تورج تذبذب سا ہو کر رقاصائوں کی طرف دیکھنے لگا۔ پرویز چلایا۔ ’’یہ رقص بند کردو‘‘۔
رقاصائیں رقص بند کرکے ایک طرف ہٹ گئیں اور تورج نے اپنی مغموم آواز میں گیت شروع کیا۔ پردوں کے پیچھے سے اس کی بے جان لَے کے ساتھ طائوس و رباب کی تانیں بلند ہونے لگیں۔ تورج کے گیت کا مفہوم یہ تھا:
’’ہم بے سرو سامانی کی حالت میں مدائن سے نکلے ہیں۔
لیکن ہم اپنی فتوحات کے پرچم لہراتے ہوئے واپس آئیں گے۔
اور ایران کی تاریخ ہمارے خون سے لکھی جائے گی۔
بہرام ایک غاصب ہے اور پرویز ہمارا شہنشاہ ہے۔
نوشیرواں کا تاج صرف پرویز کے سر پر زیب دیتا ہے۔
اور ساسانیوں کی عظمت صرف اس کے دم سے قائم ہے۔
دجلہ اور فرات کی لہریں گواہ ہیں کہ ہم پرویز کے جاں نثار ہیں۔
اور روئے زمین کی آخری حد تک اس کا ساتھ دیں گے۔
ہم مدائن کے اُجڑے ہوئے ایوانوں کو دوبارہ آباد کریں گے۔
ہم اپنے خون اور آنسوئوں سے ایران کے مقدر کی سیاہی دھودیں گے۔
ہم اپنی ہڈیوں سے پرویز کے نئے قلعے تعمیر کریں گے۔
اور ہم دنیا بھر کے تاج نوچ کر اس کے قدموں میں ڈھیر کردیں گے‘‘۔
تورج کی آواز اس کے قابو میں نہ تھی۔ وہ بڑی مشکل سے اپنی سسکیاں ضبط کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے اور وہ پرویز کی نگاہوں سے بچنے کے لیے سرجھکائے ہوئے تھا۔ اس نے گیت ختم کرتے ہی شراب کا ایک جام بھرا اور منہ کو لگایا۔ آنسوئوں کے موٹے موٹے خطرے اس کی آنکھوں سے ٹپکے اور شراب کے جام میں جاگرے۔
پرویز بولا۔ ’’تورج! آج ہمیں تمہارا گیت پسند نہیں آیا۔ تمہاری آواز تمہاری صورت سے زیادہ بھونڈی ہے‘‘۔
تورج نے بڑی مشکل سے جواب دیا۔ ’’عالیجاہ! مجھے اس بات کا احساس تھا کہ میری آواز آپ کو پسند نہیں آئے گی۔ میں نے صرف آپ کے حکم کی تعمیل کی تھی‘‘۔
پرویز رقاصائوں کی طرف متوجہ ہوا ’’تم کیا دیکھ رہی ہو؟ گائو! ناچو!‘‘
رقاصائوں اور مغلیوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور تھوڑی دیر بعد جب یہ محفل اپنے شباب پر تھی، محفل کا داروغہ جھجکتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور آگے بڑھ کر سہمی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’عالیجاہ! آپ کے حکم کی تعمیل ہوچکی ہے‘‘۔
محفل پر اچانک سناٹا طاری ہوگیا۔ رقاصائیں دم بخود ہو کر شہنشاہ کی طرف دیکھنے لگیں۔ پرویز چند ثانیے داروغہ کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اچانک اس نے شراب سے لبالب جام اپنے منہ کو لگالیا اور ارغوانی شراب کی دھاریں اس کی باچھوں سے نکل کر اس کی قبا کو داغ دار کرنے لگیں۔ پھر اس نے خالی جام دیوار کے ساتھ دے مارا اور کہا۔ ’’اس نے لوگوں کے سامنے ہماری توہین کی ہوگی۔ تمہیں کھال اُتارنے سے پہلے اس کی زبان نوچ لینی چاہیے تھی۔
’’عالیجاہ! ہم نے اسے زیادہ دیر چیخنے کا موقع نہیں دیا‘‘۔
’’اس نے ہمارے متعلق کیا کہا تھا‘‘۔
’’کچھ نہیں عالیجاہ! مرتے وقت اس کی دماغی حالت ٹھیک نہ تھی‘‘۔
پرویز نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’ہم یہ سننا چاہتے ہیں کہ اس نے کیا کہا تھا‘‘؟۔
’’عالیجاہ وہ یہ کہتا تھا کہ عرب کے کسی نبی کی پیش گوئی پوری ہونے کا وقت آگیا ہے‘‘۔
’’ہم تمہارا مطلب نہیں سمجھے؟‘‘
’’عالیجاہ! وہ یہ کہتا تھا کہ عرب کے نبی کی پیش گوئی کے مطابق رومی عنقریب ہم پر غالب آئیں گے۔ ایران میں ظلم کے پرچم سرنگوں ہوجائیں گے اور دست گرد کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی۔ عالیجاہ! ہمارا خیال تھا کہ وہ جان دیتے وقت بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرے گا لیکن موت کے خوف سے وہ ایک دیوانے کی طرح چلا رہا تھا۔ جو لوگ اس کی چیخ و پکار سن کر وہاں جمع ہوگئے تھے انہیں اس کی غداری کے بارے میں کوئی شبہ نہیں رہا‘‘۔
’’اس نے ہمارے متعلق اور کیا کہا تھا…؟
’’عالیجاہ! میں اس کے الفاظ دہرانے کی جرأت نہیں کرسکتا‘‘۔
پرویز غضب ناک ہو کر چلایا۔ ’’ہم تمہیں حکم دیتے ہیں‘‘۔
’’عالیجاہ! وہ یہ کہتا تھا کہ مجھے اپنی موت کا افسوس نہیں بلکہ اس بات کا افسوس ہے کہ میں نے اپنی ساری زندگی ایک ظالم کی خدمت میں بسر کی ہے۔ آج میں اپنے اعمال کی سزا بھگت رہا ہوں۔ لیکن مجھے یہ اطمینان ہے کہ میرے قاتل کا انجام مجھ سے زیادہ عبرتناک ہوگا۔ اس نے لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے کے لیے یہ بھی کہ تھا کہ ایران اپنے ظالم حکمران کی ہوسِ ملک گیری کی تسکین کے لیے ان گنت قربانیاں دے چکا ہے اور اگر تمہارے نزدیک اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے خون کی کوئی قیمت ہے تو تمہارے لیے صلح اور امن کا دروازہ کھلا ہے۔ ورنہ میں وہ وقت دیکھ رہا ہوں جب ایران کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بہہ چکا ہوگا۔ تم رحم کی بھیگ مانگو گے لیکن تمہاری التجائیں ٹھکرا دی جائیں گی… عالیجاہ! یہ ممکن تھا کہ چند احمق اس کی باتوں سے گمراہ ہوجاتے لیکن ہم نے اسے زیادہ دیر بکنے کا موقع نہیں دیا‘‘۔
پرویز نے پوچھا۔ ’’وہ عرب کا نبی کون ہے جس نے ہمارے متعلق پیش گوئی کی ہے‘‘۔
’’عالیجاہ! مجھے معلوم نہیں۔ میرا خیال ہے کہ سین نے لوگوں کو مرعوب کرنے کے لیے یہ بات کہی ہوگی۔ عرب کے کئی طاقت ور قبائل ہمارے حلیف ہیں اور جب تک یمن پر ہمارا قبضہ ہے عرب کے کسی حصے کے لوگ بھی ایک ایسے نبی کے ساتھ تعاون کی جرأت نہیں کریں گے جو حضور کے متعلق اس قسم کی پیشگوئیاں کرتا ہو‘‘۔
’’ہرقل کے ایلچی ایک غدار کے انجام کو دیکھ کر بھاگ تو نہیں گئے؟‘‘
’’عالیجاہ! انہیں شاید ابھی تک یہ پتا نہیں چلا کہ سین اپنے جرم کی سزا بھگت چکا ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ ابھی تک مہمان خانے میں اس کا انتظار کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک عرب ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ رات اس نے مہمان خانے کے بجائے سین کے ساتھ تورج کے ہاں قیام کیا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اس کے متعلق کچھ جانتے ہوں‘‘۔
پرویز تورج کی طرف متوجہ ہوا اور اس کے دماغ سے اچانک شراب کا نشہ اُتر گیا۔
’’عالیجاہ!‘‘ اس نے عاجز ہو کر کہا۔ ’’میں نے سین کو حضور کا ایک وفادار خادم سمجھ کر اپنے ہاں ٹھہرایا تھا اور یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ وہ ایک غدار بن چکا ہے اور اس عرب کے متعلق بھی مجھے سین کی زبانی یہی معلوم ہوا تھا کہ وہ فلسطین اور مصر کے معرکوں میں ہمارا ساتھ دے چکا ہے۔ سین نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ حبشہ کی مہم میں حصہ لینے والے عرب رضا کاروں کا سالار تھا۔ عالیجاہ! ایسے آدمی کے لیے آپ کا ایک جاں نثار اپنے گھر کا دروازہ بند نہیں کرسکتا تھا‘‘۔
پرویز نے کہا۔ ’’ہم نے یروشلم کی جنگ کے ایام میں ایک عرب نوجوان کو سین کے ہمراہ دیکھا تھا اور شاید ہم نے اسے انعام بھی دیا تھا۔ اگر یہ وہی ہے تو اسے بھاگنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔ ہم کسی مناسب وقت پر اس سے ملاقات کریں گے ممکن ہے کہ ہمیں سین کی سازشوں کے متعلق مزید معلومات حاصل ہوسکیں۔ اگر وہ بھاگنے کی کوشش کرے تو اسے گرفتار کرلو‘‘۔
تورج نے پہلی بار قدرے جرأت سے کام لیتے ہوئے سوال کیا۔ ’’عالیجاہ! قیصر کے ایلچیوں کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟‘‘
اس وقت ہم کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ سردست ہمارا یہی حکم ہے کہ ان میں سے کسی کو بھاگنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔ آج تم ایک غدار کا انجام دیکھ چکے ہو۔ کل ہمیں یہ اطلاع نہیں ملنی چاہیے کہ اس کے ساتھی تمہاری آنکھوں میں دھول جھونک کر فرار ہوچکے ہیں‘‘۔
تورج کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن پرویز کی چہیتی ملکہ اچانک عقب کے دروازے کا پردہ اٹھا کر کمرے میں داخل ہوئی اور اس نے مسند کے قریب پہنچ کر تحکمانہ انداز میں کہا۔ شہنشاہ عالی تبارکو تخیلے کی ضرورت ہے‘‘۔
حاضرین مجلس پریشانی کی حالت میں کبھی پرویز اور کبھی ملکہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پرویز نے اضطراب کی حالت میں ملکہ کی طرف دیکھا لیکن اس کی نگاہوں کا احتجاج ملکہ شیریں کو متاثر نہ کرسکا وہ قدر سے برہم ہو کر چلائی۔ ’’تم نے سنا نہیں کہ عالم پناہ کو تخیلے کی ضرورت ہے‘‘۔
حاضرین کے بعد دیگرے وہاں سے کھسکنے لگے اور آن کی آن میں کمرہ خالی ہوگیا۔
ملکہ نے کرب انگیز لہجے میں سوال کیا۔ ’’عالم پناہ! کیا یہ درست ہے کہ آپ سین کو موت کی سزا دے چکے ہیں‘‘۔
پرویز نے آزردہ ہو کر جواب دیا۔ ’’ملکہ بیٹھ جائو، ہمیں پریشان نہ کرو‘‘۔
’’تو یہ درست ہے‘‘۔
’’ہاں یہ درست ہے لیکن ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ گستاخ کون ہے جو اس وقت تمہارے آرام میں مخل ہوا ہے‘‘۔
ایران کی ملکہ ایسی باتوں سے بے خبر نہیں رہ سکتی۔ میرے محل کے دروازے ان لوگوں کے لیے بند نہیں ہوسکتے جو یہ محسوس کرکے میری طرف دوڑتے ہیں کہ ان کے حکمران کو کسی غلطی سے روک سکتی ہوں۔ عالیجاہ! مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ سین جیسے جاں نثار کی موت کا حکم دے سکتے ہیں‘‘۔
’’ملکہ تم اس غدار کے متعلق کچھ نہیں جانتیں۔ جب تمہیں سارے حالات معلوم ہوں گے تو تمہیں یہ اطمینان ہوجائے گا کہ سین کے متعلق ہمارا فیصلہ درست تھا لیکن اس وقت بحث سے کوئی فائدہ نہیں۔ ہمارے حکم کی تعمیل ہوچکی ہے۔
’’میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میرے شوہر کو دوست اور دشمن کی تمیز نہیں رہی‘‘۔
’’ہمیں پریشان نہ کرو شیریں، ہمیں آرام کی ضرورت ہے‘‘۔ پرویز یہ کہہ کر مسند سے اُٹھا اور عقب کے کمرے کی طرف چل دیا اور شیریں کی خوبصورت آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے۔
جس وقت محل کا داروغہ پرویزکو سین کی موت کی اطلاع دے رہا تھا، کلاڈیوس اور عاصم شاہی مہمان خانے کے دروازے پر کھڑے آپس میں باتیں کررہے تھے اور سائمن اور ولیریس بے چینی کی حالت میں چند قدم دور مہمان خانے کے کشادہ صحن میں ٹہل رہے تھے۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’عاصم! انہیں بہت دیر ہوگئی۔ میں بہت پریشان ہوں۔ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ اس وقت کسریٰ کے دربار میں کیا ہورہا ہے!‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ وہ بچپن کے دوست ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کسریٰ نے اُسے کھانے کے لیے روک لیا ہوگا‘‘۔
’’لیکن انہوں نے کہا تھا کہ اگر شہنشاہ کا طرزِ عمل حوصلہ افزا ہوا تو میں یہ کوشش کروں گا کہ تمہیں آج ہی بلا لیا جائے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’دن کے وقت کسریٰ کی محفلیں اتنی طویل نہیں ہوتیں، ممکن ہے کہ سین وہاں سے فارغ ہونے کے بعد تورج کے پاس چلے گئے ہوں۔ کاش میں تمہارے پاس آنے کی بجائے وہیں ٹھہر کر ان کا انتظار کرتا!‘‘
’’تورج ان کے ساتھ نہیں گیا تھا؟‘‘
’’نہیں، تورج کو شہر سے باہر فوج کے پڑائو میں کچھ کام تھا، اس نے سین سے یہ کہا تھا کہ میں واپسی پر مہمان خانے میں تمہارے ساتھیوں سے ملاقات کروں گا۔ اب ممکن ہے کہ وہ شہنشاہ کے دربار میں چلا گیا ہو اور وہیں سے سین کو اپنے ساتھ لے کر گھر پہنچ گیا ہو‘‘۔
’’لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر کوئی اچھی خبر ہوتی تو وہ ہمارے پاس ضرور آتے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’میں تورج کے ہاں جا کر پتا کرتا ہوں۔ ممکن ہے کہ وہاں میرے لیے کوئی اطلاع آئی ہو۔ ان کا گھر شہر کی دوسری طرف ہے۔ میں گھوڑے پر جاتا ہوں!‘‘
’’میں تمہارے ساتھ چلوں گا‘‘۔ کلاڈیوس یہ کہہ کر عاصم کے ساتھ اصطبل کی طرف چل دیا۔ صحن سے گزرتے ہوئے وہ سائمن اور ولیریس کے قریب رُکے اور عاصم نے کہا۔ ’’ہم تورج کے گھر جارہے ہیں ممکن ہے کہ وہ شہنشاہ سے ملاقات کے بعد وہاں پہنچ گئے ہوں‘‘۔
سائمن نے کہا۔ ’’عاصم حالات میں سین کو سیدھا ہمارے پاس آنا چاہیے تھا۔ میرے خیال میں ہمیں اِدھر اُدھر بھاگنے کی بجائے یہیں ان کا انتظار کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ ابھی تک ان کی ملاقات جاری ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ابھی تک محل کے دروازے پر کھڑے اذنِ باریابی کے منتظر ہوں۔ میں اس مہمان خانے میں کئی بادشاہوں کے ایلچی دیکھ چکا ہوں جو کئی کئی ہفتوں اور مہینوں سے ملاقات کے لیے کسریٰ کے حکم کا انتظار کررہے ہیں‘‘۔
عاصم کچھ کہنا چاہتا تھا۔ لیکن اچانک ایک سرپٹ سوار صحن میں داخل ہوا۔ اور وہ مضطرب سے ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔
یہ سوار سین کے ان سپاہیوں میں سے ایک تھا۔ جو شہر سے باہر لشکر کے پڑائو میں ٹھہرے ہوئے تھے، وہ عاصم اور اس کے ساتھیوں کے قریب پہنچ کر گھوڑے سے کود پڑا اور چلایا۔ ’’آپ نے سپہ سالار کے متعلق کچھ سنا؟‘‘
وہ اضطراب کی حالت میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ بالآخر عاصم نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔
’’تمہاری صورت بتا رہی ہے کہ وم کوئی اچھی خبر نہیں لائے‘‘۔
’’سپاہی نے کرب انگیز لہجے میں کہا۔ ’’وہ مر چکے ہیں!‘‘
وہ دیر تک سکتے کے عالم میں اس کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر اچانک عاصم نے آگے بڑھ کر اپنے دونوں ہاتھ سپاہی کے کندھے پر رکھ دیئے اور اسے بیدردی کے ساتھ جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ ’’تم جھوٹ کہتے ہو، یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ تم پڑائو میں تھے اور وہ کسریٰ کے پاس گئے ہوئے تھے۔ پڑائو میں ان کی موت کی افواہ کسی دشمن نے اُڑائی ہوگی!‘‘
سپاہی کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنی سسکیاں ضبط کرتے ہوئے کہا کاش! یہ خبر غلط ہوتی۔ جب پڑائو میں کہرام مچا ہوا تھا تو ہم بھی یہی سمجھتے تھے کہ یہ خبر غلط ہے لیکن میں شہر کے ایک چوراہے میں ان کی لاش دیکھ چکا ہوں‘‘۔
عاصم نے ایک ڈوبتے ہوئے انسان کی طرح تنکوں کا سہارا لینے کی کوشش کی۔ ’’تمہیں یقین ہے کہ تمہاری آنکھوں نے دھوکا نہیں کھایا؟‘‘
’’میں نے جو لاش دیکھی ہے اسے پہچاننا ناممکن ہے۔ وہ کھال کے بغیر تھی اور گدھ اسے نوچ رہے تھے لیکن وہاں جمع ہونے والے لوگ چلا رہے تھے کہ یہ سین کی لاش ہے۔ سین کے چند دیرینہ دوست جنہیں میں جانتا ہوں، وہاں موجود تھے اور وہ رو رہے تھے۔ میں ان سے تمام واقعات پوچھ کر آیا ہوں۔ میں اس جلاد سے بھی مل چکا ہوں جسے زندہ ان کی کھال اُتارنے کے حکم دیا گیا تھا۔ فوج کے ایک افسر نے مجھے ان کے کپڑے بھی دکھائے تھے، جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ میں ان کے ساتھ آیا ہوں تو وہ میرے گرد جمع ہوگئے۔ وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ سین شہنشاہ کا غدار کیسے بن گیا۔ اگر وہ بغاوت پر آمادہ ہوچکا تھا تو یہاں کیوں آیا تھا؟ کیا یہ درست ہے کہ وہ قیصر کے ساتھ مل گیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں نے جنون کی حالت میں کیا کچھ کہہ ڈالا‘ پاس ہی ایک کاہن لوگوں کو یہ سمجھا رہا تھا کہ اگر ایران کے لشکر کی قیادت اس غدار کو نہ سونپی جاتی تو اب تک قسطنطنیہ فتح ہوچکا ہوتا۔ ہم نے شہنشاہ کو بارہا یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ایک رومی عورت کا خاوند ایران کا وفادار نہیں ہوسکتا۔ لیکن کسریٰ اس غدار کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ تھا۔ میں پوری قوت کے ساتھ چلایا۔ ’’یہ جھوٹ ہے، سین غدار نہیں تھا۔ غدار وہ ہیں جو ایران کے ایک عظیم شپاہی کی موت پر خوشیاں منارہے ہیں‘‘۔ بعض لوگ میری بوٹیاں نوچنے کے لیے تیار ہوگئے۔ لیکن ایک افسر نے سپاہیوں کی مدد سے انہیں ایک طرف دھکیل دیا اور پھر مجھ سے کہا۔ ’’میں سین کا دوست ہوں اور تمہارے جذبات کی قر کرتا ہوں لیکن اب اس جگہ شور مچانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر تم اس جگہ سین کے ساتھ چند اور بے گناہوں کی لاشیں نہیں دیکھنا چاہتے تو یہاں سے بھاگ جائو۔ اس وقت تمہارے ساتھیوں کے لیے پڑائو سے زیادہ کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ چناں چہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے بھاگ نکلا۔ لیکن تھوڑی دور جا کر میں نے محسوس کیا کہ آپ کو اطلاع دینا ضروری ہے۔ اور میں انہیں چھوڑ کر آپ کے پاس آگیا ہوں‘‘۔
عاصم نے کرب کی حالت میں اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔ ’’اگر سین قتل ہوچکا ہے تو اس کا قاتل پرویز نہیں بلکہ میں ہوں۔ میں نے ہی اسے موت کا راستہ دکھایا۔ میں نے ہی اسے صلح کا ایلچی بن کر یہاں آنے پر مجبور کیا تھا۔ کاش میں اس کے ساتھ ہوتا۔ کاش اس سے پہلے میری کھال اُتاری جاتی اور میں اس سے یہ کہہ سکتا کہ میں جرم میں ہی نہیں بلکہ سزا میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہوں۔ سین کو اپنے مستقبل کے متعلق کوئی غلط فہمی نہ تھی۔ اسے خلقدون سے روانہ ہوتے وقت بھی اس بات کا یقین تھا کہ وہ موت کے دروازے پر دستک دینے جارہا ہے‘‘۔
کلاڈیوس نے ولیریس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’تم اصطبل سے عاصم کا گھوڑا لے آئو، جلدی کرو!‘‘
ولیریس اصطبل کی طرف بھاگ گیا اور کلاڈیوس نے عاصم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’عاصم! اب تمہیں ہمت سے کام لینا پڑے گا، ہم جس مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں اس کی تکمیل کے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ لیکن موجودہ حالات میں مَِیں تمہیں ایک لمحہ کے لیے بھی یہاں ٹھہرنے کا مشورہ نہیں دوں گا۔ خدا کے لیے تم یہاں سے نکل جائو اور سین کی بیوی اور بیٹی کی حفاظت کی فکر کرو۔ ورنہ مجھے ڈر ہے کہ کسریٰ سین کے وحشیانہ قتل کو جائز ثابت کرنے کے لیے انہٰں بھی کسی سازش میں ملوث کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر تم کسی تاخیر کے بغیر وہاں پہنچ جائو تو تمہارے لیے انہیں باسفورس کے پار پہچادینا مشکل نہیں ہوگا۔ وہاں کوئی تم پر شک نہیں کرے گا۔ اگر تم سے پہلے سین کے قتل کی خبر وہاں پہنچ گئی تو خلقدون کے دروازے تمہارے لیے بند ہوں گے اور تم ان کی کوئی مدد نہیں کرسکو گے۔ یہاں رہ کر تم ہماری کوئی مدد نہیں کرکستے۔ مجھے بدترین حالات میں بھی کسریٰ سے یہ توقع نہیں کہ وہ ہمیں موت یا قید کی سزا دے گا۔ ہم ایک ہار ماننے والے حکمران کے ایلچی ہیں۔ ہمارے ساتھ بڑی سے بڑی بدسلوکی یہ ہوسکتی ہے کہ ہمیں دھکے دے کر دست گرد سے نکال دیا جائے لیکن تمہارا معاملہ ہم سے مختلف ہے، تم سین کے دوست ہو اور وہ تمہیں کسی نیک سلوک کا مستحق نہیں سمجھیں گے۔ اگر ہمارا انجام انتہائی عبرتناک ہو تو بھی تم ہماری کوئی مدد نہیں کرسکتے‘‘۔
لیکن عاصم کے ذہنی اور جسمانی تویٰ شل ہوچکے تھے۔ اور وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے کلاڈیوس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
کلاڈیوس نے اُسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ ’’عاصم اگر تم کو اپنی جان کی پروا نہیں تو کم از کم یہی خیال کرو کہ تم اس دنیا میں فسطینہ کا آخری سہارا ہو‘‘۔
عاصم نے چند بار فسطینہ کا نام دہرایا اور اس کے دل میں زندگی کی ہلکی ہلکی دھڑکنیں بیدار ہونے لگیں پھر اس نے مڑ کر دیکھا، ولیریس اس کا گھوڑا لے آرہا تھا۔ اس نے اچانک بھاگ کر اس کے ہاتھ سے گھوڑے کی باگ پکڑ لی لیکن پھر تذبذب کی حالت میں اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔
کلاڈیوس چلایا۔ ’’اب سوچنے کا وقت نہیں عاصم، خدا کے لیے جلدی کرو!‘‘
سپاہی نے اپنے گھوڑے پر کودتے ہوئے کہا۔ ’’چلیے میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں!‘‘
عاصم ایک گہری سانس لینے کے بعد گھوڑے پر سوار ہوگیا لیکن ابھی وہ بیرونی دروازے سے چند قدم دور تھے کہ چند مسلح سپاہی نمودار ہوئے اور نیزے تان کر اس کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
اگر عاصم کو بھاگ نکلنے کی کوئی اُمید ہوتی تو شاید وہ دوچار آدمیوں کو کچل ڈالنے سے بھی دریغ نہ کرتا۔ لیکن آج وہ قوتِ فیصلہ جو اُسے پہاڑوں سے ٹکر لینے پر آمادہ کردیا کرتی تھی جواب دے چکی تھی اور وہ خون جو خطرات کے وقت اس کی رگوں میں بجلی بن کر دوڑتا تھا منجمد ہوچکا تھا۔ پیادہ سپاہیوں سے پیچھے کشادہ سڑک پر بھی چند سوار دیکھائی دے رہے تھے، اس نے اپنے گھوڑے کی باگیں کھینچ لیں اور ایک ثانیہ صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد اپنے ساتھی سے کہا ’’اب بھاگنے کی کوشش بے سود ہے‘‘۔
ایک خوش وضع نوجوان، جو ان سپاہیوں کا افسر معلوم ہوتا تھا آگے بڑھا اور اس نے کہا۔ ’’تم باہر نہیں جاسکتے!‘
’’ایک آدمی کا راستہ روکنے کے لیے تمہیں اتنی فوج جمع کرنے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر اپنے گھوڑے سے اُتر پڑا۔ افسر نے کچھ کہے بغیر ایک سپاہی کو ہاتھ سے اشارہ کیا اور اس نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔ دوسرا سپاہی عاصم کے ساتھی کی طرف بڑھا اور وہ بھی اپنے گھورے سے اُتر پڑا۔
’’نوجوان افسر نے کہا‘‘۔ انہیں قید خانے میں لے جائو!‘‘
سپاہیوں نے عاصم اور اس کے ساتھی کو ایک تنگ گھیرے میں لے لیا تو کلاڈیوس نے جو اپنے ساتھیوں کی طرح دم بخود ہو کر یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اچانک آگے بڑھ کر ایرانی افسر سے سوال کیا۔ ’’کیا میں ان کی گرفتاری کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟‘‘
افسر نے بے پروائی سے جواب دیا ’’میں تمہیں صرف یہ بتاسکتا ہوں کہ اگر تمہارے ساتھیوں میں سے کسی اور نے بھاگنے کی کوشش کی تو ہم اُسے بھی قید خانے میں بھیجنے پر مجبور ہوں گے‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم بھاگنے کی نیت سے یہاں نہیں آئے اور اگر آپ عاصم کو ہمارے پاس چھوڑ دیں تو ہم اس کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہیں‘‘۔
عاصم نے گھور کر کلاڈیوس کی طرف دیکھا اور رومی زبان میں کہا۔ ’’یہاں میرا کام ختم ہوچکا ہے لیکن تمہارے حصے کا کام ابھی باقی ہے۔ ممکن ہے کہ سین کی موت پر ایرانی لشکر کے سرکردہ افسروں کا ردعمل کسریٰ کو تمہاری باتیں سننے پر مجبور کردے۔ اس لیے میری حمایت میں زبان کھول کر اپنی مشکلات میں اضافہ کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا‘‘۔
افسر نے سپاہیوں سے مخاطب ہو کر۔ ’’تم کیا دیکھ رہے ہو۔ اسے لے جائو!‘‘
عاصم سپاہیوں کی ننگی تلواروں کے پہرے میں چند قدم چلنے کے بعد اچانک رُکا اور افسر کی طرف مڑ کر دیکھتے ہوئے بلند آواز میں بولا۔ ’’میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں!‘‘
افسر جلدی سے آگے بڑھ کر بولا ’’مجھے افسوس ہے کہ میں تمہاری کوئی مدد نہ کرسکوں گا‘‘۔
عاصم نے کہا ’’مجھے معلوم ہے لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس غریب سپاہی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں، یہ سین کے محافظ دستے کے ساتھ پڑائو میں ٹھہرا ہوا تھا وہاں اس نے سین کے قتل کی اطلاع سنی، شہر میں جا کر اس خبر کی تصدیق کی اور یہ سمجھ کر میرے پاس چلا آیا کہ میں سین کا ایک وفادار دوست اور ساتھی ہوں۔ یہ بات اِس کے ذہن میں بھی نہیں آسکتی تھی کہ سین کسی دوست کو اس کی موت کی اطلاع دینے کے بعد یہ اس مصیبت میں پھنس جائے گا۔ اس لیے آپ ایس میرے ساتھ شامل نہ کریں!‘‘
افسر کچھ دیر سوچنے کے بعد اپنے ایک ساتھی سے مخاطب ہوا۔ ’’تم اسے پڑائو میں لے جائو اور وہاں اسے کڑی نگرانی میں رکھو۔ پہریداروں کو اس کے باقی ساتھیوں کے متعلق بھی یہ ہدایت کرو کہ وہ تاحکم ثانی ان میں سے کسی کو بھی پڑائو سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دیں۔ اور یہ گھوڑے بھی اپنے ساتھ لے جائو۔ تمہارے ساتھ پانچ سپاہی کافی ہوں گے۔‘‘
پھر وہ عاصم کی طرف متوجہ ہوا۔ اب تم کچھ اور کہنا چاہتے ہو؟‘‘۔
’’ہاں‘ اگر ہوسکے تو آپ ان معزز رومیوں کو بلاوجہ کوئی تکلیف نہ دیں۔ یہ قیصر کی طرف سے صلح کا پیغام لے کر آئے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ کسریٰ کو صلح اور امن کی اہمیت محسوس کرنے میں زیادہ دیر نہ لگے‘‘۔
افسر نے جواب دیا۔ ’’میں تمہیں صرف یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ کسریٰ کے حکم کے بغیر ان لوگوں کا بال تک بیکا نہیں ہوگا لیکن شرط یہ ہیکہ ان میں سے کوئی بھاگنے کی کوشش نہ کرے‘‘۔
عاصم نے احسان مندی سے ایرانی افسر کی طرف دیکھا اور سپاہیوں کے پہرے میں وہاں سے چل دیا۔