کڑی دھوپ میں دروازے کی گھنٹی بجی۔ ٹھنڈے کمرے سے نکل کر شدید گرمی میں باہر جا کر دروازہ کھولا تو کوئی نہیں۔ بڑا غصہ آیا کہ کوئی بیل بجا کے بھاگ گیا ہے لیکن پھر خیال آیا یہ واصف بھائی ہوں گے‘ اتنے میں دروازے کے آگے ایک تھیلی رکھی نظر آئی اور واصف بھائی کی آواز آئی ’’آپا یہ زردہ پلائو بنا دیں ذرا۔‘‘
تھیلی میں چاول، چینی، بادام اور زردے کا رنگ تھا۔ میں نے کہا ’’زردہ تو مجھے بنا نا نہیں آتا۔‘‘
کہنے لگے کہ ’’جو آپ کو آتا ہے بنا لیں‘ سب بچے کالج سے سیدھے پروگرام میں آتے ہیں بہت بھوک لگی ہوتی ہے۔‘‘
یہ واصف بھائی کا معمول تھا جب طلبا کو جمع کرتے پروگرام سے پہلے اگر کھانے کا وقت ہو تو کھانا یا پھرچائے کا اہتمام ضرور کرتے تھے۔ امی کے ہاتھ کی کھٹی دال اور اُبلے چاول ان کو بہت پسند تھے۔ اکثر پروگرام کے شرکا کو بھی یہی کھلاتے تھے۔ ہمارے محلے کے بہت سے بچے واصف بھائی کی کوششوں سے پنج وقتہ نمازی بن گئے۔ واصف بھائی علی الصبح سب کے گھروں پہ جا کر نماز کے لیے اٹھاتے اور یہ قافلہ باجماعت نماز مسجد میں پڑھ کے واپس آتا۔
واصف بھائی میرے چھوٹے بھائی شارق کے ناظم تھے۔ شارق ہمارے گھر میں چار بہنوں کے بعد آیا۔ بڑے بھائی کی کمی واصف بھائی پوری کرتے تھے۔ دونوں میں بہت محبت تھی۔ واصف بھائی ہفتہ بھر ہمارے گھر رہتے اور جب جاتے تو شارق صاحب ان کے ساتھ ہو لیتے اور پھر دنوں تک وہیں رہتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ امی سمجھتیں عزیزہ کی طرف ہیں، عزیزہ باجی سمجھتیں کہ ہماری طرف ہیں اور دونوں جمعیت طلبہ کے دفتر سے بازیاب ہوتے۔
اسلامیجمعیت طلبہ کراچی پہ وہ زمانہ شدید آزمائش کا تھا اور واصف بھائی کالج کمیٹی کے ذمے دار تھے۔ اَن گنت معصوم طلبہ اُن دنوں شہید کیے گئے۔ شاہد عزیز، فرحان آصف، محسن اختر، اکمل شیرازی اور بہت سے اسی دور میں شہید ہو۔ کالجوں میں پڑھنے والے بچوں پر منصوبہ بندی کے ساتھ مسلح حملے کیے جاتے تھے۔ اپنی دہشت قائم کرنے کے لیے طلبہ پر بے انتہا تشدد کرنے کے بعد ان کو چھوڑ دیتے تاکہ مزید خوف و ہراس پھیلے۔ کراچی کے نوجوان اپنے ساتھیوں کی زندہ لاشیں اٹھاتے اور اپنے سامنے انہیں تڑپ تڑپ کر جان دیتے دیکھتے تو ہتھیار اٹھانے پر آمادہ ہو جاتے۔ ایسے میں نوجوانوں کو ٹھنڈا رکھنا اور کسی انتقامی کارروائی سے روکے رکھنا بہت بڑا چیلنج تھا۔
آئے روز طلبا زخمی ہوتے اور جب شدید زخمی ہوتے تو واصف بھائی انہیں مرہم پٹی کروا کے اپنے ساتھ لے آتے اور جب تک وہ صحت یاب نہ ہو جاتے اپنے ساتھ رکھتے۔ کسی کے گھر والوں سے جا کر ملتے‘ کسی کو فون پر تسلی دیتے کہ بچے تربیتی کیمپ میں ہیں اور بات درست بھی تھی۔ وہ خود چلتا پھرتا تربیتی کیمپ تھے۔ ایک بارغالباً گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی میں مسلح افراد نے طلبہ پر منظم حملہ کیا اور بہت سے بچوں کی ہڈیاں توڑ ڈالیں‘ کئی کے سر پھاڑے۔ واصف بھائی نے شارق کو بھیجا کہ ’’آپا سے کہو امی کے گھر چلی جائیں اور چابی دے دیں ہم نے ان سب زخمیوں کو ٹھرانے کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘
واصف بھائی بہت محنتی تھے بیماروں کی دل جوئی اور تیمار داری بھی کرتے اور ان کے لیے کھانا بھی خود پکاتے تھے۔ بڑے بڑے دیگچوں میں کبھی دال کبھی کڑاہی بناتے اور سب کو کھلاتے۔ ان دنوں میں تقریباً ایک ماہ امی کے گھر رہی بچے چھوٹے تھے‘ وہیں سے اسکول چلے جاتے تھے۔ جب ہم کہتے کہ آپ کیوں اتنی مشقت اٹھا رہے ہیں تو کہتے کہ ان بچوں کے گھر والے انہیں اتنے برے حال میں دیکھ کر پریشان ہوں گے‘ ہم ایسی مصیبت میں ان کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔کبھی کسی کو ملوانے لے کر آتے اور کہتے کہ ’’یہ بچہ اٹھارہ سال کا ہو گیا ہے اگر اسے موٹر بائیک دلا دیں تو کام پہ لگ جائے گا۔ گھر والوں کی کچھ مدد کر سکے گا۔‘‘ اگر میں کہتی کہ ’’میرے پاس نہیں ہیں ابھی‘‘ تو کہتے ’’آپ اپنی دوستوں اور رشتے داروں سے بات کریں‘ کسی کا بھلا ہو جائے گا۔‘‘ یا پھر ہمارے میاں جی کے سر ہو جاتے کہ عبید بھائی کہیں سے بائیک دلوائیں۔ پردہ واصف بھائی ایسا کرتے تھے کہ میں نے پہلی بار ان کا چہرہ شہادت کے بعد ہی دیکھا۔ کئی دفعہ تو ایسا ہوا کہ رات کو شارق کہتا کہ واصف بھائی آئے ہیں ڈرائنگ روم میں نہ آئیں اور صبح بچے ناشتے کا پوچھنے جاتے تو آکر بتاتے کہ وہاں تو صرف چاند ماموں (شارق) ہیں واصف ماموں نہیں ہیں۔ ایک دن بابا نے جا کے دیکھا بابا کو بھی واصف بھائی نظر نہ آئے‘ اب تو شارق کی شامت آئی کہ یہ کیا تماشا ہے تو پتا چلا کہ واصف بھائی ڈرائنگ روم میں رکھے تخت کے ساتھ نیچے قالین پر سوتے تھے اور ذرا ان کو دروازہ کھلنے کی آہٹ بھی محسوس ہوتی تو فوراً تخت کے نیچے سرک جاتے تھے کہ اتفاقاً بھی اگر کوئی کمرے میں آجائے تو اس کی بے پردگی نہ ہو۔
جب ہم عمرے کے لیے گئے تو تیمیہ دو سال کی اور امینہ دو ماہ کی تھی۔ نماز کے دوران تیمیہ ہمارے قریب ہی کھیل رہی ہوتی تھی۔ لوگ اس کو چاکلیٹ یا فروٹ دے جاتے اور پوچھو تو کہتی ’’واصف ماموں نے دیے ہیں۔‘‘ ہمارے زبیر ماموں عمرے پہ ساتھ تھے ان کو بھی تیمیہ واصف ماموں ہی پکارتی تھی۔ ایک دن وہ پوچھنے لگے ’’کیا واقعی میری شکل واصف سے ملتی ہے یا یہ بچی بس ہر بھلے آدمی کو واصف ماموں سمجھتی ہے۔‘‘
پاکستان آکر وہ بڑے شوق سے واصف بھائی سے ملے اور بہت خوش ہوئے۔ زبیر ماموں جن کا اصل نام سید خلیل اللہ حسینی ہے‘ خود بھی برسوں جہادِ افغانستان میں شریک رہے اور غازی بن کے لوٹے تھے‘ کہنے لگے ’’کچھ انداز ہے ایک جیسا ہمارا۔‘‘ شہادت سے پہلے وہ میری چھوٹی بہن تنزیلہ کی شادی کے کارڈ چھپوانے اور دیگر کاموں میں بابا اور شارق کی مدد کر رہے تھے۔ قانتہ اپنے بچوں کے ہمراہ امریکا سے آئی ہوئی تھی‘ اس کے بچے رکشہ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ یہ تین پہیوں والی کیسی عجیب و غریب سواری ہے۔ تو واصف بھائی ایک رکشے والے کو لے آئے اور سب بچوں کو رکشے میں بٹھا کر گلی کا چکر لگوایا اور جب تک بچوں کا دل نہ بھر گیا وہ لگے رہے۔
12 جون کی رات ہم کسی تقریب سے لوٹ رہے تھے کہ شارع فیصل کے بیچوں بیچ موٹر سائیکل پہ سوار شارق نے ہمیں تیزی سے اوور ٹیک کیا اور رکنے کا اشارہ کیا۔ پتا چلا کہ واصف بھائی کو گولیاں لگی ہیں اور شہادت کی خبر گردش کر رہی ہے۔ شارق نے ہمیں فوراً عزیزہ باجی کی طرف جانے کو کہا لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو امیمہ اور ریحان بھائی پہلے ہی وہاں موجود تھے۔ عزیزہ باجی یہ روح فرسا خبر سننے کے بعد صبر کا پہاڑ بنی ہوئی تھیں۔ اگلی صبح جب عزیزہ باجی کی والدہ سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی صبرِ جمیل کا پیکر نظر آئیں۔ اللہ یہ سب قربانیاں اپنی بارگاہ میں قبول کرے اور اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار فرما۔ واصف بھائی اس رات امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ایک جلسے سے واپس لوٹ رہے تھے‘ وہ ایک متحدہ پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ طلبا تحریکوں کا آپس میں تصادم ختم کروانے کی کوئی صورت نکلے۔
واصف بھائی نے تمام گولیاں سینے پہ کھائیں۔ اللہ ان کی شہادت قبول کر کے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ واصف بھائی کو غسل ہمارے گھر میں دیا گیا اور وہیں ان کی تجہیز وتکفین بھی کی گئی۔ جنازے میں سینکڑوں افراد شریک تھے پھر بھی یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اب ہم میں نہیں ہیں۔ ہزاروں لوگوں کی دعائیں اور محبتیں آج بھی ان کے ساتھ ہیں اللہ ان کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو اس مصیبت میں صبر پہ بہترین اجر سے نوازے۔ آمین۔
جب کوئی شہید ہوتا عزیزہ باجی کی ایک نظم واصف بھائی بڑے جذبے کے ساتھ پڑھا کرتے تھے آج انہی کی نذر ہے۔
وقت نے جبر کی صلیبوں پر
نوجوانوں کے جسم لٹکائے
ظلم کی داستاں مٹانے میں
کام آئے کسی کے ماں جائے
ماں دعا مانگتی رہی دن بھر
لوٹ کر میرا لال گھر آئے
کیا خبر تھی سفید چادر میں
لاش لائیں گے شام کے سائے
دو جہاں میں نہ چین پائو گے
ظالموں کو یہ کون سمجھائے
خون مظلوم جب پکارے گا
تھرتھرائیں گے عرش کے پائے
کیسے ممکن ہے ظلم کے ہاتھوں
حوصلے کی چٹان گر جائے
ہم عقیدے کی جنگ لڑتے ہیں
موت سے کیسے ہم کو خوف آئے
خوش نصیبو! تماری قبروں پر
چاندنی رات نور برسائے
جنت پر بہار کا مالک
رحمتوں کا نزول فرمائے
زندگی کی متاع پرائی ہے
جس نے دی ہے اسی کے کام آئے
دھڑکنوں سے دعا نکلتی ہے
اپنے مولا کی یہ رضا پائے
راہِ الفت میں جاں کو ہار آئے
مرحبا تم شہید کہلائے
مرحبا تم شہید کہلائے