مکہ مکرمہ اگر ساری دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے تو مدینہ منورہ ان کی تڑپ ہے۔ بیت اللہ اگر آنکھوں کی ٹھنڈک ہے تو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے دلوں کا سکون ہے۔ ساری روئے زمین کے مسلمان چاہے گورے ہیں یا کالے، عربی ہیں یا عجمی، امیر ہیں یا غریب، دور ہیں یا قریب… ان دونوں مقامات پر جانے کی طلب، تڑپ سب کے دلوں میں موجود ہے۔ یہ ایسے مقامات ہیں جہاں مسلمان کے دل میں جانے کا اشتیاق اور دوبارہ جانے کی تڑپ دن بہ دن بڑھتی ہے۔ جب حج کا موسم قریب آتا ہے، اردگرد سے کانوں میں لوگوں کے حج پر جانے کی آوازیں پڑتی ہیں تو ہر دل ایک بار ضرور مچلتا ہے، کسی کا جانے کو، اور جو جانے والے ہوتے ہیں اُن کا جلد پرواز کرنے کو۔ بھئی ایسا کیوں نہ ہو! اللہ تعالیٰ نے یہ احساس ہر مسلمان کی فطرت میں رکھ دیا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بیت اللہ کی طرف آنے کی ندا دلواکر۔ یہ ندا ہر روح کے کان میں پہنچی۔ اللہ تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ تھا کہ تمہارا کام پکارنا ہے اور میرا کام لوگوں کے دلوں میں اس گھر کی محبت ڈالنا ہے۔ ہاں! اسی لیے تو اب تمام مسلمان دوڑتے ہیں اس گھر کی طرف پیدل، سوار، گاڑیوں میں، جہازوں میں، خشکی کے راستوں پر، سمندروں کے راستوں پر، فضاؤں کے راستوں پر قافلہ در قافلہ، لبیک کی صدائیں لگاتے ہوئے، دیوانگی کے عالم میں، جوق در جوق جارہے ہوتے ہیں۔ میرے رب نے اپنے پیغمبر ابراہیم علیہ السلام سے کیا ہوا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، لوگوں کے دلوں میں اس مقدس گھر کی زیارت کی تمنا ڈال دی، حج کو اسلام کا رکن بنادیا۔ ارشاد فرمایا ’’تم میں جو استطاعت رکھتا ہے وہ ضرور حج کرے۔‘‘ (البقرہ)
اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس کی اہمیت بتا دی: ’’جو کوئی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے تو اِس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر۔‘‘(ترمذی)
ایک مرتبہ جب صحابہ کرامؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل اور بہتر کاموں کی تفصیل پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان اور جہاد کے بعد حج مبرور کا فرمایا۔ (صحیح بخاری 1519)
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی قرآنی آیات و احادیث حج کی فرضیت، اہمیت و فضیلت کے بارے میں ہیں۔ اسلام کے اس اہم رکن سے منہ موڑنے والے کے لیے سخت وعیدیں بھی موجود ہیں جن کے بارے میں ہمارے قارئین اکثر و بیشتر کثرت سے پڑھتے رہتے ہیں۔ حج کے موسم میں اس طرح کی بہت پیاری پیاری تحریریں ہمارے اردگرد گردش کررہی ہوتی ہیں۔ اس لیے میرا موضوعِ تحریر وہ نقطہ نظر ہے جو شاید کم ہی ضبطِ تحریر میں آتا ہے حالانکہ یہ سب سے اہم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا: ’’حج میں کسی قسم کا کوئی جدل (جھگڑا، ناگواری، سخت ردِعمل، اپنی ذات سے دوسرے کو کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچانا) ہے ہی نہیں۔‘‘ یہ شاید آزمائش ہوتی ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ کسی نہ کسی صورت میں کسی نہ کسی جگہ جدل میں ضرور پڑ جاتے ہیں چاہے وہ جدل تھوڑا ہو یا زیادہ۔ بے شک انسانوں کے ہجوم میں یہ ایک فطری بات ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے مجمع میں اس قدر امن و امان بھی شاید صرف انہی مقدس مقامات حرمین کا ہی خاصا ہے، لیکن پھر بھی حرمین کی زیارت کے سفر میں ہم سے کچھ ایسی کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں جو ان مقامات کی شان کے منافی ہیں۔
یہ 2014ء کے حج کے موقع کی بات ہے، منیٰ میں شدید بارش برس رہی تھی۔ ہمارے گروپ کے ایک خدمت گار نے جو کہ خود بھی مکہ کا رہائشی تھا، مکہ میں اُس کے ہمسایہ میں ایک برمی خاندان رہتا تھا، اُس نے بارش کی وجہ سے اس گھر کی خواتین کو ہمارے گروپ کے خیمے میں چند گھنٹوں کے لیے ٹھیرا دیا۔ ادھر قیام کے دوران وہ ماں بیٹیاں ایک کونے میں بیٹھ کر عبادت کرتی رہیں۔ اسی اثنا میں ہمارے گروپ کی ایک خاتون کے پیسے گم ہوگئے۔ اس نے تو شور مچا دیا اور الزام سیدھا برمی خواتین پر دھر دیا۔ اس اللہ کی بندی نے اتنا بھی خیال نہ کیا کہ حج کا موقع ہے، سب احرام کی حالت میں ہیں، منیٰ کا مقام ہے، یہاں کون چوری جیسی گھناؤنی حرکت کے بارے میں سوچ سکتا ہے! کچھ اور خواتین بھی جنہیں ان برمی خواتین کا خیمے میں بیٹھنا اچھا نہیں لگ رہا تھا، اس کے ساتھ مل کر ان مہمان خواتین کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ چند مصلحت پسند خواتین معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے آگے بڑھیں لیکن کسی نے اُن کی ایک نہ سنی۔ بے چاری برمی خواتین کچھ اپنی زبان میں، کچھ عربی میں اور کچھ اشاروں میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کررہی تھیں، حتیٰ کہ مسروقہ مال کی مالکہ نے ان کی تلاشی لے کر ہی دم لیا لیکن ان سے کچھ برآمد نہ ہوا۔ پھر غصے میں سب کے گدے تک اٹھائے گئے کہ شاید انہوں نے کسی کے گدے کے نیچے چھپا دیے ہوں۔ ابھی تلاش کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ایک حاجن نے ان خاتون کے سر پر اوڑھے دوپٹے کے پلو میں بندھی موٹی سی گرہ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ کیا ہے؟ وہ گمشدہ پیسے ان کے دوپٹے کے پلو سے بندھے ہوئے تھے جسے کھولتے ہوئے وہ محترمہ ساتھ ساتھ فرما رہی تھیں ’’دیکھا کتنی چالاک ہیں یہ، اب چپکے سے میرے پلو سے پیسے باندھ دیے ہیں۔‘‘ یعنی ان کی لغت میں ہار ماننا اور ندامت کے الفاظ کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا۔
اس واقعے نے مجھے دلی طور پر افسردہ کیا۔ آج بھی جب یاد آتا ہے تو دل بے مزا ہوجاتا ہے۔ ہمارے احرام کی تقدیس کا یہ تقاضا نہیں تھا بلکہ یہ سب کچھ کرکے ہم نے اپنے گھٹیا پن کی انتہا دکھائی۔
ایسا ہی ایک اور واقعہ ہے جو2009ء میں حج کے موقع پر پیش آیا۔ عرفات کا میدان تھا، مغرب کے وقت نقارہ بجنے کے ساتھ ہی عرفات سے نکلنا تھا۔ ہمارے مکتب کی گاڑیاں ہمارے خیموں کے قریب ہی کھڑی تھیں۔ ہم لوگ جس گاڑی میں سوار ہوئے اس میں زیادہ تر لوگ لاہور کے تھے۔ بس کا ڈرائیور مصری تھا اور احرام باندھ رکھا تھا۔ سب گاڑیاں چل پڑیں۔ ہماری گاڑی کے ڈرائیور نے وہاں سے تو گاڑی چلا دی لیکن ایک کلومیٹر آگے جاکر گاڑی ایک طرف کھڑی کردی اور گاڑی کا اے سی بھی بند کردیا۔ ان حجاج میں جوان کم اور بوڑھے زیادہ تھے، ان میں مریض بھی تھے۔ وہ لوگ گرمی سے تلملانے لگے۔ ڈرائیور کی منتیں کیں کہ گاڑی نہیں چلانی تو اے سی ہی چلا دو، مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہورہا تھا۔ لوگوں نے اس کے ساتھ جھگڑا شروع کردیا بلکہ ایک لاہوری نے تو آگے بڑھ کر اس ڈرائیور کو تھپڑ ہی لگا دیا۔ گاڑی میں بیٹھے تین چار لوگوں نے پیسے ملا کر جمع کیے اور اس ڈرائیور کے ہاتھ میں کچھ رقم تھمائی جو وہ چاہتا تھا، تب کہیں اے سی اور گاڑی چلی۔
یہاں نہ تو ڈرائیور درست تھا اور نہ ہی اس سے جھگڑا کرنے والے۔ بلکہ اپنے مکتب کے کسی ذمے دار کو فون کرکے ڈرائیور کی شکایت کرتے اور مکتب والے خود ہی ٹرانسپورٹ آرگنائزر سے جواب طلب کرلیتے۔
سفرِ سعادت کے دوران اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ گروپ لیڈر کی طرف سے چاہے جتنا بھی اچھا کھانا ملے، زیادہ تر لوگوں کی ناشکری ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ لوگ ذائقے اور کوالٹی کو جان بوجھ کر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ گروپ لیڈر اپنی تمام تر کوشش کے باوجود تمام لوگوں کو کبھی بھی خوش نہیں رکھ سکتا۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر جگہ یہ منفی رویّے ہی دیکھنے کو ملے۔ اچھی چیزیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں بلکہ کثرت سے ملتی ہیں۔ لوگوں میں بلا کا تحمل اور ایثار بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ شاید وہ اس عبادت کی روح کو سمجھ کر اس سے فیض یاب ہونے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ وہ اس مقدس جگہ کی نایابی کو پہچان جاتے ہیں، وہ یہاں پر رب کے برستے جلووں اور رحمتوں سے اپنے دامن بھرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ وہ اردگرد کی کسی چھوٹی موٹی تکلیف کی پروا نہیں کرتے۔ ان کا ہدف اپنے رب کو منا کر ہی لوٹنا ہوتا ہے۔
محترم حجاج کرام! جس جگہ پر آپ کے گھر ہیں وہاں ذرا اپنے اردگرد جھانک کر دیکھیں کہ اس سال انسانوں کے سمندر سے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس مقدس عبادت کے لیے چنا ہے ان میں سے ایک آپ بھی ہیں۔ حالانکہ اگر ہم اپنے اعمال کی طرف دیکھیں تو شاید خود بھی اپنے آپ کو اس قابل نہ سمجھیں۔ ہم دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں کہ ہمارے اردگرد بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں میں اس گھر میں جانے کی تڑپ ہم سے بھی زیادہ ہے۔ وہ تقویٰ اور اللہ کی محبت و فرماں برداری میں بھی ہم سے آگے ہیں، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا مہمان بنانے کا خصوصی شرف ہمیں بخشا۔ کیا اللہ کا ہم پر حق نہیں کہ اس کی اس قدر زیادہ عنایت پر ہم اس کی شکر گزاری میں اس کی فرماں برداری کریں۔ اس کی خوشنودی کے لیے اس راستے میں پیش آنے والی تکلیفیں، لوگوں کے اکھڑ مزاج، رویّے، لوگوں کی نادانی سے ملنے والی اذیتیں جیسے وہیل چیئر کا لگ جانا، دوسروں کے دھکے، ہاتھوں یا پاؤں پر دوسروں کے پاؤں کا آجانا، نماز کے لیے بیٹھے ہوں تو دوسروں کا آ کر زبردستی درمیان میں گھس جانا… یہ سب کچھ وقتی طور پر برا تو لگتا ہے لیکن اس پر کوئی سخت ردعمل دے کر اللہ تعالیٰ کے حکم ’’لا جدال فی الحج‘‘ کی نافرمانی نہ کریں اور اس مقدس عبادت کی تقدیس کو مشتبہ نہ بنائیں۔