میری نسل کے ادھیڑ عمر لوگوں میں 65ء کی پاک بھارت جنگ کسے یاد نہ ہوگی۔ شجاعت اور حب الوطنی کے ایسے انوکھے اور ایمان پرور جذبات سے پاکستانی قوم پھر آشنا نہ ہو سکی۔ سترہ روز کی جنگ میں پورے ملک میں اغو‘ ڈکیتی‘ زنا بالجبر‘ دھوکا دہی‘ مار پیٹ‘ دنگا فساد‘ شراب نوشی‘ قتل و غارت گری حتیٰ کہ معمولی چوری چکاری کا ایک واقعہ بھی رپورٹ نہ ہوا۔ پوری قوم کی توجہ اپنی بقا پر مرکوز ہو گئی کہ اس کا مقابلہ اپنی سے چھ گنا بڑی طاقت سے تھا۔ پاکستانی قوم علامہ اقبال کے الفاظ میں معجزاتی طور پر مردِ مومن کے روپ میں یکایک ڈھل گئی تھی جو میدانِ جنگ میں بے تیغ لڑنے کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہتا ہے۔ مشہور ہے کہ لاہور کی فضائوں میں بھارتی طیارے نمودار ہوتے تھے تو زندہ دلانِ لاہور لاٹھیاں اور ڈنڈے لیے طیاروں کے پیچھے بھاگتے تھے۔ کھدی ہوئی خندقیں منہ پھاڑی بم بار طیاروںکے پیچھے دیوانہ وار دوڑتے لاہوریوں کو دیکھتی تھی‘ حیران رہ جاتی تھیں۔ قوتِ ایمانی ایسی پیدا ہو گئی تھی کہ ’’تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے‘‘ کا سماں سارے ملک میں چھا گیا تھا۔
’’بھارت کو نہیں معلوم کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ یہ دس کروڑ مسلمان جن کے سینوں میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمات گونجتے ہیں‘ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک دشمن فوج کے توپوں کے دہانے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہو جائیں۔‘‘
الطاف گوہر کی لکھی جذبات میں ڈوبی ہوئی انگریزی تقریر جسے ریڈیو کے انصار ناصری نے اردوئے مبین کا جامہ پہنایا تھا‘ صدر ایوب کی بھاری گونج دار آواز میں ریڈیو کی صوتی لہروں کے ذریعے گھروں‘ دکانوں اور بازاروں تک پہنچ کر عوام پر جادو اثر ثابت ہوئی تھی۔ ایسی کہ جیسے نیند کے ماتوں کو خوابِ غفلت سے جگا دے۔ ریڈیو سے نور جہاں‘ مہدی حسن‘ نسیم بیگم اور دیگر گلوگاروں نے شاعروں کے لکھے ہوئے ملّی نغمے ایسی پرسوز آواز میں گائے کہ پانی میں آگ لگ جائے۔
اے وطن کے سجیلے جوانو
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
٭
اپنی جاں نذر کرو اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
٭
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
صوفی تبسم‘ جمیل الدین عالی‘ مسرور انور اور بہت سے شاعروں نے اپنے وطن سے محبت کے جذبات کو شعروں میں ایسا پرو دیا کہ جنوبی ایشیا میں تخلیق ہونے والے وطنی ادب میں جس کی کوئی مثال ڈھونڈے سے نہ ملے گی۔
اُدھر سرحد پر ہمارے فوجی جوان سینوں پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کی پیش قدمی روک چکے تھے۔ ایم ایم عالم جیسے اسکوارڈن لیدڑ چند سیکنڈ میں پانچ حملہ آور بھارتی طیاروں کو تن تنہا تباہ کرکے حیران کن عالمی ریکارڈ قائم کرچکے تھے۔
مگر 65ء کی یہ جواں مردی 71ء میں دیکھنے میں نہ آئی۔ شاید اس لیے کہ تب ہم جارحیت کا شکار ہوئے تھے اور اب ہم نے اپنی حماقت‘ نالائقی اور بے بصیرتی سے خود اپنے ہم وطن بنگالیوں کے خلاف جارحیت کے مرتکب اور جوابی جارحیت کو دعوت دے دی تھی جس کا خمیازہ وطنِ عزیز کے دو ٹکڑے ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
65ء اور 71ء کی یہ کہانیاں سننے کے لیے ہم نے ائروائس مارشل (ر) محمود اختر سے رابطہ کیا۔ وہ ان دونوں جنگوں کے ہیرو ہیں۔ ان کی شجاعت و بہادری پر انہیں ہلال امتیاز ملٹری‘ ستارہ امتیاز ملٹری اور ستارہ بسالت (مکرّر) مل چکے ہیں۔ وہ ڈپٹی چیف آف ائر اسٹاف اور ڈی جی سی اے اے رہ چکے ہیں۔ پاک فضائیہ کی جب تاریخ مرتب کی گئی تو اس کتاب میں ان کے کارناموں کو ان الفاظ میں یاد کیا گیا:
’’ونگ کمانڈر محمود اختر جی 57 طیاروں کے ایک علیحدہ عنصر کے سربراہ تھے۔ ابتدائے جنگ ہی سے اپنی شاندار کارکردگی کے باعث وہ اپنے حملے کے لیے عمدہ تحریک کا ذیرہ بن گئے۔ پُر خطر اور صبر آزما لمحات میں ان کی ذاتی مثال اور جرأت شک و شبہ سے بالا تھی۔ وہ ضابطوں کی پروا کیے بغیر ہمیشہ مشکل مشنوں میں شرکت کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے تھے۔ یوں انہوں نے بار بار ثابت کر دکھایا کہ پیشہ وارانہ اہلیت اور پختگی ٔ عزم کے فقدان کی تلافی کسی طور بھی ممکن نہیں۔ ان کی ذاتی کاوش‘ خوش طبعی اور بلند حوصلگی نے انتہائی مشکل حالات میں بھی قوت کے شیرازے کو بکھرنے نہیں دیا۔ ذاتی حفاظت سے بے نیاز ہو کر وہ بار بار بیس پر حملہ آور دشمن کے خلاف کارروائیوں میں شریک ہوئے۔ حالاں کہ وہ باآسانی ایسی کارروائیوں سے گریز کر سکتے تھے۔ چناں چہ غیر معمولی جرأت‘ شان دار قیادت اور اعلیٰ نظم کے اوصاف کی بنا پر انہیں دوبارہ ستارہ بسالت کا حق دار قرار دیا جاتا ہے۔‘‘
طاہر مسعود: محمود اختر صاحب! آپ قوم کے ہیرو ہیں‘ آپ نے 65ء اور 71 ء کی جنگ میں شان دار خدمات انجام دی ہیں جس پر آپ کو قوم نے اعزازات سے نوازا ہے۔ اب آپ ایک گم نام زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا آپ ہمارے قارئین کو اپنے اور اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟
محمود اختر: سیال کوٹ چھائونی کے نزدیک ایک گائوں ہے۔ یہ سیدّوں کا گائوں ہے۔ میں اسی گائوں میں 2 فروری 1934ء کو پیدا ہوا۔ میرے والد مرحوم سید محمد اکبر شاہ تقسیم سے پہلے محکمہ پولیس میں تھے۔ میں چار بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے والد مرحوم کے ساتھ رہا اور جہاں بھی ان کی پوسٹنگ ہوتی تھی ان ہی شہروں میں‘ میں نے تعلیم پائی۔ مارچ 1946ء میں وہ گائوں واپس آئے اور اگلے ہی ماہ ان کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد 1951ء تک میں نے سیال کوٹ ہی میں تعلیم حاصل کی۔ سب سے پہلے میں نے اسکاچ مشن ہائی اسکول سیال کوٹ میں پڑھا۔ اس کے بعد میں نے اسی اسکول سے میٹرک سائنس میں فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ پھر میں نے مرے کالج میں پری میڈیکل گروپ جوائن کیا۔ اسی دوران پاکستان ائر فورس کی ایک ٹیم کالج میں آئی جس کا مقصد یہ تھا کہ کالج کے لڑکوں کو پاک فضائیہ میں بھرتی ہونے کی ترغیب دلائے۔
طاہر مسعود: آپ نے بتایا کہ قائداعظم آپ کے بڑے بھائی اور ان کے رفقا کی دعوت پر سیال کوٹ تشریف لائے‘ اس کی کچھ تفصیل بتائیں۔
محمود اختر: میرے پھوپھی زاد بھائی سید مرید حسین شاہ تھے‘ میرے والد کی ایک ہی ہمشیرہ تھیں۔ وہ بچے کی پیدائش کے وقت اللہ کو پیاری ہوگئیں تو ان کے بیٹے کو میرے والد نے اٹھا کر میری والدہ کی گود میں ڈال دیا۔ تو وہ ہمارے سب سے بڑے بھائی بن گئے۔ میرے والد نے ان کی پرورش کی‘ ان کو وکالت کی تعلیم دلائی اور ہم سب سے کہا کہ سید مرید حسین شاہ میرے جانشین ہیں اور میرے بعد اس گھر کے سربراہ ہیں اور ان کی شادی میری سب سے بڑی ہمشیرہ کے ساتھ ہوئی۔ سید مرید حسین شاہ نے وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سیال کوٹ میں وکالت شروع کی‘ وہ اس وقت صدر ضلع مسلم لیگ تھے اور اپنی خدمات کی وجہ سے قائداعظم انہیں جانتے تھے۔ انہوں نے قائداعظم کو سیال کوٹ کے دورے کی دعوت دی جسے قائد اعظم نے قبول کر لیا اور وہ سیال کوٹ چار روز کے لیے تشریف لائے۔ حالاں کہ سیال کوٹ میں ہندوئوں کی خاصی تعداد تھی لیکن قائد اعظم کی آمد پر شہر میں جلسہ ہوا جو بہت کامیاب رہا۔ یہ واقعہ ہمارے خاندان کے لیے بہت بڑا اثاثہ ہے۔ میں اس وقت سات سال کا تھا اس لیے یہ واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔
طاہر مسعود: آپ بتا رہے تھے کہ پاک فضائیہ کے لوگ آپ کے کالج میں آئے تھے۔ کیا آپ نے ان ہی کی ترغیب سے متاثر ہو کر ائر فورس جوائن کیا؟
محمود اختر: میں تو پری میڈیکل گروپ میں تھا اور میرے گھر والوں کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں مگر میں مرے کالج میں پہلا پری میڈیکل گروپ کا طالب علم تھا جو یونین کا جنرل سیکرٹری بنا۔ اس سلسلے میں جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ائر فورس کی ایک ٹیم کالج میں آئی تھی جس کے لیڈر ونگ کمانڈ ایس آئی آر بخاری صاحب تھے۔ سردیوں کے دن تھے اور انہوں نے فضائیہ کی نیلی وردی پہنی ہوئی تھی اور ان کے سینے پر ونگ اور تمغے آویزاں تھے۔ کالج کی طرف سے میں نے اس ٹیم کا تعارف طالب علموں سے کرایا۔ جب ونگ کمانڈر صاحب تقریر کر رہے تھے تو میں نے انہیں غور سے دیکھا تو ان کی وردی اور ونگ بہت اچھے لگے۔ مجھے خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا کر دے کہ میں بھی فضائیہ میں چلا جائوں تو یہ میرے لیے فخر کی بات ہوگی۔ جب میں نے ایف ایس سی پری میڈیکل امتحان دے دیا تو ایک اور سینئر آفیسر پاکستان ائرفورس کے تھے جن کا نام تھا نعیم عزیز‘ ان کے ہم لوگوں سے خاندانی تعلقات تھے‘ وہ جب آئے تو میں نے ان سے پاک فضائیہ میں اپنی دل چسپی ظاہر کی۔ اس پر انہوں نے میرے بڑے بھائی مرید حسین شاہ سے کہا کہ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اختر کو ائر فورس جوائن کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ فٹ ہیں تو اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی جب سے ان کے کالج میں ائر فورس کی ٹیم آئی ہے۔ یہ ہمیشہ پاک فضائیہ میں جانے کے بارے میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔ نعیم عزیز صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ انہیں لاہور بھیج دیں‘ وہاں پاک فضائیہ نے تربیت کا انتظام کیا ہوا ہے۔ وہاں ایک انسٹرکٹر ہیں جو پولش ہیں مسٹر بناخ‘ یہ جا کر ان سے رابطہ کریں اور جہاز اڑا کر دیکھیں کہ انہیں کیسا لگتا ہے۔ میرے چچا سید محمد اعظم شاہ جو محکمہ آب پاشی میں کلکٹر تھے وہ مین روڈ پر رہتے تھے۔ میں لاہور ان کے پاس چلا گیا۔ ان دنوں صبح اٹھتا تھا اور چیئرنگ کراس جاتا تھا وہاں سے لاہور ہوائی اڈے پر پہنچ جاتا تھا۔ میں نے ٹائیگر ماتھ میں فلائنگ شروع کی اور 1951ء میں اکیلے جہاز اڑانے کے قابل ہو گیا۔ پھر پاک فضائیہ نے کشمیر جنگ کے بعد ضرورت محسوس کی کہ نئے پائلٹ بھرتی کیے جائیں اور ملک میں جن لڑکوں کو طیارہ اڑانا آتا تھا ان کو ایک خصوصی بورڈ کے سامنے پیش ہونے کا موقع دیا گیا اور جو اس بورڈ سے پاس ہو گئے ان کا میڈیکل کرایا گیا اور پھر انہیں رسال پور بھیج دیا گیا۔ میں 16 جی ڈی پی کورس میں جو بہت بڑا کورس تھا اور اس میں 56 طلبہ تھے۔ اس میں شامل ہو کر رسال پور پہنچا اور یوں پاک فضائیہ میں میرے کیریئر کا آغاز ہو گیا۔
طاہر مسعود: اس پیشے کو آپ نے کیسا پایا؟
محمود اختر: میں نے اس پیشے کو ایک عبادت کی طرح پایا۔ عبادت کا لفظ اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ ہمارے ملک کے جتنے ادارے ہیں ان میں سب سے زیادہ پروفیشنل ازم اور وطن سے محبت اسی پیشے میں پائی جاتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک فائٹر پائلٹ کی زندگی جنگ اور امن کی حالت میں یک ساں ہوتی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ امن کے دنوں میں آپ گولیاں دوسرے جہاز پر نہیں مارتے بلکہ جہاز سے جو ٹارگٹ ٹو کیا جاتا ہے اس پر آپ گولی چلاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آپ کی فائرنگ کا معیار کیسا ہے؟ یا اگر آپ کو ٹینک تباہ کرنے ہیں تو آپ ائر ٹو گرائونڈ فائرنگ کرتے ہیں یا آپ بم باری کرتے ہیں تو زمین پر ایک ٹارگٹ ہوتا ہے‘ آپ بم باری کرتے ہیں اس طرح آپ کی کارکردگی کے نتائج آپ کے سامنے آجاتے ہیں۔ اس میں خطرے کی سطح یکساں ہوتی ہے۔ خواہ وہ جنگ کی حالت ہو یا امن کی۔ اس لیے آپ کو فضائیہ میں ہر وقت چاق و چوبند رہنا چاہیے اور چونکہ آپ جب فلائنگ کر رہے ہوتے ہیں تو جدید ترین ٹیکنالوجی سے آپ کا رابطہ ہوتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی آئندہ آنے والے برسوں میں بدلتی رہتی ہے اور اپنے آپ کو اَپ ٹو ڈیٹ رکھنا پڑتا ہے اس لیے آپ دن رات ایک ہی موضوع پر سوچتے رہتے ہیں اور وہ ہے آپ کا پیشہ۔ دوسرے یہ کہ فضائیہ میں ہوائی اڈے کے اوپر ہی آپ کو رہنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کنوارے ہیں تو اسی بیچلر کوارٹر میں آپ کو رہنا پڑتا ہے اور جب شادی ہو جاتی ہے تو آپ کی بیوی بھی اسی ایک بیس میں اسی کوارٹر میں آکر فیملی ممبر بن جاتی ہے۔ ہمارے ہاں علیحدہ میس کا کوئی تصور نہیں ہے۔ آفیسر میس ہی مرکزی جگہ ہوتی ہے جہاں ہم قواعد کے مطابق جمع ہوتے ہیں‘ وردی میں ملبوس ہوتے ہیں‘ کھانا کھاتے ہیں‘ ہر دو مہینے پر ایک تقریب ہوتی ہے جہاں بیگمات بھی مدعو ہوتی ہیں۔ لہٰذا آپ کنوارے ہوں یا شادی شدہ آپ کو ایک دوسرے سے ملنے کے مواقع میسر رہتے ہیں۔ اس لیے بھائیوں جیسا‘ برادری جیسا ماحول آپ کو میسر رہتا ہے جس میں آپ کی نشوو نما ہوتی ہے۔ اس قسم کی زندگی کہیں اور نہیں مل سکتی۔ یہ زندگی بھر کا سودا ہوتا ہے اور جب تک آپ اللہ تعالیٰ کو پیارے نہیں ہو جاتے‘ آپ فضائیہ ہی کے ہو کر رہتے ہیں۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ 1965ء کی جنگ میں ہماری پاک فضائیہ کی کارکردگی بہت اچھی رہی‘ ازراہِ کرم آپ س کی وضاحت کیجیے کہ کہ 65ء میں پاک فضائیہ کی کارکردگی بحریہ اور مسلح افواج کے مقابلے میں کس طرح بہتر رہی؟
محمود اختر: ہمارے دشمن نے جب ہمیں للکارا تو ہمیں یہ موقع ملا کہ ہم اس کا منہ توڑ جواب دیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ستمبر کی جنگ سے پہلے یہ کہا تھا کہ:
Evil that has raised its ehad against the boundries of Pakistan is so did Pakistan, heard, doomed to distruction strick and strike Air Force.
اور اس کا جو ثبوت ہے وہ یہ کہ خود ہندوستان نے جو اعداد و شمار ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کے ذریعے جاری کیے ہیں ان کی تفصیلات میرے پاس موجود ہیں۔ انہوں نے پاک فضائیہ کی شان دار کارکردگی کا اعتراف کیا ہے۔ 12 ستمبر 2002ء کی اشاعت میں منوج جوشی نے اپنے ایک مضمون میں اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ستمبر کی جنگ میں پاک فضائیہ نے ہندوستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس مضمون میں انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ پاک فضائیہ نے ہندوستان کے کن کن مقامات پر حملے کیے‘ ان کی فضائیہ کو کتنا نقصان پہنچایا اور ان کے ائر بیس اور کتنے طیاروں کو تباہ کیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک مشہور غیر ملکی نامہ نگار جان فریکر نے بھی جنگ ستمبر کے حوالے سے ایک کتاب لکھی تھی The Air war 1965: Battle for Pakistan اور ان کو پورا موقع دیا گیا کہ وہ ہمارے جنگی نقصانات کا جائزہ لیں اور جو ہمارے مستند دعوے ہیں ان کی بھی تصدیق یا تردید کریں۔ ٹائمز آف انڈیا نے اعتراف کیا ہے کہ جنگ ستمبر میں بھارت کے تیس ائر کرافٹ فضا میں تباہ ہوئے تھے۔ جب کہ زمین پر ان کے 22 ائر کرافٹ ضائع ہوئے۔ متفرق ائر کرافٹ تباہ ہوئے۔ دوسرے لفظوں میں بھارت کے 55 طیارے جنگ ستمبر میں تباہ ہوئے اور ظاہر ہے کہ یہ کارنامہ پاک فضائیہ کا تھا۔ یہ ہمارا دعویٰ نہیں‘ بھارت کا اعتراف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا نے یہ تسلیم کیا کہ ایک چھوٹی فضائیہ جو اپنے مشن سے سچائی سے وابستہ تھی‘ جس میں پروفیشنل ازم تھا اس نے اپنے سے چار گنا بڑی فضائیہ کے گھر پر جا کر انہیں شکست سے دوچار کیا اور اپنی بالادستی قائم کی۔ پاک فضائیہ نے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی جس میں دشمن بے بس ہو گیا۔ وہ چاہنے کے باوجود کچھ نہیں کرسکا بلکہ ہم ہی نے اسے نقصان پہنچایا۔ اسی لیے قوم نے 7 ستمبر کو یوم فضائیہ منانے کا فیصلہ کیا۔ پاک فضائیہ کی کارکردگی اور اس کی جرأت و بہادری کو قوم کی طرف سے خراج تحسین تھا کہ جنگ چھڑنے کے دو تین دن کے اندر اندر پاک فضائیہ نے بھارتی فضائیہ پر اپنی برتری ثابت کردی۔ میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اپنی بحریہ اور اپنی پاک فوج کی کارکردگی کی تفصیلات بتائوں۔ میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ جو جذبہ پاک فضائیہ میں اپنے ملک کے تحفظ کرنے کا تھا اس میں کوئی شک نہیں ہمارے جو بھائی سفید وردی میں تھے یا خاکی وردی میں تھے‘ وہ بھی اسی جذبے کے ساتھ اس جنگ میں لڑے اور دشمن کی للکار کا منہ توڑ جواب دیا۔
طاہر مسعود: 65ء کی جنگ میں آپ نے ذاتی طور پر کیا کارنامہ انجام دیا؟ دشمن کے کتنے ٹھکانوں پر حملہ کیا‘ اس کے کتنے طیارے مار گرائے اور ان کارناموں پر آپ کو کن تمغوں سے نوازا گیا؟
محمود اختر: میں جنگ سے پہلے اپریل 1965ء تک پاکستان ائر فورس اکیڈمی رسال پور میں چیف فلائنگ انسٹرکٹر کے فرائض انجام دے رہا تھا۔جب راجستھان سیکٹر میں سب سے پہلے جنگ چھڑی تو میں ائر ہیڈ کوارٹر کی جانب سے ونگ آپریشن آفیسر کی حیثیت سے نمبر 31 ونگ میں پوسٹ کیا گیا اور ہمارے دو اسکواڈرن تھے جس میں بارہ‘ بارہ جہاز تھے اور میری ذمہ داری یہ تھی کہ میں آفیسر کمانڈ 31 ونگ اس یونٹ کو جنگ کے لیے تیار کروں اور اسکواڈرن لیڈر رئیس احمد رفیع‘ ان کے ساتھ مل کر ہندوستانی فضائیہ کو اپنے صفوں کا نشانہ بنائیں تاکہ دشمن کو حملہ کرنے کا موقع کم سے کم مل سکے۔ اس لیے اپریل سے لے کر ستمبر 65ء تک ہم نے سارے کے سارے جتنے بھی ہندوستانی ائر فورس اڈے ہیں‘ ان کے ماڈلز بنائے اور یہ دیکھا کہ ہم کس طرح حملہ کریں کہ ہم ان کے جہازوں کی زد میں نہ آئیں۔ ہم نے تمام پائلٹوں کو حملے کی اس طرح تربیت دی کہ انہیں اپنے اہداف اوراس کے گرد و پیش کا جغرافیہ زبانی یاد ہو گیا کہ کون کون سے ایسے ٹارگٹس ہیں‘ ایک ائرپورٹ کے اوپر جن کو نشانہ بنایا جائے اور رات کے اندھیرے میں یا چاند کی روشنی ہے تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم لوگ جا کر بھارتی ٹھکانوں پر بم باری کریں۔ اپریل سے لے کر ستمبر تک ہم نے اپنے ہی ملک میں یہ ساری پروفائلز اپنے کرو کے ساتھ فلائی کیں‘ ان کی تربیت کی۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو 6 ستمبر کو پانچ جہاز لے کر پشاور جانا تھا تاکہ وہاں سے حملہ کیا جاسکے۔ میں یہ جہاز ماری پور سے لے کر پشاور گیا اور وہاں پر 6 ستمبر کی رات کو ائر کموڈور حیدر کی فائٹر اسٹرائیک جو پہلے تھی پٹھان کوٹ پر‘ اس کے بعد میں نے پہلا حملہ پٹھان کوٹ پر کیا۔ میرے پیچھے میرے چار دیگر رفقا تھے اور اس وقت میں سینئر اسکوارڈرن لیڈر تھا اور پورے 1965ء کی جنگ میں‘ میں نے دوسرے پائلٹوں کی نگرانی کی۔ 7 ستمبر کو ہم واپس ماری پور آگئے۔ پھر ہم اسی روز دوبارہ پشاور گئے اور ہلواڑے پر حملہ کیا۔ 8 ستمبر کو جودھ پور پر دھاوا بولا اور 9 ستمبر کو پٹھان کوٹ پر حملہ آور ہوئے۔ پھر جب سیال کوٹ میں بھارتی آرمرڈ آئے تو 9 ستمبر کو میں نے ان پر حملہ کیا۔ پھر میں نے 12 اور 13 ستمبر کو جودھ پور اور پھر ہلواڑہ اور پھر جودھ پور اور جام نگر اور جود پور پر حملے کرتا رہے گا اور یہ سلسلہ جنگ کے اختتام تک چلتا رہا۔
طاہر مسعود: ان حملوں میں آپ نے دشمن کو کتنا نقصان پہنچایا؟
محمود اختر: چوں کہ ہم رات کے وقت حملے کے لیے جاتے تھے اس لیے نقصان کا ٹھیک طریقے سے اندازہ کرنا مشکل ہے۔ بھارتی ائر فو رس کے رن وے ہمارا نشانہ تھے تاکہ رن وے کو اس طرح تباہ کر دیا جائے کہ وہ استعمال کے قابل ہی نہ رہ سکے۔ اگر اس میں غلطی ہوئی بھی ہے اور بم آگے پیچھے گرتا ہے تو نو ہزار فٹ طویل رن وے ہے‘ دشمن کو نقصان ہی پہنچے گا۔ ہماری کوشش تھی کہ جہازوں کو یا ایسی چیزوں کو جو زمین پر ہیں‘ انہیں نشانہ بنانے کے بجائے رن وے کو اپنا ہدف بن بنائیں۔ اس لیے ہم نے جو پروگرام بنایا تھا وہ یہ تھا کہ ایک ائر فیلڈ پر ہر پندرہ بیس منٹ یا آدھے گھنٹے بعد ایک جہاز کے بعد دوسرا جہاز اور دوسرے کے پیچھے تیسرا جہاز بھیجتے تھے تاکہ دشمن خندقوں میں بیٹھا رہے‘ حملہ ہونے پر وہ بھاگ جائیں گے‘ ان کا نقصان بھی ہوگا اس طرح انہیں ہم پر حملہ کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا اور جیسا کہ ٹائمز آف انڈیا میں ہماری اس حکمت عملی کا اعتراف کیا گیا ہے کہ بھارتی فضائیہ کو پاکستان ائر فورس نے اتنا مصروف رکھا کہ ان کو ٹھیک طریقے سے حملہ کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا اور نہ وہ ہمارے ہوائی اڈوں کو کوئی نقصان پہنچا سکے۔
طاہر مسعود: آپ کے ان کارناموں پر آپ کو جو اعزازات دیے گئے آپ ان سے مطمئن ہیں؟
محمود اختر: کوئی بھی مخلص پیشہ ور سپاہی تمغوں کے لیے نہیں لڑتا بلکہ ایک جذبہ ہوتا ہے کہ جو آپ کے ملک و قوم کو للکارے‘ اس کا جواب دینے کے لیے آپ کو جان بھی دینی پڑے تو دے دیں مگر بمبرونگ جو چوبیس جہازوں پر مشتمل تھا‘ اس یونٹ کے لیے اعزاز ہے کہ اس نے سب سے زیادہ حملے اور اعزازات حاصل کیے۔ کیوں کہ ایک جہاز پر دو بندے ہوتے ہیں ایک پائلٹ اور دوسرا اس کا ساتھی نیوی کیٹر۔ وہ ہوتے تو دو بندے ہیں لیکن کام ایک ہی کرتے ہیں۔
طاہر مسعود: اچھا یہ فرمایئے کہ جب آپ جہاز لے کر جاتے تھے تو آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ شاید واپسی نہ ہوسکے اور آپ جامِ شہادت نوش کر لیںتو اس وقت موت کا خیال یا اس کا خوف آپ کے اندر پیدا ہوتا تھا اور ہوتا تھا تو آپ کا ردعمل کیا ہوتا تھا؟
محمود اختر: نفسیاتی طور پر اگر کوئی پریشانی ہوتی ہے تو وہ جہاز میں بیٹھنے سے پہلے ہوتی ہے۔ جب آپ جہاز میں بیٹھ گئے تو آپ اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ اور کوئی خیال آتا ہی نہیں۔ 65ء کی جنگ میں جس طرح پاک قوم میں ایک جذبہ تھا اس طرح کا جذبہ پائلٹوں کے اندر بھی تھا اس لیے سب سے بڑا جذبہ یہ تھا کہ بھارت نے ہمیں للکارا ہے‘ ہمیں انہیںسبق سکھانا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک پر ایمان نے ہمیں اتنی ہمت دی کہ اس کے جو نتائج ہیں‘ وہ خود اپنے منہ سے بولتے ہیں کہ ہمیں موت کا کوئی خوف نہیں تھا۔ ہمیں صرف ایک ہی خیال آتا تھا کہ ہمیں جانا ہے اور بھارت کے اڈوں کو تباہ کرنا ہے۔ ہمیں ان ہوائی اڈوں کو تلاش کرنے میں کوئی دشواری بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ جوں ہی ہمارے جہازوں کی آواز انہیں سنائی دیتی تھی‘ وہ فائرنگ شروع کر دیتے تھے۔ زندگی تو ایک ہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ وہی اسے و اپس بھی لے گا۔ یہ ہمارا ایمان ہے اور اس ایمانی جذبے کی روشنی میں ہماری کارکردگی سامنے آئی۔
طاہر مسعود: جب آپ جہاز لے کر دشمن کے ٹھکانے پر گئے تو کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جو آپ کو اب بھی یاد ہو؟
محمود اختر: ہاں ایک واقعہ ہے 13 یا 14 ستمبر کی رات کو جب میں نے پشاور میں لینڈ کیا تو فلائٹ سارجنٹ حلیم صاحب میرے جہاز پر بم لگا رہے تھے اور پاکستان ائر فورس پشاور بیس پر ہر قسم کے جہاز تیار تھے۔ اس رات کو ایک کیمبرہ ائر فورس کا آیا اور دو سو فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے اس نے روشنی کے بم پھینکے تاکہ ائر فیلڈ روشن ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ بم رن وے کی دائیں جانب کچے میں گرے۔ وہ بم اگر خدانخواستہ ذرا سا آگے گرتے تو ہماری آدھی ائر فورس اسی رات پشاور میں ہی تھی‘ سب کی سب ختم ہو جاتی اور پاک فضائیہ مفلوج ہو جاتی۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ تھی تو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ہم نے اس کے بعد بھارت پر پوری قوت سے حملہ کیا یقینا وہ لوگ حیران ہوتے ہوں گے۔ ہم نے تو ان کے ائرپورٹ کو تباہ کر دیا ہے پھر یہ کیسے اتنی جلدی حملے کے لیے آگئے۔ 7 ستمبر کو ہی بھارتی ائر فورس نے ان حملوںکی وجہ سے جو ہمارے پائلٹوں نے کیے۔ دن کے وقت ہمارے علاقے میں آنا ہی چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنے کیمبرو جہاز جو ہمارے پاس بیس تھے اور ان کے پاس ساٹھ تھے مگر ایک تو وہ بہت ڈرتے تھے دوسرے یہ کہ وہ پاکستان کے کسی ہوائی اڈے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے۔
طاہر مسعود: پاک فضائیہ کی جو تاریخ لکھی گئی ہے‘ اس میں آپ کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا ہے کہ آپ نے بڑی بہادری اور جواں مردی سے دشمن کا مقابلہ کیا اور ان کے ٹھکانوں پر حملے کیے اور آپ میں بڑا اعتماد تھا‘ بڑی جرأت تھی۔ اس حوالے سے سوال ہو سکتا ہے کہ آپ کو تمغہ جرأت کیوں نہیں ملا۔ تمغہ بسالت کیوں دیا گیا؟
محمود اختر: جرأت کا مطلب ہے وہ بہادری جو تفویض فرائض سے بڑھ کر ادا کی گئی ہو لیکن ستارہ بسالت اگر جنگ کی کارکردگی پر بھی دیا جائے تو وہ بھی ستارۂ جرأت کے برابر ہی ہے۔ آپ جو فرما رہے ہیں وہ میرا دوسرا ستارہ بسالت تھا جو ملک و قوم اور فضائیہ نے مجھے عطا کیا۔ وہ 1971ء کی جنگ کی کارکردگی پر دیا گیا۔ سفارش تو ستارہ جرأت کی تھی لیکن چونکہ آدھا ملک ہم ہار چکے تھے اس لیے فیصلہ ہوا کہ جب آدھا ملک ہی جاتا رہا تو اب اعزازات کیا دیے جائیں۔ اس لیے یہ فیصلہ ہوا کہ جو اعزازات دیے جائیںگے وہ صرف شہدا ہی کو دیے جائیں گے۔ 1971ء کی جنگ کے بعد ایک کمیٹی بٹھائی گئی جس نے فیصلہ کرنا تھا کہ اگر کوئی زندہ اور غازی ہے تو مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد بھی اگر اسے اعزاز دینا ہے تو یہ کمیٹی اس کی سفارش کرے تو اس کمیٹی نے میری کارکردگی کو سراہتے ہوئے مجھے ستارہ بسالت دینے کا فیصلہ کیا۔ میں اس کے لیے پاک فضائیہ اور ملک و قوم کا ممنون ہوں۔ کیوں کہ لڑائیاں‘ اعزازات کے لیے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اس اعتماد و یقین کے لیے لڑی جاتی ہیں جو قوم اپنے جوانوں پر کرتی ہے اور یہ کہ یہ لڑائی ملک کی حفاظت کے لیے لڑی جاتی ہے۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ 65ء کی جنگ کشمیر میں پاکستان کی مداخلت کی وجہ سے چھڑی‘ اگر پاکستان بھارت کو مشتعل نہ کرتا تو بھارت حملہ کرنے پر مجبور نہ ہوتا‘ حقائق کیا ہیں؟
محمود اختر: حقائق تو یہ ہیں کہ ہر چیز میں پہل ہمارے ہمسائے کی جانب سے ہوئی ہے۔ ان کا یہ پروپیگنڈہ ہے۔ اس جنگ کو یہ رنگ دیا گیا کہ پہل ہماری طرف سے ہوئی مگر اس کو صحیح طریقے سے دیکھا جائے تو آج تک ہندو نے ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا وجود میں آنا دل سے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اور وہ ایک سب سے بڑا مسئلہ نہیں‘ مسئلہ ہندوستان میں کچھ لوگوںکا کہ 1965ء کی جنگ ہو یا 1971ء کی چاہے وہ راجستھان سیکٹر کا مسئلہ ہو یا لائن آف کنٹرول کی بات ہو۔ زیادتی ہمیشہ بھارت کی جانب سے ہوتی ہے اگر بھارت ذہنی طور پر مان لے کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اس تاریخی حقیقت کو تسلیم کر لے کہ تقسیم کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ مسلمانوںنے بہت کوشش کی وہ ہندوئوں کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر ہندوستان میں امن وامان سے رہیں