(دوسرا اور آخری حصہ)
طاہر مسعود: خبروں اور اداریے کے صفحے تو واقعی صاف ستھرے ہوتے ہیں‘ اعتراض فلم میگزین یا سنیما ہال میں لگنے والی فلموں کے اشتہارات والے صفحے پر کیا جاتا ہے؟
فرہاد زیدی: جہاں تک اخبارات کے فلم میگزین یا ایڈیشنوں کا تعلق ہے ان میں وہی کچھ ہوتا ہے جو ہماری فلموں میں ہوتا ہے‘ جنہیںسنسر بورڈ کی اجازت کے بغیر اسکرین پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اگر فلمیں بھی ٹھیک ہیں اور ان میں دکھائے جانے والے گیت فحاشی کی زد میں نہیں آتے تو کسی ایکٹرس کی تصویر یا کسی فلم کے اشتہار کو جو اخبار میں شائع ہوتا ہے فحاشی کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟
طاہر مسعود: اخبارات کی سنسنی خیزیت کے بارے میں بھی کچھ ارشاد ہو؟
فرہاد زیدی: ہاں تو اب رہی بات سنسنی خیزی کی تو آپ اس چیز سے بھی اتفاق کریں گے کہ ہمارے اخبارات میں آج سے پندرہ بیس برس پہلے جو سنسنی خیزی روا رکھی جاتی تھی وہ متروک ہو چکی ہے‘ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اخبارات نے اپنے تجربے سے بہت کچھ سیکھا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اخبارات کے قارئین اب نسبتاً زیادہ باشعور ہو گئے ہیں‘ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سنسنی خیزی کا جہالت سے زیادہ تعلق ہے۔ جیسے جیسے لوگ زیادہ تعلیم یافتہ ہوں گے ویسے ویسے ان میں سیاسی اور معاشرتی شعور بڑھے گا‘ ان میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت بڑھے گی اور وہ سنسنی خیزی چھوڑ کر سنجیدگی کی طرف مائل ہوتے جائیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تک کسی چیز کی مارکیٹ رہتی ہے اس کی تیاری اور فروغ بھی جاری رہتی ہے۔ جب مارکیٹ ختم ہو جاتی ہے تو وہ مصنوعہ (Product) بھی بازار سے غائب ہو جاتی ہے یہی حال سنسنی خیزی کا ہے اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کراچی کے دو اخبارات (جنگ اور انجام) قیام پاکستان کے فوراً بعد کئی سال تک اپنی شہ سرخیوں میں یہ مقابلہ کیا کرتے تھے کہ بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات میں کون زیادہ مسلمانوں کو شہید کرتا ہے۔ جب مسلسل کئی دن ایک اخبار دوسرے پر سبقت لے جاتا رہا تو دوسرے کے مالک کو تشویش ہوگئی اور اس نے اپنے عملے کو ہدایت کی اس کے حریف کو نیچا دکھائے۔ چنانچہ ایک روز جب بھارت کے صرف ایک شہر میں معمولی سی فرقہ وارانہ جھڑپ ہوئی اور اس میں بھی چند افراد زخمی ہوئے تو اس اخبار نے ڈھائی سو مسلمانوںکو شہید کروا دیا۔ اس دن دوسرے اخبار نے صرف پچاس مسلمان مارے تھے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ ڈھائی سو والا اخبار خوب بکا اور اس دن اس اخبار کے مالک نے اپنے عملے کو پچاس روپے کا انعام مٹھائی کھانے کو دیا۔ ان میں سے ایک اخبار آج بھی موجود ہے۔ لیکن اب اس طرح کی سنسنی خیزی نہ تو کراچی کے اخباروں میں نظر آتی ہے اور نہ اس کی کوئی گنجائش ہے۔اس مثال سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اب چونکہ ہمارے قارئین سنسنی خیزی اور سنجیدہ خبروں میں تمیز کرنے لگے ہیں اس لیے اخبارات بھی ان کی سمجھ بوجھ اور پسند کا احترام کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
طاہر مسعود: ہمارے یہاں ان دنوں جاسوسی اور دیو مالائی ڈائجسٹوں نے زندگی کے سنجیدہ اور گہرے موضوعات کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹائی اور سطحی اور تفریحی باتوں کو فروغ دیا۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
فرہاد زیدی: اس کے برعکس میں یہ سمجھتا ہوںکہ ہمارے یہاں سنجیدگی ضرورت سے زیادہ در آئی ہے۔ لوگ ہنسنا‘ کھیلنا‘ ہلکی پھلکی باتیںکرنا بھول گئے ہیں۔ اس اعتبار سے ڈائجسٹوں نے ایک بڑی کمی پوری کی ہے اور پھر اصل بات وہی ہے جس کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا ہے کہ آپ پہلے لوگوں میں پڑھنے کی عادت تو پیدا ہونے دیں۔ آج اگر وہ ہلکے پھلکے تفریحی ادب میں دل چسپی لے رہے ہیںتو یقینا کل وہ زیادہ فکر انگیز چیزیں پڑھنے کے لیے بھی تیار ہو جائیں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسے پہلے وہ سنسنی خیز اخبارات پسند کرتے تھے اور اب سنجیدہ صفحات کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہمارا ایک قومی روگ ہے منافقت اور دوغلے پن کا۔ ہمارے یہاں عشقیہ غزلیں‘ رومانی شاعری کی روایت ہے‘ مشاعرے ہوتے ہیں۔ شرفا اس میں شریک ہوتے ہیں جہاں محبوب کے حسن کا‘ آنکھوں کا‘ اس کے سراپے کا نقشہ کھینچا جاتا ہے۔ سب اس کی تعریفیں کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ان سے یہ کہہ دے کہ محترم! یہ آپ کی صاحب زادی کے بارے میں ارشاد فرمایا جارہا ہے تو لوگ جان سے مار دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ ایک چیز کی تعریف و تحسین (Appriciate) کرتے ہیں تو اسے آپ اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے تیار کیوں نہیں ہوتے؟ شاعر کی محبوبہ آخر آپ کی بیوی بھی تو ہو سکتی ہے‘ آپ یہ کیوں نہیں سوچتے؟
طاہر مسعود: کیا ہمارے اخبارات مجموعی طور پر صرف ایک طبقے کے مفادات کی نگرانی نہیں کرتے ہیں؟ یعنی صرف شہری طبقہ جو پوری آبادی کی ایک معمولی اقلیت ہے۔
فرہاد زیدی: میں آپ کے سوال سے اس حد تک متفق ہوں کہ ہمارے اخبارات صرف ایک طبقے کے مفادات کی نگرانی کرتے ہیں اور یہ طبقہ شہری اقلیت بھی ہے لیکن یہ طبقہ وہ نہیں جو آپ کے ذہن میں ہے۔ ایک اعتبار سے یہ بڑی قدرتی بات ہے کہ اخبارات صرف شہریوں کے مفادات کی ترجمانی کریں اور وہ یوںکہ یہی شہری اخبار کے قارئین بھی ہیں۔ کیوں کہ تعلیم بھی ان کے پاس ہے اور اخبار خریدنے کی صلاحیت بھی وہی رکھتے ہیں جو ہمارے اخبارات میں اشتہار دیتے ہیں‘ ان کے مخاطب بھی یہی کھاتے پیتے شہری ہوتے ہیں۔ اسی طرح اخبارات شہریوں کی نہیں بلکہ اپنے قارئین کے مفادات کی نگرانی کرتے ہیں جب کہ ہماری آبادی کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے۔ اس اکثریت کی بڑی تعداد ناخواندہ ہے یعنی اخبار نہیں پڑھ سکتی نہ خرید سکتی ہے۔ اس طرح اخبارات کے مالکان کا تعلق شہری اکثریت سے ہو جاتا ہے اس لیے ان کی سوچ کا محور بھی شہری ہی ہوتے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ اخباروں میں کام کرنے والے صحافی اور دوسرے لوگ بھی شہری ہوتے ہیں۔ ان کی اکثریت نہ تو دیہات کے مسائل سے آشنا ہوتی ہے اور نہ اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ اس لیے کہ انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کے قارئین کی بھاری اکثریت شہری ہی ہے تو اس صورت حال کا منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ اخبارات صرف شہریوں کے مفادات کی ترجمانی کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی اپنی سرکولیشن کے نقطۂ نظر سے وہ عام آدمی کے نقطۂ نظر کو تھوڑی بہت جگہ دے تو دیتے ہیں لیکن اصل طبقہ جس کے مفادات کی نگرانی اخبارات حقیقی طور پر کرتے ہیں وہ شہری سرمایہ داروں‘ صنعت کاروں اور تاجروں کا طبقہ ہوتا ہے‘ جو اخبارات کے وسائل اور ان کے مالکوں کے منافع میں اضافے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ ہم نے جو نظام معیشت اپنا رکھا ہے‘ اس میں اخبارات کا یہ رول بڑا فطری ہے۔
طاہر مسعود: اپنی صحافتی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟
فرہاد زیدی: پتا نہیں مجھے کہنا چاہیے یا نہیں۔ آج سے پچیس برس پہلے مجھے نوکری کی ضرورت تھی۔ ایک صاحب نے پوچھا نوکری کرو گے؟ اس طرح سے مجھے اخبار میں نوکری مل گئی یا شاید اخبار میں پھنس گیا۔ ممکن ہے اخبار والے پھنس گئے ہوں۔ پہلا اخبار تھا‘ جو لاہور سے نکلتا تھا‘ سول اینڈ ملٹری گزٹ کا گروپ تھا۔ اس کے بعد ’’نوائے وقت‘‘ لاہور جوائن کیا۔ پھر کوہستان میں کام کیا۔ 1963ء میں لاہور سے مشرق نکلا تو اس سے وابستہ ہو گیا۔ سترہ‘ اٹھارہ سال تک لاہور میں رہنے کے بعد 1965ء میں کراچی آگیا۔ ’’مشرق‘‘ نے اخبار خواتین نکالا تو اس کا انچارج ہو گیا۔ یہ نومبر 66ء کی بات ہے‘ یہاں سے پھر روزنامہ ’’انجام‘‘ پشاور کا ایڈیٹر بنا۔ ’’انجام‘‘ جب ’’مشرق‘‘ کراچی میں مدغم ہوا تو ’’مشرق‘‘ کراچی کا ایڈیٹر ہو گیا۔ جون 68ء میں ’’حریت‘‘ جوائن کیا۔ اس کے بیچ کے عرصے میں پی ٹی وی پر ایک سال تک رہا۔ غرض کچھ اس طرح کی صحافتی زندگی گزری ہے اور مزید گزرنا باقی ہے۔
طاہر مسعود: اب آخر میں رسالہ ’’عقاب‘‘ کے بارے میں آپ کی کیا تجاویز ہیں؟
فرہاد زیدی: میں ایسی ہر تبدیلی اور نئی آواز کا خیر مقدم کرنے کے لیے تیار رہتاہوں جو صحافت کو اس کے گھسے پٹے سانچے سے باہر نکلنے میں مدد دے۔ مثال کے طور پر میں ’’دھنک‘‘ کو ایسی ہی کوشش تصور کرتا ہوں لیکن اس کام میں ایک مشکل یہ ہوتی ہے کہ بعض وقت نئے تجربوں کے جوش میں کچھ مسلمہ قدریں پامال کر دی جاتی ہیں‘ بے تکلفی بے ہودگی کی حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم آپ کا لب و لہجہ کیا ہوگا لیکن میری خواہش ہے کہ آپ صحافت کے پرانے ڈھروں کو چھوڑ کر اپنے لیے نئی اور منفرد راہ اپنائیں اور ’’عقاب‘‘ پڑھنے والے ان الزامات کا اعادہ نہ کرسکیں جو صحافت میں فحاشی‘ سنسنی خیزی‘ بلیک میلنگ‘ خود سری اور ایک طبقے کے مفادات کی نگرانی کے سلسلے میں دوسرے اخبارات و جرائد عائد کرتے رہتے ہیں۔