پہلا وہ گھر خدا کا! مختصر تاریخ

597

اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۹۶) بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکّہ میں واقع ہے۔ اس کو خیروبرکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔

خانہ کعبہ کا قدیم کتابوں میں تذکرہ

مشہور تاریخ دان ایڈورڈ ڈگبن نے اپنی کتاب The Decline And Fall of The Roman Empire(انحطاط و زوال رومۃ الکبریٰ) میں خانہ کعبہ کا ذکر عیسائیت کی ابتدا سے پہلے کیا ہے جس کی وجہ وہ یہ بتاتا ہے کہ یونانی تاریخ دان ڈیوڈ ورس نے خانہ کعبہ کا ذکر ثمود اور سبا کے واقعات کے ساتھ کیا ہے، لہٰذا اس کا وجود عیسائیت سے پہلے تھا۔ A.J Wensick نے لکھا ہے کہ دوسری صدی عیسوی میں کلائوٹس پٹولمی نے جو شہر مکروبہ کا ذکر کیا ہے وہ دراصل مکہ ہی ہے۔ یہ پٹولمی بھی یونانی تاریخ دان تھا اور اس کا انتقال ۱۶۸ء میں مصر کے شہر اسکندریہ میں ہوا (انسائی کلوپیڈیا آف اسلام)۔ G.E. Grunebaum نے بھی لکھا ہے کیونکہ مکراب کا لفظ عربی زبان میں معبد (temple) کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے کلاؤٹس پٹولمی نے مکروبہ کا جو لفظ مکہ کے لیے ہی استعمال کیا ہے، (Classical Islam)۔ Edward Glaser جو جرمن تاریخ دان تھا، نے بھی کہا ہے کہ کعبہ کا لفظ مکراب سے نکلا ہے کیونکہ جنوبی عرب میں مکراب معبد کو کہتے ہیں۔ تورات میں اسے بیت ایل کہا گیا ہے، یعنی بیت اللہ۔

تعمیرکعبہ کے مراحل
تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کعبہ کی تعمیر بارہ مرتبہ ہوئی جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: ۱- فرشتوں کی تعمیر ۲- حضرت آدم ؑ کی تعمیر ۳- حضرت شیث ؑکی تعمیر ۴- حضرت ابراہیم ؑ کی تعمیر ۵-عمالقہ کی تعمیر ۶- جرہم کی تعمیر ۷- قصی بن کلاب کی تعمیر ۸- قریش کی تعمیر ۹- حضرت عبداللہ بن زبیر کی تعمیر۔ ۱۰- حجاج بن یوسف کی تعمیر ۱۱- سلطان مراد رابع ابن سلطان احمد کی تعمیر ۱۲- خادمِ حرمین شریفین فہد بن عبدالعزیز کی تعمیر۔ فرشتوں کی تعمیر: روایات میں آتا ہے کہ کعبہ دنیا کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل جنت میں تعمیر کیا گیا اور یہ اب بھی موجود ہے جسے بیت المعمور کہا جاتا ہے۔ حضرت آدم ؑ نے کعبہ کی تعمیر بیت المعمور کے عین نیچے فرمائی۔

حضرت آدم ؑ کی تعمیر: امام نووی نے سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ خانہ کعبہ پہلا گھر ہے جسے حضرت آدم ؑ نے زمین میں تعمیر کیا)۔ اسی طرح امام بیہقی نے دلائل النبوہ میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مرفوعاً یہ روایت ذکر کی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کے پاس جبرئیل امین ؑ کو بھیج کر کعبۃ اللہ کی تعمیر اور پھر اس کے طواف کا حکم دیا۔ حضرت آدم ؑ نے اس حکم کی تعمیل کرلی تو ان سے کہا گیا کہ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ(آپ پہلے آدمی ہیں اور یہ بیت اللہ پہلا گھر ہے جو لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے)۔ حضرت آدم ؑ کا تعمیر کردہ بیت اللہ طوفانِ نوح تک اس زمین پر اسی جگہ موجود رہا۔ روایات سے پتا چلتا ہے کہ طوفانِ نوحؑ کے زمانے میں اسے اُوپر (آسمان پر) اُٹھا لیا گیا اور وہاں فرشتوں کے ذریعے وہ آباد ہوگیا۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے تک یہ جگہ خالی رہی اور اس مقام پر کوئی تعمیر نہیں ہوئی۔ البتہ یہ جگہ زمین سے اُونچی تھی اور ایک ٹیلے کی شکل میں تھی، اس لیے بارش اور سیلاب کا پانی اس تک نہ پہنچتا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ کی تعمیر: بخاری میں ایک طویل حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابراہیم ؑاپنے بیوی بچے کی خبر لینے کے لیے شام سے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ سے کہا کہ ’’مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ اس بلند جگہ پر ایک گھر تعمیر کروں‘‘۔ اس طرح باپ بیٹے نے مل کر اللہ کا محترم گھر خانہ کعبہ تعمیر کیا۔ روایت ہے کہ طوفانِ نوحؑ کے موقع پر حجراسود بھی آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس وقت اللہ نے جبل ابی قبیس کے پاس اس پتھر کو امانت رکھ دیا کہ جب میرا خلیل یہاں گھر تعمیر کرے گا تو اسے دے دینا (اخبار مکہ، ہدایہ السالک)۔ قرآن مجید میں خانہ کعبہ کی حضرت ابراہیم ؑاور ان کے فرزند حضرت اسماعیل ؑکے ہاتھوں تعمیر کا ذکر چار مقامات پر آیا ہے۔ سورئہ بقرہ، سورئہ ابراہیم اور سورئہ حج میں تفصیلات اور سورہ آل عمران میں ضمناً۔ اسی طرح بلدِ امین بلدِ حرام کا تذکرہ بھی کئی مقامات پر آیا ہے۔ عمالقہ اور جرھم کی تعمیر: حضرت علیؓ کا قول جو امام نووی کی بیہقی اور ہدایہ السالک میں درج ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے تعمیر کردہ کعبۃ اللہ کی عمارت پر ایک زمانہ گزرا اور وہ منہدم ہوگئی تو پہلے عمالقہ پھر جرہم کے خاندان اور اس کے بعد قریش نے اس کی تعمیر کی۔ تاہم قریش کے علاوہ باقی تعمیرات کی تفصیل نہیں ملتی۔

قریش کی تعمیر: زمانۂ جاہلیت میں بیت اللہ کی عمارت کمزور ہوگئی، چنانچہ قریش نے باہم مشاورت کے بعد یہ طے کیا کہ اس عمارت کو منہدم کرکے نئے سرے سے پختہ عمارت تعمیر کیا جائے۔ حُسنِ اتفاق سے ایک یونانی تاجر کی کشتی شعیبہ کے مقام پر تباہ ہوگئی تو اس کی لکڑی خانہ کعبہ کی تعمیر میں استعمال کی گئی۔ اس کاری گر کا نام جس نے یہ لکڑی کا کام کیا، بیقم بتایا جاتا ہے۔ جب کعبہ کی عمارت منہدم کرنے کا وقت آیا تو کوئی بھی کدال چلانے کو تیار نہیں تھا۔ آخر ولید بن مغیرہ نے کدال لگائی اور کہا کہ ’’اے اللہ! ہم صرف خیروبھلائی کا ارادہ رکھتے ہیں‘‘۔ لوگ اس رات انتظار کرتے رہے کہ اگر ولید کو کوئی گزند پہنچی تو ہم اس کام سے باز آجائیں گے لیکن جب دیکھا کہ ولید کو کوئی گزند نہیں پہنچی تو پھر سب اس کام میں شامل ہوگئے۔ چادر میں حجر اسود رکھ کر ہر قبیلے کے سردار کو چادر کا ایک کونہ پکڑا دینا اور پھر رسولؐ اللہ کا اپنے دست مبارک سے حجراسود کو اپنی جگہ پر رکھ دینے کا واقعہ اسی تعمیر کے موقع کا ہے۔

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی تعمیر: قریش کی یہ تعمیر عہدرسالتؐ میں اور اس کے بعد بھی ۶۰ھ کے کچھ بعد تک برقرار رہی۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اپنی خالہ اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے رسولؐ اللہ کے یہ ارشادات سنا کرتے تھے جو کہ رسولؐ اللہ کی خانہ کعبہ کے متعلق تین خواہشیںتھیں: ایک یہ کہ شمالی دیوار منہدم کرکے ابراہیمی بنیادوں پر اس کی تعمیر کی جائے۔ اس طرح جو حصہ خانہ کعبہ کا قریش نے چھوڑ دیا تھا اسے خانہ کعبہ میں شامل کرلیا جائے۔ دوسرے یہ کہ پہلے کی طرح دروازہ (بابِ کعبہ) کو زمین سے متصل کردیا جائے تاکہ لوگ آسانی سے اندر داخل ہوسکیں۔ تیسرے یہ کہ مغربی سمت میں بھی ایک دروازہ نکالا جائے۔ چنانچہ جب آپ خلیفہ ہوئے اور مکہ مکرمہ میں انھیں اختیارات سلطنت اور قوت حاصل ہوئی تو رسولؐ اللہ کی ان خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کیا۔ اس کام کو شروع کرنے سے پہلے آپ نے تین دن تک استخارہ کیا۔ استخارے کے بعد جب انھیں اپنی راے پر شرح صدر ہوگیا تو انھوں نے اس کام کو کر گزرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ روایات میں آتا ہے کہ اہلِ مکہ تین دن منیٰ میں جاکر مقیم رہے، اس ڈر سے کہ کہیں کعبہ کو منہدم کرنے کے سبب اللہ کا عذاب نہ نازل ہوجائے۔ ایک روایت ہے کہ ایک شخص نے کام کی ابتدا کی لیکن ایک دوسری روایت میں ہے کہ خود حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کدال لے کر یہ کام شروع کیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ جب اللہ کی طرف سے کوئی آفت و مصیبت نازل نہیں ہوئی تو سب اس کام میں شریک ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ جب تعمیرکعبہ سے فارغ ہوئے تو اسے اندر سے، باہر سے، اُوپر سے، نیچے تک مشک و عنبر سے معطر کیا۔ عمدہ ریشم کا غلاف چڑھایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ شکرانہ کے طور پر تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کریں۔ اُونٹ یا بکری کی قربانی کریں۔ اس دن لوگوں نے خوب غلام آزاد کیے اور بہت زیادہ جانوروں کی قربانیاں عمل میں آئیں۔ (بخاری)

حجاج بن یوسف کی تعمیر:حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی یہ تبدیلی اور ترمیم زیادہ دنوں تک نہ رہ سکی۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی شہادت اور مکہ مکرمہ پر حجاج بن یوسف کے قبضے کے بعد اس نے اس کی خبر عبدالملک بن مروان کو بھیجی۔ اس نے عبداللہ بن زبیرؓ کو بُرا بھلا کہا اور حجاج کو لکھ بھیجا کہ ابن زبیرؓ نے بلندی میں جو اضافہ کیا ہے اسے تو برقرار رکھا جائے لیکن حطیم کی طرف کے اضافے کو ختم کردیا جائے، اور مغربی سمت کے دروازے کو بھی بند کر دیا جائے، اور سابقہ حالت کی طرف اس عمارت کو لوٹا دیا جائے۔ روایت ہے کہ عبدالملک بن مروان ابتدا میں عمارت کعبہ کی تجدید پر ابن زبیرؓ کو بُرا بھلا کہتا تھا لیکن جب اس کے نزدیک ایک قابلِ اعتماد شخص نے اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے خود اس حدیث کے سننے کا اقرار کیا، تو اس نے اپنے کیے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ جب ولید بن عبدالملک کی خلافت کا دور آیا تو اس نے مکہ مکرمہ کے گورنر خالد قسری کو ۳۶ہزار دینار بھیجے۔ اس نے کعبہ کے دروازے، میزاب (پرنالے) اور اندرونی ستونوں وغیرہ پر سونے کے پترے چڑھا دیے۔ اسلامی تاریخ میں ولید بن عبدالملک وہ پہلے خلیفہ ہیں جنھوں نے بیت اللہ میں سونے کا کام کرایا۔ اس کے بعد خلیفہ ہارون رشید نے اپنے دورِ خلافت میں یہ ارادہ کیا کہ خانہ کعبہ کو دوبارہ رسولؐ اللہ کی خواہش کے مطابق تعمیر کر دے لیکن امام مالکؒ نے اسے ایسا کرنے سے منع فرمایا اور کہا کہ اللہ کے اس مقدس گھر کو بادشاہوں کے ہاتھوں کھلونا نہ بنایئے کہ ہر بادشاہ اسے توڑتا جائے اور بناتا جائے۔ چنانچہ ہارون رشید اپنے ارادے سے باز رہا۔

سلطان مراد کی تعمیر: مصر کے بادشاہ مرقوق کے دور میں ۸۰۶ھ میں مسجد میں آگ لگ گئی۔ سلطان مرقوق نے عمارت دوبارہ تعمیر کر کے اس پر پہلے کی طرح ساگوان کی لکڑی کی چھت ڈال دی۔ پھر کئی بار اس کی مرمت بھی ہوتی رہی لیکن آہستہ آہستہ خستہ ہوگئی۔ سلطان سلیم نے نئی عمارت بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ چھت لکڑی کی نہ ڈالی جائے بلکہ وہ گنبدوں کی شکل میں تعمیر کی جائے۔ یہ کام ۹۷۹ھ میں شروع ہوا اور پھر سلطان مراد کے ہاتھوں ۹۸۴ھ میں مکمل ہوا۔

خادم حرمین شریفین فہد بن عبدالعزیز کی تعمیر:خانہ کعبہ کے متولی طہ الشیبی نے اپنے بیٹے عبدالملک الشیبی کے ساتھ مدینہ منورہ میں خادم حرمین فہد بن عبدالعزیز سے ملاقات کی اور بتایا کہ کعبہ کی عمارت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ اس کی مرمت کی ضرورت ہے۔ ابتدا میں یہ خیال تھا کہ محض مرمت کر دی جائے لیکن جب محسوس کیا گیا کہ لکڑی بالکل خراب ہوگئی تو مکمل عمارت کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا۔ بن لادن کمپنی نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے برما کے جنگلات سے بہترین لکڑی burma teak جس میں کسی قسم کی گٹھان نہیں تھی، حاصل کی۔ اس لکڑی کی خاصیت یہ ہے کہ اس کو دیمک نہیں لگتی۔ اس کے علاوہ ایسے رنگ کا انتخاب کیا گیا جس میں کسی قسم کی بُو شامل نہیں تھی کیونکہ خانہ کعبہ عموماً سال میں دو دفعہ کھلتا ہے۔ غالب بن لادن کمپنی کی طرف سے خانہ کعبہ کی تعمیر کے کام کے نگران مقرر ہوئے جنھوں نے بہت احتیاط سے کام کا آغاز کیا اور جہاں بھی مشکل پیش آئی استخارے سے مدد لی۔ شرک یا بدعات سے بچنے کے لیے عملے کے کسی بھی رکن کو عمارت کا کوئی پتھر یا مٹی لے جانے کی اجازت نہ دی۔ اس سے قبل خانہ کعبہ کے مطاف کی تعمیرومرمت کا کام بھی بن لادن کمپنی کو دیا گیا تھا جنھوں نے یونان کے مشہور تھوسس آئیرلینڈ سے سفید کرسٹالینو منگوا کر مطاف میں لگایا جوکہ ہر قسم کی گرمی میں ٹھنڈا رہتا ہے۔ خانہ کعبہ کا دروازہ ۳۰۰کلوگرام سونے سے ۱۹۷۹ء میں احمد بن ابراہیم نے شاہ خالد بن عبدالعزیز کی خواہش پر لگایا تھا۔ اس لیے اسے جوں کا توں رکھا گیا۔ خانہ کعبہ کے اندر بھی ایک دروازہ ہے جسے بابِ توبہ کہتے ہیں۔ اس دروازے سے چھت پر جایا جاتا ہے۔ چھت پر جانے والی سیڑھی ترکی سے بنوائی گئی ہے جس کے قدمچے کرسٹل کے بنے ہوئے ہیں، البتہ باقی فریم عمدہ سٹیل سے بنایا گیا ہے۔ فرش پر سفید ماربل استعمال کیا گیا ہے اور فرش کے درمیان ہرے ماربل سے نقش بنائے گئے ہیں۔ دیوار کے نچلے حصے میں ہرا ماربل استعمال کیا گیا ہے، جب کہ اُوپر کے حصے میں ہلکے سفید رنگ کا ماربل استعمال کیا گیا ہے۔ آدھی دیوار ماربل کی ہے اور اُوپر والے حصے میں ہرا کڑھا ہوا کپڑا لگایا گیا ہے جو کہ خادم حرمین شریفین خالد بن عبد العزیز کا عطا کردہ ہے۔ ماضی کی طرح دو چھتیں رکھی گئی ہیں۔ پہلی چھت لکڑی کی ہے اور دوسری چھت بھی لکڑی کی ہے لیکن وہ واٹر پروف ہے اور اس پر ماربل لگا دیا گیا ہے۔خانہ کعبہ کی لمبائی ۱۸ فٹ، چوڑائی ۱۴ فٹ اور اُونچائی ۳۵ فٹ ہے۔ دروازہ عام سطح سے ۶،۷ فٹ بلند ہے۔ کعبہ کی چھت پر پرنالہ نصب ہے جسے میزاب رحمت کہتے ہیں۔ کعبہ کے اندر تین ستون ہیں۔ خانہ کعبہ کی چھت کے ساتھ ایک رسی کے ذریعے تحفے میں آئے ہوئے قدیم برتن جن میں سے کچھ پانچ سو سے چھے سو سال پرانے ہیں، لٹکا دیے گئے ہیں اور دروازے کے سامنے درازوں والی ایک الماری رکھی ہوئی ہے۔ باب توبہ پر آیاتِ توبہ لکھی ہوئی ہیں۔ دیواروں پر بہت خوب صورت کتبے لگے ہوئے ہیں۔ خانہ کعبہ کی اس تعمیر کا کام پانچ ماہ کے عرصے میں ختم ہوا اور ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ ان پانچ ماہ میں طواف نہیں رُکا۔ کام کرنے والوں میں دو پاکستانی انجینیرز خالد وحید اور جاوید گل کا کام نمایاں رہا۔ خانہ کعبہ سال میں صفائی کے لیے دو دفعہ کھلتا ہے۔ پہلی دفعہ ۱۵محرم کو اور دوسری دفعہ پہلی شوال کو۔ غلافِ کعبہ عرفات والے دن بدلا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ اور مقامِ ابراہیم کی چابی شروع سے لے کر آج تک الشیبی خاندان کے پاس ہے، کیوں کہ فتحِ مکہ کے وقت حضور پاکؐ نے خود یہ چابی ان کو دی تھی اور فرمایا تھا: ’’جو ان سے یہ چابی چھینے گا اس سے بڑا ظالم کوئی نہ ہوگا‘‘۔

کعبہ میں بت پرستی
مکہ میں بت پرستی کی ابتدا عمرو بن لحی نے کی۔ یہ بنوخزاعہ کا سردار تھا اور اس کا زمانہ رسولؐ اللہ کی بعثت سے ۴۰۰ سال پہلے کا بتایا جاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ عمرو بن لحی کے تابع ایک جن تھا جس کے ذریعے اس نے یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کو جدہ کے قریب دریافت کیا۔ سورئہ نوح (۷۱:۲۲) میں بھی ان بتوں کا ذکر ہے۔ لات بھی ایک بت تھا جس کے معنی ستو گھولنے والے کے ہیں۔ یہ ایک شخص تھا جو حاجیوں کو ستو پلایا کرتا تھا۔ بعد میں عمرو بن لحی نے بت بنا کر اس کی پوجا شروع کر دی۔ اس کے علاوہ بھی وہ شام سے بت لے کر آیا تھا۔ ہبل قریش کا سب سے بڑا دیوتا تھا۔ یہ بت قریش کو انسانی مورت میں ملا تھا جو سرخ عقیق سے تراشا گیا تھا۔ اس کا دایاں ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا۔ قریش نے وہ سونے کا بنوا کر لگا دیا۔ ہبل خاص خانہ کعبہ میں نصب تھا۔ فال کے پانسے اسی کے آگے ڈالے جاتے تھے۔ قریش جنگوں میں اعل ہبل (ہبل کی جے) کا نعرہ لگاتے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت علیؓ نے ہبل اور منات کو اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے العزیٰ کو توڑا تھا۔

کعبہ کی پاسبانی
مؤرخین کہتے ہیں کہ جب بنوجرہم نے کعبہ کی توہین کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں منتشر کر دیا۔ پھر بنوخزاعہ اس کے پاسبان بنے۔ ان کے بعد قصی بن کلاب اس کا پاسبان بنا۔ کعبہ کی پاسبانی کے ساتھ ساتھ اس نے مکہ کی حکومت بھی سنبھال لی۔ پھر اس نے اپنے بیٹے عبدالدار کو کعبہ کی پاسبانی، دارالندوہ اور جھنڈا سپرد کیا۔ عبدالدار نے اپنے بیٹے عثمان کو کعبہ کی پاسبانی سونپ دی۔ یوں نسل در نسل یہ عہدہ اسی کی اولاد میں منتقل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ عثمان بن طلحہ پاسبان بنے۔ فتح مکہ کے وقت آپؐ نے عثمان بن طلحہؓ سے چابی طلب کی۔ وہ چابی دیتے ہوئے جھجک رہے تھے کیونکہ حضرت عباسؓ بھی اس چابی کو طلب کر رہے تھے۔ اس پر نبی کریمؐ نے عثمانؓ سے فرمایا: ’’اگر تو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو چابی مجھے دے دے‘‘۔ وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسولؐ! یہ حاضر ہے لیکن یہ اللہ کی امانت ہے۔ آپؐ نے چابی پکڑ لی، بیت اللہ کا دروازہ کھولا تو حضرت جبرئیل ؑیہ وحی لے کر اُترے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا(النساء ۴:۵۸) ’’اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کے سپرد کرو‘‘۔ آپؐ نے اس آیت کی رو سے حضرت عثمانؓکو چابی دے دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ قیامت تک اب یہ چابی تمھارے پاس رہے گی۔ اگر کوئی اسے لے گا تو ظلم کرے گا۔ حضرت عثمانؓ نے اپنی وفات کے وقت اپنے چچا کے بیٹے شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہؓ کو دے دی۔ اس وقت سے پاسبانی کا منصب شیبہ کی اولاد میں جاری ہے۔ آج کل چابی عبدالقادر بن طہ الشیبی کے پاس ہے۔ خانہ کعبہ ہمیشہ یہی لوگ کھولتے ہیں۔ غزوئہ بدر کے سلسلے میں ذکر آتا ہے کہ جب رسولؐ اللہ نے سنا کہ قریش کا جھنڈا عبدالدار خاندان کے ایک مشرک کے ہاتھ میں ہے، تو فرمایا کہ حق رسانی اسلام کا فریضہ ہے اور یہ کہہ کر اپنا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر العبدیؓ (جو اسی خاندان کے ایک مسلمان تھے) کے سپرد فرمایا۔

غلافِ کعبہ
سب سے پہلے جس نے کعبہ کو مکمل غلاف چڑھایا وہ تبع اسعد الحمیری تھے۔ آپ کا زمانہ رسولؐ اللہ کی بعثت سے ۷۰۰ سال پہلے بتایا جاتا ہے۔ ان کو خواب میں نظر آیا کہ وہ کعبہ کو غلاف چڑھا رہے ہیں، لہٰذا انھوں نے چمڑے کا غلاف چڑھایا۔ پھر انھیں خواب میں دکھائی دیا کہ اور غلاف چڑھائیں تو انھوں نے یمن کے بنے ہوئے سرخ دھاری دار کپڑے کا غلاف چڑھایا۔ امام محمد بن اسحاق کی اس روایت کی تصدیق ایڈورڈ گبن نے بھی اپنی تاریخ میں کی ہے۔ تبع کے بعد دورِجاہلیت میں بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے وقت میں غلاف چڑھائے۔ کعبہ کو مختلف قسم کے کپڑوں کے غلاف چڑھائے جاتے رہے، مثلاً چمڑے کا غلاف، سرخ دھاری دار کپڑے کا غلاف۔ یمن کے کامدار کپڑے کا غلاف یہاں تک کہ ابوربیعہ بن مغیرہ مخزومی نے شہر جند سے دھاری دار کپڑے کا غلاف تیار کروایا اور خانہ کعبہ پر چڑھایا۔ بعدازاں دو غلاف چڑھائے جانے لگے۔ ایک ریشمی اور دوسرا قباطی۔ ناصر عباسی نے سب سے پہلے سیاہ رنگ کا غلاف خانہ کعبہ پر چڑھایا۔ اس وقت سے آج تک سیاہ رنگ کا غلاف ہی چڑھایا جا رہا ہے۔۷۵۱ء میں مصر کے بادشاہ اسماعیل بن ناصر بن قلوون نے کعبہ کے غلاف کے لیے ایک مخصوص وقف قائم کر دیا لیکن خدیوی محمد علی نے تیرھویں صدی میں یہ وقف ختم کردیا اور غلاف سرکاری وقف پر تیار ہونے لگا۔ ۸۱۰ھ میں کعبہ کے دروازے کے لیے ایک الگ منقش پردہ تیار کیا گیا جسے غلافِ کعبہ کا برقع کہا جاتا تھا اور اب تک یہ پردہ بھی غلاف کے ساتھ ہی تیار کیا جاتا ہے۔ شاہ سعود بن عبدالعزیزؒ نے غلافِ کعبہ تیار کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں ایک الگ کارخانہ لگانے کا حکم دیا۔ ۱۳۸۲ھ میں شاہ فیصل شہیدؒ نے اس کارخانے کی تعمیرِنو کا حکم دیا تاکہ غلاف انتہائی مضبوط اور عمدہ تیار ہو، نیز وہ کعبہ مشرفہ کے تقدس کے شایانِ شان ہو۔ ۱۳۹۷ھ میں مکہ مکرمہ کے مقام اُم الجود میں اس کارخانے کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا۔ اس میں غلاف کی تیاری کے لیے مشینی آلات کے ساتھ ساتھ دستی کشیدہ کاری کا انداز بھی قائم رکھا گیا کیونکہ فنی لحاظ سے دستی کشیدہ کاری کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے!

حصہ