چشم حیران نے عجب منظر دیکھا

1405

عیدالفطر گزرنے کے ایک ماہ بعد سے ہی ہمارے فلیٹوں کے سامنے والا چھوٹا سا میدان آہستہ آہستہ مویشی منڈی میں تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ان دنوں گائیں، بچھڑے ہمیں راتوں میں بھاں بھاں کرکے لوریاں سناتے، تو مرغوں کی جگہ ’’میں… میں‘‘ کرتے بکرے اور بکریاں بانگیں دیا کرتے ہیں۔ دن میں بھی عجب ہڑبونگ سی مچی رہتی ہے۔ سارا دن سوسائٹی کے بچے شور مچا مچا کر جانور گھماتے پھرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو جانور بھی ان سے اتنے تنگ آجاتے کہ رسّا تڑوا کر بھاگ نکلنے کو بے تاب ہوجاتے ہیں۔

قصہ مختصر عیدِ قرباں کے تیسرے دن تک کچھ نہ کچھ لگا ہی رہتا ہے۔ مگر اب کی بار تو حد ہی ہوگئی۔ عید میں بس دو روز ہی باقی تھے۔ اس دن میاں صاحب کو کام سے آنے میں خاصی دیر ہوگئی۔ پتا چلا کہ سوسائٹی میں کوئی جھگڑا ہوا ہے اور میاں صاحب وہاں موجود ہیں۔ دل کو خاصی تشویش ہوئی۔ پر جب وہ گھر آئے تو چہرہ نارمل تھا۔ پُرسکون ماحول میں کھانا کھایا۔ بعد میں خود ہی دیر سے آنے کی وجہ بتانے لگے:

’’شیخ صاحب کے بکرے نے بھٹی صاحب کے بکرے کو سینگ مار کر زخمی کردیا، اس بات پر دونوں جھگڑ پڑے، بات اتنی بڑھی کہ بھٹی صاحب نے شیخ صاحب پر ہاتھ اٹھا لیا… قریب کھڑے شیخ صاحب کے نوجوان بیٹوں نے بھٹی صاحب کو اپنی طرف کھینچا اور عمر کا لحاظ کیے بنا خوب ہاتھ جڑ دیے۔ میں اُسی وقت وہاں پہنچا تھا۔ بیچ بچاؤ اور مصالحت کروانے میں خاصی دیر ہوگئی۔ پھر ان نوجوانوں سے معافی منگوانا بھی ایک کڑا مرحلہ تھا۔‘‘

ان کی بات سن کر میں مسکرائی ’’تو اس کا مطلب ہے جناب جنت میں اپنا ایک گھر بنا آئے ہیں۔‘‘

یہ سن کر وہ ہنس کر بولے ’’چھوڑو بیگم! نہ کرو یہ باتیں، اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس کا مقام کہاں ہے۔‘‘

یہ سنتے ہی ذہن کو جھٹکا لگا، کیوں کہ بالکل یہی الفاظ میں پہلے بھی کہیں ان کے منہ سے سن چکی تھی، مگر کہاں… یہ یاد نہ آسکا۔ اگلے روز باورچی خانے میں کام کرتے ہوئے وہ بات اچانک یاد آگئی، ساتھ ہی مجھے اپنی زندگی کے وہ حسین اور انمول دن بھی یاد آئے جو خدائے بزرگ و برتر نے بے تحاشا دعاؤں کے بعد ہمیں عطا فرمائے تھے۔

یہ 2018ء کی بات تھی جب ہماری برسوں سے مانگی جانے والی دعا قبول ہوئی اور حکومتی اسکیم کے تحت حج کے لیے ہمارا نام نکل آیا۔ ہم دونوں میاں بیوی ارضِ مقدس کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ گو کہ ہمارا قیام وہاں بیالیس دن کا تھا، لیکن اگر میں ان بیالیس دنوں کا احوال لکھوں تو شاید ہزار صفحات بھی کم پڑ جائیں۔ ان دنوں میں سب سے قیمتی اور اہم دن یوم عرفہ کا تھا۔

عرفہ کے دن ہر حاجی کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد میدانِ عرفات میں پہنچ جائے۔ لاکھوں حاجی پیدل چلے جاتے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے حاجیوں کو منیٰ سے میدانِ عرفات لے جانے کے لیے بسوں کا بھی خاص انتظام ہوتا ہے۔ 9 ذوالحج کو منیٰ میں فجر کے بعد کا وقت انتہائی افراتفری کا ہوتا ہے۔ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد بس میں سوار ہو اور عرفات کی طرف کوچ کرجائے۔ یہی جلد بازی اکثر اوقات وہاں چھینا جھپٹی اور لڑائی جھگڑے کا باعث بھی بنتی ہے۔ ہمارے سامنے بھی ایک ایسا ہی واقعہ گزرا جس پر ہم ششدر رہ گئے۔

منیٰ میں نمازِ فجر ادا کرکے ہم نے بھی اپنا مختصر رختِ سفر سمیٹا اور اپنے خیمے سے باہر نکل کر سڑک پر آگئے۔ ہزاروں لوگ میدانِ عرفات کی طرف رواں دواں تھے۔ زیادہ تر بسوں میں جانے کے خواہش مند تھے۔ اس لیے جو بس آتی لوگوں کا ازدحام اس پر سوار ہونے کے لیے لپکتا۔ ایسے ہی ایک بس میں سوار ہونے کے لیے ایک جوان اور ایک بزرگ آپس میں الجھ پڑے… جوانوں کو جلدی پہنچنے کا جوش ہوتا ہے اور بوڑھوں کو پیچھے رہ جانے کا خوف۔ اسی جوش میں الجھتے جوان نے بزرگ کو ایک تھپڑ دے مارا۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آس پاس کھڑے مرد اپنی دو پٹی کی جوتیاں اتارتے اور اس جوان کو خوب پیٹتے… پَر معاملہ کچھ اور ہوا… آس پاس جتنے بھی مرد کھڑے تھے وہ سب بزرگ سے لپٹ گئے، جن کا غصے سے برا حال اور رنگ لال تھا… اب کوئی ان کا ماتھا چومے، کوئی گال اور کوئی ہاتھ۔ ایک نے تو گھٹنے بھی پکڑ لیے۔ لوگوں کے منہ سے نکلنے والے جملے کچھ ایسے تھے ’’غصہ نہیں… غصہ نہیں… عرفہ کا دن، عرفہ کا دن… آج حج کا دن ہے معاف کردیں… آج اللہ کی طرف سے ہماری معافی کا دن ہے آپ بھی معاف کردیں… اللہ کے لیے معاف کردیں وہ آپ کو معاف کردے گا… معاف کردو بزرگو! حج بچالو…‘‘

لوگوں کی یہ باتیں سن کر ان بزرگ کا غصے سے حواس باختہ چہرہ سُن ہوتا چلا گیا۔ ان کے اعصاب جو اتنے لوگوں میں بے عزت ہوجانے کے خیال سے تن گئے تھے نرم پڑنا شروع ہوگئے، اور ردِعمل میں کچھ نہ کر پانے سے ان کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو بھر گئے۔ دوسری طرف وہ جوان پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہا تھا… اپنے ٹھٹھرتے جذبات کے ساتھ آہستہ آہستہ بس سے نیچے اتر گیا۔ بس ان بزرگ کو لے کر چلی گئی، پَر وہ سکتے کی کیفیت میں وہیں کھڑا رہ گیا۔ یقیناً تھپڑ مارتے ہی اسے اپنی شدید غلطی کا احساس ہوگیا ہوگا اور اسے لوگوں کے شدید ردعمل کی توقع بھی ہوگی… پَر جس طرح لوگوں نے ان بزرگ کو یوم عرفہ کی اہمیت کا احساس دلایا تھا وہی احساس اس کے دل میں بھی جاگا تھا، ندامت اور شرمندگی بن کر… پیچھے رہ جانے والے ہر شخص نے اسے منہ سے کچھ نہیں کہا تھا مگر نفرت بھری نگاہوں سے ضرور نوازا تھا۔

ممکن ہے اسے لگا ہو کہ آج خدا نے بھی اسے نفرت سے دیکھا ہوگا۔ دوسری بس آئی تو ہم دونوں بھی بہ مشکل اس میں سوار ہوکر میدانِ عرفات کی طرف چل دیے، مگر وہ جوان وہیں پتھر بنا کھڑا تھا۔

میدانِ عرفات کی بھی کیا ہی باتیں ہوتی ہیں۔ عجب رقت آمیز مناظر اور غضب انسانی نفسیاتی رویّے ہمیں وہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کہیں زار وقطار رو رو کر لوگ خدا سے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہوتے ہیں، کہیں جبلِ رحمت پر چڑھ جانے کا جوش و خروش، کوئی گھنٹوں سجدے سے سر نہیں اٹھاتا، اور وہیں کچھ لوگوں کے بے زار رویّے بھی سامنے آتے ہیں، کوئی گرمی اور باتھ روم کی ٹینشن میں ہوتا ہے، کوئی لوگوں کے ہجوم میں گم، کسی کو کیمپ نہ ملنے کی پریشانی، کسی کو سونے سے فرصت نہیں، ایسی ہی کچھ خواتین کو دیکھا جو زیادہ تر سوتی رہیں۔ عصر کے وقت اُن کے مرد اٹھانے آئے کہ اب تو اپنے بچوں کے لیے دعا مانگ لو، مگر وہ بے زاری سے ہاتھ جھٹک کر پھر سوتی بنیں۔ اُن کے یہ رویّے میرے لیے انتہائی حیرت کا باعث تھے۔

ہماری اکثریت عمر میں ایک بار ہی حج کر پاتی ہے۔ اس میں بھی خاص دن عرفہ کا۔ میں نے سوچا کوئی کیسے اتنا لاپروا ہوسکتا ہے! بہرحال اس دن دو لوگ خاص طور پر ہماری توجہ کا مرکز بنے، ایک وہ بزرگ جو عرفات میں پاکستانی کیمپ پہنچ کر بھی کھوئے کھوئے سے رہے، اور دوسرا وہ جوان جو پورے کیمپ میں بولایا بولایا پھرتا نظر آیا۔ مگر عصر سے کچھ پہلے اس نے بزرگ کے قدموں پر سر رکھ دیا اور اتنی شدت سے پھوٹ پھوٹ کر رویا کہ چند لمحوں کو لگا اپنی جان ہی دے دے گا۔ اب سب کی نگاہ بزرگ پر ٹکی تھی۔ کچھ دیر تو وہ سُن سی کیفیت میں اسے دیکھتے رہے، پھر نم ہوتی آنکھوں سے اس کا سر اٹھایا، ماتھے پر بوسہ دیا اور سینے سے لگا لیا۔

یہ منظر دیکھ کر وہاں موجود ہر آنکھ نم ہوگئی۔ مغرب کا وقت تھا، یوم عرفہ تمام ہونے کو تھا، ہم دونوں ایک ساتھ کھلے آسمان تلے کھڑے ہوکر دعا میں مشغول تھے۔ تبھی میں نے میاں صاحب سے پوچھا تھا کہ ’’ان دونوں میں سے کس کا عمل خدا کو زیادہ پسند آیا ہوگا اور کس کا مقام زیادہ بلند ہوگا… معافی مانگنے والے کا یا معاف کردینے والے کا؟‘‘

تب انہوں نے کہا تھا ’’چھوڑو بیگم! نہ کرو یہ باتیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس کا مقام کہاں ہے اور کس کا عمل اس کے نزدیک زیادہ محبوب ہے۔‘‘

دو دن بعد عید آئی تو محلے والوں نے بھٹی صاحب اور شیخ صاحب کو بھی مسجد میں ایک دوسرے سے مسکرا کر گلے ملتے دیکھا۔

اب میں اکثر سوچتی ہوں کہ غلطی، گناہ کس سے نہیں ہوتے، مگر اصل چیز اُن کا احساس ہے۔ افضل عمل غلطی یا گناہ کو چھوڑ کر صراطِ مستقیم کی طرف واپس پلٹ آنا ہے، اور انسانیت کی معراج یہ ہے کہ پلٹ آنے والوں کا کھلے دل سے خیرمقدم کیا جائے۔

حصہ