تمام صحافیوں کو بلیک میلر قرار دینا ناانصافی ہے،فرہاد زیدی کا ایک یادگار انٹریو

350

زمانۂ طالب علمی میں فرہاد زیدی صاحب کا اکثر تذکرہ میرے محترم استاد پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ’’حریت‘‘ اخبار میں فرہاد زیدی کی ماتحتی میں کام کیا تھا۔ چونکہ استادِ محترم کی رائے بالعموم بڑی سوچی سمجھی اور ذاتی تجربے و مشاہدے پر مبنی ہوتی تھی‘ اس لیے وہ جس محبت اور ادب سے فرہاد زیدی صاحب کا ذکر کرتے تھے‘ اس کی وجہ سے میرے دل میں بھی فرہاد صاحب کا ان سے ملنے سے پہلے ہی ایک جذبۂ احترام پیدا ہو گیا تا لیکن میں بھی نوجوان تھا اور کھٹک میرے دل میں بہرحال رہی کہ فرہاد صاحب اگر ایسے ہی بھلے انسان ہیں تو پیپلزپارٹی سے ان کا نظریاتی سمبندھ کیوں ہے؟ یہ الجھن کم و بیش ویسی ہی تھی جیسی مشہور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں یہ قلق کہ وہ قادیانی کیوں تھے؟ یہ الگ بات کہ بعد میں مجھ پر کھلا کہ انسانوں کو جانچنے کا اس قسم کا پیمانہ شاید درست نہیں۔ ایک اچھی جماعت میں ایک برا آدمی اور ایک ناپسندیدہ تنظیم یا پارٹی میں بہت عمدہ انسان بھی ہو سکتا ہے۔

’’عقاب‘‘ کے لیے میرا پہلا شکار جناب فرہاد زیدی تھے۔ ٹیلی فون پر وقت طے کرکے جب میں ان کی قیام گاہ پر پہنچا‘ کال بیل کا بٹن دبایا تو جواباً ایک کتا زور زور سے بھونکنے لگا اور پھر جب اس کی بھونک رکی تو دروازہ کھلا‘ میرے سامنے فرہاد زیدی کھڑے تھے۔ نہایت شائستہ‘ مہذب اور چہرے کے خدوخال کے لحاظ سے جاذب نظر۔ مسکرا کر فرمایا ’’معاف کیجیے گا۔ یقینا آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ یہ بھونکنے کی آواز میری بہرحال نہیں تھی۔‘‘

مجھے ہنسی آگئی۔ قطعی گمان نہیں تھا کہ وہ اتنے شگفتہ مزاج ہوں گے۔ گھر میں ان کی اہلیہ مسرت جبیں جو خود بھی کالم نگار ہیں‘ موجود تھیں۔ دونوں میاں بیوی کے مراسم محبت‘ اعتماد اور ذہنی ہم آہنگی پر استوار تھے۔ میں نے اتنا قابل رشک جوڑا (Couple) شاید ہی دیکھا ہو۔ ڈی ایچ لارنس نے لکھا ہے کہ کامیاب ازدواجی تعلقات کی بنیاد دو گونہ اصول ہے کہ مرد‘ عورت سے محبت کرے اور عورت مرد کی اطاعت۔ مجھے فرہاد و جبیں کے ازدواجی تعلقات میں ان ہی دو گونہ اصولوںکی مہک آئی۔

زیر نظر گفتگو پر کم و بیش پینتیس چالیس برسوں کی گرد پڑی ہے۔ میں نے اس گرد کو ہٹا کر گفتگو کے موضوعات و مندرجات کو دوبارہ پڑھا تو کہنگی کا احساس تو ہوا لیکن ازکارِ رفتہ (Out dated) ہونے کا تاثر کہیں سے نہ ملا۔ صحافت کے پیشے کو آج بھی ان ہی مسائل کا سامنا ہے‘ جو تب تھے‘ جب میں اس کوچے میں نووارد تھا اور آج بھی وہی قضیے‘ وہی الجھنیں اور وہی امراض اس پیشے کو لاحق ہیں۔ عجب نہیں کہ فرہاد زیدی صاحب کے خیالات ارتقا پذیر ہوئے ہوں‘ نقطۂ نظر میں کچھ نہ کچھ تبدیلی آئی ہو۔ لیکن میں نے ان کا نیا انٹرویو انگریزی کے ایک پیش پا افتادہ محاورے کے مطابق Old is Gold۔

طاہر مسعود: ان دنوں کیا مصروفیات ہیں؟

فرہاد زیدی: کوئی مصروفیت نہیں۔

طاہر مسعود: کوئی وجہ؟

فرہاد زیدی: ظاہر ہے کوئی وجہ ہی ہوگی بغیر وجہ کے تو ایسا نہیں ہوسکتا۔

طاہر مسعود: وہ وجہ ہی بتا دیں۔

فرہاد زیدی: بات یہ ہے کہ ہماری صحافت ایک بہت محدود انڈسٹری ہے جس میں مواقع بے حد کم ہیں۔ میں کام کرسکتا ہوں‘ ممکن ہے اس لیے نہیںکر رہا کہ مہنگا آدمی ہو گیا ہوں۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ ہزار‘ بارہ سو والا آدمی ہوتا تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ لیکن آدمی کی زندگی میں ایک ایسی اسٹیج بھی آتی ہے جب اس کی اپنی ضروریات اور اپنے اخراجات ہوتے ہیں۔ پھر جہاں کام کرنے جاتے ہیں ان کے بھی اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ ان دونوں میں مطابقت ایک مشکل امر ہے۔

طاہر مسعود: اپنے صحافتی کیریئر میں آپ کو بے شمار سیاسی شخصیات سے ملاقات کا موقع ملا ہوگا‘ ان میں سے کون کون سی شخصیات ایسی تھیں جن سے مل کر آپ بہت متاثر ہوئے اور کون سی ایسی تھیں جن سے مل کر ان کی شخصیت کا سحر ٹوٹ گیا؟

فرہاد زیدی: یہ ذرا مشکل سوال ہے۔ اب مثلاً جب میں سعادت حسن منٹو سے پہلی بار ملا تو مجھے بڑی مایوسی ہوئی کہ بس ایک گوشت پوست کا آدمی ہے جو پنجابی بولتا ہے۔ بیش تر صورتوں میں آدمی کا سحر ٹوٹ جاتا ہے۔ سب سے زیادہ جس آدمی نے مجھے متاثر کیا‘ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت تھی۔ دوسرے سیاست دانوں میں مولانا مفتی محمود اور پروفیسر غفور احمد سے متاثر ہوا۔ ان کی شخصیت Impress کرتی ہے۔ ویسے مجھ پر سحر ذرا کم ہی لوگوں کا ہوتا ہے۔ ایک خاص عمر میں آکر ایسے سارے سحر ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔

طاہر مسعود: 1973ء کے آئین کے بارے میں آپ نے ٹی وی پر انٹرویو کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس میں سیاسی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں کچھ یادیں آپ کے ذہن میں تازہ ہوں گی؟

فرہاد زیدی: جی ہاں اس میں سلسلہ کچھ یوں ہوتا تھا پہلے سیاسی شخصیتیں تقریریں کرتی تھیں اس کے بعد ہم جا کر بیٹھ جاتے تھے اور پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوتا۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے تقریر دیکھ کر پڑھی تھی جب کہ شیر باز خان مزاری نے فی البدیہہ تقریر کی۔ اس میںکئی دل چسپ واقعات رونما ہوئے جن کا تذکرہ یہاں پر مناسب نہیں۔ میرے نزدیک جو تقریر سب سے اچھی تھی وہ پروفیسر غفور کی تھی وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔

مولانا مفتی محمود سے گفتگو کے بعد احساس ہواکہ وہ بہت ہی بے لاگ آدمی ہیں۔ ان میں سیاست دانوں والی کوئی کاٹ کپٹ نہیں ہے۔ بغیر کسی مصلحت کے صاف اور کھرے۔مولانا نورانی نے سب سے زیادہ مایوس کیا۔ مثلاً میں نے گفتگو کے دوران ان کے بیان کا حوالہ دیا تو کہنے لگے کہ ’’کون سے اخبار میں چھپا ہے‘‘ اتفاق سے وہ اخبار بھی میرے پاس موجود تھا‘ اخبار دکھایا‘ فرمانے لگے یہ تو ایک اخبار ہے کم از کم دو اخبار دکھائیںتو مانوں گا۔ انہوں نے اپنے بیان کو اپنا بیان تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا۔ اب اس طرح کی باتیں نہیں چلتیں‘ بقیہ لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔

خان عبدالقیوم خان کی شخصیت کا ایک دل چسپ پہلو جوسامنے آیا وہ یہ تھا کہ وہ بیٹھے بیٹھے ایک دم خالی الذہن (Blank) ہو جاتے ہیں۔ مثلاً آپ سے بیٹھے وہ باتیں کر رہے ہیں کہ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے ٹیلی فون اٹھایا باتیں ختم کرنے کے بعد ریسیور کریڈل پر رکھیں گے تو آپ سے دریافت کریںگے ’’جی فرمایئے آپ کوکیا کام ہے؟‘‘

اس کے باوجود ان میں تیزی و طراری (Sharpness) بہت زیادہ ہے اور باتوں کے ادھورے سلسلے کو وہیں سے جوڑ لیتے ہیں جہاں سے ادھورا چھوڑا تھا۔

طاہر مسعود: اس انٹرویو میں اوپر سے کوئی پریشر وغیرہ تو نہیں تھا؟

فرہاد زیدی: نہیں ایسا بالکل نہیں تھا‘ بلکہ ٹی وی والے تو پوچھتے بھی نہیں تھے کہ میں کون سے سوال کر رہا ہوں۔

طاہر مسعود: آپ کے خیال میں ایک صحافی کی زندگی کا سب سے خوش گوار اور سب سے افسوس ناک پہلو کون سا ہے؟

فرہاد زیدی: یہ تو صحافی‘ صحافی پر منحصر (Depend) ہے۔ میرا خوش گوار پہلو یہ ہے کہ معاشرہ مجھے اچھی نگاہ سے دیکھتا ہے‘ اچھا مقام دیتا ہے اگر اس بات کو ذرا مختلف انداز میںلیں تو میں یہ کہہ سکتا ہوںکہ میری زندگی کا خوش گوار پہلو بہ حیثیت صحافی کے یہ ہے کہ میں پلاٹ حاصل کر سکتا ہوں‘ فون لے سکتا ہوں‘ فلم کنٹریکٹ کر سکتا ہوں‘ دوسرے باعزت طبقے میں آسانی سے رسائی حاصل کر سکتا ہوں۔ یہ خوش گوار پہلو کسی دوسرے کے نزدیک بے معنی بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے اس کے نزدیک اہمیت اس بات کی ہو کہ اس نے اب تک کیا کچھ حاصل (Achieve) کیا‘ اپنے اخبار کو کتنی رپورٹیں ایسی فراہم کیں جو دوسرے اخباروں میں نہیں آسکیں۔ یا وہ جس عہدے پر ہے وہاں اس نے اپنے کام میں کتنی مہارت حاصل کی جو دوسرے حاصل نہیں کرسکے۔ اب اسی کا دوسرا برا پہلو یہ ہے کہ جو پلاٹ حاصل نہیں کرسکا یا دوسرے دنیاوی فائدوں سے لطف اندوز ہونے میں ناکام رہا تو وہ ناکام ہے۔

طاہر مسعود: اگر آپ اپنے ذاتی حوالے سے بات کریں تو؟

فرہاد زیدی: اگر میں اپنے حوالے سے بات کروں تو میرا سب سے خوش گوار تجربہ یہ رہا ہے کہ میں نے اخبار کے جس شعبے میں بھی کام سیکھنے اور کام کرنے کی کوشش کی‘ کسی نے بھی میرے بارے میں یہ نہیںکہا کہ یہ آدمی کام نہیں کرتا یا کام نہیں کرسکتا۔ ہاں میری یہ خواہش ضرور ہے کہ میں ایسے اخبار میں کام کروں یا ایسے اخبار یا جریدے سے منسلک ہو جائوں جس میں کم از کم ساٹھ فی صد اپنی مرضی کے مطابق کام کرسکوں۔

طاہر مسعود: اس ساٹھ فی صد کی وضاحت آپ کریںگے؟

فرہاد زیدی: اصل میں ہمارے یہاں کے سسٹم میںاخبارات نمبر ایک نجی ملکیت میں ہیں۔ نمبر دو صنعتی یا تجارتی گروپ کی ملکیت میں ہیں۔ نمبر تین کسی جماعت یا گروپ کی ملکیت ہیں‘ اس میں ایڈیٹر یا دوسرے صحافی کو اپنے ادارے کی ہدایت کے ماتحت کام کرنا ہوتا ہے اور تینوں صورتوں میں سیاسی‘ حکومتی‘ معاشرتی اور کاروباری دبائو اتنا رہتا ہے کہ اس اخبار یا جریدے سے متعلق ایڈیٹر یا صحافی اپنے خیالات کا بہ مشکل زیادہ سے زیادہ تیس فیصد اظہار کر پاتے ہیں۔ میں نے ان حالات میں کام شروع کیا تھا جب اخباروں کی ملازمت کے ضابطے قاعدے کے مطابق نہیں تھے۔ تنخواہیں‘ چھٹیاں مالکان اپنی مرضی کے مطابق طے کرتے تھے۔ دوسری سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن میں اس کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور کم از کم ان باتوں میں نے اپنے صحافتی فرائض کی تکمیل میں کبھی رکاوٹ بننے نہیں دیا۔ لیکن اسے اپنی مصالحتی زندگی کا ناخوش گوار پہلو تصور کرتا ہوں۔ اس کے برعکس جب میں ایڈیٹر بنا تو میں نے محسوس کیا کہ صحافت میں نئے آنے والے صحافی بجا طور پر اپنی ٹریڈ یونین تنظیم کے فیصلے اپنے حالات کار اور بہتر شرائط ملازمت کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اب وہ اپنے پیشے کی ذمہ داریوں‘ فرائض اور چیلنج کے بارے میں خاصی بے نیازی کا مظاہرہ بھی کرنے لگے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایڈیٹر کے لیے یہ خاصا ناخوش گوار تجربہ ہے۔ مثلاً مختلف اخبارات کی ادارت کے دور میں اکثر یہ حسرت ہی رہی کہ دوسرے ساتھی اور کارکن کچھ اخبار کے بارے میںبھی بحث و تمحیص کیا کریں‘ کچھ تجاویز پیش کیا کریں‘ اس کے حسن و قبیح پر گفتگو کریں۔ اس کے برعکس ترقیوں‘ چھٹیوں‘ الائونسس اور دوسری سہولتوں کی باتیں بہت ہوتی ہیں۔ اخبار کا عام کارکن اب اپنے اخبار کے بارے میں بہت کم بات کرتا ہے۔

طاہر مسعود: فرہاد صاحب! عام تاثر یہ ہے کہ صحافت کا پیشہ اپنانے کے لیے اس کی تعلیم سے زیادہ تجربے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ صحافت کی تعلیم حاصل کرکے پیشے میں آنے والوں کی تجربہ کار لوگوں کی طرف سے اسی تاثر کے تحت حوصلہ شکنی بھی کی جاتی ہے‘ آپ کا کیا تبصرہ ہے؟

فرہاد زیدی: حوصلہ شکنی کون کرتا ہے؟ میں نے تو کبھی نہیں کی۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ صحافی بننے کے لیے تجربہ بہت ضروری ہے۔ بہتر تعلیمی پس منظر کے ساتھ جو تجربہ ہوگا‘ وہ زیادہ مفید ہوگا۔ اگر ہماری صحافت میں ڈگری لینے والے نوجوان اخباروں کی ضروریات پر پورے نہیں اترتے تو اس میں خود ان کا قصور نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری اس نصاب اور تربیت کے اس نظام پر زیادہ عائد ہوتی ہے جو یونی ورسٹیوں میں میسر آتا ہے اور جہاں انہیں عملی صحافت کے مراحل سے گزرنے کے بہت کم مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ ان دونوں سے زیادہ اہم چیز میرے نزدیک رجحان یا Aptitude ہے۔ ہمارے یہاں اخباروں میں ملازمت دینے کا مسئلہ ہو یا یونیورسٹی میں شعبۂ صحافت میں داخلہ دینے کا سوال۔ ان دونوں جگہوں پر رجحان کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے جب کہ صحافی بننے کے لیے صحافت کا رجحان ہونا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اگر اس بات کو کم از کم یونیورسٹیوں کی سطح پر رکھا جائے تو پھر یقینا وہاںکے تعلیم یافتہ نوجوان صحافت کے لیے بڑا سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں ہوتا یہ ہے کہ اگر کہیں داخلہ نہیں ملا تو شعبۂ صحافت میں داخلہ لے لیا‘ کہیں نوکری نہیں ملی تو اخبار میں نوکری کر لی۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ صورت حال بہت مایوس کن ہے۔ صحافت میں بہت اچھے لڑکے بھی آئے ہیں اصل میں صحافت کا پہلا اصول ہی یہ ہے کہ یہ پیشہ گھڑی دیکھ کر کام کرنے والوں کا نہیں ہے۔ تمام دنیا میں اس پیشے کا اصول یہی ہے کہ جرنلسٹ کے کھانے پینے‘ اٹھنے بیٹھنے‘ سماجی تقریبات میں شرکت کرنے کا کوئی وقت متعین نہیں ہے۔ ممکن آپ اپنے کسی عزیز کے بچے کے عقیقے یا ختنے میں جارہے ہوں اور ایک دم معلوم ہوا کہ آپ کو ایک اہم سیاسی شخصیت کا انٹرویو کرنا ہے‘ لیجیے آپ وہاں نہیں جا سکتے۔ اسی طرح سے فلم کی بکنگ ہے اور آپ خوش خوش اپنی بیوی کے ساتھ پکچر ہال جانے والے ہیں کہ شہر میں کوئی اہم واقعہ پیش آگیا۔ بیوی الگ ناراض ہو رہی ہے لیکن پکچر دیکھنے آپ بہر حال نہیں جاسکتے۔ لہٰذا اس کام کے لیے ذہنی آمادگی بہت ضروری ہے اور میرا مشورہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں شعبۂ صحافت میں داخلے کے خواہش مند نوجوان کا رجحان ٹیسٹ (Aptitude Test) ضروری ہے۔

طاہر مسعود: دیکھنے میںآیا ہے کہ اس پیشے سے منسلک افراد خواہ وہ ادارتی عملہ ہو یا نیوز سیکشن سے متعلق افراد ہوں یا دوسرے تیکنیکی شعبوں کے لوگ ہوں‘ ان سب میں ایک طرح کی خودسری پائی جاتی ہے‘ ان میں سے بیشتر عام انسانوں کے مقابلے میں خود کو تیس مار خان سمجھنے لگتے ہیں‘ اس کی وجہ کیا ہے؟

فرہاد زیدی: صحافیوں میں زیادہ خود سری پائی جاتی ہے‘ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ یہ ایک طرح سے معاشرتی روّیے کا اظہار ہے۔ آپ کے یہاں ایک بیورو کریٹ‘ ایک سیاست داں‘ ایک ڈپٹی کمشنر ایک پولیس والا‘ بس کنڈیکٹر‘ ڈرائیور بلکہ حد تو یہ ہے بعض اوقات تجارت پیشہ افراد میں بھی وہی خود سری نظر آتی ہے جس کی شکایت آپ صحافیوں کے بارے میں کر رہے ہیں۔ یہ سماجی روّیے (Social Attitude) کی بات ہے۔ صحافی بھی آخر اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان کا تربیتی ذہنی الجھاوا (Complex) اور تعلیمی پس منظر کم و بیش وہی ہیں جو معاشرے کے دوسرے طبقوں کا ہے اسی لیے اگر ان میں کوئی چیز ایسی نظر آئے جو آپ کے نزدیک ناپسندیدہ ہو تو اسے صحافیوں سے مخصوص سمجھنا غلط ہے۔ یہ معاشرتی روّیہ صحافیوںمیں بھی اتنا ہی ناپسندیدہ ہے جو کسی اور طبقے میں ہو سکتا ہے۔

طاہر مسعود: صحافت اور بلیک میلنگ کا نام بعض اوقات ایک ساتھ لیا جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ چھوٹے شہروں کے بارے میں سنا ہے کہ وہاں کے بیش تر نمائندوں کو بڑے اخبارات بھی کوئی ماہانہ معاوضہ نہیں دیتے ہیں بلکہ صرف ان کی خبریں چھاپ کر انہیں مطمئن (Oblidge) کرتے ہیں اور وہ نمائندے جب کسی کی خبر لگاتے ہیں تو اگلے روز اخبار لے کر اس کے حضور پہنچ جاتے ہیںکہ صاحب کچھ نذرانہ عطا ہو۔ اس صورت میں درست خبریں کیسے پہنچ سکتی ہیں؟

فرہاد زیدی: صحافت کو بلیک میل کرنے والی ایجنسی سمجھنا یا تمام صحافیوں کو بلیک میلر قرار دینا ایک ایسی ناانصافی ہے جس پر میں کوئی تبصرہ مناسب نہیں سمجھتا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ چونکہ صحافی بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جو طرح طرح کی خرابیوں اور بدعنوانیوں سے عبارت ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ صحافیوں میں بھی کچھ کالی بھیڑیں موجود ہوں بالکل اسی طرح جیسے پولیس‘ انکم ٹیکس‘ پی ڈبلیو ڈی اور محکمہ مال میں بہت سے ایمان دار لوگ بھی موجودہوتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم ایسے معاشرے میں رہنا قبول کرتے ہیں جس میں نااہل ڈاکٹروں‘ بددیانت وکیلوں‘ مفاد پرست سیاست دانوں اور ہر طرح کی بدعنوانی کو جائز سمجھنے والے تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی زندہ رہنے کی اجازت ہے اور صرف اس کی وجہ سے ڈاکٹری‘ وکالت‘ صنعت‘ تجارت‘ سیاست کو پوری طرح مطعون یا مسترد نہیں کیا جاتا تو پھر صحافت کو چند ناپسندیدہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے مردود قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟

طاہر مسعود: لیکن یہ بھی تو دیکھیں فرہاد صاحب! صحافی تو معاشرے کے دیگر اداروں اور شخصیات کا محتسب ہوتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ صحافت سماج کا آئینہ ہے اس اعتبار سے ایک صحافی دیگر ذمہ دار افراد سے زیادہ ذمہ دار ہوتا ہے‘ کیوں؟

فرہاد زیدی: صحافت معاشرے کو آئینہ دکھاتی ہے‘ میں اس سے سو فیصد متفق ہوں۔ یقینا کسی ملک کی صحافت وہی کچھ ہوگی جو اس ملک کی عام معاشرت ہوگی۔ اس اعتبار سے اگر آپ کو اپنی صحافت گندی نظر آتی ہے تو پھر اس کے اسباب صحافیوں میں مت تلاش کیجیے۔ بلکہ معاشرے کے تار و پور اُدھیڑ کر دیکھیے کہ گندگی کہاں کہاں موجود نہیں ہے؟ رہا یہ سوال کہ صحافیوں کو محتسب یا مصلح کا رول ادا کرنا چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کیا معاشرہ جس کی اصلاح کی بنیادی ذمہ داری سیاست دانوں‘ مذہبی رہنمائوں‘ اساتذہ اور والدین پر عائد ہوتی ہے‘ صحافیوں کو واقعی یہ حق اب تک دیا جاسکتاہے کہ وہ اپنا کردار پوری آزادی اور بے خوفی کے ساتھ اور ہر قسم کی مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر ادا کرسکیں۔ میرے نزدیک صحافت کی آزادی معاشرے کے مختلف طبقوں کو ملی ہوئی آزادی سے کچھ مختلف چیز نہیں جو معاشرہ بے خوف‘ آزاد اور صاف ستھرا ہوا اس کی صحافت بھی اس سے مختلف نہیں ہوسکتی۔

طاہر مسعود: صحافت میں عریانی و فحاشی اور سنسنی خیزیت کا سدباب کرنے کے لیے آپ کیا اقدامات تجویز کرتے ہیں؟

فرہاد زیدی: فحاشی اور سنسنی خیزیت دو مختلف چیزیں ہیں۔ (چند لمحے کی خاموشی کے بعد) کیا چیز فحش ہے اور کیا نہیں‘ اس کا تعین خاصا مشکل کام ہے‘ ہم آزادی کے بعد (اس سے پہلے بھی) جو نظامِ حیات اپنائے ہوئے ہیں‘ وہ مغربی معاشروں سے قریب تر ہے۔ اب جب کہ مغرب و مشرق میں اخلاقی اقدار ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں‘ یہ فیصلہ کرنا بڑا الجھن کا سبب بن جاتا ہے کہ ہم جو عام زندگی میں مغرب کے نقاد ہیں اس کی کس چیز کو فحاشی سمجھیں اور کس چیز کو نہ سمجھیں۔ یہ الجھن پاکستانی معاشرے میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ شہری اور دیہاتی امیر اور غریب کے درمیان ایک بنیادی تضاد اور کشمکش کا سبب بنی ہوئی ہے۔ بہت سی باتیں جنہیں ہمارا مغربی تعلیم یافتہ اور امیر طبقہ جدید زندگی کے معمولات سمجھ کر قبول کر لیتا ہے‘ وہی چیز غیر تعلیم یافتہ اور کم آمدنی والے طبقوں میں کسی صورت پسندیدہ نہیں سمجھی جاتی۔ اخلاق اقدار کے نظام کا پیمانہ مختلف ہے۔ ایک دیہاتی ایک شہری بابو کی پتلون کوبھی فحش سمجھے گا۔ اس مسئلے کا حل پھر تو یہی ہو سکتا ہے کہ ہم کسی جزیرے میں جا کر رہیں اور اپنے اردگرد ایسی دیواریوں کھڑی کر لیں کہ باہر کی ہوا کا گزر ہم تک نہ ہو سکے۔ اس کے برعکس ہم نے بیرونی ہوائوں کے لیے تمام کھڑکیاں اور تمام دروازے کھلے رکھ چھوڑے ہیں۔ ہم غیر ملکی فلموں اور خود اپنے ٹیلی ویژن پر ہر روز ایسے مناظر دیکھتے ہیں جو ہمارے عام معیار اخلاق سے فحاشی کی ذیل میں آتے ہیں لیکن خو اپنے فلم سازوں اور پروڈیوسروں کو ہم اس طرح کے مناظر پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس طرح پاکستان کے بک اسٹال اور کتابوںکی دکانیں ایسے رسائل و جرائد اور اخبارات سے پٹے ہوئے ہیں جو جنسی آزاد خیالی (Permissive) سوسائٹی والے ملکوں سے بے دھڑک ہمارے یہاں منگائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خود دوسرے مسلم ملکوں میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر جو کچھ پیش کیا جاتا ہے‘ شاید ہم پاکستان میں اسے بھی فحاشی تصور کریں۔ اس صورت میں پاکستانی اخبارات پر فحاشی کے فروغ کا الزام نہ صرف نامناسب ہے بلکہ ایک مبہم بات بھی ہے (بے تکلفی سے) پاکستانی اخبارات تو بڑے صاف ستھرے ہوتی ہیں یار! ان میں کہاں فحاشی وغیرہ ہوتی ہے۔ (جاری ہے)

حصہ