پورا ملک 9 مئی کے چکر میں پھنسا ہوا ہے، مگر ہم 12 اپریل 2023ء کے فیصلے کو نہیں بھلا پا رہے۔ یہ پنجاب یا کے پی کے میں الیکشن کا فیصلہ نہیں ہے۔ یہ سول پٹیشن نمبر 3506/2020 یعنی تقریباً تین سال قبل کے کیس کا فیصلہ ہے۔ مقدمے کا عنوان: Pemra Vs ARY ہے، ججوں میں سید منصور علی شاہ اور عائشہ ملک شامل ہیں۔ عدالت اس بار بھی سپریم کورٹ ہی ہے، مگر اس بار عمران خان کی رہائی یا تحریک انصاف کے لیے رعایت نہیں بلکہ اِس بار کے فیصلے نے پاکستان میں اسلامی ضابطہ اخلاق اور آئین کی اسلامی دفعات کی دھجیاں بکھیر دیں۔ گھبرائیں نہیں، ہمارا موضوع سوشل میڈیا ہی ہے، یہ اسٹوری ہمیں سوشل میڈیا ہی سے ملی ہے۔ شعور کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے اس ایشو کو مستقل Save the familyکے عنوان سے وائرل کیا گیا۔ معاشرے کے سنجیدہ طبقات کو متوجہ کیا گیا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 2007ء میں میڈیا سے پھیلتی عریانی و فحاشی کے کلچر کے فروغ کے خلاف جماعت اسلامی نے عدالتی کوشش کی، اُس وقت وہ ساری کوشش ”فحاشی“ کی جامع تعریف نہ ہونے کی وجہ سے کسی جامع نتیجے پر نہ پہنچ سکی اور اب نہیں پہنچ سکی ہے۔ مطلب یہ کہ میڈیا بدستور اپنے اہداف پر چلتا رہا۔ چلتے چلتے اب ہوا یہ کہ پاکستان میں بھی مغربیت کی تیز لہریں پہنچیں تو ہم جنس پرستی کو عمومیت دینے اور قابلِ قبول بنانے کا خطرناک کام شروع ہوا، اس کے لیے پاکستانی میڈیا نے اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ ایسا نہیں کہ ”ہم ٹی وی“ یا دیگر پیچھے رہے۔ یقین مانیں سب نے ’’گنگا کو خوب میلا‘‘ کیا ہے، مگر نزلہ اتفاق سے اے آر وائی پر گرا۔ 3 سال قبل اے آر وائی سے انتہائی خراب شہرت پانے والے ڈرامے ’جلن‘ میں سالی بہنوئی کے درمیان ایسے تعلقات دکھائے گئے جن کی ترویج کرنا ہی دینی، اخلاقی، سماجی طور پر جرم اور شدید گناہ ہے۔ معاشرے کی کسی خرابی کو اس طرح سے ’خوشنما‘ بناکر پیش کرنے سے خرابی نہ کبھی پہلے دور ہوئی ہے نہ بعد میں ممکن ہے۔ پیمرا کے پاس عوامی شکایات پہنچیں تو چیئرمین نے اس موضوع کی ترویج و اشاعت پر ڈرامہ بند کرنے کا حکم جاری کردیا۔ اے آر وائی کے وکلا نے موضوع کی سنگینی کے بجائے پیمرا قواعد کو اہمیت دی اور اِس بنیاد پر ہائی کورٹ میں پیمرا کا فیصلہ چیلنج کردیا کہ ڈرامہ بند کرنے کے لیے پیمرا کے جو قواعد لکھے ہوئے ہیں ان کے مطابق کارروائی نہیں ہوئی۔ قانون اندھا ہوتا ہے، ہائی کورٹ کو بھی سالی بہنوئی تعلقات کے موضوع کی گہرائی کم لگی اور قواعد اہم لگے، ہائی کورٹ نے ڈرامے پر سے پابندی ہٹادی۔
پیمرا کو درست غصہ آیا مگر شاید اُس کو اچھے وکیل نہ مل سکے جو سپریم کورٹ میں اُس کی اپیل کی درست پیروی کرپاتے۔ اب کی بار تو سپریم کورٹ نے تمام حدیں پار کرڈالیں اور یہ سارا قصہ ہی مکا دیا۔
سپریم کورٹ نے پیمرا کو ہدایات دیں کہ، اگر ٹی وی ڈراموں، فلموں میں شادی کے علاوہ جنسی رجحان دکھاکر ترویج دیے جائیں تو اس پر پیمرا رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کرے۔
سپریم کورٹ نے پیمرا کو ہدایات دیں کہ، اگر مختلف جنسی شناخت اور جنسی رجحان کے اظہار پر مبنی مواد نشر ہو تو اس پر پیمرا رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کرے۔
سپریم کورٹ نے پیمرا کو ہدایات دیں کہ، فحاشی صرف وہ ہے جسے لوگ برا سمجھیں، صرف مذہب کی وجہ سے اس کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے پیمرا کو ہدایات دیں کہ، کسی قسم کی پابندی لگائے بغیر آزادیِ اظہار کو تحفظ دے، آزادی کا مطلب بھی بتایا کہ ہر قسم کے نئے خیالات، افکار و جذبات کے اظہار کی آزادی۔
مزے دار بات یہ کہ آئین پاکستان کی دفعہ 19کا بھی حوالہ ڈالا اور ستم یہ کہ فیصلے میں سو فیصد انحراف کیا۔ سپریم کورٹ نے پیمرا کو عجیب ہدایات دیں کہ، عوامی شکایات (مطلب جسے عوام برا سمجھ کر شکایت کریںے) پر پیمرا ٓآئینی و قانونی معیارات کا اطلاق کرتے ہوئے، مواد کو رواداری کی آئینی قدر سے دیکھے۔
اِن ہدایات پر سب حیران ہیں کہ پہلے تو یہ عوام کی شکایات ہیں، دوسرا یہ کہ آئین کے آرٹیکل 19کی روشنی میں کام کرنا ہے، پھر آخر میں اسلام کو چھوڑ کر رواداری کو پیمانہ بنانے کا حکم کنفیوژ کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ رواداری اگر ارٹیکل 19 کو چھوڑ کر یعنی اسلام کو نظرانداز کرکے کی جائے تو پھر بات ہی ختم ہوجاتی ہے، کسی قسم کی پابندی کی کوئی گنجائش بچتی ہی نہیں۔ سپریم کورٹ نے اس میں ’رواداری‘ کی ایسی زبردست تعریف پیش کی جس کے مطابق ’رواداری‘ کوئی فکس اور جامد چیز ہی نہیں، وہ ثقافت، سیاسی ماحول و دیگر عوامل کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ اسی طرح عوامی اخلاقیات بھی کسی ایک روایت (دین و مذہب) سے نکالنا درست نہیں، بلکہ یہ تصورات ’عالمی حقوقِ انسانی‘ کے اُصول پر ہوں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ’عالمی حقوقِ انسانی‘ کا دینِ اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ تو اَب اس فیصلے و ہدایات کی روشنی میں اندازہ کرلیں کہ 99 فیصد مسلم آبادی والے ملک میں، جسے حاصل ہی اسلام پر عمل کرنے کے لیے کیا گیا ہو جہاں کا آئین و قانون بھی اسلامی لیبل والا ہو، وہاں کیسے ممکن ہے کہ ’ننگے پن‘ کو ’برداشت‘ کے لینس سے ناپا جائے؟ مطلب یہ کہ ہر قسم کا ننگا پن، فحاشی، عریانی صرف برداشت کرنی ہوگی، کیونکہ ایک معاشرے میں سب کی برداشت الگ الگ ہوتی ہے۔
اس کو ہم کہہ سکتے ہیں پاکستان کے ”اسلامی قانون کی عدالتی سیکولرائزیشن“، عدالتی اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اسمبلیاں تو پہلے ہی کئی قدم آگے ہیں۔ یہ قدم اٹھا کر سپریم کورٹ نے آئینِ پاکستان کی لبرل تشریح کر ڈالی ہے جس میں دین و مذہب کو مکمل طور پر مائنس کردیا گیا۔ مختلف جنسی شاخت اور جنسی رجحان کے اظہار کو میڈیا میں دکھانے پر پابندی ختم کرنا (سپریم کورٹ کا فیصلہ).. جبکہ تمام اسلامی ممالک نے اقوام متحدہ کی جنسی رجحان اور جنسی شناخت (Sexual Orientation& Gender Identity) کی قرارداد کو مسترد کردیا، مگر پاکستان کی سپریم کورٹ کہتی ہے کہ اسے برداشت کیا جائے۔ ایل جی بی ٹی (LGBT) نظریات کی بنیاد جنسی اورینٹیشن (Sexual Orientation) پر منحصر ہے جسے OICنے بھی یکسر مسترد کردیا، لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے پیمرا کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسے برداشت کرے۔
برداشت کی صورتِ حال یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے جیو انٹرٹینمنٹ کے ایک ڈرامے کی 46 ویں قسط نے سوشل میڈیا پر شور برپا کیا۔ عورت مارچ کا پورا ناپاک و غلیظ لبرل فیمنسٹ ایجنڈا، اس ڈرامے کے ذریعے اس طرح منتقل کیا گیا کہ پاکستان کے عوام نے فوراً پکڑ لیا اور بھرپور نشاندہی کی۔ یہ ڈرامہ پاکستان ہی نہیں، سوشل میڈیا سے دنیا بھر میں دیکھا گیا، خصوصاً بھارت میں اس کی خوب پذیرائی رہی۔ سوشل میڈیا پر اس ڈرامے کی پذیرائی پر ہر ہفتے ٹرینڈ بنتے رہے، مگر 46 ویں قسط سے قبل تک۔ 46 ویں قسط کو یوٹیوب اعداد کے مطابق 12 ملین لوگ دیکھ چکے ہیں۔ اس ڈرامے میں لبرل اقدار کو روندنے کے لیے مرکزی خاندان ایک نام نہاد پردہ دار، گدی نشین خاندان دکھایا گیا، والدین کی وقعت و مقام کو انتہائی بے معنی کرنا (باوجود اس کے کہ ماں نے بھی تھپڑ مارے بیٹے کو)، اِس کے بعد دوسرا مدعا جبری نکاح کا، پھر لڑکی کا ایک ایسا معاہدہ شوہر سے کرانا کہ میاں بیوی صرف گھریلو تعلقات رکھیں گے۔ اِس کے بعد 46 ویں قسط میں اصولِ مساوات کے مطابق بیوی اپنے شوہر کو تھپڑ مارتی ہے، منہ پر تھوکتی ہے، جواب میں شوہر حقوقِ زوجیت ادا کردیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے ردعمل ایسا دیا کہ اس عمل کو عورت مارچ کا اہم ایجنڈا یعنی marital rapeقرار دیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو بیوی کا تھپڑ مارنا زیادہ تکلیف دہ نہیں لگا جبکہ ناظرین جانتے تھے کہ لڑکی نے غلط وجہ سے تھپڑ مارا (گویا شوہر مظلوم تھا)، مگر لوگوں کو شوہر کا جائز، شرعی ردعمل برا لگا۔
اہم بات یہ ہے کہ ڈرامے میں بھی شوہر کو اپنے عمل پر پچھتاوا ہی دکھایا گیا۔ اِس سب کو عوام نے عین لبرل اقدار کے مطابق لیا اور یہ انتہائی خطرناک علامت ہے لوگوں کے دین، مذہب کے بارے میں کم فہم ہونے کی۔ اس ڈرامے میں اور بھی بے شمار انتہائی خراب باتیں ہیں جو کسی طور درمیان میں سوشل میڈیا پر ڈسکس ہوئی ہیں۔ مذہبی گھرانوں کو مستقل بنیادوں پر اتنا دکھایا جارہا ہے کہ مذہبی گھرانوں کا تقدس، مقام، سب کچھ ختم ہوجائے، سب لبرل بن جائیں، سب آزاد ہوجائیں، سب ویسا ہو جیسا ڈرامے میں دکھایا جارہا ہے۔ اندازہ کریں کہ ایک جانب ایسا مذہبی گھرانہ دکھایا جائے اور پھر انتہائی لبرل اقدار جو اُس گھرانے کے مکمل برخلاف ہوں وہ اُن میں ٹھونس دی جائیں۔ مگر یہ بات چونکہ سوشل میڈیا کا موضوع بن گئی تو ہم اس کو مجبوراً ڈسکس کردیتے ہیں۔ ڈرامے کی مکمل لبرل مصنفہ ’نوراں مخدوم‘ نے صاف کہا کہ اُنہوں نے معاشرے میں عورت کے تحفظ اور میریٹل ریپ کے مسئلے کو اُجاگر کیا ہے۔ اب مزید تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ یوتھ کلب سے راجا ضیاء الحق نے بھی اس بارے میں بہت جامع وڈیو آج ہی سوشل میڈیا پر جاری کی اور بات بہت خوبصورت انداز سے سمجھائی۔ انہوں نے کہا کہ ڈرامے بالکل انٹرٹینمنٹ نہیں ہوتے، انٹرٹینمنٹ صرف اور صرف قدرتی مناظر، آسمان، پہاڑ، ہریالی، سبزہ، پھول، نہریں، آبشاریں اور تمام قدرتی مناظر سے حاصل ہوتا ہے۔ یقین نہ آئے تو کرکے دیکھ لیں۔ سید مودودیؒؒ سے ایک بار سوال ہوا تو انہوں نے یہ جواب دیا:
’’ہم جغرافیائی فلموں کے ذریعے اپنے عوام کو زمین اور اس کے مختلف حصوں کے حالات سے اتنی وسیع واقفیت پہنچا سکتے ہیں کہ گویا وہ دنیا بھر کی سیاحت کر آئے ہیں۔ اسی طرح ہم مختلف قوموں اور ملکوں کی زندگی کے بے شمار پہلو اُن کو دکھا سکتے ہیں جن سے اُن کو بہت سے سبق بھی حاصل ہوں اور اُن کا نقطہ نظر بھی وسیع ہو۔ہم علمِ ہیئت کے حیرت انگیز انکشافات اور مشاہدات ایسے دلچسپ طریقوں سے پیش کرسکتے ہیں کہ لوگ شہوانی فلموں کی دلچسپیاں بھول جائیں اور لوگوں کے دلوں پر توحید اور اللہ تعالیٰ کی ہیبت کا سکہ بیٹھ جائے۔ہم صفائی اور حفظانِ صحت کی تعلیم بڑے دلچسپ انداز سے لوگوں کو دے سکتے ہیں۔ہم مختلف صنعتوں کے ڈھنگ، مختلف کارخانوں کے کام، مختلف اشیاء کے بننے کی کیفیات اور زراعت کے ترقی یافتہ طریقے دکھا سکتے ہیں جن سے ہماری صنعت پیشہ اور زراعت پیشہ آبادی کے معیارِ علم اور معیارِ کارکردگی میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔ہم اپنے عوام کو فنِ جنگ کی، سول ڈیفنس کی، گوریلا وار فیئر کی، گلیوں اور کوچوں میں دفاعی جنگ لڑنے کی، اور ہوائی حملوں سے تحفظ کی ایسی تعلیم دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کے لیے بہترین طریقے پر تیار ہوسکیں۔ نیز ہوائی، برّی اور بحری لڑائیوں کے حقیقی نقشے بھی ان کو دکھا سکتے ہیں تاکہ وہ جنگ کے عملی حالات سے پیشگی باخبر ہوجائیں۔یہ اور ایسے ہی بہت سے دوسرے مفید استعمالات ہو سکتے ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی تجویز اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی، جب تک کہ ابتداً حکومت کی طاقت اور اس کے ذرائع اس کی پشت پر نہ ہوں۔ اس کے لیے اوّلین ضرورت یہ ہے کہ عشق بازی اور جرائم کی تعلیم دینے والی فلمیں یک لخت بند کردی جائیں۔“ (ترجمان القرآن۔ ذی القعد 1371ھ مطابق اگست 1952ء)
اب رائج الوقت انٹرٹینمنٹ کی ’ڈیفینیشن‘ سوائے بے راہ روی، ذہنی بیماری پیدا کرنے کے عوامل کے سوا کچھ نہیں۔ کیا بہنوئی سالی کے تعلقات، کیا شادی کے باہر ناجائز تعلقات، لالچ، مال و دولت کی ہوس بڑھانا، کیا شادی شدہ عورت کا اپنے باس کے ساتھ تعلق بنانا، کیا باپ کا بچے کو کہنا کہ تم جیسے چاہو جنس اختیار کرو، کیا marital rape کے موضوعات کسی قسم کا ذہنی سکون یا تفریح ہوسکتے ہیں؟ گندے و فحش قسم کے مذاق، لڑکے کا کسی نامحرم لڑکی سے تعلق بنانا انٹرٹینمنٹ ہے؟ ستم یہ ہے کہ لوگ یہ سب دیکھتے ہیں اور اس کے اثرات لیتے ہیں اور اس کو عمل کی دنیا میں لاتے ہیں۔ ان تمام ڈراموں کا سوشل میڈیا سے گہرا تعلق ہے، سوشل میڈیا ان ڈراموں کو پر لگا کر اڑا رہا ہے۔ ڈرامے کی ہر ہر قسط پر بے شمار تبصرے، تجزیے، وی لاگز، ری ایکشن وڈیوز آتی ہیں اور اپنے اثرات چھوڑ رہی ہیں۔ ابھی ہم مزید ڈراموں پر جا ہی نہیں رہے، مگر اگلے ہفتے ضرور کچھ مزید ڈسکس کریں گے۔
یوں میں سمجھتا ہوں، بلکہ شعور کے پلیٹ فارم سے بھی یہ پیغام ملا ہے کہ تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں، تبلیغی جماعتوں، فلاحی اداروں، علمائے کرام اور اسلام سے محبت کرنے والے عوام کو سوچنا ہوگا کہ اب ان کی خاموشی کل بروز قیامت اُنہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکے گی۔ نوٹ کرلیں کہ یہ کوئی میرا فتویٰ نہیں ہے۔ قرآن کا واضح حکم ہےکہ ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اب جو لوگ چاہتے ہیں کہ فحش پھیلے اُن میں حکومت، پیمرا، ٹی وی چینلز، اداکار، لکھاری وغیرہ ہی نہیں بلکہ وہ تمام گروہ شامل ہیں جو دین کے نمائندے ہیں، اپنے آپ کو دین سے وابستہ کرتے ہیں، کیونکہ اُن کی مکمل خاموشی ہی درحقیقت فحاشی پھیلنے کی وجہ بن چکی ہے۔بات یہاں تک نہیں،نظریہ پاکستان اور پاکستان کی اسلامی تہذیبی اسا س کو تباہ کرنے والا یہ فیصلہ نسلِ انسانی ہی نہیں بلکہ خاندان کی تباہی کا باعث ہوگا۔