حضرت عبداللہ بن ابی اوفٰیؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوئہ احزاب میں دعا مانگی: اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ، سَرِیعَ الْحِسَابِ ، اَللّٰھُمَّ اھْزِمُھُمْ وَزَلْزِلُھُمْ (بخاری، کتاب الجہاد، حدیث ۲۹۳۳) ’’اے اللہ! کتاب نازل فرمانے والے، جلدی حساب لینے والے، اے اللہ انھیں شکست سے دوچار فرما اور انھیں ہلا ڈال‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سمیت سخت جاڑے اور بھوک کی حالت میں غزوئہ احزاب کے موقعے پر جہاد میں حصہ لیا۔ اس وقت آپؐ نے اس بے چارگی کی حالت میں دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی، تیز آندھی چلا دی جس نے کفارِ قریش کے خیمے اُلٹ دیے اور وہ شکست سے دوچار ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ آج بھی کفار کے مقابلے میں سینہ سپر ہوکر مقابلہ کرنے والوں کا بڑا ہتھیار دعا ہے۔ دعا کرنے والے کو مایوسی نہیں ہوتی بشرطیکہ دعا کے ساتھ عمل بھی ہو۔ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ (الفاطر۳۵:۱۰)۔ ’’اسی کی طرف پاکیزہ کلمے چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو اٹھاتا ہے‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں تشریف لائے اور کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَ اِنَّـآ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ بِکُمْ لاَحِقُوْنَ، ’’اے مومنین و مسلمین کے گھر والو! تم پر سلام ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ بہت جلد تم سے آ ملنے والے ہیں‘‘۔ پھر فرمایا: میری آرزو ہے کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو دیکھا ہوتا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: تم میرے ساتھی ہو، ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپ کیسے پہچانیں گے اپنی اُمت کے ان لوگوں کو جو ابھی نہیں آئے؟ آپؐ نے فرمایا: یہ بتلائو اگر ایک آدمی ایسا ہے کہ اس کے گھوڑے کی پیشانی اور پائوں پر سفید داغ ہوں اور وہ ان گھوڑوں میں ہوں جو کالے کلوٹے ہوں توو ہ اپنے گھوڑوںکو نہیں پہچان سکے گا؟ صحابہؓ نے کہا: کیوں نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: میری اُمت کے لوگ قیامت کے روز آئیں گے کہ ان کی پیشانیاں اور پائوں وضو کے آثار سے چمک رہے ہوں گے، میں حوضِ کوثر پر ان کے منتظم کے طور پر آگے موجود ہوںگا۔ سنو! کچھ لوگوں کو میرے حوض سے دفع کیا جائے گا جس طرح گم شدہ اُونٹ کو حوض سے ہٹایا جاتا ہے۔ میں انھیں پکاروںگا: لوگو! آجائو، تو جواب میں کہا جائے گا کہ انھوں نے آپؐ کے بعد دین میں تبدیلی کر دی تھی۔ (مسلم، کتاب الطہارہ، حدیث ۵۸۴)
قیامت کے روز وضو کے آثار سے اعضاے وضو میں چمک دمک ہوگی اور اعضاے وضو کی چمک دمک کو دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کو اپنے حوض پر بلائیں گے لیکن وہ لوگ جو دین میں تبدیلی کے مرتکب ہوں گے وہ حوضِ کوثر کے ٹھنڈے اور میٹھے جاموں سے محروم ہوں گے۔ نماز اور وضو کی برکت اپنی جگہ برحق ہے لیکن دین میں تبدیلیوں کا جرم ان برکتوں کے اثرات میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہوجائے گا۔ دین میں تبدیلیوں کے اس جرم کی راہ کو روکنا ضروری ہے، چاہے انفرادی سطح پر ہو یا حکومتی سطح پر۔ حکومتی سطح پر دین کی شکل کو بگاڑنے کی جو مذموم کوشش ہو رہی ہے اسے روکنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سمیٹا، میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھا اور میری اُمت کا اقتدار ان تمام علاقوں تک پہنچے گا جو مجھے دکھلائے گئے اور مجھے دونوں خزانے سرخ اور سفید (سونا چاندی) دیے گئے اور میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری اُمت کو قحط سالی سے نہ ہلاک کرے اور ان پر ان کے غیر کو مسلط نہ کرے کہ ان کی اجتماعیت کو منتشر کر دے، اگرچہ وہ تمام روے زمین سے مل کر حملہ آور ہوں۔ میرے یہ سوال مان لیے گئے، البتہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک اور قید کریں گے۔ (مسلم، حدیث ۷۲۵۸)
یہ حدیث اُمت مسلمہ کے لیے اُمید کی ایک کرن ہے۔ کفار ساری دنیا سے آج اُمت مسلمہ پر حملہ آور ہیں لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ عالمِ اسلام پر مستقل طور پر ان کا تسلط نہ ہوسکے گا، البتہ وقتی طور پر وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں گے لیکن آخری فتح اسلام اور اہلِ اسلام کو حاصل ہوگی۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ کفار کے مقابلے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے۔ فکری اور عسکری دونوں محاذوں پر صف بندی کی جائے۔ ان شاء اللہ کفار اپنے عبرت ناک انجام سے دوچار ہوں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فلاں آدمی کی طرح نہ ہوجانا۔ وہ رات کو قیام کرتا تھا، پھر چھوڑ دیا۔ (نسائی، حدیث ۱۷۶۴)
جو عمل مسلسل ہو وہ خصوصی اثر رکھتا ہے۔ وہ تسلسل کی وجہ سے زیادہ بھی ہوجاتا ہے اور مداومت کی وجہ سے اس میں پختگی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی دنیاوی برکات و منافع بھی زیادہ ہوتے ہیں اور اجر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تہجد کی طرح باقی امور خیر کا بھی یہی حکم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہتر عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے (یعنی مستقل کیا جائے) اگرچہ وہ تھوڑا ہو‘‘۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے۔ آپؓ کے پاس ایک عورت تھی۔ آپؐ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ انھوں نے جواب دیا: فلاں عورت ہے، اس کی نماز کا چرچا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اتنا عمل کرو جس کی تم طاقت رکھو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں اُکتائیں گے لیکن تم اُکتا جائو گے۔ اور فرمایا: تمام طریقوں سے زیادہ محبوب طریقہ اللہ کے نزدیک وہ ہے جس پر آدمی مداومت کرے۔ (نسائی، حدیث ۵۰۳۸)
نماز اور تمام عبادات کے سلسلے میں اس اصول کی پابندی کی جائے تو اس کے نتیجے میں آدمی زیادہ عبادت گزار ہوجاتا ہے۔
حضرت ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ کی عبادت کرتے ہوئے آیا درآں حالیکہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی اور کبائر سے بچا، اس کے لیے جنت ہے۔ صحابہؓ نے کبائر کے متعلق پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: شرک باللہ، مسلمان کو قتل کرنا اور میدانِ جنگ سے بھاگنا۔ (نسائی، حدیث ۴۰۱۴)
حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص فرائض ادا کرے اورمنکرات اور کبائر سے بچے، اس کے لیے جنت ہے۔ چند کبائر کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ نمونہ فرمایا۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمھیں نہ پائوں کہ میرے بعد کافر بن جائو، ایک دوسرے کی گردنیں اُڑانے لگو، آدمی کو اس کے باپ کے جرم اور بھائی کے جرم میں نہ پکڑا جائے گا۔ (نسائی، حدیث ۴۱۳۴)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد حجۃ الوداع کے موقعے پر تھا۔ اس حکم کی اہمیت کی خاطر اسے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا گیا۔ آج اس حکم کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ حجۃ الوداع کی اس وصیت کو اپنا نصب العین بنا کر اس کی تعمیل کرنا چاہیے اور اس کی خاطر اجتماعی کوشش کرنا چاہیے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے اُوپر اسلحہ لہرایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (ابن ماجہ، ۲۵۷۷)
مسلمان کے خلاف اسلحہ لے کر نکلنا ایمان اور اسلام کے منافی ہے۔ جو مسلمان ہوگا وہ مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے گا۔ اس کا خون گرانے کے درپے نہ ہوگا۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبح کے وقت تھوڑی دیر کے لیے فی سبیل اللہ نکلنا، اور شام کے وقت تھوڑی دیر کے لیے فی سبیل اللہ نکلنا، دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الجہاد، حدیث ۲۷۵۷)
یہ فضیلت قتال فی سبیل اللہ اور دعوت الی اللہ دونوں کو شامل ہے۔ اقامت دین کی جو جدوجہد کی جائے وہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگی۔ اس لیے کہ اس کے عوض میں جنت ملے گی جو دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔