد جموں و کشمیر میں ۱۹۷۲ء کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام عمل میں آیا، جب کہ ۱۳جولائی ۱۹۷۴ء کو جماعت اسلامی نے مولانا عبدالباری کی قیادت میں یہاں کام کا آغاز کیا۔ قبل ازیں جماعت کے افراد زیادہ تر مسلم کانفرنس ہی کی تائید و حمایت کرتے تھے۔ یوں اس پارٹی سے وابستہ افراد کے بیٹے جمعیت کی طرف رجوع کرنے لگے۔ تاہم ۱۹۷۶ء میں ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں مسلم کانفرنس بے جا پریشانی کا شکار ہوگئی۔ اس کے قائدین اپنے بیٹوں پر ناروا دبائو ڈالتے ہوئے، بھرے جلسوں میں انھیں کھڑا کرکے ’’جمعیت میں شمولیت سے توبہ کرانے‘‘ لگے۔ یہ حالات دیکھ کر خواجہ محبوب الٰہی صاحب نے آزاد کشمیر جمعیت کے ناظم رائومحمداختر کو بلاکر کہا: ’’یہ تو بڑی ناپسندیدہ صورتِ حال ہے‘‘۔ رائو صاحب نے بتایا: ہمارا تو مسلم کانفرنس سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، لیکن اس طرح دعوت کا کام اور کشمیرکاز ضرور متاثر ہوگا‘‘۔ خواجہ صاحب نے کہا: ’’ٹھیک ہے کوشش کرتا ہوں کہ معاملات سلجھ جائیں‘‘۔ اس ملاقات کے صرف دوروز بعد خواجہ صاحب نے کشمیر جمعیت کے ناظم کو پیغام بھیجا کہ ’’میں نے سردار عبدالقیوم خاں صاحب اور سردار سکندر حیات صاحب کو گھر کھانے پر دعوت دی ہے، آپ بھی آجائیں‘‘۔ آزاد کشمیر جمعیت کے ناظم اور جمعیت کے ناظم اعلیٰ اس دعوت میں شریک ہوئے۔ اس طرح بڑے خوش گوار ماحول میں خواجہ صاحب نے بے جا گریز اور تلخی کو ختم کرادیا، یوں دس بارہ برس تک فضا اطمینان بخش رہی۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد جن پانچ چھے نوجوانوں کو مولانا مودودی نے شفقت سے نوازا، خواجہ صاحب ان خوش نصیبوں میں شامل تھے ، جب کہ دیگر نوجوانوں میں اسرار احمد،ظفر اسحاق انصاری ،خرم مراد، خورشید احمد اورحسین خان نمایاں تھے۔ انھوں نے اپنی والدہ اور مولانا مودودی کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ، اور حج کے دوران ان کی خدمت گزاری کی ۔
خواجہ صاحب، جماعت کے رسائل و جرائد کی مالی اعانت بڑے تسلسل سے کرتے۔ تحریک کی مختلف ذیلی تنظیموں کی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے، مشورے دیتے، نئے منصوبوں کی افادیت پر گفتگو کرتے، حوصلہ بڑھاتے اور دل کھول کر مالی امداد کرتے تھے۔ جہاد افغانستان کے دوران صحت اور تعلیم کے منصوبوں میں خوب معاونت کی۔ درجنوں ذہین نوجوانوں کو میڈیکل، انجینئرنگ اور سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلسل وظائف دیے۔ جہادکشمیر کے لیے مالی وسائل مختص کیے۔ حزب المجاہدین جموں و کشمیر کے سربراہ سیّد صلاح الدین نے بجا طور پرکہا: ’’خواجہ صاحب ایک خدا ترس اور جودوسخا کا پیکر تھے۔ خصوصاً بھارتی مظالم کے مارے ورثا، مہاجرین اور محبوسین کشمیر کے حوالے سے انتہائی متفکر رہتے تھے اور مالی اعانت کرنے میں پیش پیش ہوتے تھے‘‘۔ خواجہ صاحب کی اہلیہ سلمیٰ یاسمین نجمی صاحبہ نے پہلے خواتین کے ماہ نامہ بتول اور پھر عفت کو بڑی باقاعدگی اور بلند معیارپر شائع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خواجہ صاحب کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ، آمین!