بپر جوائے کا سوشل میڈیا استقبال

575

’’طوفانوں کا رُخ موڑنے والا‘‘، ’’جو طوفانوں سے لڑ جائیں‘‘، ’’طوفان کو آغوش میں لے لے‘‘، طوفان سے الجھنے والے‘‘، ’’طوفان ہیں ہم، شعلہ ہیں شبنم ہیں آنکھیں‘‘۔ یہ تو چند استعارے ہیں جو ہمارے شعری و تقریری ادب میں جا بجا نظر آتے ہیں۔ ان سب میں ’’طوفان‘‘ کو جس طرح بیان کیا گیا ہے اگر کسی نے کوئی طوفان کبھی دیکھا، نہ سمجھا ہو تو وہ اس کو بہت ہی کوئی ہلکی، قابلِ فخر چیز سمجھے گا۔

پاکستان میں پہلے 1955ء میں اداکار سدھیر کے ساتھ ’’طوفان‘‘ فلم بنی، پھر1976ء میں سلطان راہی کے ساتھ ’’طوفان‘‘، پھر 1983ء میں ’’طوفان تے طوفان‘‘ بنائی گئی، 1986ء میں ’’ظلم کا طوفان‘‘، 1987ء میں ’’کالا طوفان‘‘، 1993ء میں سلطان راہی کو دوبارہ لے کر فلم ’’طوفان‘‘ بنائی گئی۔ بھارت میں بھی ایسا ہی کچھ معاملہ رہا۔ یوں ’’طوفان‘‘ ہمارے اجتماعی شعور میں فلموں کے ذریعے ایک ’انٹرٹینمنٹ‘ بنادیا گیا۔ اس کا نتیجہ ہمیں یوں بھی نظر آیا کہ پاکستانیوں خصوصاً کراچی والوں کوتو، جن کے ساتھ ساحلِ سمندر کا بڑا ٹکڑا موجود ہے، سمندری طوفان ایک انٹرٹینمنٹ آئیٹم جیسا ہی لگتا ہے۔ جب حکومت حفاظت کے پیش نظر وہ تمام علاقے خالی کرا رہی تھی تو لوگوں نے جانے کے بجائے طوفان سے لطف اندوز ہونے کا ارادہ ظاہر کیا۔ سوشل میڈیا پر مستقل تین دن ٹرینڈ چلتا رہا، اس لیے بھی کہ بھارت بھی اس طوفان سے متاثر ہورہا تھا۔ سمندری طوفان کو بھی سیاسی تناظر میں جوڑا گیا۔ ’’کراچی میں سمندری طوفان کا خدشہ، عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے ماضی میں اپنے جلسوں کو سونامی کا نام دے کر طوفان کی راہ ہموار کی‘‘۔ گلوکار و رہنما پی ٹی آئی سلمان احمد کا طنزیہ ٹوئٹ۔ سینیٹر مشتاق نے ٹوئٹ اور ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ’’کراچی میں سمندری طوفان کے ساتھ ساتھ دھاندلی کا طوفان بھی چل رہا ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے پاس مینڈیٹ ہے۔ اگر مینڈیٹ کی توہین ہوگی تو الیکشن کمیشن پر بھی بات اٹھے گی۔ پیپلزپارٹی جماعت اسلامی کے مینڈیٹ کا احترام کرے۔‘‘

الخدمت فائونڈیشن نے تفصیلی ٹوئٹ میں بتایا کہ ’’ممکنہ سمندری طوفان کے خطرے کے پیش نظر الخدمت فائونڈیشن کی جانب سے سندھ کے مختلف اضلاع میں ’’رسپانس سیل‘‘ قائم کردیے گئے ہیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں درج ذیل نمبرز پر رابطہ کریں۔‘‘ سیلانی نے بھی اپنی امدادی (کھانوں کی) وڈیوز ٹوئٹ کیں۔

اس کے علاوہ ٹی وی ہی نہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر بھی سمندری طوفان کے حوالے سے ’’عبد اللہ شاہ غازیؒ‘‘ کے مزار کی کرامات کو موضوع بناکر تضحیک آمیز اور سنجیدہ جملے بھی لکھے جاتے رہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا ہر حد پار کرانے کا راستہ ہموار کررہا ہے۔ زیادہ افسوس مجھے یوتھ کلب سندھ کے صدر وجیہ الدین کی پوسٹ پر ہوا کہ ’’عبداللہ شاہ غازی کا مزار صرف طوفان روکنے کی ذمے داری پوری کرتا ہے۔ مہنگائی، بیماریاں، زلزلے وغیرہ جیسی تمام دوسری آفتیں ان کی جاب ڈسکرپشن میں نہیں۔‘‘ میں احتیاط و ادب کے تناظر میں بہت زیادہ پوسٹیں یہاں نہیں ڈال رہا۔ ’’جی ٹی وی‘‘ پر ایک رپورٹ میں کوئی 9 سمندری طوفانوں کے شہر تک نہ پہنچنے کے دلائل دے کر رپورٹ بھی چلائی گئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اہلِ کراچی کی ایک بڑی تعداد میں یہ عقیدہ موجود ہے کہ سمندر کی جانب سے آنے والے قدرتی حوادث سے کراچی کی حفاظت میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کا اہم کردار ہے۔ اس کو وہ عین ساحل کے قریب موجود اُن کے مزار کی کرامت سے بھی جوڑتے ہیں۔ سما ٹی وی کی معروف میزبان کرن ناز نے ٹوئٹ کیا کہ ’’طوفان بیپرجوائے نے اپنا رُخ موڑ لیا، کراچی ایک بار پھر سمندری طوفان کے خطرے سے محفوظ ہوگیا۔ بے شک اللہ کے ولی حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کی کرامات ہیں۔ مالک کا بڑا احسان کہ اس کا نیک بندہ اس شہر میں مدفون ہے۔‘‘ اس کے جواب میں تقریباً ایک ہزار ٹوئٹس اور 195 لوگوں نے اسے شرک وغیرہ کہہ کر مزید ری ٹوئٹ کیا، مگر 3741 لائیکس کچھ اور پیغام دے رہے تھے۔ یہ کون تھے جنہوں نے اس بات کو پسند تو کیا مگر کسی ایک نے کوئی مدلل، علمی جملہ یا جواب نہیں دیا۔ بس سب کو یہی تکلیف تھی کہ ’’مرنے کے بعد کیسے ممکن ہے؟‘‘

انٹرنیٹ پر موجود مختلف کتب (حوالہ ابنِ کثیر، تاریخ الکامل) سے یہ معلوم ہوا کہ 720ء میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کی مدینہ میں ولادت ہوئی۔ آپؒ کی زندگی کا بیشتر حصہ راہِ خدا میں جہاد اور دینِ اسلام کی تبلیغ و سربلندی میں گزرا، اسی وجہ سے آپ کا لقب ’’غازی‘‘ ہے۔ آپ 760ء میں 400 افراد پر مشتمل قافلے کے ساتھ سندھ تشریف لائے۔ آپ کا سلسلۂ نسب ابومحمد عبداللہ الاشتر بن محمد نفس زکیہ بن عبداللہ محض بن حسن مثنیٰ بن امام حسن بن علی بن ابی طالب ہے۔ حضرت حسن مثنیٰؒ کی شادی فاطمہ کبریٰؒ بنتِ امام حسینؓ ابن علیؓ سے ہوئی، اِسی وجہ سے آپؒ ’’حسنی حسینی سید‘‘ ہیں۔ سمندر کے بالکل ساتھ ہونے کے باوجود ہزاروں سال سے جاری حضرت کے مزار پر موجود میٹھے پانی کا کنواں/ چشمہ ایک کرامت کی مانند لوگوں کو مستفید کررہا ہے۔ اب اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے اس عقیدے سے اگر شہر 1200سال سے کسی سمندری طوفان سے محفوظ ہے تو زبردستی کی تکلیف کا اِظہار کرنا کہاں کی دانش مندی یا کس شعور کی علامت ہے! ویسے ’دانش‘ اور ’سوشل میڈیا‘ کا کوئی باہم تعلق ہے بھی نہیں۔ میں حیران ہوں کہ 2011ء کے ’’سونامی‘‘ کی وڈیوز آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں مگر عبرت لینے کے بجائے اسے تفریح سمجھا جارہا ہے۔ لوگ اس کو انسانوں کے اعمال مثلاً قتل، ڈکیتی، اغوا، چوری، جھوٹ وغیرہ سے تشبیہ دے کر اپنے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ اب یہ سب وہی ریشنل عقلی دلائل ہیں جن سے نہ کبھی دین کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی پرکھا جا سکتا ہے۔

ان سارے عقلی دلائل والوں کو جب عقلی سائنس دانوں کی تحقیقات بتائی جائیں تو دانتوں میں انگلی داب کر بھاگتے ہیں۔ ہندوستان کے معروف اخبار میں Earth Science Reviewsتحقیقی جنرل کی گزشتہ سال کی تحقیق شائع ہوئی جس میں صاف بتایا گیاکہ:

How climate change made Arabian Sea conducive for severe cyclones.

یہی نہیں، وائس آف امریکا سمیت مزید کئی موقر تحقیقی اداروںکی رپورٹس یہی بتاتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی آلودگی کا بحران پوری دنیا پر اثرانداز ہوکر ایسے طوفان و سیلاب لانے کا باعث بن رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا گزشتہ سال پاکستان میں سیلابی علاقوں کے دورے کے بعد تمام ممالک کو مخاطب کرکے یہ کہنا کہ ’’تمہاری پیدا کردہ ترقی کی قیمت پاکستان ادا کررہا ہے‘‘ کا صاف مطلب یہی تھا کہ کائنات کو مسخر کرنے کے نام پر جو جعلی ترقی کا سفر طے کیا گیا ہے وہ پوری زمین کو انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں چھوڑے گا۔ زمین کے اندر کی معدنیات، پیٹرول، گیس سمیت دیگر ذخائر کا خاتمہ ہو یا مصنوعی بیج سے زمین کو خراب کرنا، جنگلوں کو ختم کرنا، پہاڑوں کو کاٹ دینا، مصنوعی بارشیں برسانا، برف باری کرانا، بارود اور خطرناک کیمیکلز کا غیر معمولی بڑھتا استعمال، سمندروں میں تیل ڈالنا، گندگی ڈالنا، سمندری حیات کو بڑے جالوں سے ختم کرنا… یہ سارے ’فساد فی الارض‘ والے کام پوری زمین کو مجبور کررہے ہیں کہ وہ تڑپ اٹھے، چیخے، چلاّئے، جھٹکے مارے۔ کون ہے جو اِس بات سے انکار کرے گا کہ گرمی اور پسینہ دور کرنے کے لیے جو ٹھنڈی مشین آپ کے کمرے میںلگی ہے جو یخ بستہ ہوا دیتی ہے وہ درحقیقت پیچھے سے پوری دنیا کو گرم کرنے، اُس کا درجہ حرارت بڑھانے کا مشن انجام دے رہی ہے، اور خوب بجلی الگ پی رہی ہے۔ اللہ نے ہمیں یہ زمین اس لیے دی تھی کہ یہاں رہ کر اللہ کے حکم کے مطابق اللہ کی رضا حاصل کرنے والے کام کریں، نہ کہ اس زمین کو انسانوں کے رہنے کے قابل ہی نہ رہنے دیں! بہرحال ان سارے عوامل کے بعد بھی تکوینی امور سے فعل باری تعالیٰ کو خارج نہیں کیا جا سکتا کہ گویا کائنات خدا نے بنا کر چھوڑ دی ہے اور وہ فاعلِ حقیقی نہیں رہا، ایسا بالکل نہیں ہے۔ اذن ہمیشہ اللہ ہی کا ہوگا، اُس کی مرضی سے ہی کوئی چیز آگے جائے گی یا رُکے گی یا راستہ بدلے گی۔ اِس مرضی کی عملی شکل کوئی بھی ہوسکتی ہے۔ فساد فی الارض کے نتیجے میں آنے والے قدرتی ردعمل کو ایک مسلمان صرف عذاب سے تعبیرکرسکتا ہے تاکہ اس کو اپنے رب سے جڑنے، غلطی کا احساس کرکے پلٹنے، رجوع کرنے کا موقع ملے۔ میں ذرا سا پیچھے جائوں تو زلزلے کی بھی کئی خبروں میں یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ ’’لوگ کلمہ پڑھتے ہوئے باہر آگئے‘‘ ۔ تو بھائی! اب کیسے اللہ یاد آجاتا ہے؟ ہر وہ چیز جو انسانی دائرۂ عمل سے باہر کی ہو، اُس کی قدرت سے باہر کی ہو تو وہاں اُس کو فوراً اپنا مالکِ حقیقی یاد آجاتا ہے۔ یہ تحت الشعور میں اس لیے ہوتا ہے کہ انسان پلٹ سکے اپنے رب کی طرف۔ یہی اصل بات ہے، یہی وقت کی ضرورت ہے۔ انسان جب اپنے رب سے جڑا ہوتا ہے تو ہم جانتے ہیںکہ وہ اپنا تحریر کردہ خط دریا میں ڈال دے تو اس کی طغیانی بھی رک جاتی ہے۔

اس ہفتے کا دوسرا سب سے اہم ایشو کراچی پر حکمرانی یعنی میئر شپ کی جنگ تھی، جس کے اگلے دن شہر کو یومِ سیاہ میں بدل دیا گیا۔ ابلاغی محاذ پر جماعت اسلامی نمبر ون رہی، اس میں کوئی شک نہیں۔ پورے ملک بلکہ دنیا بھر میں سب کی نظریں اس جانب تھیں۔ یہ میئرشپ ایک عدالتی سفر، احتجاجی و دھرنا مہم کے بعد الیکشن مہم، ووٹنگ، الزامات، پریس کانفرنس کے بعد ہاتھا پائی، لاٹھی چارج اور پتھرائو تک گئی۔ اس انتخاب میں بھی سوشل میڈیا نے پورا رنگ جمایا۔ جماعت اسلامی کی کامیاب سوشل میڈیا مہم کا اعتراف اپوزیشن بھی کھل کر کرتی رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی پہلی مرتبہ کراچی سمیت پورے سندھ کی بلدیات کی سیٹوں پر پہنچ گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی مستقل سوشل میڈیا پر بدنام ہوتی رہی، جماعت اسلامی نے انتہائی کامیابی سے سوشل میڈیا مہم کے ذریعے اپنا پیغام عام، بلکہ زبان زدِ عام کیا۔2020ء کے 3 سال بعد سخت جدوجہد کے نتیجے میں یہ انتخابات ہوئے تھے۔ جماعت اسلامی کراچی نے نمایاں انداز میں شہر بھر میں مہم چلائی اور پورے شہر سے تقریباً ساڑھے چار لاکھ ووٹ حاصل کیے اور الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق سیٹوں کے لحاظ سے شہر کی دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ میئر کے انتخاب میں تحریک انصاف کے چیئرمینوں کی لیک شدہ وڈیوز نے بڑا کام کیا۔ میئر کے انتخاب سے قبل کے تینوں دن خوب رنگ جمتا رہا۔ کنٹونمنٹ کے رہائشی ایک ایسے چیئرمین کو بھی ووٹ ڈالنے دیا گیا جو کسی طور بلدیہ کی رکنیت کا اہل نہیں تھا، اس پر جماعت اسلامی نے حلف کے دوران بھی تحریری شکایت کی تھی مگر اسے خاطر میں نہ لایا گیا۔ یوں مرتضیٰ وہاب (میئر) اور سلمان مراد (ڈپٹی میئر) 173 ووٹ لے کر ’’کامیاب‘‘ ہوگئے جب کہ جماعت اسلامی 161 ووٹ لے سکی۔

جماعت اسلامی نے مرتضیٰ وہاب کو مسترد کردیا اور اس لڑائی کو نظام کی لڑائی، الیکشن کمیشن کی قبضہ سیاست اور مینڈیٹ پر قبضہ قرار دیا۔ پیپلز پارٹی کے پاس جہاں 1973ء کا آئین، ایٹمی پروگرام، قادیانیت کے خلاف قانون سازی، اسٹیل مل، اسلامک بلاک، شراب پر پابندی سمیت کئی کریڈٹ ہوا کرتے تھے، اب وہاں اس سوشل میڈیا ابلاغ سے ملک توڑنے، مینڈیٹ پر ڈاکہ، کرپشن، غیر جمہوری رویّے اور نااہلی سمیت کئی لیبل جگہ لے چکے ہیں۔ صورتِ حال ایسی ہے کہ جماعت اسلامی کے پاس 25 میں سے 9 ٹائون بہرحال موجود ہیں جن میں ’’استنبولی رنگ‘‘ بھر دیا جائے تو عوام فرق سمجھ سکیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے وعدوں کے مطابق اگر مرتضیٰ وہاب بھی کارکردگی دِکھانے میں سنجیدہ ہوگئے تو امکان ہے شہر کو کوئی ریلیف مل سکے۔ اس موقع پر ایک صاحب کی پیش گوئی والی پوسٹ بڑی اہم لگی ’’میئر الیکشن کے بعد عمران خان کی طرح حافظ نعیم بھی سڑکوں پر خطرناک ثابت ہوں گے‘‘۔

حصہ