حُسن خلق انسانی فطرت کا ایک ایسا عمل ہے جو انسانیت کی تکریم کی بنیاد ہے۔ اسلام کے عقائد سے لے کر عبادات تک، تہذیب سے لے کر رشتوں کے تقدس تک دوستی کے استحکام سے لے کر بڑے بوڑھے اور والدین کے احترام تک منسوب ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں اس عمل حُسن کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کو Moral values کے طور پر گردانا جاتا ہے۔ دین اسلام میں اس کی کتنی اہمیت ہے آپ اس آیت کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔
سورۃ القلم آیت 4 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’روزِ محشر نیکیوں کے پلڑے میں سب سے وزنی شے انسان کا حُسنِ خلق ہوگا ، آپؐ نے فرمایا ’’اللہ نے مجھے معلمِ اخلاق بنا کر بھیجا ہے۔ آپؐکا حسن خلق ہی تھا کہ وہ بوڑھی خاتون جو روزانہ آپ کے رستے میں کوڑا ڈالتی تھی‘ جب ایک دن وہ عورت بیمار ہوئی اور آپؐ کے راستے میں کوڑا ڈالنے نہیں آئی تو آپؐ اس عورت کی عیادت کے لیے گئے۔ آپؐ کے حُسنِ خلق کو دیکھ کر وہ عورت ایمان لے آئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ” قولو لناس حسنہ” لوگوں سے نرم لہجے میں خوش خلقی سے بات کیا کرو۔
بنوگے خسروئے اکلیم تم شیریں زباں ہو کر
جہانگیری کرے گی یہ ادا نورِ جہاں ہو کر
زباں شیریں تو ملک گیری:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔‘‘
آج بھیڑ کیوں ہے اس قدر مئے خانے میں
بات اتنی سی ہے کہ پیر مگاں ہے مردِ خلیق
ایک صحابیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابیہؓ کی عبادات اور ریاضت کا تذکرہ کیا ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ خاتون زبان کی بڑی تلخ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس کی نیکیوں اور عبادات کی حیثیت یہ ہے کہ کوئی دن بھر سوت کاتے اور شام کو الجھا دے۔‘‘
حسن خلق کے بغیر نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں: حسن خلق کے بغیر رشتوں کا تقدس و احترام ممکن نہیں۔ دلوں کو جیتنے ایسا فن ہے کہ اس سے لوگ گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ حلقۂ یاراں میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہوتا ہے جس کا اخلاق سب سے زیادہ بلند ہوتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ بیوی سب سے اچھی ہے جس کو دیکھ کر اس کا شوہر خوش ہو جائے۔‘‘
آج گھروں میں جو فساد برپا ہے اُس کی بنیادی وجہ زبان کی تلخی اور عدم برداشت ہے۔ اخلاق کا اظہار زبان کی شیرینی اور لہجے کی نرمی سے ہوتا ہے۔ اچھی بات بھی اگر تلخ لہجے میں کی جائے تو وہ مخاطب کو گراں گزرتی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم دو چیزوں کی ضمانت دو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے پوچھا ’’وہ دو چیزیں کیا ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہارے جبڑوں کے درمیان تمہاری زبان اور تمہارے ٹانگوں کے درمیان تمہاری شرم گاہ۔‘‘
اصل بادشاہ وہ ہے جو دلوں پہ راج کرے۔ زبان دراز بہو کا گزارہ نہیں ہوتا۔ حُسنِ خلق کا اہم کردار یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے قصور کو معاف کر دے۔ قرض دار کو مہلت دے اور وصولیابی میں نرمی برتے۔ دسترخوان پر کھانے میں اپنے سامنے والے کا خیال رکھے۔ سفر میں اپنے ساتھی کے آرام کا خیال رکھے۔
محفل میں بات کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرے۔ دوسروں کو بیٹھنے کے لیے جگہ دے۔ راہ چلتے ہوئے ادھر ادھر نہ دیکھے ، اپنی نگاہوں کو نیچی رکھے۔ راستے میں پڑے پتھر ‘ کانٹے دیگر ایذا رساں چیزں ہٹا دے۔ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ راستے میں نہ پھینکے نہ ہی پڑوسی کے گھر کے سامنے پھینکے۔اس بات کا خیال رکھے کہ اس کے کسی عمل سے پڑوسی کو تکلیف نہ ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
’’اُس آدمی کے لیے دنیا جنت ہے جس کو نیک اور صالح بیوی، اولاد اور اچھا پڑوسی مل جائے۔‘‘
حسن خلق صرف ذاتی اور انفرادی عمل نہیں ہے بلکہ آدمی جس دائرے میں موجود ہے اس میں اسے اخلاقی رویے کو برتنا ہے۔ والدین کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کرے۔ مل کا مالک ، سرکاری ادارے کا سربراہ، حکومت کا ہر ذمے دار، عدلیہ کے ججز‘ سب پر قانون اور آئین کے مطابق یکساں فیصلے اور سلوک کرنا فرض ہے۔ آج ہمارے ملک میں جو انتشار، بدنظمی، افراتفری اور نا انصافی ہے اس کی بنیادی وجہ اخلاقی ذمہ داریوں سے رو گردانی ہے۔
حسن خلق کی ضد بد خلقی ہے۔ یہ آدمی کی بد زبانی سے شروع ہو کر گالم گلوچ، دوسروں کے حقوق غصب کرنے اور اقربا پروری تک پھیل جاتی ہے۔ بازار سے عدالتوں تک‘ دفاتر سے تعلیم گاہوں تک اخلاقی زوال کا سلسلہ جاری ہے۔
آج سب سے تشویش ناک حالت پاکستان میں نسلِ نو کی بگڑتی ہوئی اخلاقی صورت حال ہے۔ ملک میں 65 فیصد تعداد نوجوانوں کی ہے‘ جو دنیا میں سب سے زیادہ ہونے کے باوجود ، صاحب ایمان بھی ہیں مگر آج کے پاکستانی نوجوانوں کی بڑی تعداد‘ جس میں لڑکے لڑکیاں‘ دونوں شامل ہیں‘ مختلف نشے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب تو سرکاری سطح پر یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ کالج اور یونیورسٹیوں میں نشہ آور اشیا فراہم کرنے والے مافیا اپنا منظم نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ ملک کے وہ طبقاتی نامور تعلیمی ادارے جن میں اشرافیہ اور حکمرانوں کے بچے پڑھتے ہیں‘ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ کالجوں اور اسکولوں میں کھلے عام سیکس کی تعلیم کے علاوہ کوکین جیسے نشے کو جسمانی و ذہنی تحرک پیدا کرنے والی فائدہ مند چیز بتائی جا رہی ہے۔ جب کہ قرآن وحدیث کے مطابق ہر نشے والی چیز حرام ہے۔
پاکستان سڑک حادثات کے باعث مرنے والے افراد میں نمبر ون ہے اور اس وجہ ہے بے ہنگم ٹریفک اور ڈرائیونگ شعور کا نہ ہونا۔ ہفتے کی رات کو پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں bikes race اکثر نوجوانوں کو موت کی نیند سلا دیتی ہے یا پھر انہیں اپاہج بنا دیتی ہے۔
گالی دینا ایسی بد خلقی ہے جو بڑے فساد وجہ ہے‘ مگر حیرت ہے کہ ہمارے نوجوان مذاق میں بھی ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں اور مزے لیتے ہیں۔ بازاروں میں دکان دار بغیر جھوٹ بولے اپنا سامان نہیں بیچتے اور خریدار بھی اس کے عادی ہیں۔
ان تمام اخلاقی زوال کے باوجود ہماری خواہش ہے کہ ہمیں پُر امن اور محفوظ زندگی ملے۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عرب کا بدو معاشرہ جب ایمان و اخلاق کی دولت سے مالامال ہوا تو وہ رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے معزز ہوگیا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
کہتے ہیں کہ ’’با ادب با نصیب۔ بے ادب بد نصیب۔‘‘