43 سال قبل کی وہ سہ پہر آج بھی حافظے میں روشن ہے جب میں نے اپنے عزیز سینئر دوست اور شاعر خوش بیاں شوکت عابد کے ماڈل کالونی کے مکان کے مہمان خانے میں ایک نوخیز و نوجوان دانش ور کو دیکھا تھا جس نے کونے کی خالی میز پر چڑھ کر وہیں سے بیٹھے بیٹھے نہایت بے تکلفی سے وہاں موجود کچھ اپنے ہم عمر اور کچھ اپنے سے زیادہ عمر کے شعرا سے مخاطب ہو کر پوچھا تھا:
’’اچھا آپ لوگ ذرا مرزا غالب کے اس شعر کے معنی تو بتایئے:
رہا آباد عالم اہلِ ہمت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قد جام و سُبو میخانہ خالی ہے
کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ جب کہیں سے کوئی جواب نہ آیا تو نوجوان دانش ور نے شعر کے اپنے مخصوص عالمانہ انداز میں معنی اس طرح بتائے کہ شعر کے پوشیدہ معنی کا حسن عیاں ہو گیا اور اس خوبی سے عیاں ہوا کہ سب نے کہا ’’واہ سبحان اللہ۔‘‘ یہ تھے احمد جاوید جن کی علمیت‘ وسعتِ مطالعہ‘ تدبر و تفکر کے وہ سب لوگ قائل ہیں جنہوں نے انہیں کسی محفل میں کسی بھی علمی موضوع پر گفتگو کرتے سنا ہے۔ جس ادبی یا علمی محفل میں انہیں بولتے سنا‘ محفل پر سحر طاری ہوتے دیکھا۔ اُن دنوں علامہ اقبال لائبریری میں حلقۂ اربابِ ذوق کے ہفتہ وار اجلاس ہوتے تھے۔ احمد جاوید اس کے مستقل شریک تھے۔ سلیم احمد‘ ضیا جالندھری‘ عبیداللہ علیم‘ ذکاء الرحمن‘ ثروت حسین‘ سجاد میر‘ انور سن رائے‘ صغیر ملال غرض ادبا و شعرا کی ایک کہکشاں تھی جس سے ان اجلاسوں کی رونق تھی۔ یہاں میں نے اکثر بڑے بڑے نقادانِ ادب اور شعرا و ادبا کی تخلیقات پر احمد جاوید کی گہری تجزیاتی باتیں سنی تھیں اور بعض نامور ادیبوں کو ان کی نوکیلی تنقید سے زچ ہوتے بھی دیکھا تھا۔ اُن دنوں وہ بے گھری کی زندگی گزار رہے تھے۔ کبھی سلیم احمد کے گھر پر قیام تھا تو کبھی قمر جمیل کے عزیز آباد والے مکان پر۔ رات گئے تک جاری رہنے والی محفل کے بعد وہیں سو گئے۔ اپنی بے گھری اور تنہائی کے احساسات اُن کے اس زمانے کے اشعار میں بھی ملتے ہیں:
وہ بے کسی ہے کہ ہر ایک سے معاملہ ہے
وہ بے گھری ہے کہ ہم شہر بھر میں رہتے ہیں
ایسی تنہائی کا مداوا کیا
سات دریائوں میں اکیلی نائو
آئو سڑکوں پر ستاروں کو گنیں
جاتے ہو جاوید گھر کس کے لیے
علم کا شوق‘ مطالعے کا ذوق‘ نت نئی کتابوں تک رسائی کے لیے پبلک لائبریریوں اور ذاتی کتب خانوں کی تلاش‘ جو کچھ پڑھنا اس پر ادیب دوستوں سے تبادلۂ خیال کرنا‘ اپنے مطالعے اور فکر میں انہیں شریک کرنا‘ ان میں بھی مطالعے کی طلب پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ وہ اس زمانے میں بھی دوست باش تھے‘ دوستوں سے کوئی لمحہ خالی نہ گزرتا تھا‘ بلا کے ذہین‘ حاضر جواب‘ سنجیدگی کے ساتھ ساتھ ظرافت و طنز کا امتزاج‘ علمی موضوعات پر نکتہ سنجی‘ فلسفہ‘ مذہب‘ تصوف‘ ادب و تنقید کے تازہ ترین مسائل پر نکتہ آفرینی کا ایسا انداز کہ سننے والوں کی عقل بھی روشن ہو جائے۔
ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں تب بھی کچھ زیادہ جانتا نہ تھا‘ اس لیے کہ وہ اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی کی بابت باتیں کرتے ہی کب تھے۔ علمی و فکری مسائل سے فرصت ملتی تو شاید کچھ کر لیتے۔ یہی حال ان کے گہرے دوست و دانش ور سراج منیر مرحوم کا تھا۔ اس زمانے میں یہی دو نوجوان تھے جن سے یہ امید بزرگوں کو تھی کہ آگے چل کر انکا شمار ہمارے مشاہیر میں ہوگا۔ سراج منیر نے احمد جاوید کو بہ صدر اصرار لاہور بلایا تھا اور جب وہ لاہور آگئے‘ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کرکے اقبال اکادمی سے وابستہ ہو گئے تو کچھ عرصے بعد خود سراج منیر راہی ملکِ عدم ہو گئے۔ اس نقصان کا قلق ہم سب دوستوں کو تھا کہ سراج منیر میں اپنے تمام علم و فضل کے ساتھ بڑا انکسار‘ بہت محبوبیت پائی جاتی تھی لیکن جو صدمہ اور قلق احمد جاوید کو ہوا ہوگا‘ اس کا اندازہ شاید کسی کو نہ تھا کہ وہ اپنے دل کا حال اور کیفیت کسی پر کم ہی ظاہر کرتے تھے۔ ہاں ایک خط میں انہوں نے ایک بار جس انداز میں سراج منیر کے علم‘ ذہانت اور دوست نوازی کو سراہا تھا‘ اس سے ان کا دکھ چھلک چھلک پڑتا تھا۔ احباب میں اکثر یہ موضوع زیر بحث آتا کہ دونوں میں کس کا ذہن زیادہ براق اور کس کے علم میں گہرائی ہے۔ سراج منیر بہت عمدہ گفتگو کرتے تھے اور بولتے تھے تو علم و معلومات کا دریا بہا دیتے تھے۔ احمد جاوید کم بولتے تھے‘ مگر بہت سوچ کر‘ غورو فکر کے ساتھ نپے تلے اور فیصلہ کن انداز میں اظہار خیال کرتے تھے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ کم لفظوں میں زیادہ معنی سمو دینا اسی وقت ممکن ہے جب خیال کے جوہر پر توجہ مرتکز ہو۔ ہر دو دانش وروں میں دوستی کا واقعہ بھی دل چسپ ہے۔ دوستوں نے پہلے پہل اس غرض سے ان میں علمی مجادلہ کرایا کہ دیکھیں کون جیتتا ہے۔ فتح و شکست کا تو جانے کیا فیصلہ ہوا لیکن جاوید و سراج جو ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے‘ اس مجادلے کے بعد جگری دوست بن گئے۔
دین و مذہب سے احمد جاوید کی رغبت و محبت تو گویا ان کے خمیر میں رچی بسی تھی۔ اسلامی تاریخ‘ اسلامی فلسفہ‘ منطق‘ علم کلام‘ تصوف وغیرہ پر ان کے علم اور بصیرت پر حیرت ہی کی جاسکتی ہے۔ تصوف کی طرف عملاً مائل ہوئے تو آخر آخر ایک افغان صوفی بزرگ حضرت اخوندزادہ سیف الرحمن کے جو طریقت میں مقامِ بلند اور نہایت مضبوط توجہ کے حامل تھے‘ دست حق پرست پر مشرف بہ بعیت ہوئے۔ اس کے بعد ہی ان کی زندگی میں نمایاں تغیرات کے لامتناہی سلسلے کا آغاز ہوا۔ سلوک کی منزلوں میں جو مقامات طے کیے‘ ان کے احوال سے تو وہی واقف ہوں گے لیکن ادب و شاعری سے تعلق اور ربط و ضبط میں کوئی کمی نہ آئی۔ غزلیں پہلے بھی اپنے اسلوب و مضامین کے اعتبار سے منفرد ہوتی تھیں‘ لب و لہجے میں پختگی کے ساتھ ساتھ فکری گہرائی بھی تھی۔ حقیقت تو یہی ہے کہ جدید اردو غزل فی زمانہ چند مخصوص احساسات و جذبات کے تنگنائے اظہار میں قید ہو کر رہ گئی ہے۔ ’’فکر‘‘ اور ’’خیال‘‘ عناصر کا فقدان نہیں تو ان کا تناسب برائے نام رہ گیا ہے۔ احمد جاوید کی غزلوں میں مشکل ہی سے کوئی ایسا شعر تلاش کیا جاسکتا ہے جس میں شدتِ احساس کے ساتھ کوئی خیال یا فکر یا کوئی ٹھوس تجربہ نہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ جب سہیل عمر نے اپنے رسالے ’’روایت‘‘ میں پہلی مرتبہ ان کی پندرہ بیس غزلیں ایک ساتھ شائع کیں تو ملک کے علاوہ ہندوستان کا ادبی حلقہ بھی چونک پڑا۔ یہ غزلیں وہاں کے ادبی رسائل میں نقل کی گئیں۔
اقبال اکادمی سے قبل یافت کے لیے احمد جاوید کو نہایت غیر شاعرانہ ملازمتیں کرنی پڑی تھیں۔ اکادمی سے وابستگی کے بعد ان کو جم کر علمی کام کرنے کا موقع ملا۔ کمر کی تکلیف جو عرصہ پندرہ بیس برسوں سے ان کو لاحق رہی‘ لکھنے لکھانے میں یہ تکلیف مانع رہی۔ اس کی تلافی انہوں نے یوں کی کہ مضامین اور کتابیں املا (Dictate) کرائیں چنانچہ ان کی پانچ کتابیں اب تک چھپ چکی ہیں جب کہ تیس کے قریب کتابیں زیر طبع ہیں۔ علاوہ ازیں فلسفہ‘ تصوف‘ مذہب و شریعت‘ ادب و تنقید نیز مولانا روم‘ اقبال اور بیدل جیسے عظیم شعرا پر ان کی تقریریں اور گفتگوئیں بہ کثرت نیٹ پر دستیاب ہیں۔ ان کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا خصوصی فضل ہے کہ ایسی بصیرت ان کی تقریر و تحریر میں ملتی ہے کہ بڑے سے بڑا پے چیدہ علمی مسئلہ چند فقروں میں پانی ہو جاتا ہے۔
زیر نظر انٹرویو جو کئی نشستوں میں مکمل ہوا‘ دو موضوعات تک گفتگو کو محدود رکھا گیا۔ یعنی دین اور ادب کا اسحیا آج کس طرح ممکن ہے؟ یہی دو مرکزی موضوعات اس انٹرویو کے ہیں‘ باقی چند سوالات ان کی ذات‘ ان کے اساتذہ اور بعض متنازع امور کی بابت ہے جن کا تعلق بھی بہرحال ادبی معاملات سے ہے۔
اُن کے کوائف کے حوالے سے چند ایک ضروری معلومات جن کا بیان رہا جاتا ہے‘ یہ ہیں: آپ 18 نومبر 1955ء کو ہندوستان کے ضلع الٰہ آباد (یوپی) کے ایک گائوں سراواں میں پیداہوئے۔ آپ کے والد حسین امیر عثمانی (احمد جاوید کا خاندانی نام بھی جاوید امیر عثمانی ہے) انگریزی کے استاد تھے‘ مطالعے کے شائق اور ادب سے دل چسپی رکھتے تھے۔ والدہ کے مزاج میں بھی ادب سے لگائو تھا۔ جب اس خاندان نے سرواں سے کراچی کی طرف ہجرت کے لیے رختِ سفر باندھا تو احمد جاید کی عمر عزیزِ محض تین برس تھی۔ یہ خاندان شاہ فیصل کالونی میں مقیم ہوا‘ والد نے انگریزی زبان و ادب کی تدریس کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ ظاہر ہے اس سے کیا یافت ہو سکتی تھی۔ لہٰذا احمد جاوید کا بچپن علم و ادب سے گہری انسیت کے ساتھ روزگار کی چکی کی مشقت میں کٹا۔ اپنی افتادِ طبع کے برخلاف طرح طرح کے کام کیے۔ سائیکل رکشہ پر سلنڈر ڈھونے سے محکمۂ بہبود آبادی کی ملازمت تک‘ جو کمایا خون پسینہ ایک کرکے کمایا۔
احمد جاوید نے ابتدائی تعلیم جامعہ ملیر ملیر سے حاصل کی۔ گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول جیل روڈ سے میٹرک کیا پھر حضرت بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ اتنے مختلف مقامات اور مختلف النوع تعلیمی اداروں سے اسناد حاصل کرنے کا جواب اپنے مخصوص شگفتہ انداز میں یہ دیتے ہیں ’’جہاں امتحان میں آسانی سے کامیاب ہو جانے کی امید تھی‘ وہیں داخلہ لیا۔‘‘ انکسار اور عاجزی ویسے بھی ماضی کے برعکس اب طبیعت کا لازمی حصہ بن گئے ہیں۔ 1980ء لاہور منتقلی اور اقبال اکادمی سے وابستی کے بعد دسمبر 2015ء میں اکادمی سے بہ حیثیت ڈائریکٹر ریٹائر ہو گئے اور علم و ادب اور تصوف کے حوالے سے ذہن اور کردار سازی کی طرف متوجہ ہیں۔ گھر پر ذکر و فکر کی محفلیں بھی جمتی ہیں اور علمی کام بھی ہوتے ہیں۔ ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تقریباً تیس کتابوں میں چند کے نام درج ذیل ہیں:
01 آندھی کارجز (نثری نظموںکا مجموعہ)
-2 ترک رزائل (اصلاح اعمال و اخلاق سے متعلق ایک طویل مکالمہ)
-3 محی الدین ابن عربی: حیات و آثار (ڈاکٹر محسن جہانگیری کی فارسی کتاب کا ترجمہ جس میں سہیل عمر بھی شریکِ مترجم ہیں۔)
-4 تسبیلِ پیام مشرق۔
-5 تسبیلِ جاوید نامہ۔
-6 تھیوری کے مباحث (زیر طبع)
-7 اسلام کا ورلڈ ویو (زیر طبع)
-8 کسبِ فضائل (زیر طبع)
-9 کشفِ حقائق (زیر طبع)
-10 اردو کی کلاسیکی شاعری (گفتگو) (زیر طبع)
ایک زمانے میں ٹیلی ویژن کے دینی اور فکری پروگرام میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے بلکہ جیو کے پروڈیوسر‘ کالم نگار اور پروگرام ’’۵۰منٹ‘‘ کے اینکر عبدالرئوف کے ذہین صاحبزادے حمزہ کے ساتھ دل چسپ اور معلومات افزا گفتگو کا پروگرام ’’حمزہ نامہ‘‘ بھی ناظرین میں ان کے تعارف اور پزیرائی کا وسیلہ بنا۔ تاہم اب ٹیلی ویژن کے پروگراموں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے وجہ ان کے بیان کے مطابق ’’ٹی وی کی دنیا میں جانا زہریلے تالاب میں غواصی کا خطرہ مول لینا ہے۔‘‘
طاہر مسعود: آج مسلمانوں کی دینی حالت نہایت افسوس ناک اور ناگفتہ بہ ہے۔ جو بھی کلمہ گو مسلمان دین کی طرف عملاً مائل ہوتا ہے اور عملی مسلمان بننے کے لیے اپنا حلیہ‘ اپنی شکل و صورت اور اپنا رہن سہن سچے اور اچھے مسلمان کا بنانا چاہتا ہے‘ وہ معاشرے سے کٹ کر اجنبی ہو جاتا ہے۔ مسلم معاشرے اور اس کی ذات کے درمیان ایک مُغائرت اور اجنبیت کی صورت پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے دین پر سنت پر چلنا دن بہ دن دشوار اور کٹھن ہوتا جا رہا ہے‘ آپ کی رائے میں اس کی وجہ کیا ہے؟ اور کیا آپ کے خیال میں وقت نہیں آگیا کہ اجتہاد کے بند دروازوں کو کھول دیا جائے؟
احمد جاوید: یہ صورت حال جو آپ بیان کر رہے ہیں‘ اس سے مجھے صد فی صد اتفاق ہے۔ مذہبیت معاشرے میں اجنبیت اور مغائرت کا سبب بن چکی ہے۔ مذہبی زندگی اور دین داری کے بارے میں ہمارے جو مقبولِ عام تصورات ہیں‘ اس کے عملاً اختیار کر لینے کے نتیجے میں جو شخصیت وجود میں آتی ہے وہ مطلوبِ دین نہیں ہے‘ اس کے داخلی اسباب ہیں۔ اصل میں عقیدے کو شعور کا وہ مرکز نہیں بنایا جاسکا جس سے وابستہ رہ کر شعور اپنے تخیلات‘ نظریات‘ افکار وغیرہ کا نظام چلاتا ہے‘ یعنی عقیدہ ایک مجموعی تناظر کی طرح ہوتا ہے جس کی روشنی میں شعور عارضی یا مستقل فیصلے کرتا ہے اور ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہوا کہ عقیدہ اور شعور کے درمیان اس ناگزیر تعلق کی نوعیت اور اہمیت کو نہیں سمجھا گیا۔ ذہن اور دین کے تعلق کو بہت زیادہ سیکڑ دیا گیا جس کے نتیجے میں دینی علوم اور دنیاوی علوم میں ایک ناقابل عبور فاصلہ‘ ناقابل تطبیق دوری پیدا ہو گئی۔ اس کی وجہ سے ہمارے مذہبی ذہن ’’علم کیا ہے؟‘‘ کا جواب فراہم کرنے کے معاملے میں بے بس اور پس ماندہ ہو کر رہ گیا۔
اس المیہ صورت حال کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ہم دین اور اخلاق کے باہمی ربط اور اس کے نتائج کو سمجھنے اور پیدا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ اس وقت مذہبی اخلاق معروف اخلاق سے بہت کم تر‘ ان گھڑ محسوس ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان ایک کائنات ہے جس کو متوازن رکھنے والے قطبین علم اور اخلاق ہیں۔ ہم نے ان قطبین یعنی اسبابِ وجود کو بھیانک حد تک فراموش کر رکھا ہے۔ آج کے آدمی کی علمی نشوونما اور اخلاقی ترقی کے بے شمار مراحل میں کوئی ایک مرحلہ بھی دکھایا نہیں جاسکتا جو مذہبی رہنمائی میں طے کیا گیا ہو یا جہاں سرے سے مذہب کی کوئی ضرورت ہو۔ یہ ایک ایسی ہول ناک صورت حال ہے کہ انسان کو عالم گیر سطح پر اپنی ذہنی‘ اخلاقی‘ نفسیاتی اور جمالیاتی تکمیل کے لیے مذہب کی کوئی ضرورت نہیں رہی بلکہ اہلِ مغرب کا مجموعی ذہنی‘ اخلاقی اور جمالیاتی رویہ انسان کی وجودی پیش رفت میں رکاوٹ بنتا ہوا محسوس ہو رہا ہے تو اب یہاں اجتہاد کا جاری رہنا یا بند ہو جانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس طرح کے مسائل اپنی غفلت کے جواز سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اجتہاد جاری کرکے بھی وہی ہوگا جو اجتہاد بند کرکے ہو رہا ہے۔ ویسے ذاتی طور پر میں اجتہاد کے دروازے پر پڑنے والی دستکوں کو خطرناک سمجھتا ہوں۔ آج کل کے اکثر حامیانِ اجتہاد‘ دین سے کوئی سنجیدہ تعلق نہیں رکھتے اور خود نفسِ دین میں تبدیلی کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہماری ذہنی اور تہذیبی سطح کو دیکھتے ہوئے اگر مجتہدوںکی کھیپ بھی پیدا ہو جائے تو اس کا نتیجہ انتشار کی صورت میں نکلے گا۔
طاہر مسعود: تو ایسی صورت حال میں احیائے دین کی کیا صورت آپ کو نظر آتی ہے۔ یعنی وہ کیا طریقہ ہے جس سے دین عام مسلمانوں کی زندگیوں میں حقیقی معنوں میں جاری و ساری ہو جائے؟
احمد جاوید: احیائے دین کا کوئی امکان اخلاقی اور معاشرتی تناظر سے باہر نہیں ہے۔ ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے اس انتہائی بڑے مقصد کو ضرورت سے زیادہ سیاسی بنا دیا اور اس کی نفسیاتی‘ ذہنی اور تہذیبی ساخت پر کوئی توجہ نہیں دی۔ دین اگر باطن کا انقلاب نہ بنے تو باہر کی دنیا میں شور شرابے سے زیادہ کچھ پیدا نہیں کرسکتا۔ میرے خیال میں معروف معنوں میں‘ آفاقی مفہوم میں علم‘ اخلاق اور اہلیتِ کار میں ترقی کے بغیر دین کے اِحیا کا تصور ایک واہمہ ہے۔
طاہر مسعود: آپ نے ’’ہم‘‘ کا صیغہ استعمال کیا کہ ’’ہم سے غلطی یہ ہوئی‘‘ کیا یہاں ’’ہم‘‘ سے مراد علما ہیں؟
احمد جاوید: میں ’’علما‘‘ میں خود کو شامل نہیں سمجھتا اس لیے کہ میں عالمِ دین تو ہوں نہیں۔ یہاں ’’ہم‘‘ سے مراد مسلم اجتماعیت ہے جس میں تمام طبقات شامل ہیں جن علما بھی ہیں۔
طاہر مسعود: ایک رائے یہ ہے کہ علما نے عہد جدید میں دین کو اس طرح پیش نہیں کیا جس طرح پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ علما کی اکثریت نے معاشرے کے حقیقی مسائل کو مخاطب کرنے کے بجائے غیر اہم مسائل کو وجہ تنازع بنایا جس کی وجہ سے دین پُرکشش نہیں رہا۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر علما اپنے زمانے کے علوم پر دسترس حاصل کر لیتے تو شاید یہ صورت حال نہ ہوتی؟
احمد جاوید: اس معاملے میںعلما کی کچھ سمجھ میں آنے والی مجبوریاں ہیں۔ علمِ دین ایک اختصاصی شعبہ ہے اور ہر علم کے محققین کی طرح اپنے دائرہ علم سے باہر نکل کر کوئی اور مہارت حاصل کرنا تمام علما کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ وہ بہت بڑے عالم ہوتے ہیں اور ہر زمانے میں چند ہی ہوتے ہیں جو دینی اور دنیاوی علوم کا زندہ سنگم بنتے ہیں۔ علما سے اصل کوتاہی اخلاقی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے عمل سے اپنی شخصیت سے دین کو پُرکشش اور بدلتے ہوئے حالات میں مؤثر نہ بنا سکے۔ اچھائی کا اثر دلیل سے زیادہ ہوتا ہے۔ تہذیبوں میں تبدیلی کا یہ اصول ہے کہ تبدیلی نظری نہیں ہوتی‘ اخلاقی ہوتی ہے۔ عملِ خیر‘ علمِ خیر کے مقابلے زیادہ بااثر اور پھیلائو رکھتا ہے۔ علما اسی پہلو سے اپنے معاشرے میں عامۃ الناس کے لیے نمونہ نہ بن سکیں۔ یہ دنیا لینے کی شہرت کو قبول کر چکے ہیں اور دنیا دینے کا روّیہ ان کے اندر پنپ ہی نہ سکا جو انسانی اخلاقیات کا بنیادی جوہر ہے۔ ایک علمی کوتاہی تسلسل کے ساتھ علما میں نظر آتی ہے اور وہ ہے ان کا تصورِ علم‘ میری ناچیز رائے میں قرآن کا فہم‘ مخاطب ِ قرآن کو جانے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن جن حالات میں اپنی مرکزیت قائم کرتا ہے‘ ان حالات کے بارے میں بصیرت حاصل کرنا تنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کلماتِ قرآنی کا علم۔ اس کی وضاحت میں ایک جملہ عروض کروں گا: علم نام ہے کسی بات کی سیاق و سباق میں درست معنویت کا۔ یہ سیاق و سباق اصول میں مستقل ہوتا ہے یعنی قرآن اللہ کا کلام ہے‘ انسان اس کا مخاطب ہے‘ دنیا اس پر عمل کرنے کی جگہ ہے لیکن دوسرا سیاق و سباق متغیر ہوتا ہے یعنی قرآن کا مخاطب انسان اور قرآن کا مہبط یہ دنیا لامحالہ بدلتی رہتی ہے اور بدلتی رہے گی۔ اس نظری نظامِ تغیر کا لحاظ رکھے بغیر بلکہ اسے اپنے علم القرآن کا لازمی حصہ بنائے بغیر دینی عالم ہونے کا دعویٰ روا نہیں ہے۔ میرے خیال میں اس میں علما سے بڑھ کر ذمہ داری جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں پر جاتی ہے۔ یہ اپنے دین کے ساتھ مخلص ہوتے تو آج مسلمانوں کی حالت یہ نہ ہوتی۔ کبھی غور کیجیے کہ مسلمان علمی طور پر پس ماندہ ہیں‘ بالکل ٹھیک۔ لیکن اس علمی پس ماندگی کا بڑا سبب علما نہیں ہیں‘ جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہے۔ یہ بہت پس ماندہ ہے۔ اسی طرح مسلمان اخلاقی طور پر بہت کم تر ہیں۔ یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے لیکن اس اخلاقی کم تری کے مظاہر جدید تعلیم یافتہ طبقے میں روایتی طبقے سے زیادہ نظر آتی ہیں‘ حاصلِ کلام یہ ہے کہ دین کی ترجمانی کا نظام طبقاتی نہیں ہے۔ دین کے علمی اور اخلاقی آئیڈیلز کو حاصل کرنے کی کوشش میں علما کے تمام طبقات کو ہم کاری اور مقصدی کی کوشش میں ایک ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔
طاہر مسعود: آج کل معاشرے میں دین کے حوالے سے ظواہر پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں دین دار آدمی اُس کو سمجھا جاتا ہے جس کا ایک مخصوص گیٹ اَپ ہو۔ باطنی اوصاف کی حیثیت ثانوی ہو گئی ہے۔ آپ اس دینی روّیے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ بھی کہ اس میں دین کے حوالے سے کون کون سے ضرر رساں پہلو ہیں؟
احمد جاوید: اس وقت دین کے لیے ضرر کا اصل سامان وہ لوگ ہیں جو دین دار نظر آتے ہیں۔ ظواہر پرستی کی ایک ایسی لہر چلی ہوئی ہے جس میں دین کے اصل حقائق اور مقاصد بہہ گئے ہیں۔ اصل میں ہمارا نظامِ ترجیحات مسخ ہو کر رہ گیا ہے۔ ظواہر بھی ضروری ہیں مگر اسی طرح جیسے کسی پھل کا چھلکا۔ لیکن ایسی بدذوقی کا عام ہو جانا ناقابل فہم ہے کہ دینی دعوت و تربیت کے تقریباً ہر نظام میں یہ تو دیکھا جائے کہ داڑھی ہے کہ نہیں اور داڑھی ہے تو اس کا سائز کیا ہے‘ پائنچے ٹخنوں سے اوپر ہیں کہ نہیں اگر ہیں تو کتنے اوپر ہیں تو داڑھی کا جتنا سائز بڑھتا جائے گا اتنی ہی دینی فضیلت بڑھتی جائے گی اور جتنا پائنچے بلند ہوتے چلے جائیں گے اتنا دین داری کا مرتبہ بلند ہوتا جا ئے گا۔ یہ رویہ وہ جرثومۂ موت ہے جو امت کے جسد کو کھا چکا ہے۔ علما کی واقعی یہ ذمہ داری تھی اور ہے کہ وہ دین کے دیے ہوئے اوریجنل نظامِ ترجیحات کو زندہ رکھتے اور اسی کو مدارِ تعلیم و تربیت بناتے۔ یعنی ظواہر سے پہلے یہ دیکھنا کہ دل میں حسد تو نہیں‘ خود پسند