ویمن اسلامک لائرز فورم
پاکستان اسلامی ملک ہے جس کی آبادی کا بڑا حصہ اگرچہ مسلمانوں پر مشتمل ہے تاہم افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ وراثت کے معاملے میں شرعی تقاضوں کو پورا نہیں کیا جاتا، حالانکہ شریعت نے زندگی کے ہر گوشے کی رہنمائی قرآن کے ذریعے کی ہے جسے ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی جامہ پہنایا۔ قرآن کریم میں ایمان لانے والوں کے لیے متعدد احکامات ہیں، تاہم ان احکامات کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں کہ ادائی کس طرح کی جائے۔ جیسا کہ نماز ادا کرنے کا حکم تو ہے لیکن ادا کس طرح کی جائے گی اس کی تفصیلات نہیں دی گئیں، یہ تفصیلات ہمیں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دستیاب ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس وراثت سے متعلق تمام تر احکامات ایک ہی سورۃ النساء میں بیان کیے گئے ہیں اور ساتھ ان کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں تاکہ ایمان لانے والوں کے آپس کے تعلقات میں کوئی فتنہ و فساد برپا نہ ہو، نیز کسی کی حق تلفی بھی نہ کی جاسکے۔ غرض، وراثت سے متعلق تمام احکامات و تفصیلات کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی حدود قرار دیا ہے۔ ان احکامات پر عمل کرنے والوں کے لیے خوش خبری ہے، تو من و عن عمل نہ کرنے والوں کے لیے سخت وعید بھی سنائی گئی ہے۔ سورۃ النساء کی آیات میں وراثتی احکامات کی آیات کے فوری بعد درج ذیل آیات نمبر 13 اور 14 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ اور اُس کے رسولؐ کی فرماں برداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے گا اُسے وہ جہنم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘
سورۃ النساء کی وراثت سے متعلق آیات کی شانِ نزول کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ ان احکامات سے پہلے خواتین کا سرے سے جائداد میں کوئی حق تسلیم ہی نہیں کیا جاتا تھا، جو اولاد یعنی بیٹا اپنے قبیلے کے لیے لڑنا جانتا تھا ساری وراثت کا مالک بن جایا کرتا تھا۔ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو حصہ نہیں ملا کرتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب یہ معاملات آئے اور وراثت سے محروم خواتین نے آپؐ سے اپنے حق کی محرومی کی بابت سوال کیا تو رب العزت نے خواتین کو نہ صرف وراثت میں حق دار بنایا بلکہ بڑی تفصیل سے ایک عورت کا حق بطور بیوی، بیٹی اور ماں سے متعلق احکامات کو کھول کر بیان کیا گیا تاکہ کسی قسم کی حق تلفی کا راستہ نہ نکالا جا سکے۔
ان احکامات کی تاکید اور واضح تفصیلات ہونے کے باوجود مشاہدے میں یہ آتا ہے کہ خاندانی تنازعات میں سب سے زیادہ کیسز جائداد یعنی وراثت سے متعلق ہوتے ہیں۔ کئی کیسز عدالتوں میں آتے ہی نہیں کہ وارثین میں آپس کے جھگڑے قتل پر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ خواتین کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے ریکارڈ پر ہی نہیں لایا جاتا۔ کئی خواتین کی شادی اس لیے نہیں کی جاتی کہ جائداد دوسرے خاندان میں چلی جائے گی۔ جن خواتین کی شادی کر بھی دی جاتی ہے تو تحائف کی شکل میں سازو سامان یعنی جہیز کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے جس میں اکثریت کی نیت یہی ہوتی ہے کہ جہیز ہی دراصل مذکورہ خاتون کی وراثت ہوگی وغیرہ۔ حالانکہ شریعت نے جہیز کے بجائے عورت کو وراثت کا حق دار باپ کے ترکہ میں بھی بنایا اور شوہر کے ترکہ میں بھی بنایا۔
خواتین کی حق تلفی ایک طرف دیگر مرد وارثین کرتے ہیں تو دوسری طرف خواتین خود بھی اپنے حق کو حاصل کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتیں، خود بے چارگی کی زندگی گزارنے کو تیار ہوجاتی ہیں لیکن اپنا حق نہیں لیتیں، جس کی بڑی وجہ سماجی رویّے ہیں جن کے باعث وہ رشتوں کی ڈوری کو مضبوط اور برقرار رکھنے کے دبائو کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں‘ جذبات کا غلبہ حق تلفی کی وجہ بن جاتا ہے۔ خواتین کے معاملات کے علاوہ وراثتی معاملات میں سب سے پیچیدہ معاملہ یتیم پوتے سے متعلق ہوتا ہے، چونکہ سورۃ النساء میں ذوی الفروض افراد کی جو فہرست دی گئی ہے اس میں مرحوم بیٹے کی اولاد سے متعلق ذکر نہیں ہے جس کے باعث تنازعات کو مزید پیچیدہ محض اس بنا پر بنادیا جاتا ہے کہ یتیم پوتے کو ذوی الفروض میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ حالانکہ اللہ کے احکامات حکمت اور کاملیت کے اعتبار سے انتہائی پختہ ہوتے ہیں جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ یتیم سے متعلق قرآن میں احکامات الگ سے موجود ہیں جس میں یتیم کے ساتھ تو انتہائی شفقت اور ان کی نگہداشت کے لیے خاص الگ معاملات رکھے گئے ہیں۔ یتیم سے متعلق معاملات میں حسنِ سلوک کو مقدم رکھا گیا ہے۔ جائداد کے مالک کو ان وراثتی احکامات میں اللہ رب العزت نے 1/3 حصے پر اپنی زندگی ہی میں وصیت کا اختیار دیا ہوا ہے، اس اختیار کو بآسانی یتیم پوتے، پوتی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب نیت رضائے الٰہی ہو اور خوفِ خدا دل میں موجود ہو تو اللہ کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کردیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس نفس پرستی میں مبتلا کوئی بھی شخص صرف دنیاوی فائدے مقدم رکھتا ہے۔
سورۃ النساء آیت نمبر 8 میں وراثتی احکامات میں یتیم سے متعلق حکم بھی موجود ہے: ’’اور جب تقسیم کے وقت قرابت دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو تم اس میں سے تھوڑا بہت انہیں بھی دے دو اور ان سے نرمی سے بولو۔‘‘
درج بالا آیت میں ایک ہی وقت میں پوتا، پوتی یتیم ہونے کے ساتھ ساتھ قرابت کا رشتہ بھی رکھتے ہیں، نیز بعض معاملات میں والد سے محرومی ان کو کم سنی کے باعث مسکین بھی بنادیتی ہے، لہٰذا اس آیت کے حکم کے مطابق یتیم پوتے، پوتی کو وراثتی حقوق دیے جاسکتے ہیں۔
وراثت سے متعلق بڑھتے ہوئے تنازعات کی ایک بڑی وجہ لاعلمی بھی ہے، اس سلسلے میں اہلِ علم کا وہ طبقہ جو تنازعات کے حل کے لیے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں پیش کرتے ہیں یعنی وکلا، ان کو بھی وراثت سے متعلق شرعی تقاضوں کا بہ خوبی علم ہونا نہایت ضروری ہے۔ اگرچہ وکلا اپنے پیشے میں قانونی نکات پر مہارت رکھتے ہیں، اگر یہ شرعی قانونی نکات جید علمائے کرام سے رہنمائی میں سیکھے جائیں تو شریعت کے بتائے ہوئے وراثتی احکامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وکلا اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں تاکہ اللہ رب العزت کے بتائے ہوئے طریقِ کار پر من و عن عمل کروایا جا سکے۔ اس طرح کسی کی حق تلفی نہ ہو اور زیادتی کرنے والے سے حق لے کر محروم کو دلوایا جائے۔ اس کے لیے قرآن کے واضح احکامات کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے عہد میں فیصلہ سازی کی۔ اس کا علم بھی حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ عملی طور پر پیش آنے والے واقعات نظیر کی حیثیت سے مدد کرسکیں۔ کورٹ میں وکلا کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسلامی وراثت کے علم کی کمی کی وجہ سے یہ انتہائی اہم معاملہ جائداد کی عدم تقسیم کا باعث بنتا ہے۔
اس انتہائی اہم علم کی کمی کو بھانپتے ہوئے یہ قدم وومن اسلامک لائرز فورم نے اٹھایا کہ وکلا کے لیے سٹی کورٹ کے جناح آڈیٹوریم میں مئی 2023ء کے پہلے ہفتے میں وراثتی احکامات سے متعلق ایک چار روزہ سرٹیفکیٹ کورس کا انعقاد کیا، جس میں معروف مرکز قرآن و سنہ کے جنرل سیکرٹری مولانا ساجد جمیل نے معلم کے فرائض انجام دیے، انہوں نے انتہائی مہارت سے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مفصل طریقے سے وکلا کی رہنمائی کی کہ کس طرح وراثتی احکامات سے متعلق سائلین کے تنازعات کے حل میں معاونت کی جاسکتی ہے۔ وکلا نے اس پروگرام میں دلجمعی سے نہ صرف شرکت کی بلکہ ول فورم کی کاوش کو سراہا اور نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔ اس موقع پر مولانا عطا الرحمن نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ’’وراثت بھی حقوق اللہ ہے۔ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی۔ وراثت میں معافی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ جو جائداد خاتون کا حصہ ہے وہ عملی طور پر پہلے خاتون کو منتقل کر دی جائے، اس کے قبضے میں ہو اور تین سال تک اس سے فائدہ اٹھا لیا جائے، اس کے بعد اگر خاتون اپنی مرضی سے اپنا حصہ معاف کرنا چاہے تو معاف ہو سکتا ہے، کیوں کہ کوئی خاتون ایسی جائداد جو پہلے ہی اُس کے قبضے میں نہ ہو، وہ کیسے معاف کر سکتی ہے؟‘‘
ول فورم کی چیئر پرسن ایڈووکیٹ طلعت یاسمین نے اس کامیاب پروگرام کے انعقاد پر مرکز قرآن و سنہ کے افراد، وکلا اور ول فورم انتظامیہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور ول فورم کی ان کاوشوں کو آگے جاری رکھنے کا اعلان کیا۔