اردو ادب نے بے شمار شاعر اور ادیب پیدا کیے ان حضرات نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جو تخلیقات ادب کوعطا کی اس نے اردو ادب کو مضبوط سے مضبوط تر کر دیا، میر تقی میر‘ مرزا غالب‘ سرسید احمد خان بے شمار نام ہیں ان سب کا اردو ادب پر بہت بڑا احسان ہے آج اردو انہی حضرات کے دم سے زندہ ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے چند برس پہلے اردو ادب نے ایک ایسے شاعر کو جنم دیا جس نے اپنی زندگی ہی میں وہ شہرت اور عزت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے میری مراد احمد فراز سے ہے ۔
اور فرازاؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
عموما ًیہی دیکھا گیا ہے کہ شاعر ہو یا ادیب اس کے مرنے کے کافی دنوں کے بعد اربابِ دانش کو اگر اس مرحوم کے علم و فن کا خیال آگیا تو اس کی یاد میںدو چار مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے‘ اہلِ ادب مرحوم کے فن پر تبصرہ فرماتے ہیں‘ محفل کے اختتام پر کچھ چائے اور نمکین سے حاضرین کی تواضع کی جاتی ہے بس اسی طرح مرحوم کی تھوڑی بہت ’’قدر‘‘ ہو جاتی ہے۔ دلاور فگار نے اسی خیال کو ایک قطع میں اس طرح بیان فرمایا ہے:
ادیب و شاعر و فن کار بوتے ہیں وہ شجر
یہ لوگ پھل کہاں اپنے شجرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے مرنے کے بعد ان کی قدر ہوتی ہے
سو چند دن کے لیے ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں
احمد فراز ہندوستان اور پاکستان دونوں ملک میں یکساں مقبول رہے ہیں۔ اہلِ ذوق ان سے محبت کرتے تھے‘ تنہائی میں ان کی غزلیں گنگناتے تھے ’’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ‘‘ لوگوں کی زبان پر یہ غزل چڑھی ہوئی تھی۔ ہندوستان اور پاکستان یہی دو ملک ایسے ہیں جہاں اردو کا بول بالا ہے اور یہی لوگ جب ملک سے باہر رہائش پذیر ہوتے ہیں تو اپنی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے مشاعروں کا اہتمام کرتے ہیں‘ رسائل اور اخبارات کی طباعت کا سلسلہ بھی جاری رکھتے ہیں۔ احمد فرازاکثر انگلینڈ اور امریکا کا دورہ کیا کرتے تھے وہاں ان کی بے انتہا پذیرائی ہوتی تھی۔بھارت کے شہر بمبئی کے کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں احمد فراز کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا‘ مشہور فلمی اداکار دلیپ کمار بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ احمد فراز نے بات کا آغاز اس طرح کیا۔ دلیپ کمار جن کا اصل نام یوسف خان ہے انہیں یوسف جان کہہ کر مخاطب کیا انہوں نے کہا ہمارے پشاور میں کسی عزیز دوست یا بھائی کوجان کہہ کر مخاطب کرتے ہیں کیوں کہ دلیپ کمار کا تعلق بھی پشاور سے ہے اس حوالے سے میں انہیں یوسف خان نہیں بلکہ ’’یوسف جان‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہوں اور اپنی مشہور ِزمانہ غزلِ مسلسل’’سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں‘‘یوسف جان کی نذر کی۔ احمد فراز نے غزل کیا شروع کی تالیوں کے شور سے ساراہال گونج اٹھا اور جب وہ اس شعر پر پہنچے
سنا ہے اس کی شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
تو سامعین نے اتنی دیر تک تالیاں بجایئں کہ احمد فراز کو کچھ دیر تک خاموشی اختیار کرنی پڑی۔ احمد فراز بہت خوش قسمت تھے کہ ان کی زندگی ہی میں ان کے دور کے شعرا نے انہیں شاعر تسلیم کرلیا ورنہ ایک شاعر دوسرے شاعر کو شاعر کب تسلیم کرتا ہے اور اگربادلِ ناخواستہ تسلیم کر بھی لے تو ہمیشہ اُسے اپنے سے ادنیٰ ہی سمجھتا ہے۔ حوالے کے لیے میں آپ کو دلاور فگار کی نظم’’شاعرِ اعظم‘‘پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ 1980کی دہائی، اسٹیڈیم گراؤنڈ کراچی میںعالمی مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ کچھ شعرا انڈیا سے بھی تشریف لائے تھے۔ سامعین کی ایک بڑی تعداد تھی۔ احمد فراز نے پہلی مرتبہ اپنی نظم ’’محاصرہ‘‘ پڑھی تھی مشاعرہ گاہ تالیوںسے گونج رہی تھی‘ مشاعرہ اختتام کو پہنچا‘ لوگ اپنے گھروں کی طرف لوٹے مگر ’’محاصرہ‘‘ ان کے ذہنوں میں سمائی ہوئی تھی۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی عوام کے سروں پر مارشل لا کی چادر تنی ہوئی تھی۔ اگلے روز قصرِ شاہی سے ظلِ الٰہی کا فرمان واجبُ الاذعان جاری ہوگیا کہ اگر جان کی امان چاہتے ہو تو وطنِ عزیز کو خیرباد کہو اور دیارِ غیر میں کہیں ٹھکانہ تلاش کر لو اور اس دور کے لوگوں کا محبوب اور اردو کا عظیم شاعر جلاوطن کر دیا گیا۔ احمد فراز نے انگلستان میں پناہ لی شاعر ہو یا ادیب اس کی سب سے بڑی طاقت اس کا قلم ہوتا ہے۔ احمدفراز دیارِ غیر میں ضرور تھے مگر ان کا قلم ان کے ساتھ تھا۔ اپنی نظم محاصرہ میں وہ فرماتے ہیں:
مرا قلم نہیں کردار اُس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبُک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
اور احمد فراز کے قلم کا سفر رائیگاں نہیں گیا وہ جب تک انگلستان میں رہے‘ اُن کا قلم متحرک رہا اور وہ مضامینِ نو کے انبار لگاتے رہے۔ ان کی شہرت اور مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی۔ موت تو سب کو آنی ہے چاہے وہ فوج کا جنرل ہی کیوں نہ ہو جنرل ضیاء الحق ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے‘ احمد فراز کے لیے راستہ صاف ہو گیا وطن واپسی ہو گئی۔ اب اسے بھی حسنِ اتفاق ہی کہہ لیجیے کہ ان کے آنے کے چند دنوں بعد کراچی میں عالمی مشاعرہ ہوا احمد فراز بھی اس مشاعرے میں مدعو تھے جیسے ہی وہ مائیک پر تشریف لائے سامعین نے زور دار آواز میں نظم محاصرہ کی فرمائش کی۔ جب تک وہ جلا وطن رہے سو رہے مگر اُن کی نظم ’’جلا وطن‘‘ نہ ہوئی۔ وہ ویسے ہی لوگوں کے دل و دماغ میں بسی رہی احمد فراز مسکراتے ہوئے سامعین سے مخاطب ہوئے:
’’میں نے پہلی بار جب یہ نظم پڑھی تھی تو گھر سے بے گھر کر دیا گیا اب دوبارہ اپنے گھر میں آیا ہوں تو دوسری بار اس نظم کو پڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔‘‘
یقین جانیے نظم شروع کرتے ہی وہ تالیاں بجیں کہ بس کچھ نہ پوچھیے اس کے بعد جس مشاعرے میں احمد فراز جاتے تھے سب سے پہلے اسی نظم کی فرمائش کی جاتی تھی نظم ہی ایسی ہے۔ وقت اور حالات کے عین مطابق۔ غالبؔ نے کہا تھا:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
دراصل یہ نظم لوگوں کے دل کی آواز تھی اسی لیے عوام میں اس قدر مقبول ہوئی کوئی بھی تحریر بلا وجہ شہرت نہیں پاتی۔ احمد فراز بھی دنیا سے رخصت ہو لیے وہ ان کی جسمانی موت تھی۔ ایک اچھا شاعر یا ادیب کبھی نہیں مرتا اس کا کلام ہمیشہ اس کو زندہ رکھتا ہے میر تقی میر نے کہا تھا:
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا حشر جہاں میںمرا دیوان رہے گا
احمد فراز کے جس شعر کی خاطر میں نے یہ مضمون لکھنے کا قصد کیا تھا‘ وہ ابھی تک پردے میں رہا۔ دراصل قوم کے ہر فرد کے لیے اس شعر کی ضرورت ہے۔ اگر اس شعر کے مفہوم پر ہماری قوم عمل کر لے تو سارا جھگڑا ہی ختم ہو جائے‘ اس کے سارے مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں۔ یہ شعر ایک پیغام ہے‘ ایک نصیحت ہے‘ قوم کے لیے اکسیر ہے شعر حاضر ہے:
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اب قارئین کو اس کا مفہوم سمجھانے کی ضرورت تو ہے نہیں اس لیے کہ الحمدللہ ہمارے تمام قارئین اہلِِ ذوق ہیں اور شعر فہم بھی ہیں لیکن مضمون کو تھوڑا سا طول دینے کی خاطربڑھا رہا ہوں فقط زیب ِداستاں کے لیے:
تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چلا جا رہا تھا ایک ٹریفک پولیس والا میرے آگے آگے چل رہا تھا۔ فٹ پاتھ پر ایک تیل کا خالی ڈبہ پڑا ہوا تھا پولیس والا رکا ڈبہ اٹھایا اور قریب ہی ایک ڈسٹ بن میں ڈالنے کی کوشش کی مگر ڈسٹ بن کا منہ ڈبے سے چھوٹا تھا ڈبا گول تھا اندر نہ جا سکا‘ پولیس والے نے ڈبہ زمین پر رکھا اپنے مضبوط بوٹ سے اسے دو مرتبہ اس طرح پیٹا کہ وہ بجائے گول کے پتلا ہو چکا تھا اور آسانی سے ڈسٹ بن میں جا سکتا تھا‘ اس نے ڈبہ ڈسٹ بن میں ڈالا اور اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹی جھاڑی اور چلا گیا۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال میں نے دی ہے ’’اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے‘‘ قارئینِ کرام! وطنِ عزیز میں اگر ہر شخص اپنے حصے کی ذمے داری پوری کر لے تو ہمارے ملک کے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اب اس پولیس والے کی ذمے داری یہ نہیں تھی کہ ڈبے کوڈسٹ بن میں ڈالتا مگر اسے اپنا شہر صاف رکھنا تھا اس نے کسی اور کا انتظار کیے بغیر اپنے حصے کا کام کر ڈالا۔ بظاہر بات بہت چھوٹی ہے مگر حقیقت میںبہت بڑی ہے اور سبق آموزبھی۔کاش ہم غیروں سے ہی سبق سیکھ لیں۔