دلی والے بڑے چٹورے مشہور تھے۔ انہیں زبان کے چٹخاروں نے مار رکھا تھا۔ کچھ مردوں ہی پر موقوف نہیں، عورتیں بھی دن بھر چرتی رہتی تھیں اور کچھ نہیں تو پان کی جگالی ہی ہوتی رہتی تھی۔ بنگلہ پان تو غریب غربا بھی نہیں کھاتے تھے۔ جب دیسی پان افراط سے ملتا تو موٹے پتے کون چبائے؟ دو ڈھائی آنے میں ڈھولی ملتی تھی۔ یہ بڑے بڑے پان اور ایسے کرارے کہ پان اگر ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گرے تو اس کے چار ٹکڑے ہو جائیں۔ ۱۹۴۶ء تک چھا لیا پرانی رول کی روپے کی چار سیر آتی تھی۔ کتھا کلکتہ کا دو روپے سیر۔ چونے کی کلہیاں پان والوں کے پاس رکھی رہتی تھیں۔ چونے کے دام نہیں لئے جاتے تھے۔ پان خریدیے اور چونا مفت لیجئے۔ پان والے گلی گلی پھر کے بھی پان بیچا کرتے تھے۔ ایک پیسے کے چھ، ایک پیسے کے آٹھ۔ پٹاری ہر گھر میں ہوتی تھی۔ فوری خاطرپان ہی سے کی جاتی تھی۔ پان کی تھالی میں عموماً کوئی شعر کندہ ہوتا تھا۔ مثلاً
دست نازک بڑھایئے صاحب
پان حاضر ہے، کھایئے صاحب
یا
برگ سبز است تحفۂ درویش
چہ کند؟ بے نوا ہمیں دارد
اتنے اچانک آجانے والا پان ختم کرے، بازار سے مٹھائی، کچھ سلونا اور موسم کا میوہ آجاتا۔ پھر مہمان کی خوب خاطر تواضع کی جاتی۔ دلی والے متواضع بھی بہت تھے۔ قرض کریں دام کریں، مہمان پر اپنا بھرم کھلنے نہیں دیتے تھے۔ دلی کے غریب کماتے بھی خوب تھے مگر اپنی عادتوں کے پیچھے محلے کے بنئے کے قرض دار اکثر رہتے تھے۔ گروی گانٹھا بھی یہی بنیا کرتا تھا۔ اصل چیز اس کے پاس رکھنے کے بعد پھر ہاتھ نہیں آتی تھی۔ سود در سود میں برابر ہو جاتی تھی۔ یہ گھونس اکثر امیروں کے گھروں میں بھی لگی ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی بڑی بڑی حویلیاں بنیوں نے چپچپاتے ہڑپ کرلی تھیں، مگر خوش باشوں اور بے فکروں کو اس کی بھی پرواہ نہیں تھی۔ ہم نے اکثر لاکھ کے گھر خاک ہوتے دیکھے۔ لال کنوئیں پر ایک مسلمان رئیس کا بے مثل کتب خانہ برسوں کوڑیوں کے مول بکتا رہا۔
جزرس اور کنجوس آدمی کو دلی والے منحوس سمجھتے تھے اور اس کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ جو کبھی صبح ہی صبح کسی ایسے کی شکل اتفاقاً دکھائی دے جاتی تو کہتے، ’’خدا خیر کرے، دیکھئے آج کیا افتاد پڑتی ہے۔‘‘ اکثر ہوتا بھی یہی تھا کہ ان کے وہم کی وجہ سے کوئی نہ کوئی پریشانی پیش آجاتی۔
کہتے ہیں کہ بادشاہ کے زمانے میں ایک ایسا ہی منحوس شہر میں تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر اس کی صورت دیکھ لی جائے تو دن بھر روٹی نہیں ملتی۔ شدہ شدہ بادشاہ تک اس کی شکایتیں پہنچیں تو بادشاہ نے کہا، ’’نہیں جی، کہیں ایسا بھی ہوسکتا ہے؟‘‘ شکایت کرنے والے نے کہا، ’’حضور ہوتا ہے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، تجربہ کر دیکھئے۔‘‘ چنانچہ ایک دن صبح کو بادشاہ برآمد ہوئے تو لگانے والوں نے اس شخص کو بادشاہ کی نظر سے گزار دیا۔ اللہ کی شان اس دن دو مقدمے آکر ایسے اڑے کہ دن کا تیسرا پہر ہو گیا اور خاصا تناول فرمانے کا وقت نکل گیا۔ بادشاہ سلامت کو جب جتایا گیا تو انہوں نے فرمایا، ’’اماں ہاں، یہ شخص تو واقعی میں منحوس ہے۔ پیش کرو اسے ہمارے حضور میں۔‘‘ حکم کی دیر تھی اس غریب کو عصا برداروں نے پکڑا اور کشاں کشاں لے آئے۔
بادشاہ نے فرمایا، ’’اماں تم بڑے منحوس ہو، جو تمہیں دیکھ لیتا ہے اسے روٹی نہیں ملتی، لہٰذا تمہیں موت کی سزا دی جاتی ہے۔‘‘ آدمی تھا حاضر جواب۔ بولا، ’’حضور والا میں تو اتنا منحوس ہوں کہ مجھے جو دیکھ لیتا ہے اسے روٹی نہیں ملتی مگر میں نے آج حضور کے دیدار کئے تو اپنی جان ہی سے چلا۔‘‘ بادشاہ ہنس پڑے اور اس کی جان بخشی فرمائی۔
دلی والوں کی ایک کہاوت تھی کہ ’’ایک داڑھ چلے، ستر بلا ٹلے۔‘‘ کھانے کا تھک جانا ہی روگ کی جڑ ہے۔ دلی والے گھر میں بھی اچھا کھاتے تھے اور باہر بھی۔ غریبوں میں تو سبھی گھر والیاں خود کھانا پکاتی تھیں اوسط درجے کے گھروں میں بھی سالن کی ایک دو ہنڈیاں گھر والی بی بی خود پکاتی تھیں۔ البتہ روٹی ڈالنے کے لئے ماما رکھی جاتی تھی۔ بغیر گوشت کے غریبوں کے حلق سے بھی روٹی نہیں اترتی تھی اور گوشت ہی کون سا مہنگا تھا؟ چھوٹا گوشت چار آنے سیر اور بڑا چھ پیسے سیر۔ جمعہ کو گوشت نہ ہونے کے باعث دال پکتی تو اس میں بھی دو دو انگل گھی کھڑا ہوتا۔ خالص گھی روپے سیر تھا۔ اڑد کی دال اور کھچڑی پر گھی کا ڈلا رکھ دیا جاتا، ساری ترکاری کو ہندوؤں کا کھانا بتایا جاتا۔
اس زمانے میں دلی میں ہوٹلوں اور چائے خانوں کا رواج بالکل نہیں تھا۔ بھٹیار خانے البتہ ہوتے تھے جن میں پائے اور اوجھڑی پکائی جاتی تھی۔ دو پیسے میں پیالہ بھر کے ڈھب ڈھب شوربہ مل جاتا تھا۔ دو پیسے کی دو خمیر ی روٹیاں لے کر اس میں چوری جاتیں اور غریب مزدور چار پیسے میں اپنا پیٹ بھر کر کام پر سدھار جاتا۔ مگر دلی کے دستکار یا محنت کش ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ جاٹوں اور رانگڑوں کا یہ من بھاتا کھاجا تھا۔ دلی کے غریب بھی کچھ کم نک چڑھے نہیں تھے۔ پوریوں، کچوریوں، مٹریوں اور حلوے مانڈوں کا ناشتہ کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ ’’میاں جب ہمارے ہی دھڑ میں کچھ نہیں پڑے گا تو پھر کمائے گا کون؟‘‘
شام ہوتے ہی چوک کی بہار شروع ہو جاتی۔ جامع مسجد کے مشرقی رخ جو سیڑھیاں ہیں ان پر اور ان کے پہلوؤں میں ہر قسم کا سودا بکتا تھا۔ یہیں شام کو چٹورپن بھی ہوتا تھا۔ سستے سمے تھے، ایک پیسے میں چار سودے آتے تھے۔ دستکار شام کو دھانگیاں لے کر آتے۔ دھیلی پاؤلا گھر میں دیتے، باقی اپنی انٹی میں لگاتے۔ کارخانے یا کام پر سے گھر آنے کے بعد میلے کپڑے اتارتے اور نہا دھو کر اجلا جوڑا پہنتے اور چھیلا بن کر گھر سے نکلتے۔
میاں شبو کی سج دھج تو ذرا دیکھئے! سر پر چنی ہوئی دوپلی، بالوں میں چنبیلی کا تیل پڑا ہوا، کان میں خس کا پھویا، بیچ کی مانگ نکلی ہوئی، چکن کا کرتہ، اس کے نیچے گلابی بنیان، سیدھے بازو پر سرخ تعویذ بندھا ہوا کرتے میں سے جھلک رہا ہے۔ چست پاجامہ، لاہور کا ملاگیری ازاربند، ڈھکا چھپا ہونے پر بھی اپنی بہار دکھا رہا ہے، پاؤں میں انگوری بیل کی سلیم شاہی، ٹھمک چال، اپنے ڈنڈ قبضوں کو دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ دن بھر لنگوٹ کسے ہتھوڑا چلاتے ہیں تو شام کو دو روپے پاتے ہیں۔ مگر نیتیں اچھی تھیں اس لئے پیسے میں بھی برکت تھی۔ شب برات پر پیدا ہوئے تھے، یوں نام شب براتی رکھا گیا تھا جو مخفف ہو کر شبو رہ گیا۔
ہاں تو میاں شبو سلام جھکاتے اور سلام لیتے۔ میاں والیکم سلام۔ میاں جیتے رہئے، میاں سلامت رہئے، کہتے سوئی والوں سے چتلی قبر اور مٹیا محل کے بازار میں سے نکلتے ہوئے چوک پر پہنچ گئے۔ یہاں ان کے دو چار یار مل گئے۔ انہیں دیکھ کر ان کے چہرے پر شفق سی پھیل گئی بولے، ’’ابے خوب ملے، میں تو دل میں کے ہی ریا تھا کہ اپنا کوئی یار مل جائے تو مزہ آ جائے۔‘‘
یاروں کی ٹولی ہنستی بولتی آگے بڑھی تو سامنے میاں سبحانہ قیمے کی گولیاں بنا بنا کر کڑھاؤ میں اوپر کے رخ سے ڈالتے جاتے ہیں۔ جب آٹھ دس اکٹھی ہو جاتی ہیں تو ایک ڈنڈی سے انہیں اونٹتے ہوئے تیل میں کھسکا دیتے ہیں۔ یاروں نے میاں سبحانہ سے صاحب سلامت کی۔ میاں شبو نے کہا، ’’استاد کیا موقے ہو ریئے ہیں؟‘‘ سبحانہ بولے، ’’میاں آؤ جی کرخندار۔ آج تو کئی دِناپیچھو تم نے صورت دکھائی۔ خیر تو ہے۔‘‘ شبو بولے، ’’کرخندار نے ناواں نئیں دیا تھا ورنہ اب توڑی تو تمہارے ہاں کے کئی پھیرے ہو جاتے۔ اچھا لاؤ چار دونے تو بنا دو۔‘‘
’’گولیاں ہی لوگے یا کچھ اور بھی رکھ دوں؟‘‘
’’اماں تم دینے پر آؤگے تو بھلا کیا رہنے دوگے۔‘‘
اس ضلع جگت کے بعد میاں سبحانہ نے ڈھاک کے ہرے پتوں کے دونے بنا بنا کر دینے شروع کئے۔ قیمے کی گولیاں، مچھلی کے کباب، لونگ چڑے، تئی کے کباب، پانی کی پھلکیاں، ان پر چٹنی کا چھینٹا مارا اور بولے، ’’آج بڑا توفہ مال ہے، مزا آ جائےگا۔‘‘ اور واقعی میں مزا آ گیا۔ آنکھ اور ناک دونوں سے پانی ساون بھادوں کی طرح بہنے لگا۔ شبوسی سی کرتے ہوئے بولے، ’’اماں استاد، آج تو تم نے آگ لگا دی۔ دیکھتے ہو کیا حال ہو ریا ہے؟‘‘ سبحانہ نے کہا، ’’کرخندار یہ نزلے کا پانی ہے نزلے کا، اس کا نکل جانا ہی اچھا، میاں سو بیماریوں کی جڑ ہے نزلہ۔‘‘
اتنے میں سقہ کٹورا بجاتا ہوا آ گیا، ’’میاں آب حیات پلاؤں؟ صابر صاحب کے کنوئیں کا ہے۔‘‘ سب نے کہا، ’’بھئی اچھے وخت آ گئے، لاؤ۔‘‘ برف جیسا ٹھنڈا پانی پیتل کے موٹے موٹے کٹوروں میں ڈال کر سب کو دیا۔ سب نے ڈگڈگا کر پیا تو منہ کی آگ کچھ بجھی۔ پیسے دو پیسے سقے کودے کر آگے بڑھے تو کھیر والا دکھائی دے گیا۔
ان بڑے میاں کی کھیر بھی سارے شہر میں مشہور ہے۔ بھئی واہ! ان کی تو ہر چیز سفید ہے! بڑے میاں کے بال، بھنوئیں، پلکیں، داڑھی، کھیر، لگن پوش، سب سفید براق۔ ایک ایک دو دو پیالے سب نے کھائے۔ جو سوندھ پن اور داغ کا مزا ان کی کھیر میں آتا ہے کسی اور کے ہاں نہیں آتا۔
آگے بڑھے تو پہلوان کو دیکھا کہ سنگھاڑے کے کونے پر ایک مونڈھے پر خود بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک چھوٹے الٹے مونڈھے پر ایک بڑا سا ہنڈا دھرا ہوا ہے۔ ہنڈے پر لال کھاروا پانی میں تر بتر پڑا ہوا ہے اور پہلوان آواز لگا رہے ہیں، ’’آنے والا دو دو پیسے۔‘‘
یاروں کی ٹولی ان کے پاس پہنچی۔ کیوں پلوان، کیا سارے گاہکوں کا مول دو دو پیسے لگا دیا ہے؟‘‘ پہلوان بولے، ’’میاں میرے، میں تو اپنی قلفیوں کی آواز لگا ریا ہوں، تمہارے تئیں کچھ نہیں کے ریا۔‘‘ شبو نے کہا ’’اماں ہم سمجھے تم نے ہماری سبھی کی اوقات ٹکے کی سمجھ لی۔‘‘ پہلوان بولے، ’’جی بھلا میں ایسی غستا خی آپ کی شان میں کر سکتا ہوں؟ آؤ بیٹھو، مونڈھا لو آج میں تمہیں پستے کی کھلاؤں گا۔‘‘
یہ کہہ کر پہلوان نے ہنڈے میں ہاتھ ڈالا اور ٹٹول کر ایک بڑی سی مٹی کی قلفی نکالی، چکو سے اس کے منہ پر سے آٹا ہٹایا اور ڈھکنا الگ کرکے برف میں ایک چمچہ کھڑا کر دیا اور بولے، ’’لو تم یہ اخورا لو۔‘‘ چاروں کو انہوں نے اخورے کھول کھول کر تھما دیے۔ بولے، ’’نرے پستے ہیں دودھ میں گھٹے ہوئے۔‘‘
بہت عمدہ برف تھی، سچ مچ ہونٹ چاٹتے رہ گئے سب کے سب۔ چلتیوں کو جب دام پوچھے تو ایک روپیہ! شبو بولے، ’’آکا یہ کیا؟ تم تو دو دو پیسے کی آواز لگا ریئے تھے؟‘‘ پہلوان نے کہا، ’’میاں میرے، دو پیسے والی بھی ہے میرے کنے، شربت کی، بھلا وہ تمہارے لاحق ہے؟ رئیسوں کے کھانے کی یہی پستے کی ہوتی ہے۔ سارے شہر میں ہو آؤ، جو ایسی کہیں مل جائے تو اپنے پیسے لے جانا۔‘‘ شبو اور ان کے یار بھلا اپنے آپ کو غریب کیسے تصور کر لیتے؟ بولے، ’’پلوان سچ کہتے ہو تم جیسا مجازدان اور ہم جیسا قدردان بھی کم ملےگا، لو تھامو یہ روپیہ۔‘‘ چھٹکتا ہوا روپیہ پہلوان کی گود میں آ پڑا۔
شبو نے آگے بڑھ کر کہا، ’’بھئی اب منہ سلونا کر ناچئے۔‘‘
ایک ساتھی نے کہا، ’’چڑیا والے کے ہاں چلو۔‘‘
دوسرا بولا، ’’اماں کل ہی تو میں نے وس کے ہاں کے تکے کھائے تھے۔ آج کہیں اور چلو۔‘‘
تیسرے نے کہا، ’’اچھا تو چچا کے ہاں چلو۔‘‘ یہ وہی چچا ہیں جن کا ذکر خیر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ چلئے ان کرخنداروں کے ساتھ بھی چل کر دیکھیں ان پر کیا گزرتی ہے۔
چچا کبابی پائے والوں کے رخ جامع مسجد کی سیڑھیوں کے پہلو میں اکیلے بیٹھتے تھے۔ پرانے زمانے کے آدمی تھے، بڑے بدنما داغ، منہ پھٹ، یار لوگوں کو انہیں چھیڑ کر گالیاں کھانے میں مزا آتا تھا۔ یاروں کی چوکڑی نے ادھر کا رخ کیا۔ شام کا جھٹ پٹا ہو چکا تھا۔ چچا کے ٹھئے پر دوشاخہ جل رہا تھا۔ چچا سیخیں بھر بھر کر رکھتے جا رہے تھے اور ان کا لڑکا بندو پنکھا جھل رہا تھا۔ پانچ سات گاہک کھڑے تک رہے تھے اور چچا کو ٹرواس لگی ہوئی تھی۔ میاں شبو کو شرارت سوجھی، آگے بڑھ کے روپیہ چھنکا کر چچا کی طرف اچھالا، ’’بڑے میاں ایک روپے کے کباب دے دو، زلدی سے۔‘‘
چچا نے انہیں سر سے پاؤں تک دیکھا، روپیہ اٹھایا اور اسی طرح سڑک پر اچھال دیا۔ پھر بغیر ان کی طرف دیکھے بولے، ’’میاں بھائی، بنے، تمہیں زلدی ہے تو کہیں اور سے لے لو۔ میں تولمبر سے دوں گا۔ پہلے ان میاں کی دونی آئی ہوئی ہے، انہیں نہ دوں تمہیں دے دوں؟ کل بھی تم سری کے ایک حرامی آئے تھے، میں نے ون سے کہا، ’’دیکھو میاں ودھر میرا بھائی اے وز بیٹھتا ہے، وس سے لے لو۔ سیخ بھی بھاری بھرتا ہے، فائدے میں رہوگے۔ بلکن کوئی اور چیز کھالو بنے۔ یہ آگ کا کام ہے، گرم چیز ہے تمہیں نقصان کرےگی۔ کوئی باہر والے تھے ون کی سمجھ میں آ گئی، روپیہ اٹھا کر چل دیے۔‘‘
شبو بولے، ’’مگر چچا ہم تو مریم تو ٹلیم نہیں تم ہی سے کھا کے جائیں گے۔‘‘
’’اے میرے میاں، میں کب کہتا ہوں کہ جاؤ؟ مگر ذرا چھری تلے دم تو لو، تم تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو اور میں زلدی کا کام کرتا نہیں، ان گاہکوں کو پہلے بھگتا دوں۔ ابے لمڈے قالین بچھا دے ان کے لئے۔ چین سے بیٹھو، ہمیشہ کے آنے والے ہو پھر بھی ایسی نے دانی کی بات کرتے ہو۔ چلو بیٹھو۔‘‘
لمڈے نے چھپے ہوئے ٹاٹ کا ٹکڑا چچا کے ٹھئے کے پیچھے بچھا دیا۔ ٹاٹ میلا اور گندہ تھا، چاروں اس پر اکڑوں ہو بیٹھے، کچھ دیر بعد چچا نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا بولے، ’’میاں بھائیوں، ٹک کر بیٹھو اشرافوں کی تریوں یوں اٹھاؤ چولہا کب تک بیٹھوگے؟ آگ لینے آئے ہو؟ ہاں بولو کیا کیا دوں؟‘‘
’’چچا تم تو جانتے ہی ہو، چار آدمیوں کے لئے بنا دو اپنا نسخہ۔‘‘
’’بس تو چار سیخیں، چار بھیجے اور چار گھی کئے دیتا ہوں۔ چل بے لمڈے دو پیسے کی برف لے آلپک کے اور لا کر بالٹی میں پانی بنا دے۔ ابے آ گیا؟ سالے ابھی یہیں اینڈریا ہے۔ ابے تیتری ہو جا۔‘‘ اور بندو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔
چچا کے باپ دادا سب اسی جگہ بیٹھتے تھے۔ ان کے کباب بادشاہ کے دسترخوان پر جایا کرتے تھے۔ انہی کا نسخہ سینہ بہ سینہ چچا کو پہنچا تھا۔ قیمے میں کچھ اس حساب سے مسالے ملاتے تھے کہ جو بات ان کے کبابوں میں ہوتی تھی، دلی کے کسی اور کبابی کے ہاں نہیں ہوتی تھی۔ چچا نے نسخے میں یہ اور اضافہ کیا کہ جو بیٹھ کر یہیں کھانا چاہیں ان کے لئے بھیجے اور گھی کا انتظام بھی کر لیا۔ بھیجا بکری کا ہوتا تھا۔ سیخیں جب سنک جاتی تھیں تو انہیں غوری میں اتار کر ان کے ڈورے نکال دیتے۔ پھر ایک بادیے میں چار کٹوریاں گھی کی ڈالتے۔ جب پیاز سرخ ہو جاتی تو چاروں سیخیں اور چاروں بھیجے اس میں ڈال کر گھونٹ دیتے۔ چنگیر میں خمیری روٹیاں رکھ کر کبابوں کی غوری انہوں نے میاں شبو کو تھما دی۔ پھر ایک چھوٹی سی غوری میں پیاز کا لچھا، ہری مرچیں، پودینہ، کیری کا لچھا، ادرک کی ہوائیاں رکھ دیں۔ ایک طرف نیبو اور گرم مسالہ رکھ دیا اور بولے، ’’میاں یاد کروگے چچا کو، ہم تو چلنہاروں میں ہیں۔ ایک دنا سن لوگے کہ چچا لد گئے۔ پھر تمہارے تئیں معلوم ہوگی قدر چچا کی۔‘‘
شبو بولے، ’’چچا ایسی دل پھٹنے کی باتیں مت کرا کرو۔‘‘ چچا نے کہا، ’’نہیں میاں میں سچ کہتا ہوں بہت گئی تھوڑی رہی۔ اب تو میرے میاں چپلی کو اب کا زمانہ ہے۔ کدی نام بھی سنا تھا اس کا؟ دلی والے اب گولے کے کباب نہیں جوتیاں کھائیں گے جوتیاں۔‘‘
اس کے بعد چچا کا ناریل چٹخا اور مغلظات کا ایک دریا ان کے منہ سے رواں ہو گیا۔ میاں شبو اور ان کے ساتھیوں نے آپس میں اشارے کئے اور چپکے سے وہاں سے کھسک آئے۔
(ماخذ :دلی جو ایک شہر تھا)