بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی ۔۔۔۔بڑا خطرہ

699

ماحولیاتی آلودگی اس وقت پوری دنیا کا ایک اہم مسئلہ ہے جو کئی دہائیوں سے انسانی صحت اور تندرستی کو متاثر کررہا ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک کی تیزی سے صنعتی اور شہری ترقی کے باعث یہ مسئلہ مزید گمبھیر ہوگیا ہے۔ انسانی صحت پر ماحولیاتی آلودگی کے اثرات متعدد اور متنوع ہیں، جن میں سانس کے مسائل سے لے کر کینسر، ذیابیطس اور دل کی بیماری جیسی دائمی بیماریاں تک شامل ہیں۔ پاکستان میں صورت حال خاص طور پر سنگین ہے، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ملک کی فضائی اور آبی آلودگی دنیا میں بدترین ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان کے بڑے شہر جن میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد شامل ہیں، دنیا کے 20 آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔ ہوا میں ذرات کی سطح جو سانس کے مسائل اور صحت کے دیگر مسائل کا سبب بن سکتے ہیں، خاص طور پر زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر کراچی میں آلودگی کے اثرات کی وجہ سے اصل درجہ حرارت ریکارڈ شدہ درجہ حرارت سے 6 سے 7 ڈگری زیادہ ہے۔ یہ ایک تشویش ناک رجحان ہے، کیونکہ زیادہ درجہ حرارت آلودگی کے اثرات کو بڑھا سکتا ہے، جس سے شہر میں رہنے والوں  کے لیے صحت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں 58 فیصد اموات غیر متعدی امراض کا سبب بنتی ہیں، صرف دل کی بیماریاں 31 فیصد اموات کی ذمہ دار ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کی بنیادی وجوہات کو دور کرنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو صورت حال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ اس ضمن میں آغا خان اسپتال میں عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ایک سیمینار بھی منعقد ہوا جس میں ادارہ تحفظِ ماحولیات سندھ کے ڈائریکٹر جنرل نعیم مغل، آغا خان اسپتال کے دماغی و اعصابی امراض کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی پروفیسر رفعت نسیم ملک، آغا خان اسپتال کی ڈاکٹر شفق سلیم، ادارہ تحفظِ ماحولیات کراچی کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر عمران صابر، کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ظفر اقبال شمس، یونیورسٹی آف لاہور کے پروفیسر محمد ظفر ہاشمی، کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر واقر احمد، سینئر صحافی محمد وقار بھٹی نے اظہارِ خیال کیا۔ اس موقع پر بھارت سے منموہن مہندرتا نے وڈیو پیغام کے ذریعے اظہارِ خیال کیا۔ ادارہ تحفظِ ماحولیات سندھ کے ڈی جی نعیم مغل نے کہا کہ تمام ہی افراد ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہورہے ہیں، ان تبدیلیوں کی وجہ سے انسانی صحت بری طرح متاثر ہورہی ہے اور گرمی کی شدت میں اضافے کے نتیجے میں ہماری معمول کی سرگرمیاں بھی متاثر ہونے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کا جو اصل درجہ حرارت ہوتا ہے وہ اب چھ، سات ڈگری زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں شدید دھوپ میں لوگ چھتری لے کر نکلتے ہیں لیکن پاکستان میں اس کا رجحان نہیں ہے، دھوپ کے نتیجے میں انسان کی جِلد متاثر ہوتی ہے، میں تمام جامعات سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنے ہاں چھتریوں کے استعمال کا شعور اجاگر کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا پورا سیوریج ان ٹریٹڈ سمندر میں گرتا ہے جس میں کیمیکلز بھی شامل ہیں، اور یہ سمندری آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ پلاسٹک کا بڑھتا ہوا استعمال ہماری زندگیوں کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام مسائل آگہی اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہیں، یہ صرف ایک ای پی اے کا کام نہیں ہے، اس کے لیے تمام اداروں اور ہر ہر فرد کو مل کر کام کرنا ہوگا، ہمیں لوگوں کو شعور اور آگہی دینا ہوگی۔

دماغی و اعصابی بیماریوں کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں پاکستان میں غیر متعدی امراض یعنی نان کمیونیکیبل ڈیزیز بڑھ رہی ہیں، بلڈ پریشر، شوگر، فالج اور دل کی بیماریوں کی شرح میں اضافے کی وجوہات میں سے بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہے، حتیٰ کہ ڈپریشن اور نفسیاتی امراض بھی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ اسٹروک آرگنائزیشن کی حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو 40 فیصد فالج، دل کا عارضہ، بلند فشار خون اور شوگر ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہے، پلاسٹک کا بڑھتا ہوا استعمال ہماری زندگیوں کے لیے خطرہ بن رہا ہے، پلاسٹک کے ذرات جو جسم کے اندر چلے جاتے ہیں وہ پوری زندگی ہمارے جسم میں رہتے ہیں، یہ انسانی جسم میں انڈوکرائن سسٹم کو متاثر کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں بھی انسانی صحت کو متاثر کررہی ہیں۔ گرمی کی شدت میں اضافہ، بارشیں اور سیلاب ہماری روزمرہ زندگی کو متاثر کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان کے بڑے شہر دنیا کے 20 آلودہ شہروں میں شامل ہیں، جس دن آلودگی زیادہ ہوتی ہے اُس دن اسپتالوں پر دبائو زیادہ ہوتا ہے، اسپتالوں میں داخلے بڑھ جاتے ہیں اور اموات بھی زیادہ ہوتی ہیں، کورونا کے دنوں میں لاک ڈائون کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہوئی تھی اور اس کے نتیجے میں نان کمیونیکیبل ڈیزیز میں کمی، جس کی وجہ سے اموات میں بھی کمی آگئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آدھی آبادی کو کوئی نہ کوئی غیر متعدی مرض لاحق ہے، اس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔

جیسا کہ ماہرین اس بات کا اظہار ہر فورم پر کررہے ہیں کہ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے بنیادی ذرائع میں صنعتی اخراج، گاڑیوں کا دھواں اور کچرے کو ناقص طریقے سے ٹھکانے نہ لگانا بھی ہے۔ اس کے ساتھ نئی عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے جنگلات کی کٹائی، جس کی وجہ سے قدرتی حسن اور مقامات کی تباہی ہوتی ہے۔

پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت، نجی شعبے اور سول سوسائٹی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ حکومت صنعتوں کو ریگولیٹ کرنے اور توانائی کے صاف ستھرے ذرائع کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے، جبکہ نجی شعبہ صاف ستھرے پیداواری طریقوں اور ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ سول سوسائٹی بھی اس مسئلے کے بارے میں بیداری پیدا کر سکتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی ایک اہم چیلنج ہے جو پاکستان میں انسانی صحت اور تندرستی کو بر ی طرح متاثر کر رہی ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ کوششوں سے ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کو کم کیا جاسکتاہے، لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے اپنے حصے کاکام کرنے کی ضرورت ہے۔

حصہ