’’ہاں‘ اگر ہوسکے تو آپ ان معزز رومیوں کو بلاوجہ کوئی تکلیف نہ دیں۔ یہ قیصر کی طرف سے صلح کا پیغام لے کر آئے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ کسریٰ کو صلح اور امن کی اہمیت محسوس کرنے میں زیادہ دیر نہ لگے‘‘۔
افسر نے جواب دیا۔ ’’میں تمہیں صرف یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ کسریٰ کے حکم کے بغیر ان لوگوں کا بال تک بیکا نہیں ہوگا لیکن شرط یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھاگنے کی کوشش نہ کرے‘‘۔
عاصم نے احسان مندی سے ایرانی افسر کی طرف دیکھا اور سپاہیوں کے پہرے میں وہاں سے چل دیا۔
عاصم پانچ دن سے دست گرد کے قلعہ نما قید خانے کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں پڑا ہوا تھا اور خوف و اضطراب کے یہ ایام اسے مہینوں اور برسوں سے زیادہ طویل محسوس ہوتے تھے، یہ قید خانہ سیکڑوں زندہ انسانوں کا قبرستان تھا۔ اور یہاں کئی لوگ ایسے تھے جو طویل قید کی صعوبتوں کے باعث ذہنی توازن سے محروم ہوچکے تھے اور عاصم آس پاس کی کوٹھڑیوں سے ان کے مہیب قہقہے اور روح فرسا چیخیں سنا کرتا تھا، اپنی زندگی کے بدترین ادوار میں بھی اس نے اُمید کا دامن نہیں چھوڑا تھا لیکن اب وہ سارے چراغ جو اس نے اپنے آنسوئوں سے روشن کیے تھے بجھ چکے تھے۔ وہ اپنے ماضی کی ساری پونجی اس قید خانے سے باہر چھوڑ آیا تھا اور مستقبل کے متعلق اس کے حوصلے اور ولولے اس کوٹھڑی کی چار دیواری کے اندر محبوس ہو کر رہ گئے تھے۔ ماضی کے جن ناہموار راستوں پر اس نے اپنے پائوں کے نشان چھوڑے تھے وہ سب اس جگہ پہنچ کر ختم ہوجاتے تھے۔ کبھی کبھی چند لمحات کے لیے اس کی بے چین روح ہزاروں میل دور ان حسین اور دل کش نخلستانوں، وادیوں اور میدانوں کے طواف کرتی جہاں سرمست ہوائیں آزادی کے گیت گاتی تھیں، درخت جھومتے اور پھول کھلتے تھے لیکن اچانک اس کوٹھڑی کی دیواریں اس کی نگاہوں کے سامنے حائل ہوجاتیں اور وہ دنیا جس پر سورج اپنے نور کے خزانے لٹاتا تھا جسے چاند کی ضیاپاشیاں دلکشی اور ایک وہم محسوس ہونے لگتا تھا۔ پھر جب اُس کا دم گھٹنے لگتا تو وہ اُٹھ کر تنگ چاردیواری کے اندر ٹہلنا شروع کردیتا۔
آس پاس کی کوٹھڑیوں سے اُسے کسی کا مہیب قہقہہ یا کسی کی بھیانک چیخ سنائی دیتی اور وہ نڈھال سا ہو کر بیٹھ جاتا۔
’’کیا میں زندہ رہوں گا! کیا زندگی یہی ہے! کیا میرے لیے اس سے بہتر موت نہیں ہوسکتی تھی! آخر میں یہاں کیوں آیا تھا؟ جب تک مجھے سین کے قتل کی اطلاع نہیں ملی تھی مجھے یہ اطمینان تھا کہ میں کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے رہا ہوں، لیکن اب مجھے یہ ساری باتیں ایک مذاق معلوم ہوتی ہیں۔ میں ایک ایک قدم چل کر اپنی تباہی کی آخری منزل تک پہنچا ہوں۔ آخر روم اور ایران کی جنگ یا صلح سے میرا کیا تعلق تھا! میں نے یہ کیوں سوچا کہ میں اس دُنیا کی ساری مصیبتوں کا علاج کرسکتا ہوں! یہ میرے بس کی بات نہیں اور سین کو بھی اس بات کا یقین تھا کہ روم اور ایران میں مصالحت کرانا اس کے بس کی بات نہیں۔ خلقدون سے روانہ ہوتے وقت اس کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ موت کے دروازے پر دستک دینے جارہا ہے، وہ کون سا جذبہ تھا جو اسے یہاں تک لے آیا تھا؟ اس کے پاس نہ آتا، اگر صلح کا ایلچی بننے پر اسے آمادہ نہ کرتا تو یہ حالات کیوں پیدا ہوتے!!‘‘
پھر انتہائی کرب کی حالت میں وہ اپنی مٹھیاں بھینچ کر چلایا۔ ’’میں سین کا قاتل ہوں۔ میں نے اسے وہ منزل دکھائی تھی جہاں موت اس کا انتظار کررہی تھی۔ لیکن مجھے کیا کرنا چاہیے تھا۔ میں کیا کرسکتا تھا!‘‘
جب ذہنی اذیت ناقابل برداشت ہوجاتی تو پھر ایک بار تصورات کی دنیا میں کوئی جائے پناہ تلاش کرتا۔ اس کی روح خلقدون کے قلعے کا طواف کرنے لگتی۔ فسطینہ کسی گوشے سے نمودار ہوتی اور سراپا عجز و انکسار بن کر کہتا۔ ’’فسطینہ میں تمہارا مجرم ہوں، کاش میں تمہارے باپ کو دست گرد جانے کا مشورہ نہ دیتا۔ مجھے معاف کردو فسطینہ میری طرف دیکھو، اس دنیا میں تمہارے سوا میرا کوئی نہیں۔ میں سب کچھ کھو چکا ہوں۔ لیکن تم میری ہو۔ تم میری ہو۔ اب میں روم اور ایران کی بجائے صرف تمہارے متعلق سوچوں گا۔ فسطینہ مجھے معاف کردو۔ میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ میں تمہاری سسکیاں نہیں سن سکتا‘‘۔
پھر جب اس کی آواز چیخوں میں تبدیل ہونے لگتی تو وہ دہشت زدہ ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا، اس کے خیالات کا تسلسل ٹوٹ جاتا اور حسین سپنوں کے موتی بکھر جاتے۔ باہر کی دنیا پھر ایک بار کوٹھڑی میں دیواروں کے ادھر روپوش ہوجاتی۔ لیکن کچھ دیر بعد اسے پھر یہ محسوس ہونے لگتا کہ فسطینہ اس کی روح کی گہرائیوں سے نکل کر ایک بھیانک خلا کو پُر کر رہی ہے اور اس کے آنسو اور اس کی مسکراہٹیں اس کے دل میں زندہ رہنے کی خواہش بیدار کررہے ہیں‘‘۔
ہر روز ایک بار اُس کی کوٹھڑی کا دروازہ کھلتا اور پہریدار عاصم کو کھانا اور پانی دے کر چلے جاتے۔ شروع کے دو دن اس نے کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ لیکن تیسرے دن قید خانے کا ایک افسر اس کے پاس آیا۔ اور اس نے کہا۔ ’’ہمیں تورج کا حکم ہے کہ تمہیں یہاں کوئی تکلیف نہ دی جائے اور ہم نے تمہارے لیے عام قیدیوں سے بہتر خوراک کا انتظام کیا تھا۔ لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم کھانے کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ یہاں فاقہ کشی سے صرف وہ قیدی مرنے کی کوشش کرتے ہیں جو چاروں طرف سے مایوس ہوچکے ہوں۔ اگر تورج جیسے لوگ تمہارے ہمدرد ہیں تو تمہیں اس قدر مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ جو شخص سین کا ساتھی رہ چکا ہو اسے اس قدر بددلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ فوج میں سین کے بے شمار ساتھی تمہاری رہائی کی کوشش کریں گے۔ اگر تم اس دنیا کی تمام دلچسپیوں سے منہ نہیں موڑ لیا تو تمہیں زندہ رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کسریٰ کو اپنی رائے تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ ہم نے کئی وزیروں اور سپہ سالاروں کو تختہ دار پر لٹکتے دیکھا ہے اور کئی خوش نصیب قیدیوں پر انعامات کی بارش ہوتے دیکھی ہے‘‘۔
عاصم نے ملجتی ہو کر کہا۔ ’’آپ تورج کو میرا یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’میں تورج کو تمہارا پیغام پہنچادوں گا۔ لیکن موجودہ حالات میں شاید وہ کھلے بندوں تم سے ملاقات نہ کرسکیں۔ شاید تم کو چند ہفتے یا چند مہینے انتظار کرنا پڑے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی دن وہ تمہاری رہائی کا حکم لے کر یہاں پہنچ جائیں‘‘۔
قیدخانے کا افسر عاصم کے ظلمت کدہ میں اُمید کی ہلکی سی روشنی چھوڑ کر چلا گیا۔ چنانچہ اس نے پہلی بار پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور دیوار سے ٹیک لگا کر اپنی رہائی کی تدبیریں سوچنے لگا۔
چھٹے روز چار مسلح پہریداروں نے عاصم کو اس کی کوٹھڑی سے نکالا اور قید خانے کے داروغہ کی قیام گاہ کے ایک کشادہ کمرے میں لے گئے۔ وہاں داروغہ کے علاوہ تورج اور ایک عمر رسیدہ آدمی جو اپنے لباس سے ایران کے طبقہ اعلیٰ کی نمائندگی کرتا تھا، اس کے منتظر تھے۔
تورج نے پہریداروں کو ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔ پھر وہ عاصم کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’تم ایرج کو اچھی طرح جانتے ہو؟‘‘
جی ہاں، وہ سین کے کسی دوست یا رشتہ دار کا بیٹا تھا اور میں اس سے کئی بار ملا تھا‘‘۔
’’تمہیں معلوم ہے کہ وہ قتل ہوچکا ہے؟‘‘
جی ہاں، وہ آوار کے ہاتھوں میری آنکھوں کے سامنے قتل ہوا تھا‘‘۔
تورج نے بوڑھے آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ایرج کے والد ہیں اور اپنے بیٹے کے قتل کی افواہ سننے کے بعد مدائن سے یہاں پہنچے ہیں‘‘۔
عاصم نے بوڑھے سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’مرتے وقت آپ کے بیٹے کا سر میری گود میں تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس کی جان نہ بچا سکا‘‘۔
بوڑھا کچھ دیر کرب کے عالم میں عاصم کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اس نے سنبھلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’ایرج نے مجھے بتایا تھا سین کے گھر میں ایک عرب کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ پھر شاید تم حبشہ کی مہم پر چلے گئے تھے اور اس کے بعد لاپتا ہوگئے تھے۔ اگر تم وہی ہو تو میں تمہاری اطلاع پر یقین کرسکتا ہوں۔ لیکن اگر میرے بیٹے کو سیتھین لوگوں نے قتل کیا تھا تو تم وہاں کیسے پہنچ گئے تھے؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’یہ ایک طویل داستان ہے، میں حبشہ کے راستے میں زخمی ہوگیا تھا۔ اور میرے ساتھی مجھے سخت بخار کی حالت میں پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ پھر جب میں بے ہوش تھا تو ایک رومی غلام اور قبطی ملاح مجھے بابلیون پہنچانے کی بجائے دریائے نیل کے راستے سمندر تک لے گئے اور وہاں سے مجھے ایک رومی جہاز پر سوار کراکے قسطنطنیہ پہنچادیا گیا۔ یہ رومی غلام ایک نہایت بااثر خاندان کا چشم و چراغ تھا اور قسطنطنیہ میں میرے ساتھ کا برتائو نہایت فیاضانہ تھا۔ قسطنطنیہ سے مجھے اس کے ساتھ اس شہر میں جانا پڑا جہاں قیصر اور آوار قبائل کے خاقان کی دوستانہ ملاقات ہونے والی تھی۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ اس جگہ ایرج کے ساتھ میری آخری ملاقات ہوگی‘‘۔
بوڑھے نے کہا۔ ’’لیکن تم کہتے ہو کہ میرا بیٹا آوار کے ہاتھوں قتل ہوا ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔ وہ قیصر پر اچانک حملہ کرنے کی نیت سے وہاں جمع ہوئے تھے۔ لیکن رومیوں پر حملہ کرنے سے پہلے انہوں نے آپ کے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘۔
’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے۔ ایرج خاقان کے پاس ایک ایلچی کی حیثیت سے گیا تھا۔ اس کا کوئی ساتھی بھی واپس نہیں آیا‘‘۔
میں نے وہاں کسی اور ایرانی کو نہیں دیکھا، ممکن ہے کہ وہ ایرج سے پہلے قتل کیے جاچکے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ابھی تک خاقان کی قید میں ہوں۔ وحشی آوار کے ضابطہ اخلاق میں ایک ایلچی کو موت کے گھاٹ اتار دینا ایک معمولی بات ہے۔ اگر سین جیسے آدمی کو اس جرم میں قتل کیا جاسکتا ہے کہ وہ قیصر کے ایلچیوں کو کسریٰ کی شرائط پر صلح کے لیے آمادہ کرنے یہاں لے آیا تھا تو آوار نے ایرج کو قتل کرنے کا بھی کوئی جواز نکال لیا ہوگا۔ ممکن ہے کہ انہیں ایرج کی کسی بات پر شبہ ہوگیا ہو‘‘۔
عاصم کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ اگر اس نے ایرج کے ساتھ اپنی ملاقات کی تفصیلات ظاہر کرنے کی کوشش کی تو یہ مسئلہ زیادہ الجھ جائے گا۔ اور اس پر طرح طرح کے شبہات کیے جائیں گے۔ (جاری ہے)