عمر دراز مانگ کے لائی تھی…

1936

بہادر شاہ ظفر مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ جو فقط نام کے بادشاہ تھے‘ شعری ذوق اچھا رکھتے تھے لہٰذا شاعری میں نام پیدا کر گئے انگریزوں کی حکومت تھی، آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انگریز 1803 سے دہلی پر قابض ہو چکا تھا، انگریز ایک لاکھ اشرفی سالانہ بادشاہ کے اخراجات کے لیے دیا کرتا تھا، ہر تھوڑے دنوں کے بعد کبھی گانے کی محفل سجائی جاتی تھی جس میں عموماً گانے والیاں ہوتی تھیں تو کبھی مشاعرے کا انعقاد ہوا کرتا تھا ،ابراہیم ذوق ،مرزا غالب ،داغ ،مومن خان مومن کا دور تھا ساری ساری رات محفل ِ مشاعرہ آراستہ رہتی تھی صبح کو بادشاہ سلامت گھوڑے بیچ کر سوجاتے تھے اُدھر انگریز علیٰ الصّباح گھوڑوں کو چارہ پانی کھلا کر گھڑ سواری کرتا تھا اور ہر وقت اپنے آپ کو جنگ کے لیے مستعد رکھتا تھا۔

ظفر استاد ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے اپنے استاد کو انہوں نے کافی سہولیات فراہم کی ہوئی تھیں قلعہ ہی میں ان کی رہائش کا انتظام تھا ذوق کے انتقال کے بعد ظفر مرزا غالب سے اصلاح لیا کرتے تھے ظفر کی ایک غزل’’لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں ‘‘

کافی مقبول ہوئی ظفر کے کسی دیوان میں پبلشر نے اس میں ایک ایسا شعر ڈال دیا جوظفر کا نہیں تھا اور شعر کے مصرعہء اولیٰ میں ایک غلطی کے ساتھ شعر اس طرح شائع ہوا…

عمرِ دراز مانگ کے’ لائے‘ تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

اب آپ شعر کے مصرعہ ء اولیٰ پر ذرا غور فرمائیں کہ چار دن مانگ کے لانے والا کون ہے میرا مطلب ہے فاعل کون ہے اگر فاعل شاعرِ محترم بذاتِ خود ہیں تو وہ کس سے چار دن مانگ کر لائے ہیں اس بات کی وضاحت شعر میں کہیں نظر نہیں آتی اور اگر فاعل چار دن ہے تو بھی بات بنتی نظر نہیں آتی شعر میں لفظ’ لائے ‘ایک غلطی ہے دوسری بڑی غلطی یہ ہے کہ یہ شعر ظفر کا نہیں بلکہ سیماب اکبر آبادی کا ہے اور شعر ان کے دیوان’’کلیمِ عجم‘‘ مطبوعہ رفاہ ِ عام پریس آگرہ (سن اشاعت 1936)کے صفحہ نمبر372 پر موجود غزل میں دیکھا جا سکتا ہے درست شعر اس طرح ہے…

عمرِ دراز مانگ کے ’لائی‘ تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

شعر میں بات واضح ہوگئی کہ چار دن مانگ کر لانے والا کون ہے یعنی فاعل کون ہے دراصل فاعل عمر ِدراز ہے جو چار دن مانگ کے لائی ہے میں نہ تو شاعر ہوں اور نہ ہی مجھے شاعری کی الف بے آتی ہے وہ احباب جو شاعری کا ذوق رکھتے ہیں یا بذاتِ خود شاعر ہیں( خوش قسمتی سے )وہ یقیناً میری بات سمجھ گئے ہوں گے پھر بھی اگر میں کہیں غلطی پر ہوں تو معذرت خواہ ہوں اور منتظر ہوں کہ آپ حضرات میری اصلاح فرمائیں گے۔ سیماب کی اس غزل کا مطلع اور مقطع بھی تحریر کیے دیتا ہوں…

شاید جگہ نصیب ہو اس گُل کے ہار میں
میں پھول بن کے آؤں گا اب کی بہار میں
سیماب پھول اُگیں لحد ِعندلیب سے
اتنی تو تازگی ہو ہوائے بہار میں

اس طرح کی غلطیاں اکثر پبلشر حضرات سے ہوتی رہتی ہیں نظامی پریس بدایوں اشاعت کی دنیا میں ایک بڑا نام ہے مرزا غالب کا دیوان انہوں نے بھی شائع کیا چوتھا ایڈیشن جو انیس سو بائیس میں شائع کیا گیا اس میں مرزا کی غزل’’شوق ہر رنگ رقیب ِسروساماں نکلا‘‘ میں ایک ایسا شعر ڈال دیا جو مرزا کا نہیں بلکہ بزم اکبر آبادی کا تھا:

چند تصویرِ بتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا

پانچویں ایڈیشن میں یہ شعر نکال دیا گیا نظامی پریس کا تیسرا ایڈیشن جو انیس سو پندرہ میں شائع ہوا میرے پاس بھی اس کی ایک کاپی محفوظ ہے اس میں یہ شعر نہیں ہے ۔

مرزا غالب کی مشہور غزل کا ایک شعر…

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جَیب کو اب حاجت ِرفو کیا ہے

اکثر دیوانِ غالب میں اس شعر کے مصرعہء ثانی میں ہمارے جَیب کی جگہ ہماری جیب تحریر ہے جو سراسر غلط ہے لفظ جیب نہیں بلکہ جَیب ہے جیم مفتوح ہے یعنی جیم پر زبر ہے اس کا تلفّظ ویسے ہی ہے جیسے کَیف، یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں گریبان ،حوالے کے لیے کالی داس گپتا رضا کا شائع کردہ دیوانِ غالب جو بہت مستند ہے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لفظ قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے سورۃ نمل آیت نمبر 12 اور سورۃ القصص آیت 32 میں جہاں اللہ تعالی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہیں کہ ’’اپنا ہاتھ گریباں میں ڈالو چمکتا ہوا نکلے گا‘‘

میر تقی میر کا ایک شعر جو اپنی صحیح حالت میں اس طرح ہے:

چشم ِخوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
ہم نے جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور گیا

اکثر ہم نے رسالوں یا کسی تحریر میں مصرعۂ ثانی اس طرح پڑھا ہے جو غلط ہے’’ ہم تو سمجھے تھے کہ اے میر ؔیہ آزار گیا ‘‘اس طرح کی غلطیاں اکثر پبلشر حضرات کرتے رہتے ہیں اور قارئین کو مخمصے میں ڈال دیتے ہیں۔ غلطیاں تو ہوتی رہتی ہیں تو اگر کوئی شخص( ضروری نہیں کہ وہ بہت عالم و فاضل ہو) کسی غلطی کی نشاندہی کرے تو کم از کم صاحب ِ علم حضرات کو تصدیق کر کے اس کی بات ماننی چاہیے۔ سیماب اکبر آبادی کا شعر جو غلطی سے ظفر کی غزل میں ڈال دیا گیا، میں نے ایک اخبار کے مدیر کو بتانا چاہا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تو ہمیشہ سے ظفر کا ہی سمجھ کر اسی طرح پڑھتا چلا آیا ہوں پھر کہنے لگے کہ آپ ثبوت پیش کریں۔ میں نے انہیں سیماب کے دیوان ’’کلیمِ عجم‘‘ کے صفحہ نمبر 372 کی تصویر کھینچ کر واٹس ایپ کر دی مگر مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ بزرگوار نے اتنی بھی زحمت نہ کی کہ مجھے فون کر کے میری حوصلہ افزائی کر دیتے۔ اس بات کا مجھے افسوس ہے۔ اس وقت حمایت علی شاعر کا ایک شعرذہن میں آیا ہے ملاحظہ کیجیے…

یہ میرا دعویٰٔ خود بینی و جہاں بینی
مری جہالتِ سفّاک کے سوا کیا ہے

میرے معزز قارئین کرام! میں کچھ عرصے کے لیے سفر پر جا رہا ہوں وہاں کی مصروفیت شاید مجھے مضامین لکھنے کی مہلت نہ دے سکے اگر زندگی رہی تو پھر ا ن شاء اللہ اگست میں آپ حضرات سے ملاقات ہوگی میرے لیے دعائے خیر کرنا نہ بھولیے گا… اللہ حافظ۔

حصہ