وہ بڑی محویت سے روسٹرم کے پیچھے کھڑی خاتون کی پُراثر گفتگو سن رہی تھی۔ وہی کیا، کالج کی تمام لڑکیاں اس علمی گفتگو سے متاثر نظر آتی تھیں۔ جب انہوں نے شکریہ کہہ کر اپنی گفتگو ختم کی تو جیسے ایک سحر تھا جو ٹوٹا تھا۔ اس نے ان کی جادوئی شخصیت دیکھتے ہوئے ایک لمبا سانس بھرا اور جیسے اندر ہی اندر اداسی کی ایک لہر نے اس کے وجود کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔
اس کی کلاس فیلو بہترین شاعرہ تھی، کم از کم اس کے نزدیک۔ پڑھائی کے ساتھ وہ اتنی اچھی نظمیں کہتی کہ ساری کلاس ہی اس کی نظموں کی پرستار تھی۔
’’واہ کیا چہرہ ہے! کیا خدوخال ہیں… لگتا ہے فرصت سے بنایا گیا ہے۔ بڑی بڑی آنکھیں، ستواں ناک، یہ لمبے حسین بال جیسے زلفوں کا جال… آہ‘ ایک ہم ہیں‘‘۔ اس نے اپنے چہرے، بال اور عام سے نین نقش کو آئینے میں غور سے دیکھا اور پھر دوسری نظر ڈالنا بھی پسند نہ کیا، اور آئینے پر ہمیشہ کی طرح چادر ڈال دی جیسے اپنے آپ کو دیکھنا ہی نہ چاہتی ہو۔
’’کیا ہوجاتا اگر میرے بال بھی لمبے، ریشمی ہوتے… میری ناک بھی کھڑی اور آنکھیں جھیل جیسی ہوتیں۔ مجھے بھی ہر موضوعِ گفتگو پر عبور ہوتا!‘‘ اس کے ہاتھ میں اگرچہ نصابی کتاب تھی لیکن خیالوں میں وہ کہیں دور پہنچی ہوئی تھی۔ ’’یہ نہیں تو رنگ ہی میدے جیسا ہوتا۔‘‘
’’ہاں کیوں نہیں، رنگت دودھ جیسی، ہونٹ گلاب کی پنکھڑی… لیکن تم گونگی ہوتیں؟ آنکھیں جھیل کیا سمندر کی مانند… لیکن بھینگی ہوتیں، یا پھر اتنا موٹا چشمہ چڑھا ہوتا اور بال ضرور گز بھر لمبے، لیکن سماعت کمزور ہوتی؟‘‘
’’ارے ارے آپا…! کچھ تو رحم کھاؤ، کیوں اول فول بول رہی ہو؟ کوئی وقت قبولیت کا بھی ہوتا ہے۔‘‘
’’اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کا شکر کرو… تم، تم ہو… جو تمہارے پاس اللہ کی عطا ہے اس پر فخر کرو… جو تمہارے پاس ہے وہ کسی کے پاس نہیں، جیسی صلاحیت تمہارے پاس ہے وہ بھی ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔‘‘
’’بس بس رہنے دیں، میرے پاس ہے ہی کیا…؟ نہ میں اچھا بول سکتی ہوں، نہ لکھ سکتی ہوں، نہ ہی امبر کی طرح پیاری پیاری نظمیں لکھ سکتی ہوں…‘‘ مایوسی اس کے لہجے سے ہویدا تھی۔
’’اس کے باوجود تمہارے اندر جو صلاحیتیں ہیں وہ تو میرے پاس بھی نہیں۔‘‘
’’اوہ…! تو کیا میں پوچھ سکتی ہوں میرے پاس وہ کون سی خوبیاں ہیں جن سے میں خود اب تک ناواقف ہوں۔‘‘ اب لہجے میں طنز نمایاں ہوچکا تھا۔
’’یہی تو افسوس کا مقام ہے کہ اپنی شخصیت کے مثبت پہلوؤں سے ہم ہی انجان ہیں، اسی لیے ہم دوسروں کی قابلیت سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔ دوسروں سے متاثر ہونا غلط نہیں، لیکن اپنے اندر حسرت اور مایوسی پالنا ضرور غلط ہے۔ رشک ضرور کرو لیکن ساتھ اپنے اندر مثبت اندازِ فکر کو پروان چڑھاؤ۔‘‘
’’مجھے تو اپنے وجود میں کسی خوبی کے آثار نہیں دکھتے۔ آپ کو نہ جانے کیا نظر آجاتا ہے!‘‘ اب جھنجلاہٹ عود کر آئی تھی۔
’’تم میں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کی صلاحیت ہے۔ تم نرم مزاج ہو، بہت جلد دوست بنالیتی ہو، لوگوں کے راز رکھتی ہو، ان کی مدد کے لیے فوراً آگے بڑھتی ہو۔ کیا یہ کم صلاحیتیں ہیں؟ پھر ایک قدرتی کشش بھی تمہارے سراپے میں موجود ہے۔‘‘ آپا اسے گنوا رہی تھیں۔
’’ہونہہ… یہ کون سا کمال ہے؟‘‘
’’میرے نزدیک تو کمال ہے… اب تم نہ سمجھو تو یہ تمہاری کم فہمی ہے۔‘‘ آپا نے کندھے اچکائے۔
’’لوگ تو حسین صورت کے دیوانے ہوتے ہیں یا پھر ایسی خوبیوں کے، جو ہر ایک پر عیاں ہوں۔‘‘
’’کاش ہم دوسروں کی صلاحیتوں پر رشک کرنے کے ساتھ ساتھ، اپنے آپ کو کمتر بھی نہ سمجھیں۔ اللہ نے ہر ایک کو مکمل پیدا کیا ہے بہت ساری خوبیوں، خامیوں کے ساتھ… لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی پرفیکٹ نہیں۔ ہر شخص کو اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے، ان سے لطف اندوز ہو اور دوسروں کے لیے نافع بن جائے۔‘‘
’’بس یا کچھ اور…؟‘‘ وہ اکتا کر بولی۔
’’کہنے کو تو بہت کچھ ہے… بس سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اچھا ایک بات بتاؤ، پانچ ہزار کے ایک کڑکتے نوٹ کی تمہارے نزدیک کتنی اہمیت ہے؟‘‘
’’اچھی خاصی۔‘‘
’’اور اسی نوٹ کو میں مسل دوں، اس پر لکیریں کھینچ دوں، کہیں سے پھٹے تو ٹیپ چپکا دوں، اور تو اور دو چار مرتبہ جوتے سے کچل بھی دوں تو کیا اس نوٹ کو تم پھینک دو گی؟ کیوں کہ وہ اپنی خوب صورتی کھو چکا یا کم تو یقیناً کرچکا؟‘‘
’’ارے واہ! کیوں پھینک دوں گی؟ نوٹ تو نوٹ ہے، قیمتی، اس کے باوجود میں اسے تم سے لے لوں گی۔‘‘ وہ چمک کر بولی۔
’’اس نوٹ کی تو اتنی پامالی کے باوجود وقعت کم نہیں، لیکن ہمارے اس پانچ فٹ کے وجود کی اہمیت تم نہیں سمجھتیں۔ بھئی ہم، ہم ہیں، اگر کچھ کمی بھی ہے تو بھی پروا نہیں، ہمیں خدا نے بڑی چاہت سے تخلیق کیا ہے۔ وہ اپنی ہر تخلیق سے محبت کرتا ہے، پھر ہم اور تم کون ہوتے ہیں اس کا انکار کرنے والے! ہمیشہ اپنے سے نیچے دیکھو، ہمیں جو بھی ملا، یہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو ہماری اوقات تھی۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ پہلے اپنے آپ سے محبت کرو، اپنی عزت خود بھی کرو اور دوسروں سے بھی کروائو… ہم اہم ہیں، منفرد ہیں، ہم جہاں ہیں بالکل ٹھیک ہیں۔ نہ کمتر نہ پیچھے۔ اس مثبت سوچ کو پروان چڑھالو تو تم زندگی کی دوڑ میں بہ خوشی شامل رہوگی۔‘‘ آپا مسکرائیں۔
’’زندگی میں مشکلات بھی تو کتنی ہیں، ہر قدم پر ایک نیا مسئلہ…‘‘ اس نے منہ بسورا۔
’’اگر ہم غور کریں تو یہ مشکلات بھی ہمیں مسائل سے لڑنے کے لیے تیار کرتی ہیں، ہمیں حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا سکھاتی ہیں۔‘‘
’’ہوں… درست، لیکن کمیاں، کوتاہیاں بھی تو ہمارے اندر ہیں۔‘‘
’’بالکل ہیں، لیکن کیا ضروری ہے کہ ان کمیوں کو لے کر افسردہ رہیں، اپنی بیس فیصد کمزوری کا رونا روئیں اور اسّی فیصد کامیابی کو پس پشت ڈال دیں۔ شکوے، شکایات کی عرضی لیے اپنے بنانے والے کو ہر دَم پیش کرتے رہیں! یہ رویہ تو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر سب خوبیوں کا مرقع ہوتے یا سب میں خامیاں موجود ہوتیں تو دنیا میں توازن نہ رہتا۔ اس میں کیا مصلحت پوشیدہ ہے اس سے ہم ناواقف ہیں۔ لہٰذا راضی بالرضا رہنے کی عادت ڈالو، اپنے آپ کو پہچانو، اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرو۔ یہ خوب صورتی، حسن، دل کشی، گھنے گیسو عطائے خداوندی ہے، اس میں بندے کا کیا کمال!؟ کمال تو وہ ہے جو ہم اپنے کردار و گفتار میں، اپنی شخصیت میں اپنی محنت سے پیدا کرتے ہیں۔ حسنِ سلوک، حسنِ اخلاق، مضبوط کردار، عزم و حوصلہ… آپ دوسرے گھر میں اپنے گھرانے کی کہیں نہ کہیں آئینہ دار ہوتی ہیں۔ اس آئینے میں معمولی سی خراش، ہلکی سی ٹھیس بھی ناقابلِ برداشت ہے۔‘‘
’’ہاں…‘‘ اس نے ہونٹ پھیلائے۔
’’سوچ بدلو، اپنے خیالات میں تبدیلی لانے کی کوشش کرو۔‘‘ آپا نے اس کی کنپٹی پر ہلکے سے دستک دی۔ ’’سوچ بدلنے سے زندگی میں بھی بہتری آتی ہے۔ ہوجائے شرط… کیا سمجھیں؟‘‘
’’ہوں…! بہت کچھ۔ یہ کہ تکبر نہیں، بڑائی نہیں، اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہے، انکسار کے ساتھ، اپنے بنانے والے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے… لیکن…؟‘‘
’’لیکن کیا…؟‘‘
’’لیکن یہ کہ میں واقعی خاص ہوں…بہت خاص۔‘‘