ترکیہ ۔۔۔۔اردگان کی کامیابی کا راز

1273

ترکیہ کے انتخابات میں آق پارٹی (AK) جیت گئی۔ پہلے مرحلے میں اس نے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کی، لیکن صدارتی انتخابات میں تین امیدواروں میں سے کسی کو بھی 50 فیصد سے زیادہ ووٹ نہ ملے۔ پہلے اور دوسرے نمبر والوں میں 4 فیصد کا فرق تھا۔ دوسرے مرحلے میں صرف دو امیدوار تھے، جن میں سے طیب اردوان نے 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرلیے، جبکہ دوسرا امیدوار 47 ووٹ حاصل کرسکا۔ یوں مقابلہ بہت سخت رہا۔

ترکیہ کے سخت ترین حالات میں جب کہ بین الاقوامی قوتیں سب ایک پارٹی کے خلاف، تقریباً تمام قوم پرست، آزاد خیال جماعتیں متحد… پھر بھی ایک پارٹی کیسے جیت گئی!

مئی کے مہینے میں ترکیہ کے شہر استنبول، زلزلہ زدہ علاقوں Hatay، ریحان لا، Kilis، غازیان تپ، مقدس ہستیوں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت ایوبؑ کی یادگاروںکے علاقے عرفہ اور دنیا کے صاف ترین شہر، مولانا رومؒ کے دیس قونیا جانے کا موقع ملا۔ میں نے ان میں سے اکثر سفر بس میں کیا۔ بس کے طویل سفر میں لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ترکیہ کے علاقوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ مسجد کے امام صاحبان، این جی اوز کے نمائندوں، استنبول میں یونیورسٹی کے اساتذہ، طلبہ (ان میں سے اکثریت کا تعلق ترکیہ اور شام سے تھا، اردو بولنے والے نہیں تھے)، ٹیکسی ڈرائیور اور مقامی دکان داروں سے بات چیت کا موقع ملا۔ یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ اور مذہبی اسکالرز سے بھی ملاقات ہوئی۔

ایک ایسے بزرگ سے بھی ملاقات ہوئی جن کی عمر 93 سال تھی اور ان کے ہزاروں مرید تھے۔ ترکیہ میں روحانی سلسلے کے بہت سے بزرگ ہیں جن میں نقش بندیہ سلسلے کے لوگ اکثریت میں ہیں۔

بزرگ نے بتایا کہ جب انہوں نے ہوش سنبھالا تو مساجد بند تھیں، مشکل دور تھا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ بیس سال سے، جب سے اردوان صاحب کی پارٹی جیت رہی ہے، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم درست سمت میں چل رہے ہیں۔

ترکیہ میں اردوان صاحب کی پارٹی کیوں جیتی؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کے بہت سے جواب اور عوامل ہیں، لیکن دو چیزیں سب سے اہم ہیں:

-1 کئی سال قبل سردیوں میں جب شام سے مہاجرین بڑی تعداد میں ترکیہ آئے تو ایک پارٹی نے انہیں سپورٹ کیا، حکومت نے انصار کا کردار ادا کیا۔ لوگوں میں اس کا ردعمل آیا۔ کراچی کے بزرگ سید بخاری قیصری شہر میں رہتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ قیصری میں بھی مہاجرین پہنچے، ہم نے لباس، بستر، رہائش، بچوں کے کھلونے ہر ممکنہ چیز کا اہتمام کیا، حکومت تو کرہی رہی تھی۔ صحت کا انتظام حکومت بہت اچھے طریقے سے کررہی تھی لیکن مہاجرین اتنی بڑی تعداد میں آئے کہ ان کی مکمل دیکھ بھال حکومت کے بس میں نہیں تھی۔ قوم پرستوں کو میری یہ تحریک ’’ہمیں انصار بن کر مہاجرین کو سہارا دینا ہے‘‘ پسند نہیں آئی۔ میں کئی شہروں میں گیا، یہی اعتراض تھا کہ یہ پاکستانی کیوں ہمارے ملک میں لوگوں کو آباد کرنے کے لیے سہولیات فرابم کررہے ہیں۔ ایک مسجد میں مولانا صاحب نے اعلان کردیا کہ یہ پاکستانی بزرگ آئے ہیں۔ لوگوں نے نہایت سخت اور دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا۔

بخاری صاحب نے کہا: پہلی بات یہ سمجھیں کہ ہم پاکستانی آپ کا سرمایہ استعمال نہیں کررہے۔ دوسرے یہ کہ اگر کل آپ پر کوئی مصیبت آئی تو آپ کہاں جائیں گے؟ کیا یونان جائیں گے؟ آپ کے کسی پڑوسی ملک سے اچھے تعلقات نہیں ہیں، آپ کے لیے پاکستان ہی پناہ گاہ ہے۔ پہلے بھی مصیبت کے وقت ہماری خواتین نے اپنے زیوروں سے آپ کی مدد کی تھی، اب بھی ہم ہی مدد کریں گے۔

اس کے بعد ابتدائی طور پر یہ دلائل وائرل کیے گئے اور لوگوں نے مدد شروع کی۔ لیکن مہاجرین کی زبان مختلف، کلچر مختلف، وہ ترک معاشرے میں الگ نظر آنے لگے۔ ان کی وجہ سے آبادی کا تناسب متاثر ہوا، مثلاً ترک زبان بولنے والے ایک لاکھ افراد کی جگہ پر دو لاکھ دوسری زبان اور کلچر والے آجائیں تو تصادم کے امکانات قدرتی ہیں۔ مہاجرین نے سستی مزدوری شروع کی جو مقامی نوجوانوں میں غصے کا سبب بنی۔ اسی طرح کاروبار میں بھی مسائل ہوئے۔ معاشرے میں یہ آوازیں آئیں کہ بہت ہوگیا، اب ترکیہ حکومت ان کی مدد نہ کرے۔ لیکن آق پارٹی کا مؤقف یہ رہا کہ ہم نبیؐ کی سنت ’مہاجرین کی مدد‘ نہیں چھوڑ سکتے۔ لوگ جتنے بھی ناراض ہوں ہمارے لیے مدینہ والے کا طریقہ اہم ہے۔

نبیؐ کی سنت کی پاسداری میں عوام کی ناپسندیدگی کو نظرانداز کرکے الیکشن لڑا۔ اکثریت کا خیال تھا کہ یہ منفی رائے ووٹ کم کردے گی اور اردوان جیت نہیں سکیں گے۔ لیکن انہیں یقین تھا کہ لوگوں کے ذہن کو تبدیل کرنا اللہ کا کام ہے، ہمیں نبیؐ کی پیروی والے کام کرنے ہیں۔

اس یقین کا عملی مظاہرہ کلس شہر میں ہوا جہاں آق پارٹی نے 72 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

-2 دوسری اہم ترین بات مساجد کے حوالے سے منصوبہ بندی ہے۔ 93 سالہ بزرگ پیر صاحب نے بتایا کہ مساجد کھل گئی تھیں لیکن ان میں وہ اہتمام نہ تھا جو معاشرے کے افراد کو مساجد کی طرف راغب کرنے کا باعث بنتا۔ آق پارٹی نے مساجد کا ایک نظام قائم کیا۔ امام کے لیے یونیورسٹی سے الٰہیات میں ماسٹر ہونا بنیادی شرط ہے۔

الٰہیات کی چھ یونیورسٹیاں اور ان کی لائبریریاں دیکھیں۔ طالب علموں اور اساتذہ سے ملاقاتیں ہوئیں۔ بہترین ماحول دیکھا۔ قرآن و حدیث کے علم کے ساتھ سلیقہ، اخلاقیات، انسانوں سے ہمدردی کی عملی تربیت دی جاتی ہے۔ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کرنے والے ماہرین کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے

پبلک سروس کمیشن یا CSS جیسا۔ اس میں کامیاب ہونے والے افراد میں سے امام صاحب کا انتخاب ہوتا ہے، گریڈ 17 سمجھ لیں، اور پھر تربیت کے بعد ان کی تعیناتی ہوتی ہے۔ جیسے ڈاکٹر، یونیورسٹی کے اساتذہ وغیرہ ہوتے ہیں امام کو اسی طرح کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔

امام صاحب کے اخلاق کا ایک مظاہرہ میں نے غازیان تپ شہر کے بس ٹرمینل کے قریب مسجد میں دیکھا۔ میں مسجد میں ظہر کی نماز پڑھنے گیا۔ میں زلزلہ زدہ شہر ہاتے سے آیا تھا اور کلس شہر جانا تھا، میں نے اپنا بھاری بیگ مسجد میں پیچھے رکھ دیا۔ امام صاحب آئے، انہوں نے انگریزی زبان میں بتایا کہ سامنے رکھنا چاہیے تاکہ نماز میں یہ خیال نہ آئے کہ سامان کوئی لے جاسکتا ہے۔ میں نے اپنے دونوں بھاری بیگ اٹھائے اور سامنے رکھ دیے۔ مسجد میں اقامت پر جب انہوں نے امام والا مخصوص لمبا کوٹ پہنا تو مجھے علم ہوا کہ یہ امام صاحب ہیں۔ پھر واپسی پر بھی انہوں نے مسجد کے باہر تک میری مدد کی۔

اس کے علاوہ بھی امام مساجد سے ملا۔ سب بڑے تپاک اور عزت سے ملے۔ امام صاحب کے لیے ایک مہمان خانہ ہوتا ہے جس میں اکثر لوگ جنہیں نماز کے بعد کوئی بات ڈسکس کرنی ہو، جاتے ہیں۔ امام صاحب ہر ایک کی قہوہ سے تواضع کرتے ہیں، بچوں سے ہنسی مذاق کرتے ہیں۔

ترکیہ کی تقریباً ہر مسجد میں خواتین کے لیے نماز ادا کرنے کی جگہ مخصوص ہوتی ہے۔ مرد اور عورت ایک ہی دروازے سے داخل ہوتے ہیں۔ مرد اپنے ہال میں چلے جاتے ہیں، خواتین کے لیے زینہ ہوتا ہے، وہ اوپر نماز ادا کرنے چلی جاتی ہیں۔ جو مساجد ایک منزلہ ہوتی ہیں ان میں عارضی طور پر لکڑی کی دیوار سے خواتین کا حصہ الگ کردیا جاتا ہے۔

خواتین کی نماز کی جگہ اور مسجد کے مرکزی ہال میں بزرگوں کے لیے دونوں طرف صوفے لگے ہوتے ہیں تاکہ نماز کے بعد گفتگو کرسکیں، آرام سے بیٹھیں۔ بچے اکثر مسجد میں اور مسجد کے صحن میں بھاگنے کا کھیل، والی بال، اور بڑی مساجد کے صحن میں فٹ بال بھی کھیل رہے ہوتے ہیں۔ کھیلنے والوں میں بچے اور بچیاں دونوں ہوتے ہیں۔

عبداللہ زبیر میر نے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر کیا۔ کئی سال سے ترکی میں مقیم ہیں۔ آق پارٹی کی بنیادی پالیسی یہ ہے کہ اللہ کی مساجد سو فیصد مسلمانوں کی ہیں، کسی انسان کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اللہ کے بندوں میں سے کسی کو بھی اللہ کے گھر میں داخل ہونے سے منع کرسکے۔ خواتین کے لیے مسجد کے داخلی دروازے پر عبائے، چادریں، بڑے سائز کے دوپٹے رکھے ہوتے ہیں تاکہ اگر کسی خاتون کا لباس مناسب نہیںتو وہ پورا لباس پہن کر مسجد میں جائے۔ خواتین کو منع کرنے والا کوئی نہیں کہ جائیں، گھر سے مناسب لباس پہن کر آئیں۔ بچے اپنی مائوں اور بہنوں کے ہمراہ ایک سال کی عمر سے مسجد آتے ہیں۔

آق پارٹی کا مؤقف ہے ’’وہ افراد جنہیں مساجد میں بچوں کی آواز اور شور برا لگتا ہے، گھر میں نماز ادا کریں۔‘‘

حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نماز میں نبیؐ کے اوپر بیٹھ جاتے۔ مسجدِ نبویؐ میں بچے شرارتیں کرتے، کھیلتے تھے۔ تو بچوں کی بنیادی فطرت تبدیل تو نہیں ہوگی۔

مساجد کو انتہائی خوب صورت تعمیر کیا جاتا ہے۔ کسی آبادی میں نئی مسجد بنانے کے لیے سروے کیا جاتا ہے۔ عورتوں، بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں کا تعین کیا جاتا ہے اور پھر ان سب کی آسانی کو مدنظر رکھ کر مسجد تعمیر کی جاتی ہے۔ محلے کے بزرگوں کو مشورے میں شریک کیا جاتا ہے۔

بچپن سے بچوں اور بچیوں کو مسجد سے محبت ہوجاتی ہے۔ ماڈرن ٹرم میں کہہ سکتے ہیں “Family Friendly Masjid” ہوتی ہیں۔ یہ بنیادی کام وہ بیس برس سے کررہے ہیں۔

انتخاب جیتنے کے دیگر عوامل میں ملک کو خود انحصاری، معاشی اور معاشرتی ترقی کی طرف لے جانا، ٹیکنوفاسٹ میلہ جس میں نوجوان اپنی ایجادات بنا کر لاتے ہیں، حکومت انہیں سراہتی ہے اور اس کام کو اس نوجوان کی Owner Ship تسلیم کرکے اسے مالی طور پر آگے بڑھاتی ہے۔

ترکیہ نے اپنی کار Togg بنائی۔ بین الاقوامی طور پر ترکیہ کے دفاع کے لیے شام میں ترک فوج نے پیش قدمی کی۔

ترکیہ نے ترقی کے لیے کسی اندرونی یا بیرونی دبائو کو قبول نہیں کیا۔ ہر ادارے کو اپنا کام کرنے کا پابند کیا، مثلاً فوج کا کام صرف دفاع کرنا ہے، سیاست سے اس کا تعلق نہیں۔

اردوان صاحب کامیاب ہوگئے، ہمارے لیے بہت سے سبق ہیں اس کامیابی میں۔ کاش ہم پاکستانی اس سے سبق حاصل کرکے اپنے معاشرے میں مثبت چیزیں اختیار کریں۔

حصہ