قربانی کون کرے گا؟

554

”رسید (رشید)! عید سر پر آگئی ہے اور تُو نے اب تک چھریاں تیج ( تیز) نہیں کیں۔“

”ابا آج کے دور میں کون چھری تیج کرتا ہے! تُو بے فکر رہ، مسین (مشین)سے تیج کروا لوں گا۔“

”پاگل ہوگیا ہے، مسین سے بھی کوئی چھری تیز ہوئے ہے! پتھر پہ گھس کے تیج کریو۔“

”ابا کیا کہہ رہے ہو، ہاتھ سے چھری تیج کروں؟ کری نا وہی برسوں پرانی بات… ارے اب جمانہ (زمانہ) بدل گیا ہے، چھری تو مسین سے ہی تیج کرواؤں گا۔“

”ابے کیا پاگل پنتی کی بات کررہا ہے تُو..! چھوڑ دے، میں خود تیج کرلوں گا۔“

”دیکھ رہے ہو خالد میاں! کیسی پاگلوں والی بات کرریا ہے۔ اوجار (اوزار) اچھی طرح تیج ہوں گے تبھی تو مال کٹے گا۔ ہم نے ساری جندگی پتھروں پہ ہی چھریاں گھسی ہیں۔ یہ نئی نسل کام چور اور ہڈحرام ہے، ان سے محنت نہیں ہوتی، اسی لیے اپنی جان چھڑاتے ہیں۔ خدا بخسے ابّا کو، ساری ساری رات اوجار گھسوایا کرتے تھے، جب تک چھری بلیڈ کی طرح تیج نہ ہوجاتی تب تک جان نہ چھوٹتی تھی… اور اس کو دیکھو ہمیں ہی سکھاریا ہے! خالد میاں چھری تیج نہ ہو تو جانور کو بھی تکلیف ہوتی ہے، صلا ایک ہی ہاتھ میں پھرنا چاہیے، مصنویوں (مصنوعی) کے کام ایسے ہوتے ہیں جو کند چھریوں سے جانور کاٹتے ہیں، ہم تو خاندانی قصاب ہیں، تاجا(تازہ) گوش بیچنا اور صاف ستھرا کام کرنا ہی ہمارا پیسا (پیشہ) ہے، یہ بڑی محنت کا کام ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں، جانور کے ساتھ جانور بننا پڑتا ہے تب جاکر دو پیسے ملتے ہیں۔ عجت (عزت) برسوں میں بنے ہے، یہ ایک دو دن کی بات نہیں ہوتی۔ تم تو جانتے ہو 40 سال سے دکان کرریا ہوں، بجار (بازار) کا ہر آدمی میری عجت کرتا ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ آج کل کے لونڈوں کو کیا پتا کہ عجت کیا ہووے۔“

”ہاں ہاں شیخ جی تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو، ابھی میں جلدی میں ہوں، تمہاری بھابھی گھر میں گوشت کا انتظار کررہی ہے، جلدی سے مجھے ایک کلو گوشت دے دو۔“

”یہ کیا بات ہوئی میاں! ہوا کے گھوڑے پہ سوار ہو! اتنے دن بعد آئے ہو، تھوڑی دیر تو رکو، گوش تمہیں اسپیشل ہی دوں گا۔“

”شیخ جی واقعی ابھی جلدی میں ہوں، اِن شاءاللہ پھر بات ہوگی۔“

”اچھا میاں تمہاری مرجی۔ یہ پٹ کا گوش لے جاؤ، دال گوش بنا لینا، انگلیاں چاٹتے رہ جاؤ گے۔ اچھا جاتے جاتے یہ تو بتادو اس مرتبہ قربانی کے لیے کیا لو گے؟ میں پوچھ ریا ہوں بڑے کی کرو گے یا چھوٹے کی؟“

”شیخ جی ابھی کچھ نہیں سوچا، آخری ہفتے میں فیصلہ کروں گا۔“

”کیوں میاں یہ کیا بات کردی! تمہارے ہاں تو قربانی کا جانور ہمیسہ (ہمیشہ) عید سے کئی روز پہلے ہی آجاتا ہے، اس مرتبہ ایسی باتیں کیوں کررہے ہو؟ کیا جانور لانے کا ارادہ نہیں ہے یا پھر بارسوں (بارشوں)سے ڈر گئے ہو؟“

”شیخ جی ایسی کوئی بات نہیں، قربانی تو لازمی کرنی ہے، اس مرتبہ بھی جانور تگڑا لاؤں گا، ابھی موسم نے بھی تیور بدلے ہوئے ہیں، اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ سمندی طوفان کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ اور تو اور، حکومت کی جانب سے ابھی تک منڈی لگانے کا بھی فیصلہ نہیں ہوا، روز نئی نئی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے سپرہائی وے پر لگے گی، تو کوئی ناردرن بائی پاس بتاتا ہے، کبھی خبر آتی ہے کہ علاقائی سطح پر منڈیاں لگیں گی۔ ہر کوئی نئی سے نئی بات بتاتا ہے، جبکہ کراچی انتظامیہ کی جانب سے ناردرن بائی پاس پر خریداروں کے لیے حفاظتی اقدامات کی بات کی جارہی ہے، اب دیکھتے ہیں کیا صورتِ حال بنتی ہے۔ اگر مویشی منڈی نہ لگی تو کسی دوسرے شہر سے جانور لانا پڑے گا۔ باقی اس موضوع پر تفصیل سے ایک دو دن بعد بات کریں گے۔“

مویشی منڈی لگے یا نہ لگے، مجھے اس سے کیا! اور نہ مجھے کوئی ضروری کام تھا۔ میں تو شیح جی کی دکان سے جلد سے جلد فقط اس لیے اپنے گھر پہنچنا چاہتا تھا کیونکہ ان کی باتیں مجھے ماضیِ قریب کی اُن یادوں میں دھکیل رہی تھیں جب ہمارے یہاں بھی قربانی ہوا کرتی تھی۔ یہ بہت پرانی بات نہیں، دو سال قبل تک میرے مالی حالات خاصے بہتر تھے۔ ان برسوں میں حالات میں کچھ ایسی ابتری آئی کہ پورا بچھڑا قربان کرنا تو دور کی بات، ایک حصہ ڈالنے کی بھی سکت نہ رہی۔ ایسی صورت میں شیخ جی کے سامنے جانور خریدنے کا جھوٹا بہانا بنانے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ ظاہر ہے ایک سفید پوش آدمی اپنی عزت بنانے کے لیے اور کر بھی کیا سکتا ہے! اور پھر شیخ جی تو اس عید پر زیادہ سے زیادہ جانور ذبح کرکے اپنا سیزن کمانے کی سوچ رہے تھے، انہیں کسی کے مالی حالات کی کیا خبر! پہلے نہ مجھے معاشی اشاریوں کے اتار چڑھاؤ کے کسی کی مالی حیثیت پر اثرانداز ہونے کا یقین تھا اور نہ ہی میں ان چکروں میں پڑتا تھا، لیکن چند برسوں سے خاص طور پر جب سے میں مالی بحران کا شکار ہوا ہوں ان معاشی اشاریوں پر میرا ایمان پختہ ہوگیا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ ہو یا تجارتی خسارہ… ہر ایک کے بارے میں خاصی معلومات رکھنے لگا ہوں۔ میں جان چکا ہوں کہ سابق حکومت اور اب موجودہ حکومت کی کارکردگی نے عام آدمی کی زندگی بد سے بدتر کردی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں بنائی جانے والی پالیسیوں کے باعث نہ صرف بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ملک کے معاشی حالات بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں اگر لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں تو دوسری جانب موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی کا جن ایسا بے قابو ہوا ہے کہ ایک عام شہری کے گھر فاقوں کی نوبت آگئی ہے اور متوسط طبقے کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ہم بچپن سے دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان میں امیر اور متوسط طبقے کے لوگ موجود تھے، لیکن حکمرانوں کی معاشی پالیسیوں نے اس متوسط طبقے کی ایسی کمر توڑی کہ آج یہ طبقہ بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جبکہ امیر، امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے موجودہ حکمرانوں کی جانب سے مہنگائی کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا رہا، لیکن حکومت ملتے ہی ان کی کارکردگی گزشتہ حکومت سے بدتر ثابت ہوئی۔ پی ڈی ایم کی طرزِ حکمرانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت 5 کروڑ 87 لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ عالمی معیار کے مطابق کسی شخص کی یومیہ آمدن دو ڈالر سے زیادہ نہ ہو تو وہ غریب شمار کیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے حکمرانوں کے تمام تر خوش کن وعدوں اور دعووں کے باوجود ملک کی ایک تہائی آبادی اس معیار سے حد درجہ نیچے افلاس اور بے بسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ جن لوگوں میں ذرا سی مالی سانس باقی ہے ان پر بھی ہر آنے والے دن کے ساتھ مہنگائی کا بم گرا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ ایک عام گھرانے کے کچن کا خرچہ پندرہ سے بیس ہزار روپے تک کا ہے، اور ان کے ناشتے اور دو وقت کے معمولی سادہ کھانے کا حساب لگائیں تو بڑے آرام سے یہ چار پانچ سو روپے بنتا ہے۔ جن لوگوں کی آمدن تیس سے چالیس ہزار ماہانہ ہے ان کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی آمدن کا نصف سے زیادہ اسی مد میں خرچ ہوجاتا ہے۔ اور جن کی آمدن ہی آٹھ سے بارہ ہزار روپے ماہانہ ہو وہ لوگ کس طرح اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوں گے یہ وہی جانتے ہیں۔ لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ میں ایسے کئی گھرانوں کو جانتا ہوں جہاں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج تھا، یہ رواج اب تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سب سے زیادہ اضافہ ہی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوا ہے۔ یعنی غربت کے ہاتھوں مجبور عوام خاص طور پر متوسط طبقہ مہنگائی کی چکی میں سب سے زیادہ پس رہا ہے۔

ایک طرف یہ صورتِ حال ہے تو دوسری جانب حکمران وہی پرانا راگ الاپنے اور عوام کو سبز باغ دکھانے میں مصروف ہیں۔ وہی پرانے جملے کہ ”یہ سال معاشی استحکام اور ترقی کا سال ہوگا، جس میں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مل سکیں گے“، ”معاشی اشارے مثبت سمت بڑھ رہے ہیں“۔ جبکہ حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں، یعنی 2023ء میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو سست روی کا شکار ہوکر 0.6 فیصد رہی۔ معاشی استحکام کی بحالی، اصلاحات کے نفاذ، سیلاب کے بعد کی بحالی اور بیرونی حالات میں بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی سال 2024ء میں شرح نمو بڑھنے کی پیش گوئی تو کی گئی ہے لیکن اس کے اثرات نظر نہیں آتے۔ ہمارے حالات بتا رہے ہیں کہ ملکی معیشت بدستور شدید مشکلات کا سامنا کررہی ہے، جب کہ گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب نے معاشی اور مالی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ مقامی کرنسی کی قیمت میں نمایاں کمی اور تیل اور بجلی کی بلند قیمتیں مالی مشکلات کی عکاسی کرتی ہیں۔

پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر ایک ماہ کی درآمدات سے بھی کم ہیں اور مہنگائی 25 فیصد سے زائد ہے۔ مالی سال 2025ء تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، مہنگائی اور ادائیگیوں کا بوجھ بڑھنے کا خدشہ ہے جس کے تحت سال 2024ء اور 2025ء تک ادائیگیوں کا بوجھ 29 ارب ڈالر سالانہ پہنچنے کا خدشہ ہے۔ قرضے معیشت کا 74 فیصد ہیں، پاکستان کے ایف آر ڈی ایل قانون کے تحت قرضے معیشت کا 60 فیصد ہونے چاہئیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں مالیاتی خسارہ 6.7 فیصد تک پہنچنے کا اندیشہ ہے، جب کہ معاشی ترقی کی شرح محض 0.4 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں مالی سال پیٹرولیم مصنوعات 55 فیصد مہنگی اور بجلی 47 فیصد مہنگی ہوئی ہے۔ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2025ء تک خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 2.2 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ آئی ایم ایف سمیت چینی کمرشل بینکوں کا قرض اور بانڈز کی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔ گروتھ ریٹ میں کمی اور مہنگائی زیادہ رہنے کے باعث خطِ غربت سے نیچے جانے والوں میں کمی نہیں ہوسکے گی۔

جب ملک پر ایسے نااہل حکمران مسلط ہوجائیں جن کی بنائی ہوئی پالیسیاں غریبوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتی ہوں تو سوچیے ایسے حالات میں کون قربانی کرسکتا ہے؟ میرے نزدیک جو بچے گا وہی قربانی کرے گا۔

حصہ