قیصروکسریٰ قسط(105)

390

’’تمہاری صورت بتا رہی ہے کہ تم کوئی اچھی خبر نہیں لائے‘‘۔
’’سپاہی نے کرب انگیز لہجے میں کہا۔ ’’وہ مر چکے ہیں!‘‘

وہ دیر تک سکتے کے عالم میں اس کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر اچانک عاصم نے آگے بڑھ کر اپنے دونوں ہاتھ سپاہی کے کندھے پر رکھ دیئے اور اسے بیدردی کے ساتھ جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ ’’تم جھوٹ کہتے ہو، یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ تم پڑائو میں تھے اور وہ کسریٰ کے پاس گئے ہوئے تھے۔ پڑائو میں ان کی موت کی افواہ کسی دشمن نے اُڑائی ہوگی!‘‘

سپاہی کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنی سسکیاں ضبط کرتے ہوئے کہا کاش! یہ خبر غلط ہوتی۔ جب پڑائو میں کہرام مچا ہوا تھا تو ہم بھی یہی سمجھتے تھے کہ یہ خبر غلط ہے لیکن میں شہر کے ایک چوراہے پر میں ان کی لاش دیکھ چکا ہوں‘‘۔

عاصم نے ایک ڈوبتے ہوئے انسان کی طرح تنکوں کا سہارا لینے کی کوشش کی۔ ’’تمہیں یقین ہے کہ تمہاری آنکھوں نے دھوکا نہیں کھایا؟‘‘

’’میں نے جو لاش دیکھی ہے اسے پہچاننا ناممکن ہے۔ وہ کھال کے بغیر تھی اور گدھ اسے نوچ رہے تھے لیکن وہاں جمع ہونے والے لوگ چلا رہے تھے کہ یہ سین کی لاش ہے۔ سین کے چند دیرینہ دوست جنہیں میں جانتا ہوں، وہاں موجود تھے اور وہ رو رہے تھے۔ میں ان سے تمام واقعات پوچھ کر آیا ہوں۔ میں اس جلاد سے بھی مل چکا ہوں جسے زندہ ان کی کھال اُتارنے کے حکم دیا گیا تھا۔ فوج کے ایک افسر نے مجھے ان کے کپڑے بھی دکھائے تھے، جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ میں ان کے ساتھ آیا ہوں تو وہ میرے گرد جمع ہوگئے۔ وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ سین شہنشاہ کا غدار کیسے بن گیا۔ اگر وہ بغاوت پر آمادہ ہوچکا تھا تو یہاں کیوں آیا تھا؟ کیا یہ درست ہے کہ وہ قیصر کے ساتھ مل گیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں نے جنون کی حالت میں کیا کچھ کہہ ڈالا‘ پاس ہی ایک کاہن لوگوں کو یہ سمجھا رہا تھا کہ اگر ایران کے لشکر کی قیادت اس غدار کو نہ سونپی جاتی تو اب تک قسطنطنیہ فتح ہوچکا ہوتا۔ ہم نے شہنشاہ کو بارہا یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ایک رومی عورت کا خاوند ایران کا وفادار نہیں ہوسکتا۔ لیکن کسریٰ اس غدار کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ تھا۔ میں پوری قوت کے ساتھ چلایا۔ ’’یہ جھوٹ ہے، سین غدار نہیں تھا۔ غدار وہ ہیں جو ایران کے ایک عظیم سپاہی کی موت پر خوشیاں منارہے ہیں‘‘۔ بعض لوگ میری بوٹیاں نوچنے کے لیے تیار ہوگئے۔ لیکن ایک افسر نے سپاہیوں کی مدد سے انہیں ایک طرف دھکیل دیا اور پھر مجھ سے کہا۔ ’’میں سین کا دوست ہوں اور تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن اب اس جگہ شور مچانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر تم اس جگہ سین کے ساتھ چند اور بے گناہوں کی لاشیں نہیں دیکھنا چاہتے تو یہاں سے بھاگ جائو۔ اس وقت تمہارے ساتھیوں کے لیے پڑائو سے زیادہ کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ چناں چہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے بھاگ نکلا۔ لیکن تھوڑی دور جا کر میں نے محسوس کیا کہ آپ کو اطلاع دینا ضروری ہے۔ اور میں انہیں چھوڑ کر آپ کے پاس آگیا ہوں‘‘۔

عاصم نے کرب کی حالت میں اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔ ’’اگر سین قتل ہوچکا ہے تو اس کا قاتل پرویز نہیں بلکہ میں ہوں۔ میں نے ہی اسے موت کا راستہ دکھایا۔ میں نے ہی اسے صلح کا ایلچی بن کر یہاں آنے پر مجبور کیا تھا۔ کاش میں اس کے ساتھ ہوتا۔ کاش اس سے پہلے میری کھال اُتاری جاتی اور میں اس سے یہ کہہ سکتا کہ میں جرم میں ہی نہیں بلکہ سزا میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہوں۔ سین کو اپنے مستقبل کے متعلق کوئی غلط فہمی نہ تھی۔ اسے خلقدون سے روانہ ہوتے وقت بھی اس بات کا یقین تھا کہ وہ موت کے دروازے پر دستک دینے جارہا ہے‘‘۔

کلاڈیوس نے ولیریس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’تم اصطبل سے عاصم کا گھوڑا لے آئو، جلدی کرو!‘‘

ولیریس اصطبل کی طرف بھاگ گیا اور کلاڈیوس نے عاصم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’عاصم! اب تمہیں ہمت سے کام لینا پڑے گا، ہم جس مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں اس کی تکمیل کے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ لیکن موجودہ حالات میں مَِیں تمہیں ایک لمحہ کے لیے بھی یہاں ٹھہرنے کا مشورہ نہیں دوں گا۔ خدا کے لیے تم یہاں سے نکل جائو اور سین کی بیوی اور بیٹی کی حفاظت کی فکر کرو۔ ورنہ مجھے ڈر ہے کہ کسریٰ سین کے وحشیانہ قتل کو جائز ثابت کرنے کے لیے انہیں بھی کسی سازش میں ملوث کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر تم کسی تاخیر کے بغیر وہاں پہنچ جائو تو تمہارے لیے انہیں باسفورس کے پار پہچادینا مشکل نہیں ہوگا۔ وہاں کوئی تم پر شک نہیں کرے گا۔ اگر تم سے پہلے سین کے قتل کی خبر وہاں پہنچ گئی تو خلقدون کے دروازے تمہارے لیے بند ہوں گے اور تم ان کی کوئی مدد نہیں کرسکو گے۔ یہاں رہ کر تم ہماری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ مجھے بدترین حالات میں بھی کسریٰ سے یہ توقع نہیں کہ وہ ہمیں موت یا قید کی سزا دے گا۔ ہم ایک ہار ماننے والے حکمران کے ایلچی ہیں۔ ہمارے ساتھ بڑی سے بڑی بدسلوکی یہ ہوسکتی ہے کہ ہمیں دھکے دے کر دست گرد سے نکال دیا جائے لیکن تمہارا معاملہ ہم سے مختلف ہے، تم سین کے دوست ہو اور وہ تمہیں کسی نیک سلوک کا مستحق نہیں سمجھیں گے۔ اگر ہمارا انجام انتہائی عبرتناک ہو تو بھی تم ہماری کوئی مدد نہیں کرسکتے‘‘۔

لیکن عاصم کے ذہنی اور جسمانی فتویٰ شل ہوچکے تھے۔ اور وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے کلاڈیوس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

کلاڈیوس نے اُسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ ’’عاصم اگر تم کو اپنی جان کی پروا نہیں تو کم از کم یہی خیال کرو کہ تم اس دنیا میں فسطینہ کا آخری سہارا ہو‘‘۔

عاصم نے چند بار فسطینہ کا نام دہرایا اور اس کے دل میں زندگی کی ہلکی ہلکی دھڑکنیں بیدار ہونے لگیں پھر اس نے مڑ کر دیکھا، ولیریس اس کا گھوڑا لے آرہا تھا۔ اس نے اچانک بھاگ کر اس کے ہاتھ سے گھوڑے کی باگ پکڑ لی لیکن پھر تذبذب کی حالت میں اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔

کلاڈیوس چلایا۔ ’’اب سوچنے کا وقت نہیں عاصم، خدا کے لیے جلدی کرو!‘‘

سپاہی نے اپنے گھوڑے پر کودتے ہوئے کہا۔ ’’چلیے میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں!‘‘

عاصم ایک گہری سانس لینے کے بعد گھوڑے پر سوار ہوگیا لیکن ابھی وہ بیرونی دروازے سے چند قدم دور تھے کہ چند مسلح سپاہی نمودار ہوئے اور نیزے تان کر اس کے سامنے کھڑے ہوگئے۔

اگر عاصم کو بھاگ نکلنے کی کوئی اُمید ہوتی تو شاید وہ دوچار آدمیوں کو کچل ڈالنے سے بھی دریغ نہ کرتا۔ لیکن آج وہ قوتِ فیصلہ جو اُسے پہاڑوں سے ٹکر لینے پر آمادہ کردیا کرتی تھی جواب دے چکی تھی اور وہ خون جو خطرات کے وقت اس کی رگوں میں بجلی بن کر دوڑتا تھا منجمد ہوچکا تھا۔ پیادہ سپاہیوں سے پیچھے کشادہ سڑک پر بھی چند سوار دیکھائی دے رہے تھے، اس نے اپنے گھوڑے کی باگیں کھینچ لیں اور ایک ثانیہ صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد اپنے ساتھی سے کہا ’’اب بھاگنے کی کوشش بے سود ہے‘‘۔

ایک خوش وضع نوجوان، جو ان سپاہیوں کا افسر معلوم ہوتا تھا آگے بڑھا اور اس نے کہا۔ ’’تم باہر نہیں جاسکتے!‘

’’ایک آدمی کا راستہ روکنے کے لیے تمہیں اتنی فوج جمع کرنے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر اپنے گھوڑے سے اُتر پڑا۔ افسر نے کچھ کہے بغیر ایک سپاہی کو ہاتھ سے اشارہ کیا اور اس نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔ دوسرا سپاہی عاصم کے ساتھی کی طرف بڑھا اور وہ بھی اپنے گھورے سے اُتر پڑا۔

’’نوجوان افسر نے کہا‘‘۔ انہیں قید خانے میں لے جائو!‘‘

سپاہیوں نے عاصم اور اس کے ساتھی کو ایک تنگ گھیرے میں لے لیا تو کلاڈیوس نے جو اپنے ساتھیوں کی طرح دم بخود ہو کر یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اچانک آگے بڑھ کر ایرانی افسر سے سوال کیا۔ ’’کیا میں ان کی گرفتاری کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟‘‘

افسر نے بے پروائی سے جواب دیا ’’میں تمہیں صرف یہ بتاسکتا ہوں کہ اگر تمہارے ساتھیوں میں سے کسی اور نے بھاگنے کی کوشش کی تو ہم اُسے بھی قید خانے میں بھیجنے پر مجبور ہوں گے‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم بھاگنے کی نیت سے یہاں نہیں آئے اور اگر آپ عاصم کو ہمارے پاس چھوڑ دیں تو ہم اس کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہیں‘‘۔

عاصم نے گھور کر کلاڈیوس کی طرف دیکھا اور رومی زبان میں کہا۔ ’’یہاں میرا کام ختم ہوچکا ہے لیکن تمہارے حصے کا کام ابھی باقی ہے۔ ممکن ہے کہ سین کی موت پر ایرانی لشکر کے سرکردہ افسروں کا ردعمل کسریٰ کو تمہاری باتیں سننے پر مجبور کردے۔ اس لیے میری حمایت میں زبان کھول کر اپنی مشکلات میں اضافہ کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا‘‘۔

افسر نے سپاہیوں سے مخاطب ہو کر۔ ’’تم کیا دیکھ رہے ہو۔ اسے لے جائو!‘‘

عاصم سپاہیوں کی ننگی تلواروں کے پہرے میں چند قدم چلنے کے بعد اچانک رُکا اور افسر کی طرف مڑ کر دیکھتے ہوئے بلند آواز میں بولا۔ ’’میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں!‘‘

افسر جلدی سے آگے بڑھ کر بولا ’’مجھے افسوس ہے کہ میں تمہاری کوئی مدد نہ کرسکوں گا‘‘۔

عاصم نے کہا ’’مجھے معلوم ہے لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس غریب سپاہی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں، یہ سین کے محافظ دستے کے ساتھ پڑائو میں ٹھہرا ہوا تھا وہاں اس نے سین کے قتل کی اطلاع سنی، شہر میں جا کر اس خبر کی تصدیق کی اور یہ سمجھ کر میرے پاس چلا آیا کہ میں سین کا ایک وفادار دوست اور ساتھی ہوں۔ یہ بات اِس کے ذہن میں بھی نہیں آسکتی تھی کہ سین کے کسی دوست کو اس کی موت کی اطلاع دینے کے بعد یہ اس مصیبت میں پھنس جائے گا۔ اس لیے آپ ویسے میرے ساتھ شامل نہ کریں!‘‘

افسر کچھ دیر سوچنے کے بعد اپنے ایک ساتھی سے مخاطب ہوا۔ ’’تم اسے پڑائو میں لے جائو اور وہاں اسے کڑی نگرانی میں رکھو۔ پہریداروں کو اس کے باقی ساتھیوں کے متعلق بھی یہ ہدایت کرو کہ وہ تاحکم ثانی ان میں سے کسی کو بھی پڑائو سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دیں۔ اور یہ گھوڑے بھی اپنے ساتھ لے جائو۔ تمہارے ساتھ پانچ سپاہی کافی ہوں گے۔‘‘

پھر وہ عاصم کی طرف متوجہ ہوا۔ اب تم کچھ اور کہنا چاہتے ہو؟‘‘۔

(جاری ہے)

حصہ