راستہ

428

’’نہیں یار! نہیں… اجازت نہیں ملے گی رات گھر سے باہر گزارنے کی، تم لوگوں کو معلوم نہیں ہے نا کہ اتنی دیر بھی کتنی مشکل سے تم سب کا ساتھ دیتا ہوں۔‘‘ احمر نے کہا۔

’’چلو ہوگئی چھٹی… آگیا ممی ڈیڈی بے بی۔‘‘
’’یار! تم پہلے نہیں بول سکتے تھے؟‘‘

’’ہمیشہ ہی تمہارے اماں ابا کی وجہ سے پروگرام کینسل ہوجاتا ہے… اور بھلا فارم ہاؤس پر رات گزارے بغیر اتنے پیسے خرچ کون کرے گا! کم ازکم پیسے وصول تو ہوں پورے پورے۔‘‘

سب دوست فارم ہاؤس جانے کا پروگرام بنا رہے تھے کہ حسب معمول احمر کی معذرت پر سب چیں بہ چیں ہوگئے تو احمر نے کہا ’’یار! بہت اچھے ہیں اماں ابا… مگر تم سب کو معلوم ہے کہ رات باہر گزارنا میرے لیے ناممکن ہے، تم لوگ چلے جاؤ۔‘‘

’’ظاہر ہے کہ ہم چلے ہی جائیں گے… مگر تم ساتھ ہوتے تو گروپ مکمل ہوجاتا ہے۔‘‘ اشعر نے کہا۔

’’اچھا ایک بات تو بتاؤ، آخر مسئلہ کیا ہوتا ہے رات دیر تک جاگنے میں یا باہر رات میں تفریح کے لیے جانے میں؟‘‘ رضا نے پوچھا۔

’’وجہ تو مجھے معلوم نہیں مگر بارہ بجے تک بھی بڑی مشکل سے اجازت ہے، اور ابا سے تو اس کے آگے سوال پوچھنا ناممکن ہے۔‘‘ احمر نے کہا۔

’’تم کہو تو ہم بات کریں، اب تو اتنے بڑے ہوگئے ہیں۔‘‘ علی نے کہا۔
’’نہیں بھئی! تم لوگ جاؤ، میں امی سے پوچھتا ہوں کہ جب سب کو اجازت مل جاتی ہے بلکہ تم لوگوں کو تو اجازت بھی لینی نہیں پڑتی، صرف بتا دیتے ہو گھر میں، تو ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہے۔‘‘ احمر نے کہا۔

’’خیریت تو ہے آج چھٹی والے دن صاحب زادے گھر پر کیسے نظر آرہے ہیں؟‘‘ احمر صوفے پر لیٹا موبائل پر گیم کھیل رہا تھا کہ ابا کی آواز سن کر اٹھ بیٹھا۔

ابا اس کے قریب ہی بیٹھ گئے۔
’’وہ ابا سب دوست رات سے فارم ہاؤس گئے ہوئے ہیں نا، اس لیے‘‘، احمر نے کہا۔
’’تم نہیں گئے…؟‘‘
’’آپ رات باہر گزارنے کی اجازت نہیں دیتے، اس لیے۔‘‘
’’بہت خوب… دل خوش کردیا۔‘‘ ابا کو خوش دیکھ کر احمر کا حوصلہ بڑھا۔
’’ابا! ایک بات پوچھوں… ناراض تو نہیں ہوں گے؟‘‘ احمر نے پوچھا تو ابا نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’ابا ہوگا تو ویسا ہی جیسا آپ کہیں گے، لیکن میرے دوست جاننا چاہتے ہیں کہ آخر رات باہر گزارنے میں کیا قباحت ہے؟‘‘ اس نے اپنی بات کو خوب صورتی سے پیش کیا تو ابا نے ایک لمحے کچھ سوچا پھر کہا:
’’بیٹا جی! نوجوانی میں سب کو ہی شوق ہوتا ہے ہلا گلا، موج مستی کا، ہر اُس کام کو کرنے کا جس سے کوئی روکے۔ ہم کو بھی شوق تھا رات کو آوارہ گردی کا، مگر اُس وقت 10 بھی بہت زیادہ ہوتے تھے، اب تو فجر ہوجائے تب آج کل کے لڑکے گھروں کو لوٹتے ہیں، ہمارے ابا نے ہم کو صرف ایک بار سمجھایا کہ رات کو جلدی سونا اور صبح سویرے اٹھنا اللہ پاک کا حکم ہے اور صبح کے وقت میں ہی برکت ہے، اور اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ’’اللہ ہی ہے جس نے تمہارے (نفع کے) لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اسی نے دن کو (دیکھنے کے لیے) روشن بنایا۔ بے شک اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر بڑا ہی فضل ہے لیکن اکثر لوگ ان نعمتوں کا شکر نہیں کرتے۔‘‘ (سورہ المومن) بس ہم پھر شکر گزار بندے بن گئے اور کوشش کررہے ہیں کہ اپنی اولاد کو بھی اسی راستے پر گامزن کردیں، آگے جو اللہ کی مرضی۔‘‘ ابا نے کہا اور اٹھ کر چل دیے، اور احمر کے لیے سوچ کے دروازے کھول گئے کہ اس کو اب زندگی کس نہج پر گزارنی ہے۔

حصہ